محبت بھی عجیب چیز ہے جسکی سمجھ
میں آتی ہے وہ دوسروں کو سمجھا نہیں سکتا اور اگر سمجھ میں نہ آئے تو کوئی
اسے سمجھا نہیں سکتا۔ یہ اپنے راستے خود بناتی ہے اور گنگ اور بہرے لفظوں
کو معنی کا وہ جادو عطا کرتی ہے کہ جو سر چڑھ کر بولتا ہے۔ اور صرف بولتا
ہی نہیں بلکہ دوسروں کو بھی ماننے پر مجبور کردیتا ہے کہ یہ عاشق زار ہے
اور اسکی اپنی ایک خاص سوچ ہے اور ایک علیحدہ میدان عمل ہے۔ وہ کب سے لان
میں بیٹھی یہ سوچ رہی تھی کہ رچرڈ کو اس سے محبت کیوں تھی وہ تو پاکستانی
متوسط گھرانے کی ایک پختہ عمر لڑکی تھی جو وظیفے پر پی ایچ ڈی کرنے بیرون
ملک آئی تھی۔ نہ اسکا رنگ گوروں جیسا تھا نہ جسم نہ کپڑے نہ عادتیں محبت
میں کچھ تو کامن ہونا چاہیے کچھ تو مماثلت ہونی چاہیے کچھ تو یک رنگی ہونی
چاہئے مگر یہاں تو مذہب سے لیکر تہذیب اور رہن سہن سب کچھ جدا جدا تھا پھر
بھی وہ اسکے رستوں میں بیٹھا رہتا اس سے بات کرنے کے بہانے ڈھونڈتا رہتا
محبت اسے کتنا مصروف رکھتی تھی۔ رچرڈ نے اسے بتایا تھا کہ اسے لڑکیوں سے
نفرت تھی کیونکہ بچپن میں اسکی ایک کزن جینی اسکے ساتھ سکول میں پڑھتی تھی
اور وہ اسے بہت مارتی تھی وہ بہت فربہ تھی اور ہر وقت کھاتی رہتی تھی اور
رچرڈ سے اسکے پیسے، کھانا اور دیگر اشیا چھین لیتی تھی ایک دفعہ جب رچرڈ
کلاس میں فرسٹ آیا تو سکول کی جانب سے اسے کرسٹل کی شیلڈ دی گئی جینی نے وہ
شیلڈ رچرڈ سے چھین کر سڑک پر دے ماری رچرڈ کو ایسے لگا جیسے سڑک پر شیلڈ کی
کرچیاں نہیں ہیں اسکے دل کے ٹکڑے ھیں۔ اس دن سے لڑکیوں کے خلاف اسکے دل میں
ایک خاص قسم کا عناد اور بے اعتنائی تھی۔ مگر پھر بھی مریم کے لئے اسکا دل
موم کیوں ہوا اور وہ کونسے عوامل تھے جو اس محبت کا سبب بنے اس بات کی سمجھ
شائد مریم کو بھی نہ تھی اور شائد رچرڈ بھی اسکا جواب نہیں جانتا تھا بقول
رسل محبت میں کچھ جواب ان کہے رہتے ہیں بس اسی طرح ہے کہ انسان ایک چیز
جانتا ہے لیکن لفظوں میں اسکا اظہار نہیں کرسکتا شائد کچھ جذبوں کے اظہار
کے لئے لفظ سرے سے موجود ہی نہیں ہوتے۔ اسے آج بھی وہ دن یاد تھا کہ جب وہ
لائبریری میں بیٹھی پڑھ رہی تھی تو رچرڈ اس سے ذرا دور بیٹھا اسے کنکھیوں
سے دیکھ رہا تھا حالانکہ اس نے اسلامی روایات کا خیال کرتے ہوئے سکارف،
نقاب اور اورکوٹ سے اپنے جسم کو اچھی طرح ڈھانپا ہوا تھا اور سوائے آنکھوں،
ہاتھوں اور پاؤں کے اسکے جسم کی کوئی چیز عیاں نہ تھی مگر پھر بھی اسے آج
یہ لباس ناکافی معلوم ہوتا تھا اور اسے ایسے لگتا تھا کہ شائد رچرڈ کی
نگاہیں لباس کے اندر تک دیکھنے کی اصلاحیت رکھتی ہیں۔ وہ بار بار اپنے نقاب
کو درست کرتی اور سر پر ہاتھ پھیرتی کہ کہیں سکارف اپنی جگہ سے کھسک تو
نہیں گیا مگر سب کچھ تو ٹھیک تھا پھر یہ اضطراب کیسا تھا اور وہ کیوں اپنا
