اپنے دشمن آپ، پاکستان عجلت پسندی کی زد میں آ گیا؟

خونخوار درندے کے سامنے امن اور صلح کی بھیک مانگنے کا کیا فائدہ۔ چانکیا کے پیرو کاروں سے اس کی کوئی توقع رکھنا فضول ہے۔ ان کا نظام مکر وفریب، دھوکہ بازی، بہکاوا دینا، گمراہ کرنے پر قائم ہے۔ صورتحال کی اپنی تعبیر اور من پسند نتائج اخذ کئے جا رہے ہیں۔ حالات کا تجزیہ کرتے وقت بھی یہاں زیادہ ہی پیشہ ورانہ تصور کی ضرورت ہے۔ جو دستیاب دلائل کی موجودگی میں نظر نہیں آ رہا ہے۔ افرادی تجزیئے یا جائزے غلط ہو سکتے ہیں۔ یہ احتمال موجود رہتا ہے یا ان میں زاتی پسند و ناپسند بھی حائل ہو سکتی ہے۔ لیکن اداروں کی یا حکومت کی حکمت عملی مستقبل کو روشن یا بالکل تاریک کر دیتی ہے۔ اس لئے اس بارے میں انتہائی محتاط رہنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ جو یہاں نظر نہیں آتی۔

جیش محمد کے خلاف آپریشن گو کہ خاموش ہے۔ مگر اس کا پیغام دوسری طرف پہنچ رہا ہے۔ ہمارے ایک سینئر سیاستدان سرتاج عزیز صاحب ہیں۔ ان کے ویژن یا دانائی اور تدبر کا شاید کوئی ثانی نہ ہو۔ لیکن جب انھوں نے بہاولپور میں جیش محمد کے دفتر کے فون نمبر کی تصدیق کی اور یہ بھی کہ پٹھانکوٹ حملے کی ایف آئی آر بھی درج کی گئی۔ یہ عجلت اور تساہل پسندی صرف بھارت اور امریکہ کو خوش کرنے کے لئے ہو سکتی ہے۔ اس کا ملک کو یا کشمیر کاز کو کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ بلکہ آج اسلام آباد حکومت کی جانب سے بھارت کے آگے گھٹنے ٹیکنے اور معذرت خواہانہ پالیسی کی درپیش ضرورت نے سب کو حیران کر دیا ہے۔

مقبوضہ کشمیر میں نئی نسل کی جرائت اور دلیری کا ہر کوئی مشاہدہ کرتا ہے۔ 1989کے بعد پیدا ہونے والے اس نسل نے بہت مار دھاڑ، ریاستی دہشت گردی ، مظالم کی گود میں جنم لیا ہے۔ ہر فرد کی اپنی ایک دردناک کہانی ہے۔ ان کا استحصال ہو ا ہے۔ اب بھی جاری ہے۔ اس میں کوئی کمی نہیں آئی۔ یہ ایک خوفناک حقیقت ہے۔ بھارت نواز اور وہ جو سرینگر پر حکومت کرتے ہیں یا اس کے کسی بھی طرح حصہ دار ہیں یا ان حکومتوں سے زاتی مفادات جوڑے ہوئے ہیں۔ وہ بھارتی فوج کی کشمیر میں موجودگی بلکہ اس عسکری جماؤ اور کشیدگی کا فروغ چاہتے ہیں۔ تا کہ ان کی حکمرانی ختم نہ ہو۔ ان کی باریاں لگی ہیں۔ یہ رنگ بدل بدل کر بالکل گرگٹ کی طرح ، اچانک نمودار ہوتے ہیں۔ یہی کبھی مگر مچھ کے آنسو بھی بہاتے ہیں۔ یہی ٹنل کے اس پار سبز لباس زیب تن کرتے ہیں اور ٹنل کی دوسری طرف ان کی پسندیدہ ملبوسات رومال ہی سہی زعفرانی ہوتی ہے۔ یہ بہکاوا دینے کے کرتب ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ سب گٹھ جوڑ ہیں۔ جو محاز آرائی اور تشدد کو بڑھانے چاہتے ہیں۔ تا کہ اس سے بھارت کو خوفزدہ کر کے اپنی حکمرانی کا حصول یا استحکام ہو۔

