شعر وادب کی دنیا میں عطا عابدی ایک جانا
پہچانا نام ہے ۔ان کا اصل نام محمد عطا حسین انصاری ہے ۔ انھوں نے مختلف
فنون کے ذریعہ شعر و ادب کی دنیا میں عطا عابدی جیسی تخلیقی شخصیت کو
اعتبار بخشا ہے۔اس لیے فنون لطیفہ کے متنوع اسالیب میں ان کے تیکھے مشاہدات
کی کرشمہ سازی نظر آتی ہے۔ انھوں نے جن مسائل وموضوعات کو مس کیا ہے ، وہ
اپنے سماج سے مکمل طور پر ہم آہنگ ہیں۔ عطا عابدی کے ادبی سرمایہ پر نظر
ڈالنے سے یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ وہ اپنے سما ج سے گہرا ربط رکھتے ہیں
اور فنی پختگی کے ساتھ لکھتے پڑھتے ہیں۔اسلامی نظریہ حیات اور فکر اسلامی
سے بھی ان کی گہری وابستگی ہے۔ اس کے باوجود ان کے یہاں کوئی مخصوص فکری
دائرہ نہیں ہے وہ کھلے ذہن کی شاعری کرتے ہیں اور شعر وادب کی عظمت کو قائم
کرتے ہیں۔
عطاعابدی کی جائے پیدائش برہولیا، دربھنگہ (بہار) ہے۔ انہوں نے ابتدائی
درجات کی تعلیم برہولیا پرائمری اسکول سے،جبکہ اعلی تعلیم ایم کے کالج
لہریا سرائے اور ملت کالج ، دربھنگہ میں حاصل کی ہے اور ڈاکٹریٹ ایل این
متھلا یونیورسٹی دربھنگہ سے کی۔اپنے تعلیمی سفر میں جس طرح انھوں نے محنت
ولگن سے مختلف معرکے سر کیے ، اسی طرح اپنے خلوص ، ان تھک جد وجہداور لگن
سے کامیابی کی منزلیں طے کی ہیں ۔ مختلف دینی ، فلاحی ، سماجی تنظیموں سے
وابستگی کے ساتھ علمی ادبی خدمات بھی انجام دے رہے ہیں۔ جہاں تک عطا عابدی
کی شاعری کا تعلق ہے تو انہوں نے مختلف اصناف سخن پر طبع آزمائی کی ہے ۔
لیکن ان کی شاعری کا سب سے قابل قدر حصہ میرے نزدیک نعتیہ شاعری ہے ۔ عطا
عابدی کی فکر میں پاکیزگی ہے اور اظہار خیال میں سادگی بھی ہے۔ انہوں نے
اپنے واردات قلب ،خود پر بیتے احوال و کوائف اور اپنے گرد و ماحول کے تجربے
کو فن کی تہذیب کے ساتھ بڑی خوبصورتی سے اپنی شاعری میں سمو دیا ہے۔ اسلوب
بیان میں تیکھاپن بھی ہے اور عصری حسیت بھی۔ ان کے اشعار مسرور بھی کرتے
ہیں اور متعجب بھی۔ سب سے خاص بات یہ ہے کہ عطاؔعا بدی کی شاعری میں اپنی
مٹی کی سوندھی سوندھی خوشبو رچی بسی ہے۔
عطا عابدی کی متعد د تصانیف منظر عام پر آکر قارئین اور اہل علم وادب سے
داد وتحسین حاصل کرچکی ہیں ۔ ان میں سے قابل ذکر ہیں :(۱) آئینہ عقیدت (حمد
