وزیر اعظم اور آرمی چیف کا دورہ سعودی عرب

بسم اﷲ الرحمن الرحیم

وزیر اعظم نواز شریف اور آرمی چیف جنرل راحیل شریف سعودی عرب کے تین روزہ سرکاری دورہ پر ہیں۔ جمعرات کو کنگ سعود ایئر پورٹ پہنچنے پر شاہی خاندان کے اراکین، شہزادہ محمد بن سلمان اور دیگر اعلیٰ حکام نے ان کابھرپور استقبال کیا۔ وزیر اعظم اور آرمی چیف خادم الحرمین الشریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیزکی خصوصی دعوت پر سعودی عرب پہنچے ہیں جہاں وہ ’’رعد الشمال‘‘ نامی فوجی مشقوں کی اختتامی تقریب میں شرکت کریں گے اور سعودی حکام سے ملاقاتوں کے دوران 34ملکی اتحاد میں پاکستان کے کردار اور خطہ کی صورتحال سمیت دیگر اہم امور پر تبادلہ خیال کیا جائے گا۔ شاہ سلمان بن عبدالعزیز کی طرف سے مختلف ممالک کے وفود کے اعزاز میں عشائیہ کا بھی اہتمام کیا گیا جس میں وزیر اعظم نواز شریف ، آرمی چیف جنرل راحیل شریف اور معاون خصوصی طارق فاطمی سمیت 21ممالک کے سربراہان اور نمائندوں نے شرکت کی جبکہ سعودی عرب کے مشرقی علاقوں کے گورنر شہزادہ سعود بن نائب، ولی عہد شہزادہ محمد بن نائب، نائب ولی عہد و وزیر دفاع شہزادہ محمد بن سلمان و دیگر بھی موجود تھے۔ سعودی عرب میں اس وقت مشرق وسطیٰ کی سب سے بڑی اور اہم فوجی مشقوں کی اختتامی تقریبات سعودی عرب کے شہر حفر الباطن میں جاری ہیں جن میں مسلم ممالک کی سرکردہ شخصیات شریک ہو رہی ہیں۔ پاکستان، مصر، سوڈان، موریطانیہ، جیبوتی، مراکش، بحرین، ملائشیا اور دیگر ملکوں کے سربراہان او رنمائندے حفر الباطن کے مقام پر ہونیو الی مشقوں کی اختتامی تقریب میں شرکت کر کے فوجی دستوں کی طرف سے کی جانے والی مشقوں کا معائنہ کریں گے۔ شاہ سلمان بن عبدالعزیزنے مسلم ملکوں کے قائدین کے اعزاز میں دیے گئے عشائیہ کے بعد وزیر اعظم نواز شریف اور دیگر مختلف مسلمان ملکوں کے سربراہان سے الگ الگ ملاقاتیں کیں اور علاقائی امور پر تفصیل سے بات چیت کی گئی۔

سعودی عرب میں ’’رعد الشمال‘‘ شمال کی گرج کے نام سے ہونے والی فوجی مشقوں کو اسلامی ملکوں کے اتحاد کی پہلی باقاعدہ مشقیں قرار دیا جاسکتا ہے۔حالیہ مشقوں جن میں بیس ملکوں کے فضائی، بحری اور زمینی فوجی دستوں نے حصہ لیا‘ کو مبصرین اس لحاظ سے بہت زیادہ اہمیت دے رہے ہیں کہ مسلمان ملک اپنے ملکوں و معاشروں کو درپیش داخلی مسائل اور بیرونی خطرات سے نمٹنے کیلئے متحد ہو کر سنجیدہ کوششیں کر رہے ہیں۔حالیہ تاریخی جنگی مشقوں میں صرف عرب اور دوسرے مسلم ملکوں کو شریک کیا گیاجس سے پوری دنیا کو یہ پیغام گیا کہ سعودی عرب اور اس کے اتحادی ممالک تمامتر چیلنجوں سے نمٹنے اور خطہ کا امن و استحکام برقرار رکھنے کیلئے ایک ہی صف میں کھڑے ہیں اور کچھ عرصہ قبل قائم کیا گیا 34ملکی اتحاد پورے عالم اسلام کی نمائندگی کررہا ہے۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ سعودی عرب اور پاکستان سمیت تقریبا تمام مسلمان ملکوں کو داعش اور دیگر تکفیری گروہوں جیسے داخلی فتنے بھی درپیش ہیں۔ ان مسائل پر قابو پانا اور ان کی دہشت گردانہ سرگرمیوں کی بیخ کنی کرنے کیلئے مشترکہ طور پر عملی اقدامات کرنا بہت ضروری تھا۔ اسی چیلنج کو مدنظر رکھتے ہوئے مسلمان ملکوں کا اتحاد تشکیل دیا اور متفقہ طور پر فیصلہ کیا گیا کہ سعودی عرب کی قیادت میں تکفیری گروہوں کے وحشیانہ جرائم کے خاتمہ اور دہشت گردی کے ناسور کو جڑ سے اکھاڑ پھینکے کیلئے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کی جائے گی۔عالم اسلام کو درپیش مسائل کو مسلمان ملک ہی بہتر سمجھتے ہیں اور یہ ان کا حق اور ذمہ داری بھی ہے کہ وہ باہم متحد ہو کر انہیں حل کرنے کی کوشش کریں۔انہی حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے مسلم ملکوں کے پالیسی ساز ادارے مکمل طور پر رابطے میں ہیں اوریہی وجہ ہے کہ اس اتحاد کے تشکیل پانے کے بعد سے مسلم ممالک میں تکفیر اور خارجیت کے فتنہ سے نمٹنے کیلئے پہلے سے زیادہ تحرک دیکھنے میں آیا ہے۔ویسے بھی اب سبھی یہ بات محسوس کر رہے ہیں کہ دہشت گردی صرف ایک ملک کا معاملہ نہیں رہا بلکہ یہ ایک گلوبل مسئلہ بن چکا ہے جس پر قابو پانے کیلئے سب کو مل کر کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔بعض نام نہاد دانشوروں کی جانب سے سعودی عرب کی قیادت میں مسلم ملکوں کے اتحاد کو متنازعہ بنانے کیلئے بے بنیاد پروپیگنڈوں کو ہوا دی جاتی ہے اور بھانت بھانت کی بولیاں بول کر مسلمانوں میں انتشار و افتراق پیدا کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ اتحاد مسلم ملکوں کیلئے بہت بڑی نعمت ہے اور اس کا بنیادی مقصد کسی ملک کے خلاف جارحیت نہیں بلکہ اپنے ملکوں کو درپیش داخلی مسائل پر قابو پانا اور امن و امان کا قیام یقینی بنانا ہے۔ سعودی عرب بھی یہ بات واضح طور پر کہہ چکا ہے کہ ا س اتحاد کے کسی ملک کے خلاف جارحانہ عزائم نہیں ہیں ‘ اس کے بعد میں سمجھتا ہوں کہ کسی ملک یا گروہ کواس حوالہ سے شکوک و شبہات پھیلانے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے۔ان دنوں لبنان کی حزب اﷲ نامی تنظیم کے سربراہ حسن نصراﷲ کی طرف سے یمن کے حوثی باغیوں کی حمایت میں سعودی عرب کیخلاف مسلسل بیان بازی کی جارہی ہے ۔ میں سمجھتاہوں کہ یہ درست امر نہیں ہے۔عالم اسلام میں اسے پسندیدگی کی نگاہ سے نہیں دیکھا گیا اور کوئی مسلمان بھی مسلمانوں کے روحانی مرکزسعودی عرب کیخلاف اختیار کئے گئے اس رویہ کی حمایت نہیں کر سکتا۔ اس طرح کے بیانات اسلامی ملکوں میں انتشار اور گروہی اختلافات پھیلانے کا باعث بنیں گے۔ دشمن تو پہلے ہی یہی چاہتا ہے کہ مسلمانوں کو باہم دست و گریباں رکھا جائے تاکہ انہیں مسلمان ملکوں میں مداخلت کے مواقع ملیں اور وہ اپنے مذموم ایجنڈے پروان چڑھا سکیں۔