’’رعدالشمال‘‘ مشرق وسطی کی سب سے بڑی جنگی مشقیں
(Dr Sajid Khakwani, Islamabad)
بسم اﷲ الرحمن الرحیم
اسپین میں جب مسلمانوں کازوال ہواتومورخین لکھتے ہیں کہ بڑے بڑے علاقائی
نوابوں کے حرم توہزاروں عورتوں سے بھرے رہتے ہیں جب کہ ان کے رسالہ میں یک
صد مردان جنگی بھی پورے نہ ہوتے تھے۔قیادت کی ترجیحات کا قوموں کے عروج و
زوال سے براہ راست نسبت ہوتی ہے،مولانا سیدابوالاعلی مودودی ؒایک جگہ رقم
طرازہیں کہ میں ایک ہزارشیروں کے اس لشکرسے نہیں ڈرتاجس کی قیادت ایک
بھیڑکررہی ہو لیکن ایک ہزار بھیڑوں کے اس لشکرسے خوف زدہ ہوں جس کی قیادت
ایک شیر کررہاہو۔دورغلامی کے بے شمار اثرات بدمیں سے ایک بڑاالمیہ یہ
ہوتاہے کہ قوموں کی صف اول جرات مند،نڈراوربیدارمغزقیادت سے محروم ہوجاتی
ہے۔چارسوتیس سال فرعون کی غلامی میں گزارنے کے بعد بنی اسرائیل جیسی قوم
بھی انبیاء علھم السلام کی نسل ہونے کے باوجود کسی طرح کی قیادت پیدانہ
کرسکی۔حضرت موسی علیہ السلام کے حالات زندگی میں فرعون کے گھرپرورش پانے
میں ایک جزیہ یہ بھی پنہاں ہوسکتاہے کہ انہیں ایک غلامی زدہ قوم سے دوررکھ
کراور شاہی محل میں پرورش پاکران میں قائدانہ صلاحیتیں اجاگرکی جائیں۔امت
مسلمہ پرکم و بیش تین سوسال کی غلامی کے بعددوراندیش قیادت سے محرومی ایک
فطری و تاریخی امر تھا۔وقت کے ساتھ ساتھ تاریخ کی جمی گرد چھٹتی چلی جارہی
ہے اور ٹھنڈی ہواکے جھونکے گلشن میں بادبہاری کی آمد کاپتہ دینے لگے
ہیں۔مشرق بعیدمیں قیام پاکستان،پاکستان کے ایٹمی دھماکے اورتاسیس جہادنے
امت مسلمہ میں ایک اجتماعی سوچ بیدارکیاچاہی تھی لیکن کل مسلمانان عالم کی
پیاسی نگاہیں بار بار مشرق وسطی کے صحرائے عرب کی جانب اٹھتی تھیں۔
’’رعدالشمال‘‘یعنی جانب شمال کی گرج،نامی بہت بڑی اورتاریخی جنگی مشقیں
10مارچ 2016کو اختتام پزیرہوئیں۔یہ عظیم الشان عسکری مشق سعودی عرب کے شمال
مشرقی شہر ’’حفرالباطن‘‘میں وقوع پزیر ہوئی۔یہ شہرکویت اور عراق کی سرحدوں
سے قریب ترین واقع ہے۔ان فوجی مشقوں میں بیس کی تعدادمیں عربی،اسلامی اور
خلیجی ممالک کے فوجی دستوں میں حصہ لیا،اس لحاظ سے دوسری خلیجی جنگ کے بعد
یہ سب سے بڑی عسکری مشق بن گئی۔یہ مشق اس لحاظ سے بھی اہم رہی کہ اس میں
توپ خانے، ٹینک اور فضائی قوت کے استعمال میں وقت کی بہترین تکنالوجی کی
کارکردگی کو جانچاگیا۔ان مشقوں میں روایتی جنگ کے ساتھ ساتھ گوریلا جنگ کے
طریقے بھی آزمائے گئے۔’’العربیہ‘‘کے مطابق سعودی عرب کے امیرالعساکر نے ان
مشقوں پر اپنی رائے کااظہارکرتے ہوئے کہاہے کہ’’رعدالشمال مشترکہ جنگی
مشقیں تھیں،جن کامقصدشریک افواج کے عناصر کی فنی وعسکری استعدادمیں بڑھوتری
لانا اور ترسیل و نقل و حرکت کے منصوبوں پر علم درآمد کی مشق کرانا
تھا۔جبکہ اس مشق کے سیاسی مقاصد میں خطے کے امن و استحکام کو درپیش تقاضوں
کوپوراکرنے کے لیے شریک ممالک کے درمیان اشتراک عمل کی صلاحیت پیداکرنابھی