و نعت) ۱۹۸۷(۲) عکس عقیدت (حمد و نعت) ۲۰۰۲(۳) بیاض (غزلیات) ۲۰۰۳(۴)
مطالعے سے آگے (تنقید و تحقیق) ۲۰۰۶(۵) افکار عقیدت (حمد و نعت) ۲۰۰۷(۶)
نوشت نوا(غزلیات) ۲۰۰۹(۷) زندگی، زندگی اور زندگی (نظمیں) ۲۰۱۰(۸) مناظر ے
مذکر و مونث کے (کہانیاں برائے اطفال ) ۲۰۱۲، دوسرا ایڈیشن(۲۰۱۳)(۹) خوشبو
خوشبو نظمیں اپنی (نظمیں برائے اطفال) /۲۰۱۲(۱۰) شعر اسا س تنقید (تبصرے و
تنقیدی اشارے) ۲۰۱۵ترتیب:(۱) عکس اشک /۱۹۸۷(۲) فصل آگہی/ ۱۹۹۶ (۳) تشکیل و
تعبیر/ ۲۰۰۱
ان کے علاوہ متعدد تصانیف زیر ترتیب ہیں۔زیر ترتیب تصانیف میں(۱) سقوط
ماسکو اور ترقی پسند ادب (مکالمہ و مذاکرہ)(۲) دریچے سے (رباعیات، قطعات،
ہائیکو وغیرہ)(۳) لمحات فکر (ماہنامہ، لمحہ فکر یہ نئی دہلی اور سہ ماہی
ندائے بصیرت ململ میں شائع کالمس)(۴) شعر اساس مکالمات (۵) افسانہ اساس
تنقید(۶) ملاقات و مکالمات (انٹرویوز)(۷) شخصیات (شخصی تاثراتی مضامین)(۸)
اپنے پاؤں چلنے والا پتھک (ہندی نظمیں)(۹) فن اور فنکار (مختلف فنکاروں کا
تعارف)(۱۰) افکار مجاہدؒ (۱۱) عکس ہائے دور د راز (سوانحی ناول/ایک قسط
پندار پٹنہ ، ۲۰ فروری ۱۹۸۸ میں شائع) قابل ذکر ہیں۔
عطا عابدی عملی میدان میں بھی کافی سرگرم رہے ہیں۔ عملی میدان میں ان کی
سرگرمیوں کا اندازہ درج ذیل خاکے سے لگایا جا سکتا ہے:
٭ملازمت (سابقہ /موجودہ): (۱) معلم، حساب و سائنس ، مدرسہ چشمۂ فیض ململ ،
مدھوبنی /۱۹۸۳تا ۱۹۸۹
(۲) سب ایڈیٹر، ماہنامہ افکارملی ، نئی دہلی/ ۱۹۸۹تا ۱۹۹۶ء
(۳) ایڈمنسٹریٹو آفیسر (اردو)، بہار ودھان پریشد ،پٹنہ / ۱۹۹۷ء سے جاری
٭تربیتی شمولیت: پارلیمانی مطالعہ و تربیتی ادارہ ،لوک سبھا ، نئی دہلی /
۲۰۰۲ء
٭صحافتی وابستگی(سابقہ / موجودہ):
(۱) مدیر اعلیٰ، پندرہ روزہ مسافر ، ململ (مدھوبنی) (۲) سب ایڈیٹر ۔
ماہنامہ افکار ملی، نئی دہلی ،
(۳)مدیر اعزازی ۔ رسالہ تحفۂ ادب ، دربھنگہ
رکن مجلس ادارت: (۴) رسالہ رفتار نو ، دربھنگہ (۵) رسالہ ترجمان، عظیم آباد
(۶) ماہنامہ زبان وادب (پٹنہ)
رکن مجلس مشاورت: (۷) ماہنامہ لمحہ فکریہ نئی دہلی (۸) ماہنامہ بچوں کی
دنیا گیا (۹) رسالہ ادب، دربھنگہ (۱۰) ماہنامہ تارے زمین کے ، گیا (۱۱)
ماہنامہ اطفال ادب ، گیا (۱۲) سہ ماہی ندائے بصیرت ململ (مدھوبنی) (۱۳)
بھاشا سنگم ، پٹنہ (۱۴) دربھنگہ ٹائمس، دربھنگہ
