بے حیائی میں رسوائی

جناب یہ ملبہ کہاں رکھنا ہے ،پسینے سے شرابورمزودرنے مکان مالک سے پوچھا ۔مکان مالک نے بڑی بیزاری سے جواب دیا ایک گڑھا کھودکریہ ملبہ اس میں دبادو ،مزدور نے ملبہ ٹھکانے لگانے کیلئے چارگھنٹوں کی محنت سے دس فٹ گہرا ایک گڑھا کھودا اوراس میں ملبہ تودبادیا مگراب وہاں مٹی کاایک ڈھیر پڑاہوا تھا ،جس پرمزودرنے دوبارہ مکان مالک سے پوچھا کہ اب اس مٹی کے ڈھیر کاکیا کرنا ہے توجواب میں کہا گیا ایک اورگڑھا کھود کراس میں یہ مٹی ڈال دوچنانچہ مزدورنے بڑی محنت اورمشقت سے ایک نیاگڑھا کھودا جس میں پہلے والی مٹی بھردی مگردوسری بار جوگڑھاکھودا تھااس کی مٹی پھر بچ گئی۔ہمارے حکمران بھی ایک بحران دبانے یادفنانے کیلئے ایک نیا بحران پیداکرتے ہیں اورپھر چوتھااورپانچواں بحران ،انہیں صرف'' مٹی ڈالنا'' آتا ہے۔مسائل کوسلجھانے سے زیادہ ا ن کیخلاف احتجاج کودبانے جبکہ شہریوں کودوسرے مسائل میں الجھانے کیلئے محنت کی جاتی ہے۔منصوبوں کی تعمیر کیلئے مختص رقوم سے زیادہ پیسہ ان کی پبلسٹی پرصرف کیاجاتا ہے ۔ حکمران اوراپوزیشن پارٹیاں اپنی کارکردگی بہتر بنانے کی بجائے دوسروں کوان کی ناکامی کاطعنہ دیتی ہیں ۔حکمرانوں اوران کے مدمقابل سیاستدانوں کے بیانات، رجحانات ،اقدامات اورجھکاؤسے ان کی سمت اورترجیحات کاصاف اندازہ لگایاجاسکتا ہے ۔چندبرس قبل میاں نوازشریف نے لاہورمیں ایک تقریب میں کہا تھا ''جس کی بھارتی پوجا کرتے ہیں ہم بھی اسی کی پوجتے ہیں'' ،اوربھی بہت کچھ کہا تھا۔جس کو عبادت اورپوجاکافرق معلوم نہیں وہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کاتیسری باروزیراعظم بن جاتاہے کیونکہ اس ملک میں سیاستدان کمٹمنٹ یا کارکردگی نہیں بلکہ'' کاریگری '' اور''سہولت کاری ''سے اقتدارمیں آتے ہیں ۔نوازشریف حکومت کابھارت کی طرف ضرورت سے زیادہ جھکاؤجبکہ وہاں تجارت کیلئے ان کی ترجیحات کسی سے پوشیدہ نہیں ہیں ۔

''کانوں کے کچے'' ،''جنے لائی گلی اوہدے نال ٹرچلی،''آدھاتیتر آدھابٹیر'' اور''سوجوتے سوپیاز''سمیت بیسیوں دوسرے محاورے حکمرانوں کارویہ اوران کی روش دیکھ کریادآتے ہیں ۔اسلام جدت کیخلاف نہیں لیکن بدعت میں بربادی ہے ۔ہم مغرب سے زیادہ مغربی روایات کی پیروکاری کرنے کے باوجود ان کیلئے قابل اعتماداورقابل قبول نہیں ہوسکتے ۔شریف خاندان نے ماضی میں اقتدارتک رسائی کیلئے بڑی مہارت سے اپنے بارے میں مذہبی گھرانہ ہونے کاتاثرقائم کیا اورجماعت اسلامی کے سیاسی اتحادی جبکہ ڈاکٹرطاہرالقادری کے پیروکار رہے ۔ا وراب وہ مادرپدرآزادی کے حامی بن کرابھررہے ہیں۔راقم نے میاں نوازشریف کوجاتی امراء رائیونڈ میں نماز اداکرتے ہوئے دیکھا ہے وہ نماز کے آداب سے نابلد ہیں۔