محکمہ بلڈنگ کی کرپشن اور بے بس ایم پی اے جاوید علاؤالدین

آج کل پاکستان کے کونے کونے سے کرپشن کرپشن کی آوازیں آ رہی ہیں کرپشن کرنے اور پکڑنے والے دونوں ایک دوسرے کو لتاڑنے میں مصروف ہیں ۔سیاستدان بولتے ہیں تو بانگ دہل فرماتے ہیں کہ کرپشن کرنے والوں کو معاف نہیں کیا جائے گا۔سرکاری ملازم بھی اداروں سے کرپشن کرنے کی آواز اٹھا رہے ہیں عوام کی زبان کھلتی ہے تو انگلی کے اشاروں سے نشاندہی کرتے بولتی ہی چلی جاتی ہے ۔ان حالات میں سمجھ سے بالاتر ہے کہ آخر کرپٹ ہے کون ؟یہ ایک ایسا سوال ہے جو عام آدمی کے لیے سوالیہ نشان بنا ہوا ہے ہر سوال اور جواب سے ہٹ کر یہ حقیقت ہے کہ کرپشن کے ناسور نے ہمیں کنگال اور رسوا کر رکھا ہے جس کے بھی گرد گھیرا تنگ کیا جاتا ہے وہ اداروں کی توہین کرنے پر تل جاتا ہے اور اسکے حواری جمع ہو کر ادارے کے خلاف ،،،ڈھولک،،بجانے لگتے ہیں پاکستان میں نیب کے ادارے کو خود مختار دیکھنے کی کوشش کی گئی تھی پیپلز پارٹی پر ہاتھ پڑا تو اوپر سے نیچے ،،باں باں،کرنے والوں کی لمبی لائن لگ گئی اور نیب پر طرح طرح کے سوالات اٹھائے جانے لگے اس طرح جب نیب نے پنجاب کی طرف اپنا رخ کیا اور مسلم لیگ ن کے بعض وزرا کے گرد گھیرا تنگ کیا گیا تو وزیر اعظم میاں نواز شریف اور اسکی کچن کابینہ ایک لمحہ ضائع کیے بغیر میدان میں کود پڑی ۔نیب کو کھری کھری سنا کر خاموش کروا دیا گیا مسلم لیگ ن کو یاد آیا کہ نیب تو شرفا کی پگڑیاں اچھال رہی ہے ستم درد ستم کہ یہ الزام لگاتے وقت وزیر اعظم میاں نواز شریف یہاں تک بھول گئے کہ انکا عہدہ اور منصب کیا ہے زبان کھولنا یا ان پر تنقید کرنا اسکے سیاسی قد کاٹھ کے لیے درست بھی ہو گا یا نہیں ہو گا نیب کو تو ،،چپی کا تالہ،،لگا دیا گیا ہے مگر جن کا گھیرا تنگ ہوا انکا پجامہ گرتے گرتے بچ چکا ہے محکمہ اینٹی کرپشن کو ویسے ہی کرپشن کرنے والوں نے ،،لوری،،دیکر کئی سالوں سے ،سندھ کی طرح پنجاب میں بھی سلا رکھا ہے اینٹی کرپشن کے اہلکار ،کرپٹ افراد کو پکڑنے ،نکیل ڈالنے،گرفتاریاں عمل میں لانے اور مقدمات درج کر کے لوٹی ہوئی رقوم خزانہ سرکار میں جمع کروانے کی بجائے سرکاری اداروں کے ،،بچے جمورے،،بنے ہوئے ہیں جنکا کام صرف یہ رہ گیا ہے کہ جونہی درخواست موصول ہو فوری درخواست میں نامزد سرکاری اہلکاروں کو فون گھما کر اطلاع کرنا اور کار خاص کے ذریعے فرائض کی بجا آوری کرنے پر نذرانے وصول کرنا ہے پاکستانی قوم کے ساتھ یہ کیسا گھناونا مذاق ہے کہ کرپشن کو روکنے والے بہت بڑے کرپٹ بن کر اربوں روپے ماہانہ خزانہ سرکار سے تنخواہیں بھی لیں اور لوٹ مار بھی کرتے رہیں ۔پچھلے دنوں اوکاڑہ کے ایک مسلم لیگ ن کے ایم پی اے جاوید علاؤالدین نے کرپشن پر لمبا چوڑا ،،بھاشن ،،دیتے ہوئے پریس کانفرنس کی جسمیں انہوں نے کئی سالوں کی خاموشی کے بعد انکشاف کیا کہ محکمہ بلڈنگ ڈیپارتمنٹ اوکاڑہ میں اربوں روپے کی سالانہ کرپشن کی جا رہی ہے مذکورہ محکموں کے ایکسین ،ایس ڈی او،اور سب انجنئیر نے ات مچا رکھی ہے ۔