کراچی میں حالیہ ٹارگٹ کلنگ پرامریکی اخبار کا دعویٰ

کیا رینجرز اور پولیس کے اضافی اختیارات گینگ وار اور ٹارگٹ کلنگ کو روک پائیں گے....؟

اَب یقیناً ہمارے اربابِ اختیار اور اقتدار سمیت کراچی میں موجود اُن تمام فعال اور سرگرم سیاسی اور مذہبی جماعتوں کا بھی بڑی ذمہ داری کا کام ہے کہ وہ ایک امریکی اخبار نیویارک ٹائمز کے کراچی میں وقفے وقفے سے ہونے والے ٹارگٹ کلنگ کے واقعات کے حوالے سے اِس من گھڑت اور بے بنیاد دعوے کا خود سے پتہ لگائیں کہ یہ بات کہاں تک سچ ہے اور اِس میں کتنا جھوٹ کا عنصر شامل ہے اور یہ کتنے فیصد اِس پر یقین کرتے ہیں کہ ایک خبر جس کے مطابق امریکی اخبار نے بڑے وثوق سے اپنا یہ دعویٰ کیا ہے کہ شہر کراچی جِسے پاکستان کی وال اسٹریٹ کی حیثیت حاصل ہے یہ شہر گزشتہ کئی ماہ سے افغان طالبان کے لئے ایک انتہائی محفوظ ترین پناہ گاہ بن گیا ہے اور اِس کے ساتھ ہی اِس امریکی اخبار نے اپنے اِسی دعویٰ میں اِس بات کا بھی کھلم کھلا اظہار کیا ہے کہ اہم طالبان جنگجو رہنما بھی اِس شہر میں روپوش ہیں۔اور نہ صرف یہ بلکہ اِس اخبار نے اپنے من گھڑت دعوؤں سے بھر پور مگر ساتھ ہی ابہام سے بھی لبریز اپنی اِس تفصیلی رپورٹ میں اِس بات کا بھی والہانہ انکشاف کرتے ہوئے کہا ہے کہ اِس شہر میں ہونے والی افراتفری اور ہر لمحہ جرائم کے بڑھتے ہوئے واقعات نے بھی اِس شہر کی ترقی روک دی ہے اور اِس طرح سے دنیا کا یہ بارہواں انٹرنیشنل شہر اپنے یہاں روپوش ہونے والے افراد کی وجہ سے مفلوج ہو کر رہ گیا ہے اور یہاں مختلف گینگز کی باہمی لڑائیوں اور سیاسی جماعتوں کے عسکری ونگز نے بھی طالبان کے لئے بہترین جگہ مہیا کردی ہے یوں جس کا بھر پور فائدہ اٹھاتے ہوئے پاکستان کے قبائلی علاقوں میں جاری فوجی آپریشن سے بھاگ کر یہاں تک آسانی سے رسائی حاصل کرنے والے جنگجو اِس شہر میں رہ کر جنگ کی منصوبہ بندی کرسکتے ہیںاور چھپ سکتے ہیں اور ساتھ ہی وہ وقفے وقفے سے اِس شہر کی تعمیر و ترقی اور پاکستان کی خوشحالی کے لئے کام کرنے والی سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے سیاسی اور نظریاتی اختلافات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اِن کارکنوں اور ہمدردوں کا نشانہ بناکر آپس میں لڑوا رہے ہیں۔اور اپنے آپ کو اِس آڑ میں محفوظ کر رہے ہیں۔

اگرچہ یہاں میرا خیال یہ ہے کہ اگر بالفرض یہ مان بھی لیا جائے کہ اِس امریکی اخبار نیویارک ٹائمز کے اِس دعوے میں صداقت ہے تو پھر اِس سے کئی ایک ایسے سوالات جنم لے رہے ہیں کہ جن کے تسلی بخش جوابات حاصل کرنے میں کوئی خاص دقعت نہیں لگنی چاہئے....میں یہ سمجھتا ہوں کہ اِن سوالات کے جوابات کے لئے بس صرف اتنا ہی وقت درکار ہے کہ اگر اِس شہر میں موجود تمام سیاسی اور مذہبی جماعتیں اپنے آپ کو اِس ایک نقطہ پر متفق کرلیں کہ ہمارے درمیان کون ہے جو اپنے وجود کو برقرار رکھنے اور اپنی قوت کا مظاہرہ کر کے خاموشی سے ہمارے کارکنوں اور حامیوں کو نشانہ بناکر ہمارے درمیان نفرت اور کدورت کے بیج بو رہا ہے اور ہمیں آپسمیں دست وگربیان کرنے کی سازشیں بناتا رہتا ہے تو اِس کے لئے سب سے پہلے یہ بہت ضروری ہے کہ یہ تمام سیاسی اور مذہبی جماعتیں اپنے اپنے عسکری ونگز (اگر موجود ہوں یا اُنہوں نے واقعی بنا رکھے ہیں تو اِن)سے کچھ ماہ کے لئے اسلحہ رکھوا دیں تو کوئی شک نہیں کہ کچھ ہی عرصہ میں خود بخود دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہوجائے گا اور یہ بھی پتہ چل جائے گا کہ وہ کون ہے کہ جو ایک عرصہ سے شہر کراچی کا امن و سکون کون تباہ وبرباد کر رہا ہے اور جب یہ بات پوری طرح سے عیاں ہوجائے تو پھر کراچی میں موجود تمام سیاسی اور مذہبی جماعتوں کو باہم متفق اور متحد ہوکر اُس ملک دشمن ٹولے کے خلاف بھی ضرور آواز بلند کرنی ہوگی جس کی وجہ ٹارگٹ کلنگ کے واقعات زور پکڑ جاتے ہیں۔اور کراچی میں کسی بڑی ظاہری وجہ سے نہیں بلکہ معمولی معمولی باتوں سے اَب تک سیکڑوں افراد پر ٹارگٹ کلنگ کے باعث لقمہ اجل بن چکے ہیں۔