اعتماد کھو رہی تھی اور اسے خوف سا تھا کہ جیسے وہ عریاں ہو رہی ہے۔
اف۔۔۔خدایا یہ کیا مصیبت ہے وہ یہ کہہ کر میز سے گرا ہوا پین اٹھانے کے لئے
جھکی تو نقاب بھی زمین پر گر گیا اس نے جلدی سے نقاب اٹھایا اور وہاں سے چل
دی جب وہ بس سٹاپ پر پہنچی تو اسے معلوم ہوا کہ وہ اپنا ہینڈ بیگ تو میز پر
ہی چھوڑ آئی ہے وہ ابھی سوچ ہی رہی تھی کہ اب کیا کیا جائے کہ اس نے دیکھا
رچرڈ ہینڈ بیگ اٹھائے اس کی طرف بڑھ رہا ہے اتنے میں ماؤنٹ ایڈن جانے والی
بس آگئی اور وہ جلدی سے بیگ لے کر بس میں سوار ہو گئی اور پھر راستے میں
اسے خیال آیا کہ کم از کم شکریہ تو ادا کردیتی ۔ گھر پہنچ کر وہ سب سے پہلے
ظہر کی نماز ادا کیا کرتی تھی مگر آج نماز میں یکسوئی نہیں تھی اور
لائبریری کے واقعات اسے پریشان کر رہے تھے اور دور کہیں روح کے گہرے سمندر
میں لہروں کی رم جھم سنائی دے رہی تھی اور ایک سرکش لہر تو جیسے یہ شعر
گنگنا رہی تھی کہ
تجھے دانستہ محفل میں جو دیکھا ہو تو مجرم ہوں
نظر آخر نظر ہے بے ارادہ اٹھ گئی ہو گی
رچرڈ اس سے عمر میں پانچ سال چھوٹا تھا اور وہ جس یونیورسٹی سے اپنا تھیسز
کر رہی تھی وہ وہیں سے گریجویشن کر رہا تھا آخر وہ اسی کو کیوں دیکھتا تھا
پھر اسے کبھی کبھی خیال آتا کہ یہ سب کچھ اسے پھنسانے کے لئے تو نہیں کیا
جارہا اور کہیں آخر میں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔نہیں ایسا نہیں ہو سکتا وہ اسے بتا دے
گی کہ وہ اس میں دلچسپی لینا چھوڑ دے وہ ایک مسلمان لڑکی ہے اور وہ اس طرح
کی دوستیاں قائم نہیں رکھ سکتی۔ اسکی ماں نے اسے کراچی چھوڑتے ہوئے کہا تھا
: دیکھو بیٹا جو دل آئے کرنا مگر کبھی اپنی عزت اور مذہب کا سودا نہ کرنا۔
آج اس نے فیصلہ کر لیا تھا کہ وہ رچرڈ کو سمجھا دے گی اور اگر وہ پھر بھی
نہ سمجھا تو اسکی شکایت یونیورسٹی کو کرے گی۔
اگلے دن وہ رچرڈ کو تلاش کرنے لگی حیرت ہے کہ وہ آج لائبریری نہیں آیا تھا
وہ اسے تلاش کرتے ہوئے جب فائن آرٹ فقلٹی میں پہنچی تو وہ کھڑا فریم پر کچھ
پینٹ کر رہا تھا اسے دیکھ کر اس نے فریم کو الٹا کر دیا۔ آج مریم میں بہت
اعتماد تھا کیونکہ وہ فیصلہ کر چکی تھی اور فیصلہ انسان کو قوت دیتا ہے اور
بات کرنے کا حوصلہ دیتا ہے۔ اس نے رچرڈ سے کہا کہ میں تم سے کچھ بات کرنا
چاہتی ہوں رچرڈ کچھ حیران سا ہوا لیکن پھر اس نے کرسیآگے بڑھا دی اور
بیٹھنے کو کہا مریم نےآفر قبول کر لیآج ان کا یہ پہلا مکالمہ تھا۔ مریم نے
کہا : جو تم کر رہے ہو مجھے اچھا نہیں لگتا میں ایک مسلمان لڑکی ہوں اور
مجھے غلط مت سمجھو۔ رچرڈ نے کہا: میں ایک کرسچن لڑکا ہوں اور مجھے بھی غلط
مت سمجھو تمہارا نقاب میں ڈھکا ہوا چہرہ اور جسم مجھے اچھا لگتا ہے اور میں
نے کئی دن سوچا ہے مجھے واقعی تم سے محبت ہے پھر اس نے فریم الٹا دیا تو