اپنی جیبوں کو بھرنے کے لیے انہاسمنٹ کی جاتی ہیں مینٹی نینس اور ریپرنگ کے نام پر اربوؓ روپے کا چونا لگایا جا چکا ہے یہ لوگ من مانیوں پر اتر آئے ہیں قومی خزانے کو ٹیکہ لگانے کے لیے محکمہ بلڈنگ کے سابق ایکسین نے مینٹی نینس اور ریپرنگ کے نام پر اربوں روپے کا کوٹیشن ورک کروایا جسمیں زیادہ تر خزانہ سرکار کو لوٹنے کی چال تھی ۔2014/15میں مینٹی نینس اور ریپرنگ کے نام پر ایکسین فدا حسین بھٹہ نے 52کروڑ روپے نکلوائے حالانکہ کسی بھی ضلع میں دو کروڑ روپے سے زیادہ مینٹی نینس اینڈ ریپرنگ کے حوالے سے نہیں نکلوائے جا سکتے اسی طرح محکمہ بلڈنگ اوکاڑہ میں ساٹھ ڈیلی ویجز ملازم کام کر رہے ہیں مگر ورک چارجز ڈیلی ویجز کی مد میں چار سو پچاس بھرتیاں بوگس کی گئیں جنکی ماہانہ تنخواہ ،،35،،لاکھ روپے کا کرپشن ٹیکہ حکومت اور خزانہ سرکار کو لگایا جا رہا ہے 2014/15میں ہی تعصیل کمپلیکس رینالہ کی ڈویلپمنٹ کا ٹھیکہ دو لاکھ روپے کا ہوا اور پھر ایکسین کی مامتا جاگ اٹھی اور اس نے ،ٹھیکدار سے کرپشن کی رشتے داری نبھاتے ہوئے دو کروڑ روپے کی انہاسمنٹ کر دی اور تیسری بار خزانہ کو لوٹتے ہوئے دو کروڑ سے چار کروڑ روپے کر دیا گیا حالانکہ کوئی بھی ٹھیکہ بیس فیصد سے زیادہ نہیں بڑھایا جا سکتا ہے انہوں نے مزید انکشاف کیا کہ ایک ہی ٹھیکہ تین ناموں سے فائلوں کی زینت بنا ہوا ہے جسمیں کروڑوں روپے کی ہیرا پھیری کی گئی ہے اور ورک چارج بلڈنگ ملازمین کی مد میں تعصیل رینالہ میں سالانہ ڈیڑھ ارب کی ہیرا پھیری کی جا رہی ہے ۔بے بس ایم پی اے مسلم لیگ ن جاوید علاؤلدین کی پریس کانفرنس میں حقائق کیا تھے کتنا سچ اور جھوٹ تھا اس کے بارے میں کوئی محکمہ حرکت میں نہ آیابات اخباروں اور منت ترلوں کے سائے میں دب کر رہ گئی انہوں نے ایک محکمے کی اربوں روپے کرپشن بے نقاب کی حالانکہ پبلک ہیلتھ اور لوکل گورئمنٹ کون سا کم ہے اور کرپشن میں ممتاز ہونے کے لیے لوٹ مار پہ لوٹ مار کرتی چلی جا رہی ہے ۔ایم پی اے جاوید علاؤالدین کی پریس کانفرنس کے بعد حقائق جاننے کے لیے اپنا دائرہ کار وسیع کیا تو معلوم ہوا کہ یہاں تو آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے کرپشن کا ناسور ہر زبان پہ لذت بنے مٹر گشت کر رہا ہے پچھلے دنوں لوکل گورئمنٹ اوکاڑہ نے کئی ٹھیکوں کے ٹینڈر جاری کیے۔ایکسین مسلم نے من مرضی کا ریٹ اور من پسند ٹھیکداروں کی ریڑھی لگا کر ٹھیکے تقسیم کیے جعلی ویڈیو بھی بنائی گئی جبکہ تمام ٹینڈر ایک بند کمرے میں مسلم ایکسین اور اسکی ٹیم نے بھرے ۔ ہر ٹھیکے کا ورک آڈر جاری کرنے سے پہلے چار پرسنٹ ایکسین کا اور ایس ڈی او ،سب انجنئیر کا تین تین پرسنٹ جگا وصول کیا گیا کام مکمل ہوئے یا نہیں نئے ڈی سی او سقراط امان رانا نے کام چیک کروانے کے لیے کمیٹی تشکیل دی کمیٹی کی بھی رال ٹپک پڑی اور دو پرسنٹ کے اصرار کے بعد ایک پرسنٹ پر مک مکا ہو گیا اب کمیٹی فیصلہ بھی ایک پرسنٹ والا دے گی یا حب الوطنی والا اس کے بارے میں کون سوچے گا مگر یہ طے ہے کہ محکمہ پبلک ہیلتھ،لوکل گورئمنٹ،ہو یا محکمہ بلڈنگ اوکاڑہ انلسٹنت کروانے سے ہی کرپشن بازار سے خریداری کرنا پڑتی ہے اور کمال کرپشن کے بازار میں بیٹھے بڑی بڑی توندوں والے دوکاندار ہیں جو کمشن کے نام پر سب ایڈوانس لیتے ہیں اور ٹھیکدار گھر بار اجاڑ کر ،چانس۔پر رہتا ہے ۔جاوید علاؤالدین کے مطابق گذشتہ سالوں میں،سرپرستی کسی کی بھی ہو تعینات ایکسین ،فدا حسین بھٹہ نے اربوں کی کرپشن کی ہے مگر اسکے گرد گھیرا تنگ کون کرے گا لوٹی ہوئی اربوں کی دولت واپس کون لائے گا میں انہیں خیالوں میں بیٹھا قلم سے کھیل رہا تھا کہ میرے دوست غلام قادر عاکف کی کال آ گئی وہ بھی گورئمنٹ کنٹریکٹر ہے اس سے بات چیت ہوئی تو قہقے لگانے اچھل کود کرنے لگا وجہ دریافت کی تو اس نے حیرت کے پہاڑ کھڑے کرتے ہوئے کہا کہ بھائی جانے دو سیاستدان ہی تو کرپشن کا درس فرماتے ہیں ضلع اوکاڑہ میں اکثریتی ایم پی اے اور ایم این ایز اپنے حلقہ میں ہونے والے کاموں کا پانچ پرسنٹ سے آٹھ پرسنٹ ٹھیکدار سے جگا لیتے ہیں انکار کی صورت میں سکیم بند کروا دی جاتی ہے یا ڈیرے داروں سے درخواستیں دلا کر ٹھیکدار کو خوار کیا جاتا ہے ڈیلی ویجز کے ملازمین بھی انہیں لوگوں کے رکھے ہوتے ہیں ہر سیاستدان کا حکم ماننا اور انکے حکم کی تعمیل کرنا محکمہ والوں کے فرائض میں آتا ہے وہ حکم درست ہو یا غلط کرتا کوئی اور ہے اور بھرنا افسروں کو پڑتا ہے یہ لوگ جب اپنے علاقے کا وزٹ کرتے ہیں ڈویلپمنٹ کی تختیاں ہر حال میں لگانے کا حکم ملتا ہے تا کہ عوام معطمن رہے ان کاموں کا ٹینڈر ہو نہ ہو سب محکمہ کی سردرد بنا دیا جاتا ہے بعض ایسے کام کروائے جاتے ہیں جن کے لیے فنڈ نہیں آتے وہ قربانی بھی ٹھیکداروں کو دینا پڑتی ہے ورنہ انکے کوموں میں کیڑے نکالے جاتے ہیں غرضیکہ سارا نذلہ ٹھیکدار کی کمزور کمر پر گرتا ہے آج کے ٹھیکدار سے پکوڑے بیچنے والا زیادہ کما رہا ہے ۔وہ سنائے جا رہا تھا میں سوچے جا رہا تھا کرپٹ کون ہے سیاستدان،سرکاری ادارے،انکے افسران یا ایکسین فدا حسین بھٹہ جیسے افراد جو اپنے اختیارات کا استعمال کر کے ملک و قوم کو تباہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ جاوید علاؤالدین ایم پی اے کی باتوں میں سچائی ہو یا نہ ہو محکمہ اینٹی کرپشن کو بیدار ہو جانا چاہیے تا کہ کرپٹ لوگوں کو اس کے انجام تک پہچایا جا سکے اور ملکی دولت لوٹنے والوں کو بے نقاب کیا جا سکے ۔،،پر کیتھوں،،سب کی زبان پہ حرام کی کمائی کا ایسا ذائقہ چڑھ چکا ہے کہ حلال کی کمائی کا ذائقہ پھیکا پڑ جاتا ہے۔اور جب ملک کا وزیر اعظم کرپٹ لوگوں کا گھیرا تنگ نہ ہونے دے ان حالات میں کرپشن کے سیلاب کو کون روکے گا ؟؟؟
Rana Zafar Iqbal
About the Author: Rana Zafar Iqbal Read More Articles by Rana Zafar Iqbal: 43 Articles with 34831 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.