اگلا خطرہ کون؟

پاکستانی فوج نے۱۵جون۲۰۱۴ء کوشمالی وزیرستان میں آپریشن ضربِ عضب کاآغازکیاتھا۔اس آپریشن کے پہلے ایک سال کی مختلف کارروائیوں کے دوران۲۷۶۳دہشتگردجہنم رسید اوربہادر سپاہ کے۳۷۴/افسران نے جام شہادت نوش کیا۔آپریشن اب بھی جاری وساری ہے اوراس کے واضح اثرات کونہ صرف وطن عزیزبلکہ ساری دنیامیں خراجِ تحسین پیش کیاجارہاہے کیونکہ یہ وہ علاقہ ہے جہاں اس سے پہلے برطانیہ اورامریکابھی اپنے پوری جنگی وسائل کے باوجود کھڑے نہ ہو سکے اوربالآخران کے ظالم حملہ آورفوجیوں سے بھرے ہوئے وہی دیوہیکل سی ون تھرٹی طیارے رات کے اندھیرے میں آج ان کے تابوت لیکرواپس جارہے ہیں اورسینکڑوں انہی پہاڑوں میں اس طرح غرق ہوگئے ہیں کہ اب ان کے نام کی صرف تختیاں کیپٹل ہل کی یادگار میں نامعلوم سپاہیوں کی قطاروں میں ایستادہ قصرسفیدکے فراعین کی سفاکی کی یاددلاتی رہیں گی۔

جنرل راحیل شریف نے اس دشوارگزارگھاٹیوں پرمشتمل وادی شوال سے دہشتگردوں کی باقیات کو صاف کرنے،بلا امتیاز ان کو تنہاکرنے اوران کے ملک بھر میں معاونین اورسہولت کاروں سے رابطے توڑنے کیلئےآپریشن کاآخری مرحلہ شروع کرنے کی ہدایت دی ہے جبکہ شوال کے دشوارگزار پہاڑی علاقے میں ابتدائی کارروائی کاپہلامرحلہ بھی مکمل ہوچکا ہے۔اب وادیٔ شوال اوردتہ خیل سے آگے گھنے جنگلات اورگھاٹیوں پرمشتمل علاقہ شمالی وزیرستان میں دہشتگردی کا آخری ٹھکانہ رہ گیا ہے اور جس کودہشتگردپاکستان اورافغانستان میں آمدورفت کیلئے استعمال کرتے ہیں۔جنرل راحیل شریف نے فوجی جوانوں کی بہادری کی تعریف کرتے ہوئے قوم کوبھی یہ پیغام دیاکہ دہشتگردی کے انسداد کی جدوجہد میں یقیناکافی پیچیدگیاں ہیں لیکن کامیابی کیلئے یک جان ہونابہت ضروری ہے۔

دہشتگری کے ارتقا کی کہانی دلچسپ مگر زیادہ اذیت ناک مغرب کاروّیہ ہے۔ چندہفتے قبل لندن کے اخبارات،ٹی وی چینلز اورسوشل میڈیاپریہ خبربڑی حیرت سے دیکھی اورسنی گئی کہ دس سال کی عمرکے ایک بچے کوپولیس نے اپنی تحویل میں لے لیاجس کی کاپی پرتحریرتھاکہ وہ ''ٹیررسٹ ہاؤس‘‘میں رہتا ہے۔ بچے سے پوچھ گچھ کے دوران پتہ چلاکہ وہ املاکی غلطی کی وجہ سے ’’ٹیرسڈ‘‘کی بجائے ’’ ٹیررسٹ‘‘لکھ گیا۔ پولیس اس بچے کے گھراور اس کے خاندان کے بارے میں مکمل تفصیلات جمع کرنے کے بعدکچھ حاصل نہ کرسکی لیکن میڈیانے اصل حقائق سے کسی کوآگاہ کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔

دس سالہ مسلمان بچے کی انتہائی معمولی غلطی پراس قدرتجسس اورتشویش مگر دوسری جانب امریکاکی جارج یونیورسٹی واشنگٹن کی اسسٹنٹ پروفیسر مسز کرسٹائن فیئرکے پاکستان دشمنی پر لیکچرزاورخیالات سے دنیاآگاہ ہے ۔وہ بلوچستان اورکراچی میں دہشتگردی کی سرپرستی کرنے والے ان بلوچ لیڈروں کے ساتھ عرصہ درازسے رابطے میں ہیں جوامریکا، برطانیہ اورسوئٹزرلینڈمیں مقیم ہیں۔مسزفیئرکے سوشل میڈیاکے اکاؤنٹس دیکھیں تووہ بلوچستان کی علیحدگی کیلئے بھارتی مددکی درخواستوں سے اٹے ہوئے نظرآئیں گے۔ٹوئٹرنے چندروز پیشتردہشتگردی کے ڈیڑھ لاکھ سے زائداکاؤنٹس تو بندکردیئے ہیں لیکن پاکستان میں دہشتگردوں کی اعانت کرنے والی اس امریکی پروفیسرپرکسی کی نظرکیوں نہیں گئی؟

امریکی اورایرانی وزارتِ خارجہ اس حقیقت سے کس طرح انکارکرسکتی ہے کہ مسزکرسٹائن فیئراپنے دورۂ ایران کے دوران زاہدان میں بھارتی قونصلیٹ میں بیٹھ کربلوچستان میں دہشتگردی کی آگ بھڑکانے کیلئے دہشتگردوں کی بھرپورمددکرتی رہیں۔اسی دوران بلوچ دہشتگردبھی اس کے ساتھ بھارتی قونصل خانے میں موجودرہے لیکن افسوس اس اسسٹنٹ پروفیسر کی دہشتگردوں سے ہمدردیاں اورمعاونت اقوام متحدہ،امریکااور برطانیہ میں کسی کونظرنہیں آئیں، اس کے برعکس اٹلانٹا(امریکا)میں واقع شیلوہ اسکول میں تیرہ سالہ مسلمان بچی کی استاد اسکارف کی جانب اشارہ کرکے پوچھتی ہے کہ کیاتم نے اس کے نیچے بم رکھا ہواہے؟یہ انسانی حقوق اورامریکی آئین کی کیسی پاسداری ہے کہ اب تک سینکڑوں شہریوں اورسیکورٹی فورسزکوقتل کرنے والے دہشتگردوں کی پشت پناہی کرنے والی امریکی پروفیسراوراستادکسی کونظر نہیں آئی؟

ایک دس سالہ بچہ توایک لفظ کی غلطی سے مشکوک دہشتگردہوگیالیکن وہ شخص جوگزشتہ ایک ہفتے کے دوران صرف بلوچستان میں (۵۱)انسانی جانیں نگل چکاہے،وہ کسی کونظرنہیں آتا؟ کیااقوام متحدہ کونظرنہیں آرہاکہ بلوچستان سمیت پاکستان بھرمیں دہشتگردی کاطوفان اٹھانے والے لوگ افغانستان ،بھارت، برطانیہ اورسوئٹزرلینڈمیں بیٹھ کراپنی اپنی تنظیموں کے ذریعے دہشت گردی کی ہدایات دے رہے ہیں؟

زیادہ توجہ طلب پیچیدگی یہ ہے کہ ایشوکونان ایشوبناکرمسئلے کی سنگینی میں اضافہ کیاجارہاہے اوربات اہل مغرب کی دانستہ نابینائی سے آگے بڑھ کرہم سب کی جاہلانہ حرکات تک پہنچ جاتی ہے۔مثلاًداعش ہے یانہیں ہے،ہی کی بحث کو لے لیجئے، اس بحث میں جس طرح ہرکوئی اپنی توانائی صرف کرنے میں لگاہوا ہے، اس کی کیاضرورت ہے؟داعش کی جانکاری کے حوالے سے ایک سال قبل لبنانی ٹی وی پردکھایاگیاوہ منظرآنکھوں میں تازہ کرناضروری ہے جب کلمہ طیبہ والے سیاہ پرچم لہراتے ہوئے القاعدہ کے جنگجوگاڑیوں میں سوارلبنان کے علاقے بکہ وادی میں داخل ہوئے جن کااستقبال لبنانی حکومت کے اعلیٰ عہدیداروں نے کیا۔لبنانی حکومت اس وقت حزب اللہ اور القاعدہ کے درمیان طے پانے والے نئے اتحادسے وجودمیں آئی ہے۔القاعدہ کایہ گروہ شام میں جبتہ النصرہ کہلاتاہے۔یہ گروہ ۲۳جنوری۲۰۱۲ء کوشام میں قائم ہوااور نومبرمیں اس پرامریکانے دہشتگردی کاالزام لگاکرپابندی لگادی۔اسے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل ،فرانس،کینیڈا، آسٹریلیا،برطانیہ،سعودی عرب،متحدہ امارات، ترکی اور ایران نے بھی دہشتگردگروہ قراردے رکھاہے۔