ہمارے ارباب اختیار کو شائد اِس حقیت سے بھی کسی حد تک انکار ممکن نہ ہو کہ کراچی میں حالیہ دنوں میں ہونے والے ٹارگٹ کلنگ کے واقعات میں اِن ہی روپوش عناصر کا ہاتھ ہو جو قبائلی علاقوں میں جاری فوجی آپریشن سے بھاگ کر یہاں کراچی میں چھپ کر اپنی اِس قسم کی کارروائیاں کر کے اپنے غم و غصے کا اظہار کر کے حکومت سے انتقام لے رہے ہوں اور حکومت کو یہ باور کرانا چاہتے ہوں کہ ہم کہیں بھی کچھ بھی کر اور کروا سکتے ہیں۔

جبکہ یہ خبر بھی یقیناً اہل کراچی اور یہاں سرگرم سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے ساتھ ساتھ کراچی کے عوام کے لئے بھی حوصلہ افزا ہے کہ گزشتہ دنوں وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ کی صدارت میں کراچی میں حالیہ ٹارگٹ کلنگ کے رونما ہونے والے افسوسناک واقعات جن میں 42معصوم قیمتی انسانی جانیں لقمہ اجل بن اِن کی آئندہ روک تھام کے لئے اپنی نوعیت کا ایک انتہائی اہم ترین اجلاس منعقد ہوا جس میں وفاقی وزیر داخلہ عبدالرحمن ملک، وزیر داخلہ سندھ ڈاکٹر ذوالفقار مرزا اور دیگر اعلیٰ حکام نے شرکت کی تھی اِس اجلاس میں متفقہ طور پر سندھ میں رینجرز کو دیئے گئے خصوصی اختیارات میں مزید تین ماہ کی توسیع کرنے کے ساتھ ساتھ یہ بھی قطعاً اور کُلی طور پر فیصلہ کیا گیا کہ شہر کراچی کے حساس علاقوں کی نگرانی کے لئے شہر کراچی کو زونز میں تقسیم کیا جائے گا اور کراچی میں ہتھیار لے کر چلنے، پبلک مقامات، سڑکوں، بازاروں، گلی کوچوں اور عمارتوں پر سیاسی جماعتوں کے جھنڈے اور بینرز لگانے پر مکمل پابندی ہوگی اور شہر میں بڑھتے ہوئے ٹارگٹ کلنگ کے واقعات کو روکنے کے لئے یہ فیصلہ بھی کیا گیا ہے کہ ٹارگٹ کلنگ میں ملوث افراد کی نشاندہی کرنے والے شخض کو ایک کروڑ کا انعام دیا جائے گا(مگر اِس کے بعد خود اِس کے تحفظ کی کوئی ضمانت دینے کا کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا)اور اِس کے ساتھ ہی وفاقی وزیر داخلہ رحمن ملک نے اِس موقع پر اپنا سینہ چوڑا کرتے ہوئے یہ اہم اعلان بھی کیا ہے کہ ٹارگٹ کلنگ میں ملوث افراد کو گرفتار کرنے والے پولیس اہلکار کو فوری ترقی دیدی جائیگی اور اِس کے علاوہ ایک اخبار کی خبر کے مطابق صوبائی وزیر داخلہ ڈاکٹر ذوالفقار مرزا نے بھی ہمت پکڑی اور اِس اجلاس میں بڑے ہی پُر جوش اور اپنے والہانہ انداز سے کہا کہ کراچی میں ٹارگٹ کلنگ کے بڑھتے ہوئے واقعات کی روک تھام کے لئے رینجرز اور پولیس کو شرپسندوں کو دیکھتے ہی گولی مارنے کا حکم دے دیا گیا ہے۔ اگرچہ اِس میں بھی کوئی شک نہیں کہ اِس اجلاس میں کئے گئے فیصلوں کے بعد رینجرز اور پولیس کو ملنے والے خصوصی احکامات اور اختیارات کے نتیجے میں گزشتہ دو ایک روز کے دوران کراچی میں ہونے والے ٹارگٹ کلنگ کے واقعات میں زیادہ نہیں تو تھوڑی بہت ضرور کمی واقع ہوئی ہے۔ جِسے ایک اچھا امر ضرور قرار دیا جاسکتا ہے مگر اِس کے باجود بھی عوام یہ سوچنے پر مجبور ہے کہ اِس قسم کے احکامات ہر بار رینجرز اور پولیس کو دیئے جاتے ہیں مگراِس کے باوجود بھی نتیجہ کچھ نہیں نکل پاتا ...کچھ دن تو کراچی کے حالات ٹھیک رہتے ہیں اور پھر چند ہی دنوں بعد ہی اچانک شہر کراچی کی سڑکوں، گلیوں اور بازاروں میں دہشت گرد عناصر یوں ہی دندناتے پھرتے ہیں اور پھر کسی خاص اشارے پر یہ معصوم انسانی جانوں کی ٹارگٹ کلنگ کی صورت میں خون کی ہولی کا کھیل، کھیل جاتے ہیں اور اِن کی اِن گھناؤنی کاروائیوں سے شہر پر خوف و ہراس کی فضا قائم ہوجاتی ہے اور پورا شہر کسی قبرستان کا منظر پیش کرنے لگتا ہے اور اِسکے بعد پھر صوبائی حکومت کا کوئی ایساہی اجلاس ہوتا ہے اور فورسز کو خاص احکاما ت سونپ دیئے جاتے ہیں جس کے نتیجے میں کچھ روز تو امن قائم رہتا ہے اور پھر یکدم سے وہی کچھ ہوجاتا ہے جس کی روک تھام کے لئے رینجرز اور پولیس کو خصوصی احکامات دیئے جاتے ہیں۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہر بار ہونے والے ٹارگٹ کلنگ کے واقعات کے بعد رینجرز کو خصوصی احکامات ملیں گے تو رینجرز اپنے فرائض انجام دے گی ورنہ نہیں....

