عراق، امریکی حملے کے سات سال

عراق پر امریکی حملے کو سات سال ہو چکے ہیں، دنیا کو پر امن بنانے اور دہشت گردی ختم کرنے کے نام پر شروع کی گئی کروسیڈی جنگ جس کی ابتداء2001ء میں افغانستان کی پرامن حکومتِ طالبان پر حملہ کے ساتھ کی گئی اور 2003ء میں اگلا قدم اٹھاتے ہوئے عراق پر مسلط کی گئی۔ عشرۂ رواں کی ان جنگوں نے صرف دو ملکوں افغانستان و عراق ہی نہیں دنیا بھر کو جن حالات سے دوچار کر دیا ہے، اس سے قبل شاید اس کا تصور بھی نہیں کیا گیا تھا۔ حیرت انگیز امر یہ ہے کہ بہت سے ممالک ان دونوں جنگوں میں امریکی حملے کو غلط اور اس سلسلے میں اس کی جاری کردہ پالیسیوں کو تنقید کا ہدف بنانے کے باوجود، مختلف جہات سے اس کا تعاون و شراکت جاری رکھے ہوئے ہیں۔ امریکی حملوں نے دونوں ملکوں میں لوہے اور بارود کی وہ آگ بھڑکائی ہے جس نے لاکھوں زندگیاں جلا کر بھسم کر دی ہیں۔ شہروں کے شہر تباہ و برباد، ہنستے کھیلتے علاقے ویران و سنسان اور ہر جگہ وحشت و خوف کے ڈیرے آباد ہو گئے۔ عراقی عوام کو جس دھوکے کی بنیاد پر اپنے حملے کا جواز پیدا کیا گیا تھا، ممکن ہے کچھ حلقوں نے اس وقت پروپیگنڈوں سے متاثر ہو کر دھوکے کو حقیقت سمجھ لیا ہو اور امریکہ کی آمد کو سراہا ہو مگر آنے والے دنوں نے بہت جلد ان کی ایسی تمام توقعات کو غلط ثابت کر دیا، ان کے لگائے ہوئے اندازے نقش برآب کی طرح دیکھتے ہی دیکھتے محو ہو گئے اور حقیقت کا آفتاب ان کی نظروں کے سامنے چمکنے لگا اور یہی وہ لمحہ تھا جب عراقی عوام نے خود اپنے دفاع کا فیصلہ کیا، عراقی فوج تو نہ معلوم دفاع کے کس پیمانے پر ہوتی مگر جب عوامی طاقت کا ریلہ کسی رخ بہہ نکلے اور وہ رخ بھی صداقتوں کی منزل کا ہو، تو پھر اس کا مقابلہ کرنا، اور اس کے آگے بند باندھنا ناممکن ہو جاتاہے، یہی کچھ عراقی عوام کے ساتھ ہوا، اسے دھوکہ صدام حسین کی آمریت سے چھٹکارے کا دیا گیا، ایٹمی تباہ کن ہتھیاروں کی موجودگی کا جھوٹا واویلا کر کے پوری دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونک کر حملہ کر دیا گیا، بغداد جیسا تاریخی شہر آتش فشاں کا منظر پیش کرنے لگا۔ وہی عراق، جہاں اسلامی تاریخ کے نادرۂ روزگار خزانے مدفون ہیں۔ ایک وقت تھا علم و فن کی تکمیل ہی اس وقت تک نہ ہوتی تھی جب تک عراق میں موجود کسی صاحب علم وفن کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ نہ کئے گئے ہوتے، محدثین کے کتنے ہی قافلے اس ملک کے مختلف شہروں میں آئے، ان میں سے کچھ واپس اپنے علاقوں یا کسی اور علاقے کا رخ کر جاتے جبکہ کتنے ہی ایسے نفوس مقدسہ تھے جنہوں نے علم ہی کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا کر وہاں اپنے ڈیرے ڈالے اور قیامت تک کیلئے وہیں کے