ضمیر کی سوداگری

29فروری 2016 کا دن امت مسلمہ کے لئے وہ درد ناک اور خون کے آنسو رونے کا دن تھا جب ایک مرد مومن،محب رسولﷺ،شیدائی اسلام کے بہادر سپوت نے رسول کریمﷺ سے سے وفا اور محبت کا ثبوت دے کر گستاخ رسول ( سلمان تاثیر) کو قتل کر نے کے جرم میں تختہ دار کو قبول کیا اور شہادت کے مرتبے پر پہنچ گئے۔ پنڈی کے ایک چھوٹے سے گاؤں صادق آباد سے تعلق رکھنے والے ممتاز قادری عشق رسو لﷺ میں بازی لے گئے انھوں نے گستاخ رسول ﷺکی ایک ہی سزا سر تن سے جدا،سر تن سے جداکے نعرہ کو امر کردیا موجودہ صدر تک نے ان کو پھانسی نہ دینے کی اپیل کومسترد کردیا سب سے افسوس ناک بات یہ تھی کہ ان کو ایک ایسے وطن میں پھانسی دی گئی جو کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے اور محض اس لئے پھانسی دی گئی کہ انھوں نے سچے محب رسولﷺ ہونے کا ثبوت دیا۔

ممتاز قادری کو اچانک پھانسی دینابہت سے سوالوں کو جنم دے رہا ہے یہ سب عوام کے علم میں لائے بغیر اس وقت ہوا جب سب خواب خرگوش کے مزے لے رہے تھے اور ہمارے پل پل کی خبر، فوری خبر، سب سے آگے، سب سے پہلے کا نعرہ مارنے والے میڈیا نے ممتاز قادری کی پھانسی سے لحد تک کی کوئی کوریج نہیں کرنے دی گئی۔ سا رے چینلز نے پیمرا کے حکم کی تعمیل کومدعا بناکر اور اپنے خوشامدیوں کو خوش کر نے کے لئے اس خبر سے لاعلم رہے الیکٹرونک میڈیا ہی کے دو چینلز ـــــــنیو اور سماں نے ممتاز قادری کی کوریج کی تو ان پر بھاری جرمانہ عائد کر دیا گیا۔

اوصاف اخبار بھی اس لپیٹ میں آگیا جبکہ 4مارچ 2016ء انیس قائم خانی کی مسجد سے غائب ہو نے والی چپل کی خبر کے چلنے سے پتہ لگ جاتا ہے کہ میڈیا جوچاہے وہ دکھا سکتا ہے اور جو چاہے وہ نہیں جو کچھ میڈیا نے کیا وہ نہ صرف غیر اخلاقی بلکہ عشق رسول ﷺ اور انسانی حقوق کے بھی خلاف تھاہمارے حکمرانوں کے اس رویہ نے ان غیر مسلموں کواور ہمت اور حوصلہ دے دیا ہے ۔ جوکہ ماضی میں گستاخِ رسول کے خاکے بناتے رہے ہیں اب کوئی بھی غیر مسلم دنیا کے ایک ارب 30کروڑ مسلمانوں کے آخری نبی حضرت محمد ﷺ کی گستاخی میں کوئی ڈر یا خوف محسوس کئے بغیر ماضی کی گستاخیوں کو دہرائے گا۔

افسوس کا مقام ہے ایسے حکمرانوں کے لیے جو رسول کریم کے گستاخوں کے خاطر محب رسول ﷺکو تختہ دار پر چڑھانے پر فخر محسوس کرتے ہیں۔ ممتاز قادری تو اپنی جنت سدھار گئے (انشاء اﷲ) مگر حکمرانوں کو یقینا سوچنا ہوگا کیا ایک مسلمان ہون کے ناطے ان کا یہ فیصلہ کس حد تک درست تھا اور کس حد تک غلط تھا۔ ریاستی اداروں یہاں تک کے اسمبلیوں میں بھی اس ظلم کے خلاف کسی نے آواز نہ اُٹھائی۔حکمرانوں سمیت سب کو ایک بات یاد رکھنی چاہے کہ
چوکھٹے قبر کے خالی ہیں انہیں مت بھولو
جانے کب کون سی تصویر لگا دی جائے
Hameeda Gul Muhammad
About the Author: Hameeda Gul Muhammad Read More Articles by Hameeda Gul Muhammad: 25 Articles with 18755 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.