قانون کو رکھا گیا بالائے طاق
(Falah Uddin Falahi, India)
ملک کی راجدھانی میں واقع جواہر لال نہرو
یونیورسٹی کے معمولی واقع پوری دنیا میں بحث کا موضوع بن گیا ہے ۔ہر چہار
جانب سے دیش پریم اور دیش دروہی پر باتیں کی جارہی ہیں ۔یونیور سٹی طلبہ پر
دیش مخالف نعرے بازی کے الزامات لگائے جا رہے ہیں جس پر طلبہ تنظیم کے صدر
کی گرفتاری بھی ہوئی اور مزید کی تلاش بھی جاری ہے ۔اس کے ساتھ ہی کورٹ میں
پیشی کے دوران وکیلوں نے جس طرح کا مظاہرہ کیا اور پولیس کا ان کے ساتھ کس
طرح کا رویہ تھا یہ سب نظارہ دنیا نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ۔اس پر تبصرہ
کرنے کی ضرورت نہیں ہے کہ کس طرح آج قانون اور عدلیہ کا مزاق اڑایا جا رہا
ہے اور چند لوگ قانون کو اپنے ہاتھوں میں لینے کیلئے کس قدر بے تاب ہیں اور
امن وآمان کو برقرار رکھنے والی پولیس کا کس قدر افسوسناک رویہ سامنے آیا
ہے یہ سب نے دیکھا اور پولس کمشنر کی باتوں کو بھی سنا ۔ایسا لگتا ہے جیسے
ہماری انتظامیہ کو اپنے فرائض سے زیادہ کسی کی دل جوئی زیادہ اہمیت رکھتی
ہے ۔بہر کیف ملک کی سب سے اعلی عدلیہ کی ٹیم کے ساتھ جس طرح سے بد سلوکی کی
گئی اور میڈیا والوں کو جس طریقے سے نشانہ بنایا گیا وہ ہندوستان کی تاریخ
میں بن چکا ہے ۔اسے کوئی جھٹلا نہیں سکتا ہے کہ ہمارے ملک عزیز کے قانون و
انتظام کو کچھ اور چند عناصر نے کس قدر کمزور کرنے کی کوشش کی ہے اور وہ
اپنی اس کوشش میں کامیاب ہونے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن یہ کبھی ممکن نہیں
ہو سکتی ۔میڈیا میں کچھ چینل اپنے فرائض سے زیادہ انہیں اپنے کاروبار عزیز
ہیں ۔اس کی مثال وہ ایک دو سالوں سے برابر دیتے آئے ہیں ۔ابھی بھی چنگاری
میں آگ لگانے کا کام بھی کچھ نے کیا ہے یعنی ہمارے کچھ میڈیا نے تو نعرے
بازی کی آدھی کلپ دکھا کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ یونیورسٹی کیمپس
میں ملک مخالف نعرے بازی کی جا رہی ہے ۔اور اسی کے آدھار پر ملک میں دیش
دروہی کیخلاف ماحول بنا یا جا رہا ہے تب ہی آج کچھ چینل نے حقیقی وڈیو اور
مکمل چلا کر ہندوستانیوں کو حیرت میں ڈال دیا ہے کہ اس میں تو طلبہ لیڈر
سمیت سبھی نے نعرے بازی تو کی لیکن وہ آزادی کے نعرے بھی عجیب تھے ۔یعنی
بھوک سے آزادی لے کر رہیں گے ،سرمایہ داروں سے آزادی لے کر رہیں گے وغیرہ
وغیرہ اس میں ملک مخالف کہیں بھی کوئی الفاظ سنائی نہیں دے رہا ہے حالانکہ
خبر ہے کہ اب تمام نیوز چینلوں کی چھان بین اپنے انداز میں پولیس کرنے لگی
ہے ۔ان سب معاملے میں ایک بات قابل ذکر ہے کہ ان سب سے آخر فائدہ کس کو ہوا
کون لوگ ہیں اور ان کے مقاصد کیا ہیں ؟وہ ملک میں ایک دوسرے کو محب وطن اور
دیش دروہ ثابت کرنے کی کیوں کوشش کر رہے ہیں ۔آخر کس کے مقاصد کی تکمیل ہو
رہی ہے یہ اور اس طرح کے نا جانے کون کون سے سوالات عوام میں گردش کر رہے
ہیں جس کی تلافی کون کریگا یہ کس کی ذمہ داری ہے کہ اس طرح کے واقعات پر
حتمی فیصلہ انصاف کے ساتھ کرے اور ملک کے ماحول کو خراب کرنے والوں پر
کارروائی کرے ۔ان سوالات کے جواب ہر کوئی جانتا ہے کہ ان سب پر کنٹرول حاصل
کرنے کیلئے حکومت کو آگے آنا ہوگا وہ بھی اس مہم کے ساتھ کہ ہمارے ہندوستان
میں کوئی دیش دروہی کی کوئی گنجائز ش ہو ہی نہیں سکتی ہے اور نہ کوئی اس کی
سرپرستی کرے گا ۔لیکن آزادی کے اتنے سالوں بعد دیش دروہی کا معاملہ کیونکر
اٹھایا جا رہا ہے اس پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے اور آخر اس کی ضرورت ہی
کیوں پڑی ۔جب کہ دیکھا یہ گیا ہے کہ جب جب ملک کو کسی کے تعاون کی ضرورت
پڑی یہاں کے عوام نے دل کھول کر اپنی جان نچھاور کی ہے آج تک کہیں بھی کوئی
ایسا شخص نہیں دکھا جو دیش مخالف کارروائی میں ملوث ہو۔ گنے چنے کے علاوہ
آج تک یہ آواز کم ہی دیکھنے میں آئی ہے اور عوام نے ایسے عناصر کو ہمیشہ
مسترد کیا ہے ۔
|
|