اگروہ مذہبی ہوتے تو اسلامی جمہوریہ پاکستان کیلئے لبرل ازم کی تنگ و تاریک راہوں کاانتخاب ہرگز نہ کرتے ۔امریکہ کے اخبار واشنگٹن پوسٹ نے میاں نوازشریف کے لبرل ازم کے ایجنڈے کوبہت سراہا ہے ۔ واشنگٹن پوسٹ میاں نوازشریف کے حق میں لکھتا ہے ''نوازشریف اس بات کوسمجھتے ہیں کہ بین الاقوامی برادری کوایک ترقی پسندپاکستان کی ضرورت ہے،وہ پاکستان کوآگے لے جانے کی جدوجہدکررہے ہیں،ان کی سوچ ہے کہ ایک اعتدال پسند،ترقی پسندیالبرل ایجنڈا ان کے اقتصادی ایجنڈے میں مددگارثابت ہوسکتا ہے،نوازشریف کی موجودہ سیاست نوے کی دہائی والی سیاست سے مختلف اوراعتدال پسندانہ ہے۔ 10مارچ2016ء کو واشنگٹن پوسٹ میں پاکستان کی اقتصادی ومعاشی ترقی اورنوازشریف کے لبرل اورترقی پسندانہ ویژن کے حوالے سے شائع ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ نوازشریف نے ملک کوترقی کی پٹری پرڈال دیا ہے۔رپورٹ میں اعلیٰ سرکاری عہدیداروں اورتجزیہ کاروں کے حوالے سے کہا گیاہے کہ نوازشریف نے نومبر 2015ء میں بین الاقوامی کاروباری رہنماؤں سے خطاب کے دوران ایک نئے اورزیادہ لبرل پاکستان کانعرہ لگاکر ملک کی طاقتورمذہبی برادری کوحیرت میں ڈال دیاتھا ،نوازشریف کے لہجے میں تبدیلی ان کے معاشی ایجنڈے اور42سالہ بیٹی مریم نوازکے اپنے والد پراثرورسوخ کاپتہ دیتی ہے ''۔ واشنگٹن پوسٹ نے نواشریف کے لہجے کوتبدیلی قراردیا مگرمیں یوٹرن کہتاہوں۔نوازشریف کالبرل ازم کاایجنڈادرحقیقت اپنے انتخابی منشور سے انحراف جبکہ پاکستان کی مذہبی قوتوں کومزاحمت پر مجبورکرنے کے مترادف ہے ۔اگرموصوف نے اپنے انتخابی منشورمیں لبرل ازم کاعندیہ بھی دیاہوتا توآج وہ یقینا اقتدارمیں نہیں ہوتے ۔پاکستان کے لوگ کئی دہائیوں سے بدعنوانی اوربدانتظامی برداشت کرتے چلے آرہے ہیں مگروہ نظریہ پاکستان اوراسلامی تعلیمات پرسمجھوتہ ہرگز نہیں کرسکتے ۔امریکہ کی سابق مسیحی مبلغ جینسی ہف جواب امینہ سلیمی ہیں ،انہوں نے کہا '' مجھے یہ بات سمجھ نہیں آتی کہ پاکستان کی خواتین اورمردحضرات نے اس معاشرے کواپناآئیڈیل کیوں بنا لیا ہے اوروہی اطوارکیوں اختیار کررہے ہیں جنہوں نے امریکہ اوریورپ کے معاشروں کوتباہی سے دوچارکیا ہے''۔

تحفظ خواتین بل ہمارے خاندانی نظام کوناکام بنانے اوراس کاشیرازہ بکھیرنے کی طرف لبرل حکومت کی کامیاب پیشرفت ہے۔اس بل کے بعدہمارے معاشرے میں طلاق اورخفیہ شادیوں کی شرح میں خوفناک حدتک اضافہ ہوگا۔کہاجاتا ہے عورت عورت کی دشمن ہے ، شوہراوربیوی کے درمیان نناوے فیصد جھگڑوں کے پیچھے دوسری عورت ہوتی ہے خواہ وہ شوہرکی ماں ،بہن ،بیٹی یادوسری بیوی ہو۔