اِس ساری صورت حال میں ضرورت اِس امر کی ہے کہ حکومت شہر کراچی کو اُن دہشت گرد عناصر سے پاک کرنے کے لئے ترجیحی بنیادوں پر ایسے اقدامات کرے کہ جو علاقہ غیر سے بھاگ کر یہاں روپوش ہوگئے ہیں اور یہ وہی لوگ ہیں جو اکثر وبیشتر خود سے اور کبھی کسی کا آلہ کار بن کر شہر کراچی کا امن وسکون معصوم انسانی جانوں کو موت کے گھات اُتار کر تباہ وبرباد کردیتے ہیں اور اِس کے بعد ہماری سیاسی جماعتوں کے رہنما خود ہی ایک دوسرے پر الزام تراشیاں کر کے آپس میں کدورتیں بڑھاتے ہیں اور اِس حقیقت کو پسِ پشت ڈالتے ہیں کہ اِن دونوں کو کوئی تیسرا لڑوا کر اپنے ناپاک مقاصد حاصل کر رہا ہے ۔لہٰذا کراچی میں سرگرم تمام سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے رہنماؤں اور کارکنان کو ٹھنڈے دل و دماغ سے یہ بات ضرورت سوچنی چاہئے کہ یہ آپس میں ایک دوسرے کو برا بھلا کہنے اور ایک دوسرے پر الزام تراشیاں کرنے کے بجائے اِس حقیقت کو ضرور تسلیم کرلیں کہ اِس وقت پورے پاکستان اور خاص طور پر شہر کراچی میں پاکستانیوں اور مسلمانوں کے قتل وغارت گری میں ملوث ایک قائل امریکی خفیہ ایجنسی بلیک واٹر کے ایجنٹ بھی موجود ہیں جو پاکستان اور شہر کراچی کو مفلوج بنانے کے لئے قبائلی علاقوں سے بھاگ کر شہر کراچی میں چھپنے والے دہشت گردوں کے ساتھ مل کر پاکستان اور شہر کراچی کا امن و سکون تباہ و برباد کرنے میں مصروف ہیں۔

میں یہ سمجھتا ہوں کہ جب تک ہمارے ارباب اختیار و اقتدار کراچی سمیت پورے ملک سے امریکی بلیک واٹرکے ایجنٹوں کو نہیں نکالیں گے اور شہر کراچی کو طالبان سے پاک نہیں کریں گے اُس وقت تک شہر کراچی میں نہ تو امن قائم ہوسکے گا اور نہ ہی اِس شہر اور ملک کی معیشت ہی پروان چڑھ سکے گی اِس طرح آئے روز رینجرز اور پولیس کو اضافی اختیارات اور احکامات دینے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ جب تک حقیقی معنوں میں دہشت گردوں سے شہر اور ملک کو پاک نہ کیا جائے۔
Muhammad Azim Azam Azam
About the Author: Muhammad Azim Azam Azam Read More Articles by Muhammad Azim Azam Azam: 1230 Articles with 971626 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.