ہو رہے، کوفہ و بغداد کو اسلامی تاریخ سے نکال دیا جائے تو ہمارے پاس بچتا ہی کیا ہے، حضرات صحابہ کرامؓ نے علاقے تو بہت سے فتح کئے مگر ان کے فیض کے جو چشمے عراقی سر زمین سے جاری ہوئے بہت کم کسی اور مفتوحہ علاقے کو یہ شرف ملا ہو گا، اور کچھ نہ ہو کیا یہ شرف کم ہے کہ ’’باب العلم‘‘ سیدنا علی المرتضیٰ کرم اﷲ وجہہ کے علمی فیوضات کی نہریں اسی خطے کے حصے میں آئیں جہاں دجلہ وفرات کی پاکیزہ نہریں اور ان سے وابستہ محدثین، فقہاء اور صوفیاء عظام کی سینکڑوں کیا ہزاروں داستانیں وابستہ ہیں، مسالک اربعہ میں سے مسلک حنفیہ(جس کے پیروکار بقیہ تینوں مسالک سے زیادہ ہیں اور دنیا کے ہر خطے میں موجود ہیں) کا آفتاب و ماہتاب اسی خطے سے طلوع ہوا اور اپنی منور علمی و فقہی شعاؤں سے عالم کو بقعۂ نور بنا دیا۔ جی ہاں عراق سے وابستگی و دلبستگی کی ہزاروں حسین یادیں ہیں جو ایک تاریخ کے طالب علم سے زیادہ قرآن و حدیث اورفقہ اسلامی کے طالب علم ہونے کی حیثیت سے راقم کے دل و دماغ میں سمائی ہیں۔ جو عراق کا ذکر آتے ہی بے اختیار نوکِ قلم پر آگئیں۔

ذکر ہو رہا تھا عراق پر امریکی حملے کا، اس حملے کو سات سال مکمل ہو چکے، اطلاعات کے مطابق سات سال مکمل ہونے پر پورے ملک میں امریکی جارحیت کیخلاف مظاہرے کئے گئے، وہاں کی عوام نے برملا اس بات کا اظہار کیا کہ صدام حسین سے چھٹکارا دلانے کا امریکی اعلان محض دھوکہ تھا، خطرناک ایٹمی ہتھیاروں کی موجودگی خالی پروپیگنڈہ تھا، امریکہ کا اصل مقصد عراق میں موجود قدرتی ذخائر و معادن کو ہتھیانا اور عراق میں موجود دو اکثریتی فرقے شیعہ و سنی کو باہم لڑا کر اپنے مفادات کو طول دینا تھا، عراقی عوام نے مطالبہ کیا کہ امریکہ جلد ازجلد اپنی باقی ماندہ فوج کو یہاں سے نکالے، عراقی عوام پر اپنی مرضی کا کوئی فیصلہ مسلط کرنے کی کوئی کوشش کامیاب نہیں ہو سکتی، اس لئے امریکہ ایسی کسی سازش کی آگ نہ بھڑکائے، عراقی عوام نے اپنے معاملات خود نبٹا لے گی، آج اگر عراقی قوم اس پوزیشن میں آئی ہے کہ وہ برسر عام ملک بھر میں امریکی و غیر ملکی فوجیوں کے انخلاء کا مطالبہ کر رہی ہے تو یاد رکھنا ہوگا کہ اس کے پس منظر میں ان کی وہ قربانیاں ہیں جو انہوں نے غیر ملکی تسلط کے خاتمے کیلئے ادا کی ہیں، عراقی قوم کے ایک بہت بڑے طبقے نے صلیبی سپاہ کو اپنے کئے کا مزہ چکھانے اور دنیا کی طاقتور و ناقابل شکست فوج ہونے کا غلط تصور کا دوسرا رخ دکھانے کیلئے اس انداز سے جہاد فی سبیل اﷲ کا آغاز کیا جس نے نہ صرف امریکیوں کو بلکہ اسلامی دنیا کو بھی ورطہ حیرت میں ڈال دیا، وہی نوجوان جو پہلے’’آزاد فضاؤں‘‘ اور دنیا کی ’’رنگینیوں‘‘ سے دل لگا بیٹھے تھے یکسر بدل گئے، اب ان کا ظاہر تو ’’دنیا دارانہ‘‘ تھا