مدیر: (۱۵)کاؤنسل دستاویز، پٹنہ (۱۶)کاؤنسل خبر نامہ ، پٹنہ
٭سماجی ، ثقافتی و تدریسی وابستگی (سابقہ/ موجودہ):
(۱) معلم مدرسہ چشمہ فیض ململ (۲) جنرل سکریٹری ۔ انجمن فیض المسلمین
برہولیا، دربھنگہ
(۳) سرپرست۔ نوری اردو مرکزو لائبریری ، برہولیا (۴) سکریٹری نثر و اشاعت۔
حلقہ فکر وفن دربھنگہ (۵) جنرل سکریٹری ۔ حلقہ فکر و فن نئی دہلی (۶)
سرپرست۔ نبی بخش لائبریری دربھنگہ (۷) نگراں۔ مکتبہ افکار، دربھنگہ (۸)
سرپرست۔ انجمن طلبہ مدرسہ چشمہ فیض ململ
عطا عابدی کی خدمات کئی دہائیوں پر محیط ہیں۔ ان کی علمی و ادبی خدمات کے
لئے ریاست و بیرون ریاست کے کئی اداروں کی جانب سے انہیں اعزازت و انعامات
سے بھی نوازا جاتا رہا ہے۔
٭اعزازات / انعامات :
(۱) ادارہ راوی لندن کا عالمی نعتیہ مقابلہ / پہلا خصوصی انعام/ ۱۹۹۳
(۲) راشٹریہ سہارا (نوئیڈا) موضوعی افسانوی مقابلہ / دوسرا انعام / ۱۹۹۵ء
(۳) جریدہ ٹائمز (دہلی) کا مقابلہ مضمون نگاری / تیسرا انعام/ ۱۹۹۳ء
(۴) ادارہ بابی پیلی بھیت/ طرحی انعامی مشاعرہ ۔۲/ پہلا انعام / ۱۹۸۹
(۵) بیاض (مجموعہ غزلیات) بہار اردو اکادمی کا دوسرا انعام/ ۲۰۰۷ء
(۶) شاداں فارقی ایوارڈ/بزم ادب اور دربھنگہ ٹائمز/۲۰۰۸ء
(۷) مطالعے سے آگے ( مضامین) / بہار اردو اکادمی کا پہلا انعام/۲۰۰۹ء
(۸) نقی احمد ارشاد ایوارڈ (علمی مجلس بہار) ۲۰۱۰ء
(۹) افکار عقیدت (حمد،نعت و دیگر نظمیں) / بہار اردواکادمی کا پہلا انعام
(۱۰) شاد عظیم آبادی ایوارڈ/ بہار اردو اکادمی پٹنہ/ ۲۰۱۳ء
(۱۱) الطا ف حسین حالی ایوارڈ/انجمن ترقی اردو، مالیگاؤں /۱۵؍ دسمبر ۲۰۱۳ء
(۱۲) احمد جمال پاشا ایوارڈ/ بہار اردو اکادمی پٹنہ(برائے’ خوشبو خوشبو
نظمیں اپنی‘)
(۱۳) اعزازی نشست بہار اردو اکادمی،پٹنہ ۲۰۰۷ء
(۱۴) ای ٹی وی اردو / کل اور آئیں گے (مقابلہ غزل) بطور منصف
(۱۵) انجمن محمدیہ پٹنہ سیٹی/ نعتیہ انعامی جلسہ / بطور منصف / ۲۰۱۵
(۱۶) رکن وظیفہ سب کمیٹی، بہار اردو اکادمی پٹنہ / ۱۹۹۷ء
(۱۷) رکن صحافتی سب کمیٹی، بہار اردو اکادمی / ۲۰۱۵
(۱۸) مدعوئین خصوصی مجلس عاملہ حلقۂ ادب انجمن ترقی اردو ،بہار / ۹۷ تا
۲۰۰۰ء
(۱۹) ’’عطا عابدی کی شعری و تنقیدی خدمات‘‘ موضوع پر بی این منڈل یونیورسٹی
مدھے پورہ میں
تحقیقی مقالہ منظور و داخل