جواہر لال نہرو یونیورسٹی میں افضل گورو شہید کے یوم شہادت پر چند کشمیری طلباء نے احتجاج کیا۔ اس میں ہندو طلباء بھی شامل ہوئے۔ اس کو بنیاد بنا کر یونیورسٹی یونین کے رہنماؤں کے خلاف قانون کو حرکت میں لایا گیا۔ ایسا بھی ہوا ہے کہ ایسے حالات پیدا کئے گئے تا کہ کشمیری ان کو بھی اپنا ہمدرد سمجھیں۔ ہو سکتا ہے کہ یہ سب کوئی اتفاقی عمل ہو۔ مگر یہ بھی خدشہ ہے کہ کہیں یہ سب کوئی سوچی سمجھی پالیسی کا حصہ ہو۔ کیوں کہ مہرے ہمیشہ مات کھاتے ہیں۔ یہ سب بادشاہت کو بچانے کے لئے حرکت میں لائے جاتے ہیں۔ قیاس مختلف بھی ہو سکتے ہیں۔ لیکن افراد انہیں اپنے علم اور معلومات کے مطابق ہی پیش کرنے کے اہل ہوتے ہیں۔ حکومتیں ان پر فوری کوئی نتیجہ اخذ نہیں کرتیں ۔

ہو سکتا ہے کہ اسلام آباد میں بھی یہی رائے غالب ہو۔ لیکن جس طرح دفتر خارجہ یا سرتاج عزیزاور دیگر نے پٹھانکوٹ حملے کے بھارتی ردعمل سے بچنے یا ان کے دباؤ میں آکر اپنے خلاف خود ہی ایف آئی آر درج کی اس نے اس ملک میں درج ہونے والی ایف آئی آرز کے بارے میں دنیا کے سامنے خود کو بے نقاب کیا۔ تحقیقات کے بغیر ہی یہ سب ہوا۔ کوئی مملکت یہ کیسے کر سکتی ہے۔ یہ سمجھنے سے لوگ خود کو قاصر محسوس کرتے ہیں۔
پاکستانی کی کوئی تحقیقاتی ٹیم بھارت نہیں گئی۔ شاید بھارت بھی اس میں رکاوٹ ڈال رہا ہے۔ وہ پاکستان سے ڈو مور کا مطالبہ کرتا ہے۔ اس کی نظر میں ایف آئی آر کی کوئی حیثیت نہیں۔ ابھی معاملات سامنے نہیں آئے۔ متعدد سوالات جواب طلب ہیں۔ بھارت کا کام ہی الزام لگانا، پروپگنڈہ کرنا ہے۔ جو ملک پاکستان کو توڑنے ، اسے صٖفحہ ہستی سے مٹانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا، جو کھلا دشمن ہے۔ ہر محاز پر پاکستان کو نقصان پہنچاتا ہے۔ سیاسی اور سفارتی طور ہی نہیں بلکہ دفاعی لحاظ سے اس ملک کو زیر کرنا چاہتا ہے۔ جس کے لگائے زخم ہمیشہ ہرے رہتے ہیں۔ جو پاکستان کے دوست ہیں وہ ان کا دشمن ہے۔ یا دوستی کی آڑ میں ان کو نقصان پہنچانا چاہتا ہے۔ یا ان کے پاکستان کے ساتھ تعلقات توڑنے کے درپے ہے۔ اس پر کیوں کر اعتماد کیا جا سکتا ہے۔

نریندر مودی کا لاہور میں آنااور وزیراعظم نواز شریف کے دولت خانے میں ضیافت میں شرکت دوستی کی دلیل نہیں ہو سکتی۔ وہ اپنے ملک کے لئے کچھ بھی کر سکتے ہیں۔ ان کی پالیسی چانکیائی ہے۔ دھوکہ دے کر وار کرنا ان کا شیوا ہے۔ ویسے ہی ’’ منہ میں رام رام اور بغل میں چھری ‘‘محاورا نہیں بنا۔ اس کا پس منظر ہے۔ سازشی تھیوریاں ہیں۔ ان کے سفارتی مشن والے یہاں اس طرح آزاد گھوم رہے ہیں جیسے کہ ہمارے سب سے بڑے خیر خواہ وہی ہیں۔ تعلقات کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔ اس کا بھی کوئی سفارتی معیار ہوتا ہے۔ یہاں خاندانی رشتے، تعلقات، دوستیاں، کاروباری مفاداتپر ملک و قوم کو قربان نہیں ہونا چاہیئے۔ یہ دشمنی زاتی نہیں، سٹریٹجک ہے۔ اس کا مقصد کھلے عام اعلان جنگ نہیں۔ بلکہ ملکی مفادات کو سب پر ترجیح دینے کی ضرورت ہے۔ کسی کی نیت یا خلوص پر شک نہیں ، کسی کو کسی کی طرٖف سے حب الوطنی کی سند دینے کی بھی ضرورت نہیں۔ مگر جو ہو رہا ہے ، اس پر فوری نظر ثانی کی گنجائش ہے۔