یہ وہی القاعدہ ہے جس کے خلاف جنگ کااعلان پوری دنیانے کینیامیں امریکی سفارت خانوں پرحملے کے بعدشروع کیا تھا ۔اسامہ بن لادن اور القاعدہ کانام خوف ودہشت کی علامت بناکرپیش کیاگیا ۔اسامہ سوڈان گیاتواس کاوہاں تعاقب کرکے حملے کئے گئے۔سب سے بڑی ادویہ سازفیکٹری اس بات پرتباہ کردی گئی کہ اسے القاعدہ نے قائم کیاتھا جس کے نتیجے میں عوام بنیادی ادویات سے بھی محروم ہوگئے۔اسامہ افغانستان آیاتواس کے پیچھے۱۱ستمبرسے پہلے ہی حملے شروع کردیئے گئے۔سابق امریکی صدربل کلنٹن کے زمانے کاوہ ناکام حملہ کس کویادنہیں جس میں میزائل پاکستان کے علاقے خاران میں آکر گرے۔عالمی سطح کے نامورتجزیہ نگاروں سے القاعدہ کے خطرے پرکتابیں لکھوائیں گئیں،روزانہ کی بنیاد پراخبارات کے صفحات کامنہ کالاکیاگیا، اس کے بعدنائن الیون ہوگیا۔

اسی اسامہ اورالقاعدہ کوکیفرکردارتک پہنچانے کیلئے افغانستان کی اینٹ سے اینٹ بجادی گئی،افغانستان کاامن غارت کردیا گیا۔لاکھوں انسان لقمۂ اجل بناڈالے گئے،القاعدہ کے تعاقب میں پاکستان پرڈرون حملوں کی بارش شروع کردی گئی جس میں پہلے حملے میں ڈومہ ڈولہ مدرسے کے ۹۰ سے زائد یتیم ومعصوم بچوں کے پرخچے اڑادیئے گئے اورہماری بھی بدنصیبی کاکیازمانہ تھاکہ قصرِ سفید کے فرعون کے انتہائی وفادارفاسق کمانڈونے اس حملے کی ذمہ داری خود قبول کرلی اورامریکی دباؤپرقبائلی علاقوں میں کاروائیاں بھی چلتی رہیں۔ عراق پربھی ایک بے بنیادالزام لگاکرحملہ کردیاگیاجس کے نتیجے میں نہ صرف عرب ممالک میں سب سے زیادہ عسکری وحربی قوت اوربہترین تاریخی ورثے کے مالک عراق کے لاکھوں افراد کونامعلوم گناہ کی پاداش میں صفحۂ ہستی سے مٹا کر کھنڈرات میں تبدیل کردیاجواب امن سے کوسوں دورہے۔اب بھی کسی کو مارنے کیلئے اس پرالقاعدہ کارکن، سہولت کاریاامن دشمن کالیبل لگادینا کافی ہے۔فلوجہ اورابوغریب اس کی بدترین مثالیں ہیں۔گوانتاناموبے کاشکم بھرنے کیلئے انتہائی بے حیائی سے القاعدہ کے ارکان کونارنجی کپڑوں میں آہنی زنجیروں سے سجادیاگیاحتیٰ کہ معمولی پان دھان کی انتہائی تعلیم یافتہ پاکستان کی بیٹی عافیہ صدیقی آج بھی امریکی جیل میں۸۶سال کی سزابھگت رہی ہے۔