مگر بباطن’’شیرِ اسلام‘‘ کی روح ان میں اتر چکی تھی، ان کا یہ لبادہ ان کی جہادی حدود کی توسیع میں بے حد فائدہ مند ثابت ہوا،کہیں بھی انہوں نے کاروائی کی دشمن کو بھاری نقصان پہنچایا اور پھر وہاں سے خالی ہاتھ ہو کر یوں چلتے بنے جیسے ان افراد کا اس واقعے سے دور دور تک کوئی تعلق ہی نہ ہو ، کسی کو شک گزرتا نہ انہیں گرفتار کرنے کا وہم، بس وہ مجاہد اکثر وبیشتر بخیر وعافیت واپس اپنے ٹھکانوں میں پہنچ جاتے۔ عرب میں موجود دینی غیرت اور جذبہ حمیت رکھنے والے نوجوان ایک عرصہ سے ایسے’’آزادنہ محاذ جنگ‘‘ کے متمنی تھے جو عراق کی شکل میں اﷲ تعالیٰ نے انہیں اپنے قرب وجوار ہی میں عطا کر دیا یوں سینکڑوں ہزاروں سعادت مند روحیں محاذوں کا رخ کرنے لگیں اور دیکھتے ہی دیکھتے عراقی محاذ امریکیوں و غیر ملکیوں کیلئے جہنم زار بن گیا، ان کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا یہاں کا جدید تعلیم یافتہ اور آزاد منش طبقہ، اس حیرت انگیز طریقے سے انگڑائی لے گا اور ان میں اس درجہ قومی غیرت اور ملی حمیت جاگزین ہو گی جو انہیں اس درجہ بیدار کر دے گی اور ان کا ردعمل اس قدر جارحانہ ہو گا جس سے ہمارے قدم اس قدر جلد اکھڑ جائیں گے۔۔۔؟

پھر اﷲ تعالیٰ نے یہ بھی کرم فرمایا کہ ان نئے مجاہدین کو قیادت کیلئے بہت سے تجربہ کار مجاہد مل گئے، جن میں ایک جگمگاتا روشن نام’’زرقاوی شہید رحمۃ اﷲ علیہ‘‘ ہے۔ زرقاوی شہیدؒ کی جرأت و بے باکی اور کامیاب جنگی حکمت عملی نے اسلامی تاریخ کے پہلے دور کے جہادی واقعات کی یاد تازی کر دی، زرقاوی شہید عراقی مجاہدین کیلئے نعمت غیر مترقبہ ثابت ہوئے، ان کی قیادت میں مجاہدین منظم ہوئے، اعلیٰ و مضبوط تربیت کا انتظام اور اصل اہداف پر بھرپور کاروائیوں نے انہیں مجاہدین میں حددرجہ مقبول بنا دیا اور انہی کے نقش قدم پر مختلف علاقوں میں غیر ملکیوں کیخلاف انتہائی منظم ،حیران کن اور دشمن کو دھلا دینے والی کاروائیوں کا آغاز ہوا، جس نے امریکہ کو افغانستان سے بھی جلد عراق سے اپنے انخلاء کا سوچنے پر مجبور کر دیا اور بالآخر 2011ء تک اپنے مکمل انخلاء کا اعلان کیا گیا اور اب اسی سکیم کے تحت کئی علاقوں سے اپنی فوج بلالی گئی ہے اور امریکہ نے کوشش کی ہے کہ وہاں انتخابات کے ذریعہ ایک کٹھ پتلی حکومت تشکیل پا جائے جس کا آغاز ہو چکا ہے اور مختلف ڈھانچے تشکیل پا چکے ہیں لیکن نتیجہ خیز صورتحال اسی وقت سامنے آئے گی جب امریکی انخلاء وہاں سے مکمل ہوگا اور عراقی عوام کوا پنے فیصلے کرنے کا آزادنہ موقع ملے گا۔
mudasser jamal
About the Author: mudasser jamal Read More Articles by mudasser jamal: 202 Articles with 366263 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.