پاکستان میں ایف آئی آر کا مطلب بھارتی خوشنودی کے سوا کچھ بھی نہیں۔ کشمیر میں 25سال پہلے والے حالات ہیں۔ عوام کسی ڈر اور خوف کے بغیر بھارت کے مظاہرے کرتے ہیں۔ پاکستان کے پرچم لہراتے ہیں۔ بھارتی فوج انہیں اس وجہ سے گولی مارتی ہے کہ وہ پاکستان پاکستان کا نعرہ لگا رہے ہیں۔ لیکن یہاں ہم کیا کر رہے ہیں۔ پاکستانی پرچم دیکھ کر جو فوج گولی چلا دے، پاکستان کا نام سن کر جو قتل عام شروع کر دے، اس سے دوستی کی تمنا ، یا کسی مثبت بات کی توقع کیسے ہو سکتی ہے۔ ٹھیک ہے جنگ اور تشدد ترقی اور خوشحالی میں رکاوٹ بنتے ہیں۔ جنگل میں کسی بھیڑیئے سے سامنا ہو جائے تو کیا ہم اسے گلے لگائیں گے یا بوس وکنار کریں گے۔ جب کہ وہ اس کا زرا سا موقع بھی نہیں دے گا۔ اگر دنیا کو بھیڑیوں کی نسل کے ختم ہونے کا ڈر ہے تو پھر ان کی خوراک کا بندوبست بھی کرنا ہو گا۔ اس کی خوراک انسان ہیں۔ مسلمان ہیں۔ وہ کشمیر کے اس پار ہوں یا دوسری طرف۔

کوئی بھی سیاست، سفارت، حکمت عملی یہ قطعاً تقاضا نہیں کر سکتی کہ انسان خود ہی اپنے خلاف ایف آئی آر کاٹے۔ خود کو قتل ہونے کے لئے پیش کرے۔ مروت میں اگر کسی پیر میں ٹوپی ڈالنے کی مجبوری ہو تو پھر یہ ٹوپی بھی اس کے پیر میں ڈالیں جو نہ ڈالنے دے۔ جو اسے پاؤں میں روندھنے کے لئے بے تاب ہو۔ اس کے سامنے یہ کیسی عاجزی و انکساری ہے۔ ایسا بھی کوئی مملکت ہو گی جو اپنی دشمن خود ہو۔

بھارت کی دیرینہ خواہش ہے کہ وہ کشمیریوں کو تقسیم در تقسیم کر دے۔ ایسا اس نے کر دیا ہے۔ کشمیر کے اندر جہادی تنظیمیں اور سیاسی پارٹیاں جب بنیں اور ان کی تعداد بڑھتی رہی۔ اس سے دہلی کو تسلی ہوئی۔ جو کام بھارتی ایجنسیاں کرتیں ، وہ ہم نے خود ہی کر دیا۔ کبھی یہاں شہر اور گام ، کبھی شیر بکرا، کبھی شیعہ سنی، کبھی سرینگر بمقابلہ جموں، کبھی یہ سب اور کبھی ان میں سے بعض محرکات کو ہوا دی گئی۔ وقت گزرنے کے ساتھ حکمت عملی بھی بدلتی رہتی ہے۔ بھارت نے بھی ایسا ہی کیا۔ جب پورا کشمیر بیدار تھا۔ پاکستان کے وار کا سب کو انتظار تھا۔ بھارتی لابی ملک سے فرار ہو چکی تھی۔ وہ اعلان کر رہے تھے کہ اب کشمیر ان کے ہاتھ سے نکل گیا ہے۔ تب بھارت کے لئے آسانی کس نے پیدا کی۔ ہماری تنظیموں کے درمیان جنگ ہوئی۔ بھارتی چوکیاں اور کیمپ نہ ہوتے تو یہ گھمسان کی جنگ ہوتی۔ جس میں دونوں طرف سے کشمیری مسلمان کام آتے۔ وابستگیاں سب کی ہوتی ہیں۔ امن اور جنگ دونوں زمانہ میں ایسا ہوتا ہے۔