القاعدہ کی سب سے فعال اورمضبوط تنظیم جبتہ النصرہ ہے جوشام میں بشار الاسدکی حکومت کے خلاف لڑرہی ہے۔اس گروہ کوسب سے پہلے۳۰جنوری ۲۰۱۲ء کوایران نے دہشتگردگروہ قراردیاجبکہ اس کے قیام کوابھی صرف سات دن ہی ہوئے تھے، حزب اللہ کے ساتھ لبنان کی بکہ وادی اورشام میں مقابلے کا آغازہوگیا۔یہ آج سے چارسال قبل کی بات ہے جب شام میں عرب بہارکے اثرات کاآغازہواتھا اورایران کے بشارالاسد کو بچانے کیلئے پاسداران روانہ کیے تھے اور حزب اللہ نے اپنے دستے بشارالاسدمخالف لوگوں سے لڑنے کیلئے شام میں اتارے۔ٹھیک چارسال بعدلبنان کی بکہ وادی کایہ منظرسب کیلئے حیران کن تھا۔ القاعدہ کے پرچم گاڑیوں پرلہرارہے تھے اورنعروں کی گونج میں لبنان کی فوج نے اپنے۱۶فوجیوں اور ایک پولیس والے کے تبادلے میں القاعدہ کے۲۹ساتھیوں، جن میں داعش کے سربراہ ابوبکرالبغدادی کی بیٹی اورسابقہ بیوی سمیت عورتیں اور بچے تھے ،ان کے حوالے کیا۔ابوبکرالبغدادی کی سابقہ بیوی جوسرمئی رنگ کا حجاب پہن کرایک گاڑی میں لائی گئیں اورلبنانی ٹی وی ان سے گفتگو براہِ راست نشرکرتارہا۔ یہ وادی حمائدکاارسل شہرتھا،ان فوجیوں کولینے کیلئے حکومت میں حزب اللہ کا اہم نمائندہ سیکورٹی ہیڈجنرل عباس ابراہیم خود آیاتھا۔اس کایہاں آناوزیراعظم''تمام سلام'' نے اپنے ساتھ اس لیے لازم قراردیاکہ کل اس کی رہائی کاالزام حزب اللہ دوسرے گروپوں پرنہ لگادے جب یہ قافلہ النبوہ شہر پہنچا توآزاد ہونے والے فوجیوں کے اعزازمیں استقبالیہ دیاگیاجہاں عباس ابراہیم نے اسے حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل حسن نصراللہ کی فتح قراردیا،اس لیے کہ حسن نصراللہ نے قیدیوں کے تبادلے کیلئے بشار الاسدکومجبورکیاتھا کہ وہ القاعدہ کی قیدمیں تین خواتین اورنو بچوں کورہاکردے تاکہ لبنانی فوجیوں کوواپس لایاجا سکے۔ قیدیوں کی یہ تبدیلی سولہ ماہ کے طویل مذاکرات کے بعدوقوع پذیرہوئے۔

کیاکوئی یہ یقین کرسکتاتھاکہ آج ۲۵سال کی طویل جنگ اوردنیاکوتباہی کے دہانے پرپہنچانے،لاکھوں لوگوں کوموت کے گھاٹ اتارنے کے بعد القاعدہ کے خلاف مغربی طاقتوں کا روّیہ بھی نرم ہے اوروہ جومشرقِ وسطیٰ کوجنگ میں جھونک رہے ہیں،انہیں بھی القاعدہ نرم نظرآرہی ہے۔ مشرقِ وسطیٰ میں القاعدہ نرم مزاج بتائی جاتی ہے اورافغانستان میں طالبان کو امن کاضامن تصورکیاجارہاہے۔اس لئے اب دنیاکوڈرانے اورجنگ میں جھونکنے کیلئے داعش کاہواکھڑا کیا جارہا ہے۔ہواکھڑاکرنے والااستعمارداعش کی تخلیق اورنشوونماکی اعلانیہ ذمہ داری قبول بھی کرچکاہے۔