مردکے تشدد سے ہونیوالے زخم دیکھے اوران پرمرہم رکھے جاسکتے ہیں مگر بعض بدزبان خواتین کے لگائے گھاؤنہ دیکھے جاسکتے اورنہ یہ آسانی سے مندمل ہوتے ہیں،اس بل میں ان بدزبان عورتوں کیلئے کوئی سزاتجویزنہیں کی گئی۔عورت کواس کے نسوانی اوربنیادی حقوق مردحضرات کی برابری نہیں بلکہ بردباری اوراسلامی روایات کی پاسداری سے ملیں گے ۔ شریعت اورپاکستان میں رائج قانون کی روسے عورت مرد کے برابر نہیں ہے۔ مغربی ملکوں کی نسبت پاکستان سمیت اسلامی ملکوں میں عورت زیادہ معززاورمحفوظ ہے۔مادرپدرآزادی یابے حیائی میں عورت کی رسوائی اورجگ ہنسائی ہے،یورپ میں عورت کے ساتھ جوکچھ ہورہا ہے ایک مسلمان خاتون اس کاتصور بھی نہیں کرسکتی ۔دنیاکانظام ڈر کی بنیادپرقائم ہے ،سترماؤں سے زیادہ اپنے بندوں کومحبت کرنیوالے بزرگ وبرتراﷲ تعالیٰ نے بھی انسانوں کوڈرنے اورکامل اطاعت کرنے کاحکم دیا ہے۔ اﷲ تعالیٰ سے ڈرنے والے بندوں کو مختلف انعامات کی نویددی گئی ہے،''اﷲ تعالیٰ ان کیلئے (جواﷲ تعالیٰ سے ڈریں گے) مشکل سے نکلنے کاکوئی راستہ پیداکردے گا،اﷲ تعالیٰ انہیں وہاں سے رزق عطاء کرے گاجہاں سے اس کاگمان بھی نہیں ہوگا،اﷲ تعالیٰ ان کے ہرجائزکام میں آسانیاں پیداکردے گا،اﷲ تعالیٰ ان کے گناہوں کومعاف کردے گااورانہیں زبردست ثواب دے گا''۔اگرجنت اورجہنم کاتصور نہ ہوتاتویہ دنیا جہنم سے بدترہوتی۔ لوگ حادثات اوراموات کے ڈر سے مختاط ڈرائیو کرتے ہیں ۔ڈرانسان کادوست ہے جوبرائی ،بدی اوربربادی سمیت بے حیائی سے روکتا اور بچاتا ہے۔جس طرح قانون اورسکیورٹی فورسزکاڈرختم ہونے سے معاشرے جنگل بن جائیں گے اس طرح شوہرکاڈرختم ہونے سے مغرب کی طرح مشرق میں بھی بیویاں شتربے مہارہوجائیں گی اورمادرپدرآزادی کے نام پربے حیائی کاسیلاب اپنے ساتھ اسلامی اقدارکوبہالے جائے گا ،پھرعورت کی عزت محفوظ رہے گی اورنہ زندگی ۔مغرب کے لوگ جس دلدل میں ہیں وہاں سے انہیں صرف اسلام باہرنکال سکتا ہے ۔مغرب میں عوام کا تیزی سے دائرہ اسلام میں داخل ہونااس حقیقت کاغماز ہے کہ وہ اپنے معاشرتی اورخاندانی نظام سے متنفراور بیزار ہیں۔

'' پاکستان کامطلب کیا ،لاالہ الااﷲ'' پاکستان اسلام کے نام پربنااورمادروطن کواسلام کاقلعہ کہا جاتا ہے ،پاکستان کی بنیاد میں ہی اس کی بہبوداور بقاء کارازپوشیدہ ہے ۔پاکستان ایک نظریاتی اسلامی ریاست ہے اورجس کسی نے اس کے نظریہ وجودپرضرب لگائی اس کی سیاست کاجنازہ اٹھ جائے گا ۔پاکستان کاقیام سب سے بڑے قادرکی قدرت کازندہ معجزہ ہے جو مادرپدرآزادی کامتحمل نہیں ہوسکتا ۔ حکومت نے مغرب کی مقتدرقوتوں کوخوش کرنے کیلئے ملالہ سے متنازعہ کردار کے حق میں جہازی سائزکے اشتہارات چھپوائے ،نوازشریف نے متنازعہ فلمساز شرمین عبیدچنائے کووزیراعظم ہاؤس میں مدعوکیااوراسے آسکرایوارڈملنے پرجشن منایا ۔ مادرپدرآزادی کی حامی قوتوں کے نزدیک ہروہ انسان ان کا ہیروہے جواسلام اورپاکستان کی بدنامی کاسبب بنے ۔حکومت کوکبھی امریکہ میں جرم بیگناہی کی پاداش میں قید ڈاکٹرعافیہ سے اظہاریکجہتی کرنے کی توفیق نہیں ہوئی ۔شرمین عبید میں دم ہے تو مادرملت فاطمہ جناح ؒ ،ڈاکٹرعافیہ یاڈرون حملے سے متاثرہ کسی بیوہ خاتون یایتیم بچوں پر فلم بنائے پھرمیں دیکھتاہوں اسے کس طرح آسکرایوارڈملتا ہے۔

مکھی انسان کے صحتمند جسم کوچھوڑ کر وہاں بیٹھتی ہے جہاں زخم ہو۔کچھ لوگ بھی مکھی کی طرح معاشروں کی اچھائیاں اورخوبیاں چھوڑکرصرف خامیاں تلاش کرتے اوران پربھنبھناتے ہیں ۔پاکستان سمیت دنیا کاکوئی ایساملک نہیں جہاں اونرکلنگ نہیں ہوتی،غیرت کے بغیرانسان اورحیوان میں کوئی فرق نہیں رہے گا بلکہ میرامشاہدہ ہے کچھ نرحیوان بھی اپنی مادہ حیوان کودوسرے نرحیوان سے بچانے کیلئے خونیں تصادم پرتل جاتے ہیں ۔حکمران جس طرح کے قانون بنارہے ہیں اس کے بعدباپ بیٹی ،بھائی بہن اورشوہربیوی سے نہیں پوچھ سکے گا کہ تمہارے ساتھ یہ مردکون اوریہ تمہارے ساتھ تنہائی میں کیوں ہے۔ضرورت سے زیادہ آزادی میں انسانی اوراخلاقی قدروں کی بربادی ہے ۔ پاکستان کامذہبی طبقہ مادرپدرآزادی کی راہ میں رکاوٹ ہے ۔جس طرح دنیا کے دوسرے معاشروں میں شیطانیاں ہیں اس طرح پاکستان کے معاشرے میں بھی کچھ خامیاں ہیں لیکن خامیوں کے مقابلے میں خوبیوں اورخصوصیات کی مقدارزیادہ ہے۔شرمین عبید کو اپنی آنکھوں پرتعصب کی عینک کے ساتھ اگرہمارے معاشرے کی کوئی خوبی دیکھائی نہ دے تو مجھے اس کی حالت پرترس آتا ہے۔اس صدی میں ضمیر کی قیدی ڈاکٹرعافیہ سے بڑی کوئی مظلوم عورت نہیں ہوسکتی جو ناکردہ گناہوں کی پاداش میں مسلسل کئی برسوں سے ناحق قیدکاٹ رہی ہے ۔ملالہ یاشرمین عبید نہیں بلکہ ارفعٰ کریم کانام اورکام پاکستان کیلئے قیمتی اثاثہ ہے ،میں نے ''قیمتی اثاثہ تھا'' نہیں لکھا کیونکہ ڈاکٹرعافیہ اورہم سے بچھڑنے والی ارفعٰ کریم آج بھی پاکستان اورپاکستانیوں کیلئے سرمایہ افتخار ہے جبکہ ملالہ کاملال کرنیوالے لوگ بھی اس کی حقیقت سمجھ گئے ہیں ۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کوبھارت کی طرزپر سیکولرریاست بنانے کی بنیادرکھ دی گئی ہے مگر یہ ہوگانہیں کیونکہ پاکستان میں اسلام پسندلوگ بیدار ہیں۔بیرونی قوتوں کی خوشی کیلئے اپنے ہم طنوں کوناراض ،مضطرب اورمشتعل کرنے میں حکومت کیلئے بہت گھاٹا ہے ۔
Muhammad Nasir Iqbal Khan
About the Author: Muhammad Nasir Iqbal Khan Read More Articles by Muhammad Nasir Iqbal Khan: 173 Articles with 139579 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.