پاکستان سے محبت کرنے والوں کا تحفظ

27 دسمبر 1971 کوکراچی میں مہا جر کمیونٹی کے انیس احمد کے گھر پیدا ہونے والے بچے کے بارے میں کوئی نہیں جانتا تھا کہ ایک دن یہ کراچی کا میئر بنے گا،متحدہ کے اہم اراکین میں اس کی شمولیت ہو گی اور تما م فیصلوں میں اس کا کردار کلیدی ہوگا، سید مصطفی کمال سے اس کی والدہ جمیلہ انتہائی پیار کرتی ہیں اور اکثر محلے میں کہا کرتی تھیں کہ میرا بیٹا بڑا ہو کراپنے نام کی طرح واقعی کمال کرے گا۔مصطفی کمال نے ابتدائی تعلیم کراچی سے ہی مکمل کی اور ایم بی اے کی ڈگری یونیورسٹی آف ویلز سے حاصل کی سیاسی طور پر مہاجر کمیونٹی ہونے کی وجہ سے ایم کیوایم میں ہی شمولیت اختیار کی ایم کیو ایم کی بعض پالیسیوں سے مصطفی کمال کو شروع سے ہی اختلاف تھا جس کا اظہار وہ اکثرو بیشتر کرتے رہتے تھے۔ ابتدائی طور پر ایم کیو ایم کے ہیڈکوارٹر میں بطور ٹیلی فون آپریٹر کافی عرصہ تک کام کر تے رہے جہاں سے ایم کیو ایم کی ہر سطح کے لیڈر سے جان پہچان بڑھتی گئی اور خاص کر الطاف حسین بھائی سے قربت میں اضافہ ہوا۔2003 میں مصطفی کمال کے اصل سیاسی کیئریر کا آغاز ہو ا جب وہ صوبائی حکومت سندھ میں آئی ٹی کے وزیر بنے اور خو ب وزارت میں نام کمایا اور اسی وزارت کے کام نے آپ کو اعلیٰ قیادت کے نظروں میں اہم کردیااور آئی ٹی کی وزارت سے چھلانگ لگاتے ہوئے ناظم (میئر)کراچی منتخب ہوگئے اور بطور میئر کراچی کا نقشہ بدل کر رکھ دیا جسے آج بھی اپنے اور پرائے اچھے لفظوں سے بیان کرتے ہیں

مصطفی کمال کاایم کیو ایم کی بعض پالیسیوں سے پہلے بھی اختلاف تھا لیکن اچانک سینٹ کی نشست سے استعفی اور بیرون ملک روانگی کی دیگر وجوہات میں سے ایک اہم وجہ نجی ٹی وی چینل کا ایک پروگرام بنا جس میں یوتھ کی کثیر تعدا د نے شرکت کی تھی یوتھ کی تلخ سوالات نے مصطفی کمال کو باالکل بدل کر رکھ دیا وہ یہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ آج کا نوجوان اس قدر ہمارے خلاف ہے اور کراچی و دیگرعلاقوں میں بھتہ خوری، سٹریٹ کرائم ، ٹارگٹ کلنگ کا ذمہ دار صرف اور صرف ایم کیو ایم کو سمجھتا ہے۔خیر اس حوالے سے مصطفی کمال کے اعلیٰ قیادت سے اپنے بھی تحفظات تھے وہ تاجروں سے ماہانہ چندہ،زبردستی کی میٹنگز،جلسے جلوس، آئے روز ہڑتالیں ، صبح حکومت چھوڑنا اور شام کو پھر شامل ہوجانا ، لائیو خطاب میں الطاف بھائی کو نشہ کی حالت میں آنے کے سخت خلاف تھے اور سیکنڈ قیادت سے بار بار درخواست کرتے تھے کہ ہم میڈیا والوں کے سامنے بار بار وضاحتیں اور جھوٹ نہیں بول سکتے چونکہ کچن کابینہ کا فرد ہونے کے ناطے وہ یہی سمجھتے رہے کہ شاید ان خرابیوں اور ڈراموں کا صرف ہمیں ہی علم ہے عوام کو اس بارے میں کوئی خاص علم نہیں لیکن عوامی عدالت میں طلبا کے سوالات نے انہیں جھنجوڑ کر رکھ دیااور میرے خیال کے مطابق اسی دن مصطفی کمال نے فیصلہ کر لیا تھا کہ وہ ایم کیو ایم میں نہیں رہیں گے کیونکہ ضمیر کی عدالت میں وہ خود کو پہلے بھی مجرم سمجھتے تھے۔5 اگست 2015 کے مختلف اخبارات میں خبر چھپی کہ مصطفی کمال نے اسلام آباد میں اہم میٹنگز میں شرکت کی ہے جس سے واضح ہوا کہ وہ جلد ہی کوئی نہ کوئی سیاسی دھماکہ کر نا چاہتے ہیں آخر کار 3مارچ 2016 براستہ دبئی کراچی پہنچ گئے اور اسی دن 3 بجے پریس کانفرنس کر ڈالی جسے انتہائی ماہر مقرر کی طرح تین حصوں میں مکمل کیاکہ
1۔میں نے ایم کیو ایم کو کیوں چھوڑا ؟2۔میں اب واپس کیوں آیا ؟ 3۔میں اب اس ماحول میں کیا کرنا چاہتا ہوں؟

