مولانا منصور احمد
قیامت برحق ہے اور آج کل یقیناً قربِ قیامت کا دور ہے۔ رحمت ِ کائنات صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جو علامات ِ قیامت بیان فرمائی تھیں ‘ ان کو حرف
بحرف پورا ہوتا ہوا ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔ نااہل قیادت کے بارے
میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تھا: ’’ لوگوں پر بہت سے سال
ایسے آئیں گے جن میں دھوکا ہی دھوکا ہوگا‘ اس وقت جھوٹے کو سچا سمجھا جائے
گا اور سچے کو جھوٹا، بد دیانت کو امانت دار تصورکیا جائے گا اور امانت دار
کو بد دیانت ‘ اور رویبضہ ﴿ گرے پڑے نا اہل لوگ﴾ قوم کی طرف سے نمائندگی
کریں گے۔ عرض کیا گیا:’’ رویبضہ ‘‘ سے کیا مراد ہے؟ فرمایا! وہ نا اہل اور
بے قیمت آدمی جو جمہور کے اہم معاملات میں رائے زنی کرے ۔‘‘ ﴿ ابن ماجہ﴾
اسی طرح ایک اور حدیث پاک میں ایسے دور کی نشانیاں بیان کرتے ہوئے ارشاد
فرمایا : ’’ لوگوں پر ایسا زمانہ بھی آئے گا کہ سچوں کو جھوٹا اور جھوٹوں
کو سچا کہا جائے گا‘ اور خیانت پیشہ لوگوں کو امانت دار اور امانت دار
لوگوں کو خیانت پیشہ بتلایا جائے گا‘ بغیر طلب کئے لوگ گواہیاں دیں گے اور
بغیر حلف اٹھوائے حلف اٹھائیں گے اور کمینے باپ دادا کی اولاد دنیاوی
اعتبار سے سب سے زیادہ خوش نصیب بن جائیں گے جن کا نہ اللہ پر ایمان ہوگا
نہ رسول پر ۔‘‘ ﴿ مجمع الزوائد ﴾
جیسے سیاستدانوں اور حکمرانوں سے ہمیں واسطہ پڑا ہے ان کے حالات دیکھ کر
بلا اختیار ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی یہ مشہور روایت
یاد آجاتی ہے ۔ ’’امام زہری (رح) حضرت عروہ سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت
عائشہ رضی اللہ عنہا نے ایک دفعہ لبید کا یہ شعر پڑھا :
ذہب الذین یعاش فی اکنا فہم
و بقیت فی خلف کجلدالاجرب
﴿ وہ لوگ رخصت ہو گئے جن کے زیرِ سایہ زندگی بسر ہوتی تھی اور میں نکّمے
قسم کے نا اہلوں میں پڑا رہ گیا ہوں ﴾
تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: عجیب بات ہے کہ لبید اپنے زمانہ
والوں کے بارے میں یہ کہتا ہے اگر وہ ہمارا زمانہ دیکھ لیتا تو کیا رائے
قائم کرتا حضرت عروہ (رض) نے فرمایا : اللہ تعالیٰ حضرت عائشہ رضی اللہ
عنہا پر رحم فرمائے اگر وہ ہمارے زمانے کو پاتیں تو کیا کہتیں؟ امام زہری
نے فرمایا: اللہ تعالیٰ عروہ (رض) پر رحم کرے اگر وہ ہمارے زمانے کو پاتے
تو کیا کہتے؟ امام زہری کے شاگرد زبیدی نے فرمایا: اللہ تعالیٰ امام زہری
پر رحم فرمائے اگر وہ ہمارا زمانہ دیکھتے تو کیا کہتے ؟ زبیدی کے شاگرد
محمد بن مہاجر نے فرمایا اللہ تعالیٰ زبیدی پر رحم فرمائے اگر وہ ہمارا
