نا انصافیاں

 ممتاز قادری کی پهانسی کو کل سات روز گذر گئے ہی، "توہین رسالت " ایک انتہائی حساس ترین موضوع ہے اور ممتاز قادری کی پهانسی کی وجہ سے ایک مرتبہ پهر اس ایکٹ کے متعلق سوشل میڈیا پر دونوں طرح کے انتہا پرست طبقوں میں اپنے اپنے نظریات کے تحت ماحول میں کافی گرما گرمی پائی جاتی هے اس قانون کے معاشرتی،سیاسی اخلاقی اور مذہبی پہلووں پر بہت سے لوگ بات کرتے نظر آرہے ہیں .

ملک میں قانون کی بجائے حکمرانوں کی بالا دستی قائم هےاور جس معاشرے میں قانون کا،تعلیم ک ا(تربیت کا تو نام ہی نہ لیں جو اب دور دور تک کہیں نہیں)، دولت کادوہرا معیار ہو تو بہت زیادہ دور کے واقعات پر کیا جانا حالیہ چند واقعات کی بات کر لیتے ہیں وہاں کبهی نجی جیلوں کا معاملہ تو کبهی ریمنڈ ڈیوڈ معاملہ، شاہ زیب خان اور شاہ زخ جتوئی،کبهی یتیم مقتول اور مصطفے کانجو واقعہ تو کبهی منی لانڈرنگ کیس جیسے واقعہ میں کسٹم آفیسر اعجاز چودہری قتل هو جاتا هے همارے کتنے فیصد لوگ قانون کی "شق" کو بخوبی سمجهتے ہیں ؟ زمین /جائیداد کےمقدمات ہوں یا خاندانی مسائل چوری، ڈکیتی ،قتل کا کیس ہو یا اغواء یا پهر زنا باالجبر حتی کہ معصوم بچوں کے ساته زیادتی کے معاملات میں نے تو آج تک کسی قسم کے مجرم کو کسی قسم کی واردات ثابت ہونے کے باوجود فوری طور پر سزا ملتے نہ دیکهی یہ ہی دیکهتے آرہے ہیں کہ دس پندرہ سال کیس چلتا هے اور پهر سزا کچه یوں ہوتی هے" دو مرتبہ سزائے موت" مجهے یہ نہیں پتہ کہ ایسی سزاوں سے کس کے زخموں پر مرہم رکها جاتا هے جبکہ اکثر مجرم جهوٹی گواہیوں کے سہارے سنگین جرائم کے باوچود آزاد فضا میں دندناتے پهرتے ہیں جبکہ دوسری طرف اچهی خاصی بڑی تعداد جرائم نہ کرنے کے با وجود یا پهر معمولی جرائم کی پاداش میں جیل کاٹ رہے ہوتے ہیں اور اس دوران پولیس کو"خوش" نہ کر سکنےکی وجہ سے ان پر مزید مقدمات بنا دیئے جاتے ہیں اور نہ چاہتے ہوئے بهی وہ اپنی زندگی کا بڑا حصہ جیل میں گذارنے پر مجبور ہیں

توہین رسالت ایکٹ کے متعلق عوام تک آسان لفظوں میں واضح طور پر پہنچانا بالخصوص ہمارے حکمراں طبقے کی ذمہ داری ہے اور اس میں عدلیہ اور میڈیا دونوں کا ہی بہت اہم کردار هے توہین رسالت ایکٹ کے تحت ہمارےشعور اور ہماری ذمہ داری کو جس دن مندرجہ بالا اہم ریاستی ستونوں نے واضح کر دیا اس دن اس وطن سے اس معاملے سے متعلق انارکی ختم ہو جائے گی-

آج ملک میں ایک طبقہ یہ کہتا نظر آرہا هے کہ سلمان تاثیر توہین رسالت کے مرتکب ہوئے تهے اور ممتاز قادری نے اس لیئے انہیں نشانہ بنایا ، انہوں نے توہین رسالت ایکٹ کو"کالا قانون" کہا تها جو کہ انہیں ہرگز ہرگز نہیں کہنا چاہیئے تها بطور مسلمان احتیاط کا دامن کیوں چهوڑیں اور نہ ہی یہ اتنا عام سا موضوع هے کہ اتنی آسانی سے اس پر رائے زنی کر دیں جب مذہب کی بات آجائے تو آپ کو پورا حق حاصل هے کہ آپ محتاط رویئے سے اپنی بات دوسروں تک پہنچائیں جبکہ دوسری طرف قادری صاحب نے جو کیا قانون کو اپنے ہاته میں لے لینا کہاں کی عقلمندی هے ایک طبقہ یہ کہہ رہا هےتاثیر کے قتل سے ہم مغربی دنیا میں اپنا کون سا مسلمان "امیج "پیش کر رہے ہیں تو دوسرا طبقہ قادری کو "شہید" کہتا نظر آرہا هے میں اس سارے گهن چکر میں بس ان ہی دو طبقات کے رویئے پر یہ سوچ رہی ہوں کہ کیا ہمارے علمائے کرام،حکومت،میڈیا اور عدلیہ ملکر اس ایکٹ کے متعلق کچه ایسی قانون سازی کر سکتے ہیں کہ جس پر اظہار اطمینان ہو اور پاکستانیوں کی اب آخری امید جنرل راحیل شریف جیسی ہستی ان سے ذاتی طور پر میں اپیل کرتی ہوں کہ وہ اس معاملے میں تمام مکاتب فکرکے ساته باہم مشورہ کر کے قوم کو اک اور نوید اطمینان سنا دیں.اس معاملے پر جہاں ہر لمحہ احتیاط کا دامن لازمی ہے وہیں سب مکاتب فکر کی"خاموشی" کہیں بار گراں نہ بن جائے.
Anum Ahmad
About the Author: Anum Ahmad Read More Articles by Anum Ahmad: 7 Articles with 6377 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.