تھا۔‘‘عسکری اتحاد کے لیے سعودی حکومت کی طرف سے جو اعلان کیاگیاتھا اس میں
چونتیس ممالک کادعوی تھا ،اس کے علاوہ اس مشق کے منصوبے میں دوہزارپانچ
سوجنگی جہاز،بیس ہزار ٹینک،ساڑھے چارسوہیلی کاپٹرزاور ساڑھے تین لاکھ فوجی
بھی شامل تھے۔منصوبے کے مطابق بری،بحری اور فضائی ہرتین طرح کی افواج کی
تربیتی مشق اس کا حصہ تھی اوراس مشق کو اٹھارہ دنوں تک جاری رہناتھا۔ لیکن
عملاََ بارہ دن جاری رہنے والی اس مشق میں بیس ممالک ہی شریک ہوئے۔اس مشق
کی آخری تقریب میں کچھ متعلقہ ممالک کے سربراہان بھی شریک ہوئے۔مشق میں ان
شریک ممالک کے نام سعودی عرب میزبان،متحدہ عرب امارات، اردن، بحرین،
سینیگال، سوڈان، کویت، مالدیپ، مراکش،پاکستان،چاڈ،ترکی،تیونس،اتحادالقمری،
جبوتی،عمان ،قطر،ملائشیا،مصراورموریطانیہ کے فوجی دستے بھی اس مشق میں شامل
رہے۔ممالک کی تعداد،افرادی قوت اور علاقے کی وسعت کے اعتبار سے اس مشق کے
بارے میں یہ دعوی بھی کیاجارہاہے کہ اس وقت تک یہ دنیا کی بھی سب سے بڑی
عسکری مشق ہے۔
سعودی عرب جواس مشق کامیزبان ملک تھا،بین الاقوامی ادارہ برائے
عسکریات(International Institute of Strategic Studies)کے تجزیے کے مطابق
مشرق وسطی کی سب سے مضبوط عسکری قوت سعودی عرب ہے،جس کے پاس بہترین عصری
دفاعی تکنالوجی،پچتھرہزار(75,000) سے زائدفرادی قوت اور تین سوتیرہ جنگی
ہوائی جہاز ہیں۔سعودی عرب کی فوج کانام’’الجیش العربی السعودی‘‘ہے۔1923ء
میں اس فوج کی تاسیس ہوئی،تیل کی دولت برآمدہونے کے بعدانکل سام کی نظریں
یہاں جم گئیں اور14فروری1945کو سعودی فرمانرواشاہ عبدالعزیزاور امریکی
صدرفرینکن ڈی روزویلٹ کے درمیان ایک معاہدے کے تحت امریکہ اور سعودی عرب
عسکری اتحادی بن گئے۔1948کے عرب اسرائیل تنازعے کے بعد سعودی افواج کومزید
وسعت دی گئی۔تیزی سے تغیرپزیرعالمی حالات کے باعث 2000ء میں سعودی خزانے
کامنہ بڑی وسعت قلبی کے ساتھ دفاع کے لیے کھولا گیا۔سعودی عرب کی افواج میں
بری افواج،فضائیہ،بحریہ،فضائی دفاع اور بلاسٹک میزائل کے شعبے شامل ہیں۔ان
کے علاوہ سعودی قومی رضاکار اور سعودی شاہی دستے بھی سعودی عرب کی عسکری
طاقت کے مظاہرہیں۔سعودی شہر ’’دمام‘‘میں ’’عبداﷲالفارس‘‘کے نام سے ایک بہت
بڑی کمپنی ہے ،اس کمپنی کے کارخانوں میں دیگر اشیاء کے علاوہ فوجی استعمال
میں لائے جانے والی گاڑیاں وسیع پیمانے پر تیار کی جاتی ہیں۔مملکت کے شمال
مشرق میں ایک بہت بڑاشہر آباد کیاگیاہے جس کانام ’’مدینۃ الملک خالد
العسکریہ‘‘ہے یعنی شاہ خالد شہرسپاہ(King Khalid Military City)۔یہ
شہر1974ء میں بنناشروع ہوااور کئی سالوں بعداسی کی دہائی میں مکمل ہوا۔یہ
شہرایک بہت بڑافوجی منصوبہ ہے جس میں ایک فضائی فوجی اڈہ بھی ہے۔سعودی حساس
تنصیبات بھی یہیں نصب ہیں۔اس شہر میں فوجیوں کی تربیت ،رہائش اورفوجی مشقوں
سمیت متعدد عسکری امور نمٹائے جاتے ہیں۔زیرنظر فوجی مشقیں ’’رعدالشمال‘‘اس