حماقت اور عقلمندی کے ادوار میں بھی وابستگیاں ہوتی ہیں۔ یا کوئی رغبت ہوتی ہے۔ کشمیریوں کا شاید یہ قصور ہے کہ ان کی رگ رگ میں پاکستان تھا۔ عیار لوگوں نے اس جذبہ کا خون کیا۔ وہ اپنی کرسی ، اقتدار، مفادات اور مراعات کے غلام بن گئے۔ یہ دویری غلامی تھی۔ حرص اور خواہشات کی غلامی ، بھارتی نفرت کی غلامی، پاکستان کی محبت کی غلامی۔ غلامی میں عقل اور قلب بھی غلام ہوتے ہیں۔ اگر چہ انہیں آزاد ہونا چاہیئے۔ خواہشات کی غلامی نے ہمیں بھی ہلاک کر دیا۔ اس جذبے کا استحصال ہوا۔ جی بھر کے کسر نکالی گئی۔ افسوس ہے۔ بڑے دانا بھی مرنا بھول جاتے ہیں۔ پھر بھائی نے بھائی کو زبح کیا۔ ایک مجاہد ، دوسرا مخبر۔ یہ سب چشم فلک نے دیکھا۔ یہ ناقابل تردید حقیقت ہے۔ حریت کے دو دھڑے ہوئے۔ آج بھی ایسا ہی ہے۔ کبھی ایک کو پسند کیا گیا اور کبھی دوسرے کو۔ مصلحت اور حکمت عملی کا رونا رویا گیا۔ جبکہ دنیا میں دو ہی گروپ ہیں۔ حزب اﷲ اور حزب الشیطان۔ جب کہ ہمیں قرآن ہدایت کرتا ہے امت واحدہ بنو۔ اﷲ کی رسہ کو مضبوطی سے پکڑو، تفرقہ نہ ڈالو۔
 
بھارت کی دوسری پالیسی کشمیر کو پاکستان سے دور کرنا تھی۔ اس نے ایسا کیا۔ گروپ بندیاں ، دھڑے بندیاں ، ہوئیں۔ یہ تصور دیا گیا کہ یہ تقسیم سب پاکستان کرتا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ ہم اس الزام سے نہ بچ سکیں۔ کوئی دو منٹ آنکھیں بند کر کے دیکھے کہ کیا ہوا۔ سب عیاں ہو جائے گا۔ پاکستان کو کشمیریوں کو بھارت کے تمام حربے دور نہ کر سکے ۔ مگر اس کا نقصان ضرور ہوا۔ جو لوگ پاکستان سے واپس مقبوضہ کشمیر گئے۔ ان کے ذہن پہلے جیسے ہر گز نہ تھے۔

قومی اسمبلی کی کشمیر کمیٹی کے سربراہ مولانا فضل الرحمان وزیر اعظم نواز شریف کے ساتھ 5جنوری کو مظفر آباد آئے تو انھوں نے یہ کہہ کر سب کو ششدر کر دیا کہ انھیں بتایا گیا ہے کہ کشمیر سے1989کو آنے والے تمام مہاجرین واپس چلے گئے ہیں۔ اس لئے وہ مہاجرین کے آبادکاری کے بارے میں حکومت کے ساتھ مسلہ اٹھانے سے دستبردار ہو چکے ہیں۔ لیکن جب انہیں یہ پتہ چلا کہ تقریباً40ہزار میں سے صرف چند سو واپس گئے ہیں تو وہ خود بھی حیران ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ اور ایسے ریمارکس دیئے جو بیان کرنا بھی مناسب نہیں۔ جس علاقے میں ایک سے زیادہ ادارے کام کر رہے ہوں۔ سب محب وطن ہوں۔ سب ملک کے لئے کام کرتے ہوں۔ سب کا مقصد بھی ایک ہو۔ پھر یہ شاید اعلیٰ تعلیم یافتہ معاشروں میں کبھی نہ ہو کہ کسی ایک محب وطن ادارے کے ساتھ آپ کا تعلق ، دوسرے حب الوطن ادارے کے ساتھ دشمنی کا باعث بنے۔ جب کہ سب کو مل کر ملک کی خدمت کرنی ہوتی ہے۔ سب ملک سے وفاداری کا عہد کرتے ہیں۔ اس کا حلف لیتے ہیں۔ جو ملک کا دشمن ہے ، اس کے سب دشمن ہوں اور جو ملک کا وفادار اور دوست ہے ، اس کے سب دوست ہوں۔ اس ناقص عقل میں یہی ایک عام فہم مثال ہے۔