اسلئے ہمیں اپنی آنکھیں کھلی رکھ کر دشمن کی سازشیں ناکام بنانا ہوں گی ۔ادھر بعض میڈیا رپورٹس میں ایران کے ایک اہم ذمہ دار کی طرف سے بھی یہ بیان بھی سامنے آیا ہے کہ تہران یمنی باغیوں کی ایسے ہی مددکرنا چاہتا ہے جس طرح اب تک وہ شام میں بشار الاسد کی کر رہا ہے۔میں سمجھتاہوں کہ ایسے حالات میں کہ جب پاکستان‘ سعودی عرب اور ایران کے مابین مصالحت کی کوششیں کر رہا ہے اور پاکستانی حکومتی ذمہ داران دونوں ملکوں کے دورے بھی کر چکے ہیں‘ اس طرح کے بیانات سے مصالحت کی ان کوششوں کو نقصان پہنچے گا اس لئے یہ باتیں بھی ہمیں ضرورمدنظر رکھنی چاہئیں۔ اس وقت شام میں بشار الاسد اور اس کی کابینہ کی طرف سے نہتے مسلمانوں پر ڈھائے جانیو الے مظالم کا مسئلہ بھی پوری دنیا میں زیر بحث ہے۔ شہروں کے شہر اور بستیوں کی بستیاں کھنڈرات میں تبدیل ہو چکی ہیں۔ ملک کی نصف آبادی عرب اور دوسرے ممالک میں ٹھوکریں کھاتی پھرتی ہے مگر عصر حاضر کے فرعون بشار الاسد کی اقتدار سے چمٹے رہنے کی خواہش ابھی تک پوری نہیں ہوئی اوروہ مسلسل شامی شہریوں پر مظالم کا سلسلہ اسی طرح جاری رکھے ہوئے ہیں۔ شام کا مسئلہ بھی مسلمانوں کا اپنا مسئلہ ہے اس میں روس، امریکہ یا دوسرے ملکوں کی مداخلت نہیں ہونی چاہیے۔ بیرونی قوتیں ہی مسلمانوں کو درپیش مسائل کی اصل بنیاد ہیں اور وہ کسی طور انہیں حل ہوتے نہیں دیکھنا چاہتیں۔ اسلئے اس مسئلہ کے حل کیلئے بھی سعودی عرب، ترکی اور دوسرے اسلامی ملکوں کو مل کر کردار ادا کرنا چاہیے۔ جہاں تک مسلمان ملکوں کودرپیش اندرونی دہشت گردی کے فتنہ کا تعلق ہے تو اس کیلئے انہیں ایک دوسرے کے تجربات سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔میں سمجھتاہوں کہ مسلمان ملکوں کی مشترکہ فوجی مشقیں اس کیلئے بہت زیادہ فائدہ مند ثابت ہو سکتی ہیں۔ پاکستان بھی ان مشقوں میں بھرپور انداز میں شریک رہا ہے۔ جب سے دہشت گردی کے فتنہ نے سر اٹھانا شروع کیا ہے پاکستان اور سعودی عرب اس پر قابو پانے کیلئے ایک دوسرے کے ساتھ بھرپور تعاون جاری رکھے ہوئے ہیں۔اس کے ان شاء اﷲ دور رس اثرات مرتب ہوں گے۔ وزیر اعظم نواز شریف اور آرمی چیف جنرل راحیل شریف کے حالیہ دورہ کے دوران پاکستانی قیادت کی جانب سے واضح طور پر کہا گیا ہے کہ سعودی عرب کی علاقائی سالمیت اور یکجہتی کو لاحق کسی بھی خطرہ سے نمٹنے کیلئے پاکستان سعودی بھائیوں کے شانہ بشانہ کھڑا رہے گا۔ میں سمجھتا ہوں کہ دفتر خارجہ کی طرف سے جاری کردہ یہ بیان لائق تحسین اور پوری مسلم امہ کے دل کی آواز ہے۔
Habib Ullah Salfi
About the Author: Habib Ullah Salfi Read More Articles by Habib Ullah Salfi: 194 Articles with 141361 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.