بیگمات کو خطوط!

 کالم کا عنوان پڑھ کر کسی غلط فہمی کا شکار ہونے کی ضرورت نہیں کہ نہ جانے کن کی بیگمات کو خط لکھے جارہے ہیں، آیا خود کسی کے اپنی بیگم کو لکھے گئے خطوط کی بات ہے، یا یہ حرکت کوئی دوسرا ہی کررہا ہے۔ اگر خود کوئی اپنی ہی بیگم کو خط لکھتا ہے، تو اس کی بھی کئی قسمیں ہوسکتی ہیں، یعنی وہ خود گھر سے باہر ہوگا جو بیگم کو خط لکھے گا، اپنی خیر خیریت بتائے گا اور بیگم کی خیریت نیک مطلوب (چاہے) گا، یا کسی اہم پیش رفت وغیرہ سے آگاہ کرے گا، یا بیگم اپنے میکے گئی ہوئی ہے تو اسے مزید کچھ دن کے لئے اُدھر ہی قیام کا درخواست نما مشورہ دے گا، یا ایسا ماحول بتائے گا کہ وہ درخواست پر عمل کرنے پر مجبور ہوجائے۔ بدقسمتی سے یہ بھی ممکن ہے کہ اپنی بیگم کو آخری خط ہی لکھا جارہا ہو، کہ اس کے بعد راہیں جدا ہوجائیں۔ تاہم اپنی بیگم کو جتنے خط بھی لکھے جائیں وہ ممکن ہیں، مگر وہ خط جو بیگم بننے سے پہلے لکھا جاسکتا ہے، اس کا شادی کے بعد کوئی امکان نہیں ہوتا۔ پہلے انسان ہواؤں میں اڑتا، آسمان سے تارے توڑتا، زمین وآسمان کے قلابے ملاتا، ہوائی قلعے تعمیر کرتا، خیالی پلاؤ پکاتا اور تصورات کی دنیا میں گم ہوتا ہے، اس لئے اپنی ہونے والے بیگم کے نام اس کا خط بھی مبالغہ آرائیوں پر مبنی ہوتا ہے، دوسری طرف جس کو خط لکھا جاتا ہے، اس کی خواہش بھی یہی ہوتی ہے کہ خط میں مبالغہ آمیزی ہی ہو۔

بیگمات کو جس خط کا یہاں ذکر ہونے جارہا ہے، یہ اپنی نہیں دوسروں کی بیگمات ہی ہیں، مگر اُن کے شوہرانِ نامدار کو قطعاً کسی پریشانی یا غلط فہمی کا شکار ہونے کی اس لئے ضرورت نہیں کہ یہ خط حکومت کی طرف سے ہے۔ دراصل بھارت میں دہلی حکومت نے بالی وڈ کے اداکاروں شاہ رخ خان، گووندا، اجے دیو گن اور ارباز خان کی بیگمات کو خط لکھے ہیں، جن میں اداکاروں سے پان اور تمباکو وغیرہ کی تشہیر میں کام نہ کرنے کی اپیل کی گئی ہے۔ ایسے ہی خطوط دہلی حکومت نے خود اداکاروں کو بھی لکھے تھے ، مگر کسی پر عمل ہوتا دکھائی نہیں دیا۔ اب ان کی بیگمات کو بتایا گیا ہے کہ ان پروڈکٹس سے کینسر جیسے موذی امراض پیدا ہونے کے خطرات بہت بڑھ جاتے ہیں۔ اکثر اوقات نوجوان اپنے من پسند فلمی ستاروں کو ماڈل تصور کرکے ان کے لائف سٹائل کو اپناتے ہوئے ایسی مضر صحت پراڈکٹس کا استعمال شروع کردیتے ہیں۔

جن بھارتی فلمی ستاروں کے نام لیے گئے ہیں، صرف انہی کی بیگمات کو خط لکھنے کے پیچھے بھی مختلف داستان ہے، اس کی ایک وجہ تو یہ ہو سکتی ہے دیگر اداکار اس قسم کے اشتہار میں کام ہی نہیں کرتے، جس سے نئی نسل میں کسی قسم کی خرابی کے امکانات پیدا ہوں، دوسرا یہ کہ ان کے علاوہ بہت سے دوسرے نامور اداکار بھی ہیں، جن کو یہ خط نہیں لکھا گیا، کیونکہ وہ بیگم جیسی نعمت سے محروم ہیں۔ جن اداکاروں کی بیگمات کو خط لکھے گئے ہیں، حکومت نے ان کی معلومات حاصل کرلی ہونگی کہ آیا وہ اداکار اپنی بیگمات کے کہنے سے باہر کسی صورت نہیں جا سکتے۔ یہ اداکار ’’تم کو جو ہو پسند وہی بات کہیں گے ․․ دن کو اگر تم رات کہو، رات کہیں گے‘‘ کی عملی تصویر ہیں۔ وہ ہر قدم اپنی زوجہ کے مشورے اور بعض اوقات اشارے سے ہی اٹھاتے ہیں۔ جب دہلی حکومت کا خط اُن تک پہنچے گا، تو معاملہ سیدھا ہوجائے گا، کمپنیوں سے جو معاہدہ ہوگیا وہ تو پورا کرنا ہوگا، تاہم آئندہ احتیاط کریں گے۔ مگر یہ بھی ممکن ہے کہ اِن میں سے کسی خاوند کی ڈوریں اپنی بیگم کے ہاتھ میں نہ ہوں، ایسے میں معاملہ الٹ ہوجائے گا، نہ بیوی روک سکے گی اور نہ وہ رکیں گے۔

دہلی حکومت کا فیصلہ بہت عجیب ہے، اگر بھارتی فلموں کو دیکھیں تو ان میں یہ پان سیگریٹ تو بہت چھوٹی چیزیں ہیں، وہاں تو شراب بھی عام ہے، بلکہ سرِ عام ہے، سیگریٹ بھی ایکشن فلموں کا لازمی جزو ہے، ایسے میں اشتہاروں پر پابندی لگوانے سے فلموں میں تبدیلی تو ممکن نہیں، اور جہاں تک اثرات مرتب ہونے کی بات ہے، تو ہیرو تو بنتے ہی فلم سے ہیں، فلمی کردار ہی کو آئیڈیل تصور کرکے اپنی زندگی میں رنگ بھرنے کی کوشش کرتے ہیں ، چونکہ دہلی حکومت فلموں سے ان برائیوں کو ختم نہیں کرسکتی، لہٰذا اگلی نسل کو ان چیزوں سے بچانا بھی ناممکن ہے، حکومت نے بیگمات کو خطوط لکھ کر آخری کوشش کرلی ہے، اب آخری راستہ صبر کا ہی بچتا ہے۔
muhammad anwar graywal
About the Author: muhammad anwar graywal Read More Articles by muhammad anwar graywal: 623 Articles with 472258 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.