دُم پر پاؤں؟

آجکل سب سے اہم ایشو جو اخبارات کی زینت بن رہا ہے وہ ’’دُم پر پاؤں آنے‘‘ کا ہے۔ مسلم لیگ ن ، تحریک انصاف اورپیپلز پارٹی کے کسی نہ کسی لیڈر کا یہ بیان کسی نہ کسی شکل میں شائع ہوجاتا ہے۔ جیسا کہ محاورے کی بناوٹ سے ہی معلوم ہوتا ہے، کہ اگر آپ کسی کی دم پر پاؤں رکھیں گے، یا کسی کی دم پر پاؤں آجائے گا تو اس کے کیا جذبات ہونگے؟ دُم پر پاؤں آنے سے ظاہر ہے جانور کر تکلیف ہوتی ہے، اور پریشانی میں وہ ہڑبڑا کر اٹھ کھڑا ہوتا ہے۔ مگر یہاں یہ بات بھی قابلِ غور ہونی چاہیے کہ جس جانور کی دم پر پاؤں آیا ہے، یا رکھا گیا ہے،وہ کس فطرت کا مالک ہے، اب اگر گائے یا بھینس کی دم پر پاؤں رکھا جائے گا تو ان کا رد عمل کیا ہوگا، اور اگر کسی کاٹنے والے جانور کی دم پر پاؤں آئے گا تو اس کے جذبات کیا ہوں گے؟ بہت سے جانور ایسے ہیں جن کی دم چھوٹی ہوتی ہے، ان پر پاؤں رکھنا مشکل ہوجاتا ہے، ان میں بھیڑ بکری یا اونٹ وغیرہ بھی شامل ہیں، یوں یہ جانور دم پر پاؤں آنے کے محاورے سے ہی مستثنا قرار پاتے ہیں۔ دم پر پاؤں آنے سے معصوم جانور کسی رد عمل کا اظہار نہیں کرسکتے اوربس بلبلا کر اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔ دیہات میں کھیتوں میں کام کرتے ہوئے بعض اوقات کچھ بیل بیٹھ بھی جاتے ہیں، یہ ایک بیماری ہی تصور کی جاتی ہے، جن بیلوں کو بیٹھنے کی عادت ہوتی ہے، ان میں یہ بڑی خرابی گنی جاتی ہے۔ ایسے بیل کو اٹھانے کے لئے عموماً اس کی دم پر ہی زور دیا جاتا ہے، بعض اوقات اس کو مروڑا جاتا ہے، اور بعض کسان تو اس بیل کی دم کو دانتوں سے کاٹتے (یعنی دباتے) بھی ہیں، جس کی تکلیف سے بیل پریشان ہو کر اٹھ کھڑا ہوتا ہے۔

انسان کو اﷲ تعالیٰ نے تو اشرف المخلوقات بنایا ہے، مگر اپنی عادات سے مجبور ہو کر اس نے خود کو جانوروں سے تشبیہ دینے کی روایت قائم کر رکھی ہے۔ پاکستان کی اس وقت حکمران جماعت کا انتخابی نشان شیر ہے، شیر کو اس انداز میں ابھارا جاتا ہے، کہ کسی جلسے یا تقریب میں باقاعدہ یہ نعرے لگائے جاتے ہیں کہ ’’دیکھو دیکھو کون آیا؟ شیر آیا شیرآیا‘‘۔ یوں’ شیر‘ سینہ تان کر تقریب میں خفیہ اور مخصوص دروازے سے داخل ہوتا ہے، ہاتھ کھڑا کرکے لوگوں کو نعروں کا فخریہ جواب دیتا ہے، پھر گرجتا برستا بھی ہے، دھاڑ بھی لیتا ہے، نعروں اور تالیوں کی گونج میں واپس چلا جاتا ہے۔ الیکشن کے زمانے میں ان کے بعض امیدواروں نے اصلی شیر بھی کرائے وغیرہ پر حاصل کرلئے تھے۔ شیر کو بہادری کی علامت بھی قرار دیا جاتا ہے۔ جانوروں کی عادات کے مطابق یا ر لوگوں نے انسانوں کو بھی اسی نام سے پکارنے کا بندوبست کر رکھا ہے۔ جس کو چاہا اسے گیدڑ بنا دیا، جس کے بارے میں خیال آیا اسے لومڑی قرار دے دیا، بلّی بلّے کی باتیں بھی ہو جاتی ہیں، کئی اور چوپایوں یا دوسرے جانوروں کے نام سے بھی لوگوں کو یاد کیا جاتا ہے، جس سے انسانیت کی تضحیک کا پہلو بھی نکلتا ہے۔ بات جانوروں تک محدود نہیں، بہت سے پرندے بھی اچھے اور برے معانوں میں یاد کئے جاتے ہیں، کسی کو شاہین کہا جاتا ہے تو کسی کو گِدھ سے ملا دیا جاتا ہے، کوئی بلبل ہے تو کوئی کوّا۔

بات دُم پر پاؤں آنے سے شروع ہوئی تھی ، اپنے سیاستدانوں نے اب شرفِ انسانیت کو خیر باد کہہ دیا ہے، فخریہ جانوروں کی صفات کو اپناتے اور دوسروں کو طعنے دیتے ہیں، وہ یہ خیال نہیں کرتے کہ اﷲ تعالیٰ نے انہیں اشرف المخلوقات ہی نہیں بنایا ، بلکہ انسانوں کی قیادت کا منصب بھی انہیں ودیعت فرمایا ہے، کیا ملک کی باگ ڈور سنھبالنے والے سیاستدانوں کے لئے یہ مناسب ہے کہ وہ ایک دوسرے کو جانور قرار دیں اور ان کی دُم پر پاؤں رکھ کر انہیں چیخنے چلانے پر مجبور کریں۔ اگر یہ مقابلہ جاری رہا تو اس میں حصہ لینے والے تمام سیاستدان ہی دُم والے ہونگے، جو ایک دوسرے کی دم پر پاؤں رکھیں گے اور اس کی بلبلاہٹ سے لطف اندوز ہونگے۔ قوم کا بھی اﷲ ہی حافظ ہے کہ اس نے ایسے رہنما منتخب کئے ہیں، جو قوم کی رہنمائی کا فریضہ سرانجام دینے ، ملک کو خوشحال اور رفاہی ریاست بنانے ، عوام کا معیارِ زندگی بلند کرنے، ملک سے کرپشن ختم کرنے کی بجائے جنگل کا ماحول بنا رہے ہیں، جہاں قانون بھی جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا ہو اور جہاں رہتے بھی صرف جانور ہوں تاکہ ایک دوسرے کی دم پر پاؤں رکھنے میں آسانی رہے۔
muhammad anwar graywal
About the Author: muhammad anwar graywal Read More Articles by muhammad anwar graywal: 623 Articles with 473308 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.