مریم یہ دیکھ کر حیران رہ گئی کہ وہ کئی دن سے اسکا پورٹریٹ بنا رہا تھا
اور ابھی صرف نقاب میں ڈھکا چہرہ مکمل ہوا تھا۔ مریم نے کہا: تم محبت کا
مطلب سمجھتے ہو؟ رچرڈ نے جواب دیا : کیا تم نے کبھی محبت کی ہے؟ مریم نے
کہاآخر تم چاہتے کیا ہو؟ رچرڈ نے کہا: مرنا چاہتا ہوں اور اگر تم چاہو تو
تمہارے ساتھ جینا چاہتا ہوں۔ تمہیں پتہ ہے محبت مکمل سپردگی کا نام ہے اور
یہ میرا فیصلہ ہے تم مجھےآزما کر دیکھ لو میں ایک مختلف لڑکا ہوں مجھے عورت
سے نفرت تھی تم نے اس کو محبت میں بدل دیا اب اگر تم اس کو دوبارہ نفرت میں
بدل سکتی ہو تو بدل دو۔ مریم نے کہا: میں تمہاری شکایت کروں گی۔ رچرڈ نے
کہا مجھے تمہاری خاطر سزا جھیل کر خوشی ہوگی۔
سارا راستہ وہ سوچتیآئی کہ وہ واقعی ایک فلرٹ ہے اور مجھے اس سے بچنا چاہئے
ورنہ خواہ مخواہ کا سکینڈل بنے گا۔ رات کو جب وہ بستر پر لیٹی تو دور کہیں
دل کے سمندر میں لہروں کی رم جھم سنائی دے رہی تھی عجیب بات ہے کہ ہر لہر
رچرڈ کی طرفدار تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔ہاں وہ تم سے پیار کرتا ہے تم اسےآزما کر تو
دیکھو۔ مگر کیسےآزماؤں، امتحان مکمل ہونا چاہئے جو اسکے سچا یا جھوٹا ہونے
کا پول کھول دے وہآزمانے کا جو بھی کلیہ سوچتی اسکا جواب مکمل تشفی کی صورت
میں نہ ہوتا اور وہ یہ سوچتے سوچتے سو گئی کہ اگر اس نے یہ کہا تو وہ یہ
جواب دے دے گا اگر ایسا ہوا تو ایسا کر دے گا ۔۔۔وغیرہ وغیرہ مگر جب اس نے
فجر پڑھ کر دعا مانگی تو ایک عجیب خیال اسکے ذہن میںآیا ۔۔۔۔۔ہاں یہ
واقعیآزمانے کا صحیح طریقہ ہے اس کے بعد کوئی شک و شبہ باقی نہیں رہے گا۔آج
یونیورسٹی میں دونوں ایک دوسرے کو ڈھونڈ رہے تھے جب دونوں کا ٹاکرا ہوا تو
دونوں ایک دوسرے سے کوئی بات کرنا چاہ رہے تھے۔ مریم نے کہا کہ پہلے تم بات
کرو تو رچرڈ نے کہا کہ میں کل شائد زیادہ بول گیا ہوں اور سوری کرنےآیا ہوں
شائد میں اپنے دل کے ہاتھوں مجبور تھا مریم نے دل میں سوچا کہ گوروں میں
بہت سی باتیں غلط سہی لیکن ایک بات اچھی ہے کہ وہ جذبوں کے اظہار میں دیر
نہیں لگاتے کوئی اچھا لگا تو منہ پر کہہ دیا کہ تم اچھے لگتے ہو اور کہیں
غلط ہوا تو فوراً سوری کر لیا۔ مریم نے کہا کیا رچرڈ میں تمہاری نام نہاد
محبت کوآزما سکتی ہوں؟ رچرڈ نے کہا مجھے پاس ہوکر خوشی ہوگی لیکن ایک بات
یاد رکھوآزمانے سے پہلے سوچ لینا کیونکہ پاس ہونے کی صورت میں تم مجھے چھوڑ
نہیں سکو گی ۔ رچرڈ نے کہا میں تمہیں انگریزی میں ایک شعر کا ترجمہ سناتا
ہوں تم بتاؤ کس کا ہے۔
If this is a game of love put everything and don’t be afraid
If you win then well don if you lose then still you are not defeated
مریم حیران ہو گئی کہ اسے نے فیض احمد فیض کو کہاں سے پڑھا ہے مریم نے وہ
شعر اسے اردو میں سنایا
گر بازی عشق کی بازی ہے جو چاہے لگا دو ڈر کیسا