ایک طرف تمام عرب ممالک کوداعش کے انتہاء پسندنظریات سے خوفزہ کرکے انہیں امریکی چھتری تلے ،دوسری جانب بشار الاسد کے خلاف جنگ کابہانہ بنا کر ایران ، عراق اور شام کوروس کی چھتری کے نیچے کھڑاکردیاگیا۔انتہائی بددیانتی سے سوچے سمجھے منسوبے کے تحت مسلکی جنگ کی بنیادرکھتے ہوئے دمشق میں تمام حملوں میں جبہ النصرہ کو استعمال کیا گیاجس کے جواب میں ایران کے لوگ،حزب اللہ،افغانستان سے اورپاکستان سے گروہ منظم کرکے بھیجے گئے۔ قبائلی علاقوں اورافغانستان میں موجود القاعدہ کے ارکان میں سب نہیں تواکثرشام چلے گئے ہیں۔پچھلے چارسال سے کم ازکم پندرہ مختلف گروہوں کی شدیدلڑائی کے باوجودمطلوبہ نتائج نہ ملنے کے بعدبالآخر قریباً ڈیڑھ برس قبل داعش کو میدان میں اتاردیاگیا جس نے ریاستی حدودکوتوڑکررکھ دیا یاہرایک کے ساتھ لڑائی شروع کردی۔اس کے بعدمیڈیااور سوشل میڈیاپریلغارہے،کوئی کہہ رہا ہے کہ یہ امریکانے بنائی،کسی نے کہاکہ ابوبکرالبغدادی اسرائیلی ہے،کسی نے اس کو شامی وعراقی حکومت سے انتقام کی سیڑھی قراردیا۔یورپ کے۲۴ملکوں سے لوگ داعش کیلئے لڑنے جاتے رہے۔

سوشل میڈیاپرپران کے چہرے ،نام سب کچھ موجودہیں،وہ پاسپورٹ پرمہریں لگوا کرائیرپورٹس سے رخصت ہوتے ہیں۔آج بھی یورپی ممالک کے انٹرنیٹ پر داعش کیلئے لڑنے کی اپیلیںجاری ہوتی ہیں اورلوگ وہاں جاتے ہیں لیکن وہاں حکمراں صرف والدین سے اپیلیں کرتے ہیں کہ اپنے بچوں کواس آگ سے کھیلنے سے روکیں۔پیرس حملے کے بعد ایک محدودکاروائی کی گئی اورمیڈیاکارخ اسلامی ممالک کی طرف موڑدیاگیا تاکہ جنگ کامیدان گرم کیاجائے۔گزشتہ چارسال کے سارے حملے،ساری ہلاکتیں،تمام داعش کے کھاتے میں ڈال کراسے ہوابنایاگیا۔
ادھربالادستی کی جنگ شروع ہوئی ۔ایران اورسعودی عرب میدان میں کودے تو روس اپنی بالادستی کیلئے بشارالااسدکے ساتھ آکھڑاہوا۔سب سے اہم کردار اسرائیل کابنتاجارہاہے۔اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہونے روس کادورۂ کیااوراپنے گزشتہ مؤقف کوتبدیل کرتے ہوئے کہاکہ داعش کے خطرے سے نمٹنے کیلئے بشارالاسد کی حکومت قائم رہنی چاہئے۔ اس موقع پرروس نے اسرائیل سے ۱۰آئی اے ای سرچراورتین ڈرون طیارے خریدنے کامعاہدہ بھی کیا۔

اسرائیلیوں کوگولان کی پہاڑیوں پرقبضہ برقراررکھناہے توبشارالاسدضروری، روس کوتیل کی ترسیل کیلئے بندرگاہ چاہئے توبشارالاسد ضروری،اور ایران عراق اورحزب اللہ کواپنی بالادستی کیلئے بشارالاسدکی ہی ضرورت کیوں ہے؟ آئندہ مسلم ممالک کے مابین مسلکی جنگ میں شدت پیداکرنے اورمسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلنے کیلئے استعمارپوری تند ہی سے لگاہواہے لیکن حیرت انگیزکردارہے ان دانشوروں کاجن کے سامنے۲۵سال تک القاعدہ بدترین عفریت تھی اور اب صلح جواورنسبتاً اعتدال پسندسمجھی جارہی ہے اورداعش خطرناک اورخوفناک عفریت ہے۔داعش سے لڑنے کے بعداگلاعفریت،اگلی خوفناک تر تنظیم کون سی ہوگی اوروہ کس قدرخوفناک قرارپائے گی۔یہ خیال آتاہے تومسلم امہ کے ہرحکمران کی عقل پرماتم کرنے کوجی چاہتاہے!

 
Sami Ullah Malik
About the Author: Sami Ullah Malik Read More Articles by Sami Ullah Malik: 531 Articles with 391092 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.