اسلحے کا اصل نشانہ ؟

ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اپنی حالیہ ایک رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ دنیا کے بڑے ممالک اپنے معاشی اور جنگی فوائد کے لیے انسانی قتل عام کو سستا عمل سمجھتے ہیں۔دنیا بھر میں انسانی حقوق کی پامالی سے متعلق اپنی رپورٹ میں ایمنسٹی نے ۱۶۰ملکوں کے جائزے کے بعد کہا ہے کہ دنیا کے تمام ممالک حکومتی فوائد کے مقابلے میں عوامی آزادی کا حق چھین رہے ہیں ۔ اس رپورٹ میں عوامی حقوق کو سلب کرنے کے بھیانک ریاستی عمل کو شدید تنقید کا نشانہ بنایاگیا ہے ۔ ایمنسٹی نے دنیا سے کہا ہے کہ انسانوں کی جمہوری آزادی اور معاشی خو ش حالی پر توجہ دی جائے۔اس رپورٹ میں جہاں معاشی اور حکومتی مفادات کا ذکر ہے وہیں اسلحے کی دوڑ کو بڑی وجہ قرار دیاگیا ہے جس سے معاشروں میں جرائم کی شرح مسلسل بڑھ رہی ہے ۔ انسانی حقوق کے ادارے ،وکلاء ، صحافی ، سیاسی افراد اور طلبہ جب بھی اس عمل کے خلاف آواز بلند کرتے ہیں تو انہیں ریاستیں تشدد کا نشانہ بناتی ہیں۔اس رپورٹ میں شام اور یمن کی صورت حال کو بھیانک قرار دیتے ہوئے اقوام متحدہ کے کردار پر شدید تنقید کی گئی ہے۔ ایمنسٹی نے کہا ہے کہ سعودی عرب اسلحے کی دوڑ میں مبتلا ہے اور وہ یمن اور شام کو شدت پسندی اور دہشت گردی کے عمل کی طرف دھکیل رہا ہے۔اس رپورٹ میں کہاگیا ہے کہ چین اور برطانیہ میں انسانی حقوق بری طرح کچلے جا رہے ہیں جب کہ امریکا جنگی جنون روکنے کی کوشش نہیں کر رہا ۔ اس رپورٹ کے مطابق ۱۲۲ممالک میں عوام پر تشدد ۳۰ ممالک میں جلا وطن افراد سے ناروا جب کہ ۱۹ ممالک میں جنگی صورت حال سے انسانی تباہی اور تشدد پھیل رہا ہے ۔ اس رپورٹ کا دلچسپ پہلو یہ ہے کہ امریکا کے لیے انتہائی مثبت الفاظ استعمال کر کے ایمنسٹی نے امریکا اور اس کی ’’ امن پسندی ‘‘ کا ذکر کیا۔
یعنی ’’ امریکا دنیا میں جنگی جنون روکنے کی کوشش نہیں کر رہا ۔ ‘‘

امریکا اس وقت جس قدر جنگی جنون میں مبتلا ہے اس کے حوالے سے مثالیں ایک مجہول مشق ہوگی ۔ پوری دنیا میں جس طریقے سے ’’ امن ‘‘ قائم کرنے کے لیے امریکا نے ٹھیکہ اٹھایا ہے اس سے اندازہ کرنا مشکل نہیں کہ اسلحے کے بغیر امن کیسے قائم کیا جا سکتا ہے۔

عالمی امن پر تحقیق کرنے والے سویڈش ادارے ’سپری‘ (SIPRI)کے مطابق گزشتہ برس شمالی امریکا اور مغربی یورپ کی اسلحہ ساز کمپنیوں کے ہتھیار دنیا بھر میں سب سے زیادہ فروخت ہوئے۔ سپری کی اس نئی رپورٹ میں مزید انکشافات بھی کیے گئے ہیں۔اس رپورٹ میں بتایا گیا کہ ۲۰۱۴ء میں اسلحے و فوجی ساز وسامان بنانے والے دنیا کے سو بڑے اداروں کی فروخت ۳۶۵ ارب یورو کے برابر رہی، جو ۲۰۱۳ء کے مقابلے میں ۵.۱ فیصد کم ہے۔ سپری کے مطابق گزشتہ برس بھی اس شعبے پر شمالی امریکی اور مغربی یورپی کمپنیوں کا ہی غلبہ رہا تاہم عالمی منڈی میں ان کے بنائے ہوئے ہتھیاروں کی مانگ میں کمی ہوئی ہے۔ رپورٹ میں اس کی وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ روس اور کئی ایشیائی ممالک اسلحہ سازی کے میدان میں آگے آئے ہیں۔یہ مسلسل چوتھا برس ہے جب دنیا کی سو بڑی اسلحہ ساز کمپنیوں اور عسکری اداروں کے کاروبار میں گراوٹ آئی ہے۔ اس سلسلے میں امریکی کمپنی لاک ہیڈ مارٹن وہ واحد ادارہ ہے کہ جسے گزشتہ برس کے دوران اندازاًتین اشاریہ نو فیصد کا نفع ہوا ہے۔

اس رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ کل مارکیٹ شیئر کا اسی فیصد مغربی یورپی اور امریکی کمپنیوں کے ہاتھ میں ہی ہے۔ سپری کے مطابق ’’روسی اسلحہ ساز اداروں کے عروج کی وجہ ملکی دفاعی اخراجات میں اضافہ اور برآمدات ہے۔

اسٹاک ہوم انسٹی ٹیوٹ برائے سلامتی کی رپورٹ کے مطابق حالیہ پانچ برسوں میں اسلحے کی خریداری میں سولہ گنا اضافہ ہوا ہے ۔ اسلحے کی برآمدات میں امریکا اور روس سرفہرست رہے ہیں ۔ ان پانچ برسوں میں امریکی اسلحے کی فروخت کا تناسب باقی دنیا کی نسبت ۳۱فیصد رہا ہے ۔اب سوال صرف یہ ہے کہ امریکا یہ اسلحہ کس مقصد کے لیے فروخت کر رہا ہے ۔’’ امن قائم ‘‘ کرنے کے لیے یا انسانوں کو مٹانے کے لیے ۔ امریکا ، اسرائیل اور مغربی ممالک عام پستول سے لے کر ایٹم بم اور کیمیاوی ہتھیاروں سے میزائلوں کی دوڑ میں سر فہرست ہیں ۔ا ن کی اسلحہ ساز فیکٹریاں یہودیوں کے قبضے میں ہیں جب کہ امریکا اور اس کے حواری باقی دنیا کے لیے اس پر کمر بستہ ہیں کہ وہ اپنے تحفظ کے لیے چاقو بھی نہیں بنا سکتا۔

عالمی اداروں کی رپورٹوں اور تجزیوں سے ثابت ہوتا ہے کہ جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا قانون دنیا میں نافذ ہو چکا ہے۔ امریکا بہادر نمبرداری کی اس سطح تک جانا چاہتا ہے جہاں اسے عالمی شہنشاہ کا منصب حاصل ہو جائے لیکن شاید وہ نہیں جانتا کہ طاقت سے نہیں محبت، رواداری اور خیر خواہی سے دلوں پر قبضہ ممکن ہوتا ہے۔
Saghir Qamar
About the Author: Saghir Qamar Read More Articles by Saghir Qamar: 51 Articles with 34133 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.