٭شمولیت کتب (انتخاب و تذکرہ /تاریخ و تحقیق / تبصرہ و تنقید):
(۱) وادیٔ نشاط/ حلقہ فکرو فن، دربھنگہ/۱۹۸۳
(۲) جلترنگ (۱۹۸۵) کی منتخب غزلیں) / ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی/ ۱۹۸۶
(۳) غنچہ سیریز۔۱ (بچوں کے لئے منتخب کہانیاں) /ڈاکٹر محمد کلیم الدین/
۱۹۹۲
(۴) ہائیکو۔ تنقیدی جائزہ /ڈاکٹر رفعت اختر/۱۹۹۳
(۵) امنگ کی منتخب کہانیاں (اردو اکادمی، دہلی)/۱۹۹۵
(۶) روح غزل (غزلوں کا پچاس سالہ انتخاب) / ڈاکٹر مظفر حنفی/۱۹۹۵
(۷) مئے گساران غزل / سید اکبر اعظم، منور اعظم / ۱۹۹۵
(۸) شہنشہ کونینؐ(انتخاب نعت) / واجد سحری/ ۱۹۹۶
(۹) بہار میں جدید غزل/ڈاکٹر عطا اﷲ خاں علوی/ ۱۹۹۸
(۱۰) قندیل/مرتب: ڈاکٹر خورشید احمدخاں/ ۱۹۹۸
(۱۱) قرطاس (۱۹۹۹ کی منتخب غزلیں) /ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی ، شاہد نعیم/
۲۰۰۰
(۱۲) جواز و انتخاب /ڈاکٹر کوثر مظہری / ۲۰۰۱
(۱۳) تادیب ادب / ناوک حمزہ پوری / ۲۰۰۱
(۱۴) رفتگاں و قائماں / ڈاکٹر عبدالمنان طرزی / ۲۰۰۱
(۱۵) آئینہ شعرائے بہار / خواجہ افضل امام/ ۲۰۰۲
(۱۶) اکیسویں صدی کی غزلیں/ ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی ، شاہد نعیم/ ۲۰۰۲
(۱۷) اکیسویں صدی کی شاعری/ ڈاکٹر شاہینہ تبسم ، عبدالقادر/ ۲۰۰۲
(۱۸) پیغام یکجہتی (منتخب نظمیں) / عثمان شاہد/ ۲۰۰۳
(۱۴) عکس سخن/ بزم رہبر / دربھنگہ/۲۰۰۴
(۱۹) ماں/ مناظر عاشق ہرگانوی ، شاہد نعیم/ ۲۰۰۵
(۲۰) تاریخ ادب اردو، جلد ۔ ۳/پروفیسر وہاب اشرفی / ۲۰۰۶
(۲۱) آئینہ (منتخب نظمیں برائے اطفال) / عثمان شاہد / ۲۰۰۷
(۲۲) آہنگ غزل (منظوم) تاریخ و تذکرہ) ڈاکٹر عبدالمنان طرزی/ ۲۰۰۷
(۲۳) بہار میں اردو شاعری۔ ۱۹۸۰ کے بعد/ ڈاکٹر صوفیہ پروین/ ۲۰۰۷
(۲۴) قصہ بے سمت زندگی کا/ پروفیسر وہاب اشرفی/ ۲۰۰۷
(۲۵) اردو کے موجودہ شعراء / چاند میاں طیب/ ۲۰۰۷
(۲۶) نئی غزل نئے امکانات/ ڈاکٹر سیفی سرونجی/ ۲۰۰۷
(۲۷) سَو دیدہ ور /ڈاکٹر عبدالمنان طرزی/ ۲۰۰۸
(۲۸) باغ خوش اسلوب/ ڈاکٹر منصور عمر/ ۲۰۰۸
(۲۹) اکسیر(تنقیدی مضامین) / ڈاکٹر مبین صدیقی/ ۲۰۰۸
(۳۰) اردو نظم کے سلسلے (انتخاب نظم) علیم صبا نویدی، ڈاکٹر جاویدہ حبیب/
۲۰۰۸
(۳۱) دو آشیانہ / سید جاوید حسن/ ۲۰۰۸
(۳۲) تقطیر سخن/ ناوک حمزہ پوری/مرتب: ڈاکٹر محمد سلمان /۲۰۰۸
