زخم زخم پاک وطن
(abdulrazzaq choudhri, lahore)
وزیراعظم نواز شریف کا تازہ ترین بیان
نگاہوں کی زینت بنا جس میں وہ فرماتے ہیں کہ پاکستان مشکلات سے نکل رہا ہے
اور دو ہزار سترہ امن کا سال ہو گا اور لوڈ شیڈنگ سمیت ہر قسم کے بحران پر
قابو پا کر ایک عظیم پاکستان تخلیق کریں گے۔وزیر اعظم کے اس خوش آئند بیان
پر نہ جانے دل کو تسلی کیوں نہیں ہوئی بلکہ الٹا ذہن کے کینوس پر فکر سے
لبریزخیالات کے لامتناہی سلسلہ کا آغاز ہوا جو پاکستان کی سات دہائیوں پر
محیط تاریخ کی سیر کرنے نکل کھڑا ہوا۔کرہ ارض پر جلوہ افروز ملک پاکستان
ایک ایسی سر زمین ہے جو قدرتی نعمتوں سے مالا مال ہے لیکن افسوس ناک امر یہ
ہے کہ مختلف النوع وسائل سے مالا مال ہونے کے باوجود اس کے ماتھے پر غریب
اور پسما ندہ ملک ہونے کا ٹیگ چسپاں ہے ۔ہمارے حکمران روز اول ہی سے روشن
ضمیری اور خود انحصاری جیسے اوصاف سے نابلد نگر نگر قرضوں اور امداد کی
خاطر محو سفر رہے۔اور یہ مشق ہر آنیوالے حکمران نے دہرائی لیکن چشم فلک نے
ان کے چہروں پر کبھی ملال دیکھا اور نہ ہی عوام نے ان کو کبھی متفکر پایا ۔
وجہ صاف ظاہر کہ یہ حکمران ایمانداری کے جوہر سے عاری،خوف خدا سے بے پرواہ
، صبروقناعت کی دولت سے محروم ،دنیاوی لذتوں کے پروردہ،دولت کے پہاڑ جمع
کرنے کے شوقین،جذبہ ایمانی سے تہی،اخلاقی گراوٹ کا شکار ،انسانیت کے درد سے
ناآشنا ،ذاتی مفاد کے نگہبان، عوامی خدمت کے ہنر سے محروم،فرائض منصبی سے
قطعی غافل اور قرضوں و امداد کے متمنی تھے اور پھر ان حکمرانوں کا کشکول جب
قرضوں اور امداد سے لبالب بھر گیا تو انہوں نے اس قرضے اور امداد کو غریبوں،
مسکینوں اور مفلسوں کے شب و روز کی تلخی کو کم کرنے پر خرچ کرنے کی بجائے
ایسے ایسے جعلی اور کاغذی منصوبے تشکیل دئیے جس سے وطن عزیز کے خاک نشینوں
کوتو اپنی زندگی میں معمولی ردوبدل بھی دیکھنا نصیب نہ ہوا لیکن ان مقتدر
افراد کی دولت میں ناقابل یقین حد تک اضافہ ہو گیا۔آپ بھی میری طرح
ایمانداری سے سوچیے کیا حکمرانوں نے کبھی اس قرضہ اور امداد کو غربت کے
خاتمہ، عدل و انصاف کے حصول، جرائم کے تدارک اور تعلیم و صحت پر خرچ کیا۔
یقینی طور پر آپ کا جواب بھی میری طرح نفی میں ہو گا ۔بد قسمتی سے جہاں وطن
عزیز میں بصیرت سے عاری حکمرانوں کا راج رہا وہیں آسمانی آفات نے بھی ارض
وطن کو پھلنے پھولنے کا موقع نہ دیا کبھی بپھرے دریاوں کی طغیانی نے سیلاب
کی صورت ایسی روح فرسا تباہی مچائی کہ اس کی تباہ کاریوں کے اثرات کئی برس
تک مدہم نہ ہوے اور کبھی زلزلوں نے ایسے دلخراش حادثات کو جنم دیا کہ غیور
قوم بیرونی امداد کی محتاج ہو گئی اور عرصہ دراز تک اس نقصان کا ازالہ نہ
کر پائی۔اور پھر رہی سہی کسر دہشت گردی کے عفریت نے پوری کر دی۔ عرصہ دراز
سے قوم ان شیطانی قوتوں سے بر سر پیکار ہے اور جانی و مالی قربانی کی زد
میں ہے۔اربوں روپے اس عفریت سے نجات حاصل کرنے کی خاطر خرچ ہو رہے ہیں جو
ملکی معاشی حالات کو مد نظر رکھتے ہوے ایک خطیر رقم ہے ۔ اس رقم سے عوام
الناس کی فلاح و بہبود کے بے شمار منصوبے شروع کیے جا سکتے ہیں جو غربت کے