زمانہ دیکھتے تو کیا کہتے؟ محمد بن مہاجر کے شاگرد عثمان بن سعید کہا کرتے
تھے، اللہ تعالیٰ محمد بن مہاجر پر رحم فرمائے اگر وہ ہمارا زمانہ دیکھتے
تو کیا کہتے عثمان کے شاگرد ابو حمید کہتے ہیں اللہ تعالیٰ عثمان پر رحم
فرمائے اگر وہ ہمارا زمانہ دیکھتے تو کیا کہتے؟ امام ابن جریر فرماتے ہیں
اللہ تعالیٰ ہمارے استاذ ابو حمید پر رحم فرمائے اگر وہ ہمارا زمانہ دیکھتے
تو کیا کہتے ؟ ﴿کنزالعمال﴾
یہ ناکارہ عرض کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ شانہ ان سب پر رحم فرمائیں اگر یہ
حضرات ہمارا زمانہ دیکھ لیتے تو ان کا کیا حال ہوتا؟
جب سے مظفر گڑھ سے قومی اسمبلی کے ضمنی انتخابات کا نتیجہ موصول ہوا ہے ایک
عجیب کیفیت ہے۔ جن صاحب نے تھوڑے ہی دن پہلے پاکستان کی عدالت عظمیٰ کے رو
برو یہ اقرار کیا تھا کہ اُن کی اسلامیات کی سند جعلی ہے اور ساتھ ہی یہ
انکشاف بھی کیا تھا کہ انہوں نے حضرت یوسف علیہ السلام کی تحریر کردہ تفسیر
پڑھی ہے ﴿ جب کہ ابھی قرآن مجید نازل ہی نہیں ہوا تھا ﴾ وہ صاحب اپنے حلقہ
انتخاب سے پچاس ہزار سے زائد ووٹ لے کر دوبارہ منتخب ہو چکے ہیں۔ اور کیوں
نہ منتخب ہوتے کہ خود وزیر اعظم صاحب بنفسِ نفیس ان کے حق میں جلسہ عام سے
خطاب کر چکے تھے۔ پھر انہی پر بس نہیں بلکہ فیصل آباد سے صوبائی اسمبلی کی
نشست پر کامیاب ہونے والے صاحب بھی جعلی سند کے نتیجے میں ہی مستعفی ہو چکے
تھے۔ شاید ایسے ہی مواقع کیلئے علامہ اقبال (رح) نے کہا تھا:
تو نے کیا دیکھا نہیں مغرب کا جمہوری نظام
چہرہ روشن ‘ اندروں چنگیز سے تاریک تر
خیال رہے کہ اقبال مرحوم کا یہ تبصرہ اصلی اور ایک نمبر جمہوریت کیلئے تھا
انہوں نے اس نظام کے بارے میں یہ بھی کہا تھا:
اس راز کو ایک مردِ فرنگی نے کیا فاش
ہر چند کہ دانا اسے کھولا نہیں کرتے
جمہوریت ایک طرزِ حکومت ہے کہ جس میں
بندوں کو گِنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے
گننے اور تولنے میں جو فرق ہے اُسے اقبال مرحوم نے اپنے فارسی کے ایک مصرعہ
میں یوں بیان کیا ہے :
درمغزِ صد خر ‘ فکر انسانی نمی آید
﴿ سو گدھوں کے دماغ میں بھی ایک انسان کی عقل نہیں ہوتی ﴾
اگر اقبال (رح) ہمارے دور میں ہوتے اور پاکستان کی جعلی اور دو نمبر
جمہوریت کو دیکھ لیتے تو پھر نجانے وہ کیا کہتے؟ شاید وہی کچھ کہتے جو ایک
دل جلے شاعر نے اپنے ان اشعار میں کہا ہے :
کچھ ایسے ہیں کچھ ویسے ہیں
کچھ سن لو مجھ سے کیسے ہیں
کچھ کڑوے ہیں کچھ کھٹے ہیں
کچھ چٹّے ہیں کچھ بٹّے ہیں
کچھ اچھی خاصی شورش ہیں
کچھ پھوڑے ہیں کچھ سوزش ہیں
کچھ دھبے ہیں کچھ لعنت ہیں
کچھ قوم کے حق میں زحمت ہیں
کچھ رپورٹیں گھڑ گھڑ رکھتے ہیں
کچھ ہر جا گڑبڑ کرتے ہیں