(۳۳) الانصار/ ناوک حمزہ پوری / ۲۰۰۹
(۳۴) نظریاتی ادب/ڈاکٹر شاہ رشاد عثمانی/ ۲۰۰۹
(۳۵) دیدہ وران بہار ، جلد اول/ ڈاکٹر عبدالمنان طرزی/ ۲۰۰۹
(۳۶) جھارکھنڈ اور بہار کے اہم اہل قلم، حصہ اول/ ظہیر غازی پوری/ ۲۰۰۹
(۳۷) نئی سمت کی آواز/پروفیسر وہاب اشرفی/ ۲۰۱۰
(۳۸) اردو، ہندوستان میں کس کی زبان ہے/رام پرکاش کپور/۲۰۱۰
(۳۹) شناخت اور ادراک معنی/ پروفیسر وہاب اشرفی/ مرتب: ڈاکٹر ہمایوں اشرف/
۲۰۱۰
(۴۰) عندلیبان غزل (تذکرہ منتخب غزل گو شعراء بہار و جھارکھنڈ) / ظفر
مجیبی/ ۲۰۱۰
(۴۱) زاویہ نقد و نظر (تحقیقی و تجزیاتی مضامین) ڈاکٹر محبوب راہی/ ۲۰۱۰
(۴۲) میرے خیال میں/ پروفیسر محمد محفوظ الحسن/ ۲۰۱۱
(۴۳) میر بھی ہم بھی (غزلوں کا انتخاب) مشتاق دربھنگوی / ۲۰۱۱
(۴۴) موجودہ عصر کی غزلیں: گلشن غزل / قمر گوالیاری/ ۲۰۱۲
(۴۵) ایک اور جست /معین کوثر، سید ضیاء الرحمن /۲۰۱۳
(۴۶) بچوں کا ماہنامہ امنگ کی منتخب کہانیاں/ اردو اکادمی، دہلی/۲۰۱۳
(۴۷)بہار میں تخلیقی نثر (آزادی کے بعد) ، جلد اول/ ڈاکٹر قیام نیر/ ۲۰۱۴
(۴۸) نثر نگاران دربھنگہ (منظوم) پروفیسر عبدالمنان طرزی/مرتب منصور خوشتر/
۲۰۱۴
(۴۹) مطالعات/ سہیل انجم/ ۲۰۱۴
(۵۰) بہار کے چند نامور شعرا(جلد سوم) /ڈاکٹر مظفر مہدی ، پروفیسر منصور
عمر/۲۰۱۴
(۵۱) دہلی کے ۵۰ صحافی/ ظفر انور/ ۲۰۱۵
(۵۲) اردو صحافی بہار کے بشمول جھارکھنڈ) ڈاکٹر سید احمد قادری/ ۲۰۱۵
(۵۳) معنیٰ نما/ ڈاکٹر ہمایون اشرف/ ۲۰۱۵
(۵۴) بہار میں جدید اردو غزل/ڈاکٹر رابعہ مشتاق/ ۲۰۱۵
(۵۵) نمائق/ ڈاکٹرآفاق عالم صدیقی/۲۰۱۵
(۵۶) دربھنگہ نامہ/پروفیسر عبدالمنان طرزی / مرتب: شکیل احمد سلفی/۲۰۱۵
عطاعابدی ۸۰ کے بعد ادبی نسل میں ایک امتیازی مقام کے حامل شاعر اور نقاد
ہیں۔ ۸۰ کے بعد اُبھرنے والے فن کاروں کے یہاں جو ایک قدر مشترک پائی جاتی
ہے وہ ہے سماجی معنویت کی طرف واپسی جو جدیدیت کے دور میں مفقود ہوگئی تھی۔
عطاعابدی کے یہاں جس طرح مذہبی فکرانسانی جذبہ و احساس میں خوبصورتی کے
ساتھ سمولئے گئے ہیں وہ ان کی انفرادیت کو ظاہر کرتی ہے۔ عطا عابدی زندگی
کے کسی موڑ پر سپر نہیں ڈالتے۔ یہ شخصی خوبی ان کے یہاں ادبی حسن بن کر
ابھرتی ہے۔ شاعر کی اپنی ایک جسمانی اور فکرکی شخصیت ہوتی ہے جو عطا عابدی