خاتمہ کا سبب بن سکتے ہیں لیکن امن و امان کی مخدوش صورتحال وطن عزیز کی
معاشی زبوں حالی کا سبب بن رہی ہے ۔
وطن عزیز میں انیس سو اٹھانوے کے بعدمردم شماری نہیں ہوئی ۔ اب جس وقت مردم
شماری کا مرحلہ بخیرو خوبی طے پا گیا تو رونگھٹے کھڑے کر دینے والی یہ
حقیقت بھی ہمارے سامنے ہو گی کہ ملکی آبادی میں کس قدر اضافہ ہو چکا ہے اور
کس رفتار سے اس میں مذیدٖ اضافہ متوقع ہے۔جس برق رفتاری سے آبادی بڑھ رہی
ہے اسی تیزی سے وسائل کم ہو رہے ہیں۔تحقیقی اداروں کے مطابق دو ہزار پچاس
میں پاکستان کا آبادی کے لحاظ سے دنیا بھر میں پانچواں نمبر ہو گا تو چشم
تصور سے اندازہ کیجیے تب پاکستان کی مجموعی صورتحال کیسی ہو گی ۔ سوچ کر ہی
کپکپی طاری ہو جاتی ہے۔ہر آنیوالا دن بے روز گاروں کی تعداد میں اضافہ کا
باعث بن رہا ہے اور غربت تشویشناک حد کو چھو رہی ہے۔ ناقص معاشی منصوبہ
بندی کی بدولت مہنگائی کا جن بے قابو ہے اور روز مرہ اشیائے خوردو نوش کا
حصول غریب تو کیا مڈل کلاس کی پہنچ سے بھی کوسوں دور ہے۔وطن عزیز کا غریب
ذلالت و رسوائی کا طوق گلے میں لٹکائے جیسے تیسے زندگی کے دن کاٹ رہا ہے
جبکہ مڈل کلاس قدم قدم پر اپنا بھرم کھو رہی ہے اور تیزی سے غربت کی لکیر
کی جانب محو سفر ہے۔تعلیم، صحت اور معاش روبہ زوال اور جرائم کی دنیا پروان
چڑھ رہی ہے۔غیر مستحکم معاشی ڈھانچہ نوجوانوں کو مایوسی کا آئینہ دکھا رہا
ہے اور ناامیدی کا درس دے رہا ہے قطع نظر اس بات کے کہ حکمرانوں کے پر فریب
دعوے اور وعدے آج بھی نقطہ عروج کو چھو رہے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ وطن
عزیز معاشی اعتبار سے ندامت کی عملی تصویر پیش کر رہا ہے اور نتیجے کے طور
پر وطن عزیز کے زرخیز ذہن بیرون ملک پرواز کر چکے ہیں اور کچھ رخصت ہونے کے
لیے پر تول رہے ہیں ۔باقی ماندہ جرائم کی دنیا کے بے تاج بادشاہ بننے کے
خواب دیکھ رہے ہیں یا پھر نفسیاتی امراض کا شکار ہو کر خاندان کے کاندھوں
پر مذید بوجھ ڈال رہے ہیں۔ دوسری جانب والدین علیٰحدہ اپنے دل کے ٹکڑوں کی
حالت پر متفکر ہیں۔ان کی بے روزگاری اور مایوسی کو دیکھ کر روز جیتے اور
روز مرتے ہیں۔آخر یہ سلسلہ کہاں جا کے رکے گا ۔ کب عوام کے چہروں کو طمانیت
نصیب ہو گی۔کب ناامید یوتھ کے لیے معاشی دروازے کھلیں گے۔کب ان کی آنکھوں
کے سامنے ان کا روشن مستقبل رقص کرے گا۔خدارا اب بس کیجیے۔ بہت کھلواڑ ہو
گیا اس قوم کے وسائل سے۔آپ بہت کھیل چکے اس قوم کے جذبات سے۔بہت امتحان لے
چکے قوم کے صبر کا۔اپنی تجوریاں خوب بھر چکے ہو اب غریبوں کے تن پر بھی
پوشاک پہنا دو۔اب خوراک کے چند قطروں کو غریبوں کے بدن کا حصہ بننے دو۔اب
ان غریبوں کی جھگی میں روشنی کی چند کرنیں چھوڑ دو۔ان کی خدمت کے ڈرامے
چھوڑ کر ان کو حقیقی معنوں میں پر بہار زندگی کی اک رمق بخش دو۔بس کرو بہت
ہو گیا۔ اب تہیہ کر لو ان کی تقدیر بدلنے کا اور اپنی آخرت سنوارنے کا۔ ان
کے حالات بدلنے کا۔ ان کے دامن کو خوشیوں اورمسرتوں سے لبریز کرنے کا۔ان کی
روح کو تسکین بخشنے کا۔ان کی آل اولاد کو تعلیمی زیور سے آراستہ کرنے کا
اور ان کے خوابوں کو تعبیر دینے کا۔ ابھی وقت ہے- |
|