بھارت کی تیسری پالیسی دہلی اور سرینگر کو قریب لانا تھی۔ اس پر بھی عمل کیا گیا۔ یہاں تک کہ آزادی پسندوں کے ساتھ بھارتی حکمرانوں نے مزاکرات کئے۔ لیکن سب بے سود ثابت ہوئے۔ ان سب پالیسیوں کے ساتھ ساتھ بھارت نے کشمیریوں کے قتل عام کی پالیسی جاری رکھی۔ آج بھی قتل عام جاری ہے۔

بھارتی سفارتی طور پر کبھی کامیاب نہ ہو سکا۔ اس نے اپنی ترقی کا سفر جاری رکھا۔ خطے میں تباہ کن اسلحہ اور ایٹمی ٹیکنالوجی کی دوڑ شروع کی۔ سفارتی طور پر دنیا کو گمراہ کیا۔ پاکستان کے خلاف بھڑکایا۔ جس امریکہ پر پاکستان کو ناز تھا۔ اس کی دوستی بھی دھوکہ اور فراڈ ثابت ہوئی۔ اسی امریکہ نے بھارت کو پاکستان پر ترجیح دی۔ اسے جنگی ٹیکنالوجی دی۔ یہ ظاہر کیا گیا کہ یہ سب چین کے خلاف ہے۔ لیکن سب جانتے ہیں کہ چین کی سرد پالیسی ہے۔ وہ بھارت کو کبھی بھی جنگ کا موقع نہیں دے سکتا۔ اس لئے یہ سب جنگی ساز و سامان پاکستان کے خلاف ہی استعمال ہونے کا خدشہ رہتا ہے۔ اس جنگی ماحول میں ملک کا دفاعی بجٹ بڑھتا ہے۔ بھارتی فوج کرپشن کرتی ہے۔ یہاں تک اس نے کرگل جنگ کے دوران دنیا سے اپنے مرنے والے فوجیوں کی لاشوں کے لئے جو تابوت خریدے ، اس خریداری میں بھی کرپشن کی گئی۔ بو فورس توپوں کی کرپشن کی دنیا گواہ ہے۔

مقبوضہ کشمیر میں عوام کی آزادی پسندی کے بے مثال مظاہرے ہو رہے ہیں۔ بڑے طویل معرکے ہو رہے ہیں۔ مجاہدین بھارت کی تربیت یافتہ لڑاکا فوج کو خوفزدہ کر رہے ہیں۔ یہ فوج اسلحہ اور گولہ بارود مجاہدین کو فروخت کر رہی ہے۔ یہ فوج ایک دوسرے کو گولیاں مار رہی ہے۔ خود کشیاں کرتی ہے۔ بھگوڑا بنتی ہے۔ اخلاقی طور پر زوال پذیر ہے۔ ان حالت میں پاکستان میں بھارت سے دوستی یا معذرت خواہانہ فیصلوں کا کیا تصور کیا جا سکتا ہے۔ دشمن کو کوئی اس طرح بھی رعایت دے سکتا ہے۔ جو آپ کو تباہ و برباد کرنے کا حلف لے چکا ہو۔ امن ، ترقی، خوشحالی کاخواب شرمندہ تعبیر ہونا چاہیئے۔ لیکن ایک خونخوار درندے کے سامنے امن کی باتیں کرنا کوئی معنی نہیں رکھتا۔
Ghulamullah Kyani
About the Author: Ghulamullah Kyani Read More Articles by Ghulamullah Kyani: 710 Articles with 555594 views Simple and Clear, Friendly, Love humanity....Helpful...Trying to become a responsible citizen..... View More