کی بھی ہے اور یہ فکری شخصیت اتنی نمایاں ہے کہ دور سے پہچان لی جاتی ہے۔
عطاعابدی اپنے ہم عصر غزل گو شعرا میں عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں۔انہوں
نے گرچہ غزل کی لسانی ساخت کے ساتھ نہ تو کوئی چھیڑ چھاڑ کی ہے اور نہ ہی
بعض معاصرین غزل گو کی طرح غزل کی لفظیات میں اختراعات سے کام لیا۔
عطاعابدی کا ڈکشن بالکل سامنے کے الفاظ سے تیار ہوا ہے۔ لیکن غور کیجئے
معلوم ہوگا کہ عطاصاحب نے روزمرہ کے محاوروں سے کتنا جدید شعری رویہ قائم
کیا ہے۔ یہ شعری رویہ ہی خاص ہے جو عطا عابدی کی غزل کو انفرادیت بخشتا ہے۔
عطا عابدی کی شاعری ’’سماجی سروکار‘‘ کی شاعری ہے۔ رشتوں کی پاسداری، پیغام
محبت کی ترسیل اور صالح معاشعرے کی تشکیل کا خواب ان کی شاعری کے خاص
موضوعات ہیں:
سیکھا ہے نہ سیکھوں گا یہ طور زمانے کا
میں تو نہیں آنگن میں دیوار اٹھانے کا
موسم نئے جلووں کا ہر چند مخالف ہے
ہم فرض نبھاتے ہیں یادوں کو بچانے کا
چہروں کے تعاقب کا دعویٰ ہے بہت لیکن
فن آتا نہیں تم کو آئینہ دکھانے کا
تصویر مری دیکھی اس نے تو ہوا خائف
تکمیل کو جا پہنچا احسان دوانے کا
اک شہر خموشاں کی ہے آس عطاؔ ورنہ
اور کوئی ٹھکانہ کب ملتا ہے ٹھکانے کا
اس غزل میں انھوں نے بڑی آہستگی سے دنیا میں پائی جانے والی بے مروتی اور
خود غرضی کی بیخ کنی ہے اور ا س طرح ان کی شاعری سماجی موضوعا ت سے ہم آہنگ
ہوگئی ہے ۔ غزل کے پہلے شعر میں انھوں نے جو وضاحت کی ہے ، وہ وضاحت انھیں
ڈکشن اور موضوعات کے لحاظ سے منفرد بناتی ہے ۔ اسی طرح اس غزل کے دوسرے شعر
میں انسانیت اور مروت کے فروغ کا جو نقشہ کھینچا ہے ، وہ بھی بہت خوب ہے ۔
یعنی ایک ایسا دور جب انسان ، انسانی خون کا پیا سابن جائے تو ایسے میں کسی
کی یاد کو گلے سے لگائے رکھنا انتہائی اہم اور دلکش معاملہ ہوتا ہے ۔ آج
عموما ً ایسا ہوتا ہے کہ انسان چہرہ بنانے میں مصروف ہیں۔ منٹوں میں انسان
کا چہرہ بدل جاتا ہے ، ایسے میں یادوں سنجو کر رکھنا بڑی بات ہے ۔ اس غزل
میں انھوں نے جہاں انسانی ہمدردی کی بات کی ہے ، وہیں سخنوروں کوبھی آئینہ
دکھانے کی کوشش کی ہے کہ آئینہ دکھانے کا ہنر کوئی آسان نہیں ہے ۔ا س کے
باوجود بھی غلط روش پر چلنے والے اپنے آپ کو رہرو تسلیم کرنے لگے ہیں ، جو