گر جیت گئے تو کیا کہنا گر ہارے بھی تو بازی مات نہیں
مریم نے کہا اچھا تو پھر تمہارا امتحان شروع ہوتا ہے رچرڈ نے کہا جلدی بولو
میں ابھیآسمان سے تارے توڑ کر لاؤں۔ مریم نے کہا نہیں تمہیں بس اتنا کرنا
ہے کہ۔۔۔۔۔۔۔کہ۔۔۔۔۔۔۔میرا مطلب ہے اسلام قبول کر لو۔ رچرڈ خاموش ہوگیا کچھ
دیر دونوں خاموشی سے ایک دوسرے کو دیکھتے رہے پھر رچرڈ بغیر کچھ بتائے چلا
گیا۔ اگلے تین روز تک وہ یونیورسٹی نہیںآیا مریم کے لئے یہ دن بہت کرب ناک
تھے کبھی وہ سوچتی کہ اسے یہ شرط نہیں رکھنی چاہئے تھی، مذہب تبدیل کرنا سب
سے مشکل کام ہے انسان کو دوبارہ جنم لینا پڑتا ہے، نام بدلنا پڑتا ہے، اپنے
چھوڑنے پڑتے ہیں، اور کبھی وہ اپنےآپ کو تسلی دیتی کہ اس نے ٹھیک کیا ہے
دوسرا کوئیآپشن اس کے پاس تھا ہی نہیں۔ چوتھے روز ہاسٹل میں کوئی اس سے
ملنےآیا اور وہ رچرڈ تھا۔ اسکی حالت بتا رہی تھی کہ وہ پچھلے کئی روز سے
شدید ذہنی کشمکش اور دباؤ میں رہا ہے۔ رسمی سلام دعا کے بعد جو اس نے کہا
وہ کچھ یوں تھا : سنو میں ایک پادری کا بیٹا ہوں اور مجھے معلوم ہے کہ میرا
باپ میرے اسلام قبول کرنے کی خبر کو برداشت نہیں کرسکے گا لیکن پھر بھی میں
تہارے لئے اسلام قبول کرنے کو تیار ہوں بتاؤ مجھے کیا کرنا ہوگا۔ مریم کو
تو جیسے سکتہ ہو گیا اسکے اندر تو ایک طوفان برپا ہو گیا وہ اپنےآپ کو بہت
چھوٹا محسوس کرنے لگی اور رچرڈ اسے کوئی نورانی مخلوق نظرآنے لگا، کیا وہ
واقعی اس سے اتنا پیار کرتا ہے کیا وہ واقعی اسکا اسقدر دیوانہ ہے اسے یقین
نہیںآ رہا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔اے اللہ میری مدد کر۔۔۔۔۔ اور وہ زارو قطار رونے لگی،
رچرڈ نے اسے ٹشو پیپر دیا اور تسلی دیتے ہوئے کہا میں نے تمہیں کہا تھا نا
کہ مجھےآزمانے سے پہلے سوچ لینا۔
میری داستان حسرت وہ سنا سنا کے روئے
میرےآزمانے والے مجھےآزما کے روئے
اگلے کچھ روز میں اخبار میں ایک خبر شائع ہوئی کہ پادری کے بیٹے نے اسلام
قبول کر لیا اور اب وہ شادی کرنے پاکستان جا رہا ہے۔ اس خبر کا یونیورسٹی
میں تو کوئی خاص اثر نہ ہوا کیونکہ وہاں مذہبآپکا ذاتی معاملہ ہوتا ہے لیکن
پادری کو اس سے واقعی بہت بڑا جذباتی دھچکا لگا اور ایک دن اس نے حد سے
زیادہ شراب پی لی اور بات دل کے دورے تک جا پہنچی اور اسکے بوڑھے دل کی
رفتار کم ہوتے ہوتے بند ہو گئی۔ رچرڈ کو یوں محسوس ہوا کہ جیسے وہ اپنے باپ
کا قاتل ہے اور اسی سوال کو جاننے کے لئے وہ ایک دن میرے پاسآیا میں نے کہا
کہ ابھی تم نے صرف کلمہ پڑھا ہے لیکن اسلام میں پورا داخل ہونے کے لئے اسکا
گہرا مطالعہ ضروری ہے پھر تمہیں معلوم ہوگا کہ تمہارا باپ تمہاری وجہ سے
نہیں مرا بلکہ اس نے جہالت کی بنیاد پر خود کشی کی ہے اور قیامت کے دن شائد
تم اسکے لئے باعث بخشش بن جاؤ۔ اور سنو ابھی شادی بھی نہ کرنا جب تک کہ