کچھ وطن کے ٹھیکیدار بھی ہیں
کچھ پھول بھی ہیں کچھ خار بھی ہیں
کچھ نیم چڑھے کریلے ہیں
کچھ بندر اور طویلے ہیں
کچھ پانچوں گھی میں ڈالے ہیں
کچھ غیروں کے متوالے ہیں
کچھ لال بجھکڑ بنتے ہیں
کچھ گھمّن چکر چلتے ہیں
کچھ بینگن ہیں ہر تھالی کے
کچھ یار ہیں بس ہریالی کے
کچھ کانوں والے بہرے ہیں
کچھ آنکھوں والے اندھے ہیں
کچھ ڈوری ہیں کچھ لٹو ہیں
کچھ بوجھ ہیں اور کچھ ٹٹو ہیں
کچھ ڈیپو ہیں کچھ کوٹے ہیں
کچھ چمچے ہیں کچھ لوٹے ہیں
کچھ بھینس کو بین سناتے ہیں
کچھ تگنی ناچ نچاتے ہیں
کچھ اکڑی گردن والے ہیں
کچھ آفت کے پرکالے ہیں
کچھ اس کے ہیں کچھ اس کے ہیں
سب آپس ہی کے رشتے ہیں
کچھ نقدی وقدی دیتے ہیں
کچھ عہدے وہدے دیتے ہیں
کچھ مل جل کر عیش اڑاتے ہیں
کچھ چھپ چھپ کر کیش بڑھاتے ہیں
کچھ وقت و زر کے بندے ہیں
کچھ چلتے پھرتے پھندے ہیں
کچھ ان میں کام کے بندے ہیں
ورنہ تو گھورکھ دھندے ہیں
یوں بات تو خاصی لمبی ہے
اک شعر میں لیکن اتنی ہے
ان اندھوں میں اک کانا ہے
وہ اپنا تانا بانا ہے
ان اشعار میں سے جو زیادہ سخت الفاظ پر مشتمل تھے وہ میں نے حذف کر دیے ہیں
لیکن سچ بتائیں کہ کیا صورت ِ حال ایسی ہی بلکہ اس سے بدتر نہیں ہے؟
ہمارے سیاستدان دین ِ اسلام کی اعلیٰ و ارفع روایات کی پاسداری تو کیا کرتے
انہوں نے تو اس سلسلے میں یورپین لیڈروں کی بھی نقالی نہیں کی جہاں معمولی
الزامات پر کامیاب ترین سیاستدان زندگی بھر کیلئے سیاست سے فارغ ہو کر گھر
بیٹھ جاتے ہیں۔
سیاستدانوں کے ساتھ عوام کو بھی اپنے گریبان میں جھانکنا چاہیے جن کے
ہاتھوں کی یہ کمائی ہے۔ جب ہم اپنے اوپر ایسے حکمران خود مسلط کریں گے تو
پھر بدامنی٬ مہنگائی٬ غربت اور زوال و پستی کے ذمہ دار بھی ہم ہی ہیں کوئی
اور نہیں۔
اللہ کرے کہ افغانستان میں جلد دوبارہ اسلامی حکومت قائم ہو اتحادی صلیبی
افواج اپنے برے اور منطقی انجام سے دوچار ہوں اور زمام ِاقتدار اُن درویشان
خدا مست کے ہاتھ میں آئے جنہوں نے صدیوں بعد دنیا کو اسلامی نظام کی جھلک
دکھائی تھی وہ افغانستان کے نوّے فیصد سے زائد حصے پر بلا شرکت غیرے
حکمرانی کر رہے تھے مگر اُن کی سادگی جفا کشی اور خدا ترسی دیکھ کر ہمارے
پاکستانی صحافی بھائیوں کی آنکھوں سے بھی آنسو چھلک پڑتے تھے۔ پاکستان تو
بنا ہی اسلام کے نام پر تھا مگر ہم نے اپنے مقصد تاسیس ایسی بے وفائی کی کہ
آج ہمارے وہ طبقات جن کے ہاتھ میں وطن ِ عزیز کی باگ ڈور ہے وہ اسلام کا
نام لینے سے بھی شرماتے ہیں۔ اللہ کرے کہ اب بھی برادران وطن کی آنکھیں
کھلیں اور اُن کو پتہ چل سکے کہ انہوں نے اسلامی نظام کی بہاروں کو چھوڑ کر
اور جمہوریت کی گلی سڑی لاش کو گلے لگا کر کتنے خسارے کا سودا کیا ہے۔ |