کہ معاشرہ کے لیے نقصان دہ ہے ۔
خود کو سمجھا یوں خدا جیسے خدا تھا ہی کب
اور پھر اس کے لئے وقتِ دعا تھا ہی کب
یہ جہاں سو گیا، سوتا نہیں تو کرتا کیا
اپنی افسانہ طرازی کا سرا تھا ہی کب
اک ضرورت تھی جو تبدیل تعلق میں ہوئی
وہ جو میرا تھا ، ذرا سوچ مرا تھا ہی کب
توشۂ حسن لئے گھر سے وہ نکلا لیکن
منتظر اس کا میں تادیر کھڑا تھا ہی کب
غم ہو کیوں کر کہ یہ دنیا نہ بنی آئینہ
میری آنکھوں میں کوئی چہرہ نیا تھا ہی کب
جیسا کہ مضمون کی ابتدا میں کہا گیا کہ عطا عابدی کی شاعر ی میں اسلامی
نظریات گاہے گاہے نظر آتے ہیں ، اگر اس غزل کو سامنے رکھتے ہوئے اس نظریہ
پر روشنی ڈالی جائے تو بہت سی باتیں بآسانی کی جاسکتی ہے کہ انسان جب کسی
بھی نشے میں مبتلا ہوتا تواچھے برے کی تمیز تک کھو دیتا ہے ۔ بسا اوقات
ایسا بھی ہوتا ہے کہ انانیت کی وجہ سے خدافراموشی کا بھی شکا ر ہوجاتا ہے ۔
پہلے شعر میں جس طرح سیدھے سادھے انداز میں بڑی بات کہنے کی کوشش کی گئی ہے
، وہ عطا عابدی جیسے فنکاروں کا ہی حصہ ہے۔ یعنی انسان مغرو ر ہونے کے بعد
خدا کو بھی ایسے فراموش کردیتاہے ، جیسے کہ خدا کا وجود تک نہ ہو ۔ اگر اس
شعر کو لفظی حصار میں رکھ کر دیکھیں تو مفہوم وہی سامنے آئے گا ، جس کی
وضاحت کی گئی ہے ۔ تاہم طنزیہ پس منظر میں خود پرستوں کی بھی بیخ کنی از
خود ہوتی نظر آتی ہے ۔ میرے اس قول کی تصدیق اس شعر سے بھی ہورہی ہے ، جس
میں کہا گہا کہ جس کو اپنا تصور کیا جارہا تھا ، وہ میرا تھا ہی کب ۔ خلاصہ
کے طور پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ دنیا میں پھیلی بے مروتی اور انانیت پر یہ
غزل طنز ہے ۔
اس چھوٹے سے تجزیہ کے بعد بآسانی کہا جاسکتا ہے کہ عطا عابدی نے سسکتے
معاشرہ کو گہری نظروں سے دیکھا ہے ۔ پھر دیکھنے کے بعد دلِ درمند اور قلب
ارجمند سے اس کا تجزیہ پیش کیا ہے ۔ وہ بھی ایسا تجزیہ جس کو پڑھنے کے بعد
انسانی ذہن ودماغ گد گد اٹھے ۔ ظاہر ہے ایسی شاعر ذہن کو اپیل کرتی ہے ۔
قارئین کے دلوں میں انسان دوستی ،بلند اخلاقی اور دنیا کی بے ثباتی کی
قندیلیں روشن کرتی ہے ۔ اس لیے یہ کہنا بجا ہے کہ عطا نے اپنے اسلوب ، فنی
رچاؤ اور سماج کے گہرے مسائل کے ساتھ اردو شاعری کو وہ سرمایہ پیش کیا ہے ،
جس پر شاعری مدتوں ناز کرے گی ۔ |