مصطفی کمال نے انتہائی جذباتی انداز میں بتایا کہ ہم تہذیب یافتہ لوگ تھے،پڑھے لکھے لوگ تھے، آخر الطاف حسین ہم سے کیا کروانا چاہتے ہیں کیوں سارے مہاجروں کو را کا ایجنٹ بنانے پر تلے ہوئے ہیں انہوں نے کہا کہ خدا کیلئے اب یہ سب کچھ بند کر دو پاکستان کیلئے مہاجروں کیلئے، توڑنے کا سلسلہ بند ہونا چاہئے، انہوں نے کہا کہ میرا ضمیر مجھے ملامت کرتا تھا کہ ایک شخص کی خوشنودی کیلئے ہم نے اپنی دو نسلیں تباہ و برباد کر دیں آخر ہمیں کوئی ایجنڈا تو بتایا جائے جس پر الطاف حسین عمل پیرا ہیں۔کوئی مقصد تو بتائیں جس کیلئے یہ کھالیں ، فنڈز، بھتہ خوری کی جارہی ہے یہی سوال تھے جنہوں نے میرے اور الطاف حسین کے درمیاں فاصلے پیدا کئے میں نے ضروری سمجھا کہ پاکستان چھوڑ دوں کیونکہ اب ان کے عتاب کا نشانہ نہیں بننا چاہتا تھا جو ان سے دور ہوتا ہے یہ اسے ہمیشہ کیلئے دور کر دیتے ہیں۔برداشت نام کی کوئی چیز ان میں نہیں آخر ان کا کیا قصور ہے جنہوں نے اپنے والدین کو قبروں میں اتارا اور آج بھی اپنی اولادیں قبروں میں اتار رہیں اور ہم عیاشی کر رہے ہیں۔

مختصرا یہ کہ مصطفی کمال نے تما م حالات و واقعات میڈیا کے ذریعے عوام تک پہنچائے اور عوام سے تعاون مانگا کہ ملک کو اس وقت امن اور اتحاد کی ضرور ت ہے جس کیلئے میں نے اپنے آپ کو حاضر کر دیا ہے اب چاہے میری جان چلی جائے ۔ انہوں نے کہا کہ میں نے اپنی پارٹی کا نام فائنل نہیں کیا لیکن مجھے پورے ملک اور بیرون ملک سے حوصلہ افزا پیغامات ملے ہیں میری ان کے خلاف جنگ ہے۔ اس کے بعد حسب توقع ایم کیو ایم نے مصطفی کمال کے تمام الزامات کو سستی شہرت اور من گھڑت قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ مائنس ون فارمولہ ہے الطاف حسین کو ہٹانے والے سوچ لیں کہ یہ کوششیں پہلے بھی کی جا چکی ہیں لیکن کوئی کامیابی نہیں ہوگی حالات کو قریب سے دیکھنے والوں کا کہنا ہے کہ مصطفی کمال کی انٹری نے ایم کیو ایم میں سراسیمگی پھیلا دی ہے بے شرمی کی انتہا کرتے ہوئے اب مختلف پوائنٹس پر احتجاج ریکارڈ کروا کے الطاف حسین کیلئے حوصلہ افزائی کا سامان پیدا کیا جا رہا ہے۔ مصطفی کمال ان کا انتہائی قریبی آدمی ہے اگر اس کی باتوں کو سنجیدگی سے نہ لیا گیا تو پھر ان کے خلاف کوئی کھڑا نہیں ہوگا۔کیا حکومت وقت پھر سے اس کو بلیک میلنگ کی حد تک لے گی یا اس پر کوئی مثبت اور ٹھوس لائحہ عمل کا آغاز ہو گا، کیونکہ ایسے گواہ کے بعد شاید مستقبل میں کوئی اورگواہ میسر نہ آسکے جو ان کے انتہائی قریب ہو۔ حکومت وقت باالخصوص وزارت داخلہ کو چاہئے کہ مصطفی کمال کے رونے دھونے پر فورا ایکشن لیا جائے اگر وہ پاکستان سے محبت کرتے ہیں۔وقت کا تقاضا بھی ہے کہ پاکستان سے محبت کرنے والوں کو تحفظ دیا جائے اور ان کو اس وحشت ناک دلدل سے نکالا جائے لیکن حکومت کی خاموشی کسی اچھے ردعمل کا اشارہ نہیں کر رہی پر اﷲ تعالی کی ذات تو بہتر فیصلے کرتی ہے؛ پھر انسان کو مہلت نہیں ملتی-
 
Dr Khalid Hussain
About the Author: Dr Khalid Hussain Read More Articles by Dr Khalid Hussain: 20 Articles with 15289 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.