تمہارے دل میں توحید و رسالت راسخ نہ ہو جائے ورنہ ایک لڑکی کے لئے اللہ
اور اسکے رسول کو مان لینا کافی نہیں ہے۔ مگر وہ قرٓان قرٓان ہی نہیں جو
زبان سے جاری ہو اور دل پر اثر نہ کرےآخر ایک دن رچرڈ خود کہہ اٹھا کہ سر :
اب میرا یہ ایمان ہے کہ کرسچن ہونا مذہبی طور پر ادھورا پن ہے اور مکمل اسی
صورت میں ہوتا ہے اگر وہ قرٓان اور رسالت محمدی پر ایمان لےآئے۔ میں نے کہا
جاؤ اب شادی کر لو۔
اس نے کراچی کے ایک بڑے ہوٹل میں اپنے لئے کمرہ بک کروایا تھا اور ہوٹل
والوں کو اس بات پر کافی تعجب تھا کہ یہ گورا نماز بھی پڑھتا ہے۔ اور پھر
مریم اور اسکی شادی اسی ہوٹل میں ہوئی اور وہی کمرہ مریم کا سسرال بن گیا۔
کچھ دن کراچی میں رہنے کے بعد وہ اسلامآباد کے ایک بڑے ہوٹل میں شفٹ ہوئے
جہاں سے کچھ دن بعد انہیں بیرون ملک واپس جانا تھا۔
اس رات انہیں ایک دوست کے ہاں دعوت پر جانا تھا اور دونوں تیاری میں مصروف
تھے دونوں نے خوبصورت پاکستانی لباس پہنا ہوا تھا۔ رچرڈ کو ہزار بند
باندھنا نہیںآتا تھا اور وہ شلوار پر بیلٹ باندھنے کی کوشش کر رہا تھا اور
مریم یہ دیکھ کر خوب ہنس رہی تھیآخر ہزار بند اور بیلٹ دونوں ہی باندھ لئے
گئے۔ اچانک زوردار دھماکہ ہوا، شیشے ٹوٹ کر گرے اور کچھآگ کے گولے کمرے میں
در آئے جس سے ہر طرفآگ بھڑک اٹھی رچرڈ کے حواس جب کچھ سنبھلے تو مریم کے
کپڑوں میںآگ بھڑک رہی تھی وہ خود بھی زخمی تھا لیکن اس نے ہمت کرکے فرش پر
پڑے چھوٹے قالین کے ٹکڑے میں مریم کو لپیٹا اور اسے ہاتھوں میں اٹھا کر
کمرے سے باہر کی طرف دوڑا لیکن یہاں تو ہر طرفآگ ہیآگ تھی اور قیامت کا
منظر تھا۔ رچرڈ نے ہوٹل کے لاؤنچ کی طرف پوری قوت سے بھاگنا شروع کر دیا۔
مریم کے کانوں میں اس کے یہ لفظ گونج رہے تھی کہ
Miriam, don’t worry I wont let you die.
مریم فکر نہ کرو میں تمہیں مرنے نہیں دوں گا۔ وہ مریم کو بچانے کی کوشش میں
بری طرح جھلس چکا تھا اور بارودی چھرے اسکے جسم میں پیوست ہو چکے تھے۔ مریم
کو تو تین دن میں ہسپتال سے فارغ کر دیا گیا لیکن رچرڈ جانبر نہ ہو سکا اور
کئیآپریشن ہونے کے بعد بھی اسے ہوش نہآیا اور وہ سات دن موت وحیات کی کشمکش
میں رہنے کے بعد دنیا چھوڑ گیا۔ واہ مولا واہ تیرے رنگ نرالے ہیں کچھ لوگ
ساری زندگی کی ریاضت و عبادت کے بعد بھی جو حاصل نہیں کر سکتے رچرڈ چند
مہینوں میں وہ منزل پا گیا۔ مریم لان میں بیٹھی سوچ رہی تھی کہ محبت بھی
کتنی عجیب چیز ہے کسی سے نہ ہو تو کبھی نہ ہو اور اگر ہونے پہآئے تو کسی
مرے ہوئے سے بھی ہو جائے۔آج اس نےآنسوؤں سے چار لائنیں لکھیں کاش رچرڈ
انہیں پڑھ سکتا
اس نا مکمل سی اک کہانی میں
وہ ایک لفط کہ جو مکمل ہے
وہ لفظ جو میں نے سیکھا تھا
وہ لفظ جو اس نے بولا تھا
وہ لفظ جو دل کی دولت ہے
ہاں مجھ کو تم سے محبت ہے |