شہر سے فقط ساٹھ کلومیٹرکے مختصرفاصلے پرکی گئی ہیں۔سعودی عرب اگرچہ اس
عالمی معاہدے کاحصہ ہے جس کے تحت ایٹمی ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ پراتفاق
کیاگیاہے تاہم غیرمصدقہ اطلاعات کے مطابق سعودی قیادت اپنے ملکی دفاع کے
لیے ایٹمی ٹیکنالوجی میں دلچسپی رکھتی ہے اور ایٹمی ہتھیارخریدنے کی خواہش
مند بھی ہے۔
’’رعدالشمال‘‘کی عسکری مشق سے کم از کم یہ توواضع ہوا کہ عرب دنیا عرب
قومیت کے تعصب سے نکل کر اسلامی امہ کی طرف آمادہ ہے۔اب تک کی عرب اسرائیل
جنگوں کو ایک طرف تو پوری امت نے ان جنگوں کادرد اپنے وجود میں محسوس
کیالیکن دوسری طرف عرب قیادت کا ایک معتد بہ حصہ ان جنگوں کو صرف عربوں کی
جنگ ہی قراردیتارہا۔’’عرب قومیت(Arab Nationalism)کابت پوجتے پوجتے آج امت
مسلمہ اس حال کو آن پہنچی ہے کہ دشمن ممالک مسلمانوں کے وسائل اور مسلمانوں
کی آبادیوں کوآپس میں ایسے بانٹتے ہیں جیسے جنگل کے جانور بھی مفت کاہاتھ
لگاشکار آپس میں نہیں بانٹتے ہوں گے۔عربوں کے ہاں ’’کاروائی روشن ستارہ
(Operation Bright Star)کے نام سے سب سے پہلی مشترکہ جنگی مشقیں
ستمبرتادسمبر1980مصرمیں ہوئی ،جس میں مصراور امریکہ کی افواج نے حصہ لیا۔اس
کے بعدتقریباََ ہرسال یہ مشقیں منعقد ہوتی رہیں اور کبھی کبھی دیگرعرب
ممالک بھی ان میں حصہ لیتے تھے۔مثلاََ2000ء کی ان مشقوں میں سترہزارنفوس
جنگی اور گیارہ عرب ممالک نے حصہ لیا۔’’رعدالشمال‘‘سے پہلے مشرق وسطی کی
تاریخ کی سب سے بڑی فوجی مشق یہی تھی۔2013ء میں اخوان کی منتخب قیادت نے ان
مشقوں کو بندکرادیا۔لیکن وائے بدنصیبی کہ یہ ساری فوجی مشقیں عرب قوم پرستی
کی آکاس بیل کوہی پانی دیتی رہیں۔اورسب سے دکھی پہلو یہ ہے کہ ان مشقوں میں
امریکہ اور یورپ کے ممالک تو بڑھ چڑھ کرحصہ لیتے رہے اور بعض عرب شیوخ امت
کے وسائل سے ان اسلام دشمنوں کو جھولیاں بھربھرکر ادائگیاں بھی کرتے رہے ،لیکن
اسلامی ممالک اوران کی عوام کے لیے ان عرب قوم پرستوں کادامن ہمیشہ تنگ ہی
رہا۔سرزمین عرب پر ’’رعدالشمال‘‘ پہلی فوجی مشقیں ہیں جن میں عرب اور غیر
عرب صرف اسلامی ممالک کو دعوت دی گئی ہے اور اس کا سہرہ سعودی عرب کے سرپر
ہے۔ممکن ہے اس بہانے سے سعودی قیادت پوری امت کی سرپرستی کرنا چاہتی ہو،اور
اس میں کوئی حرج بھی نہیں ہے۔تاہم یمین و یسار سے ایسی افواہیں بھی کثرت سے
گردش میں ہیں کہ قوت کایہ مظاہرہ کسی فرقہ ورانہ مہم جوئی کاحصہ ہے۔قرائین
سے اس کاامکان بھی ہے اور یہودونصاری کے میڈیاپروپیگنڈہ سے اس کو بدظنی بھی
قرار دیاجاسکتاہے۔بہرحال،اﷲتعالی شرسے خیربرآمدکرنے کی طاقت رکھتاہے۔تاریخ
نے ہزاروں مرتبہ توپوں کارخ مڑتے دیکھاہے اور خاص طورپر میدان جنگ میں
توپانسہ پلٹتے دیرنہیں لگتی۔ اب بھی کچھ بعید نہیں کہ بہت جلد فوجی اتحاد
امت کا یہ بہت بڑابم مسلمانوں کی منحوس سیکولرقیادت کواپنے اندرسمیٹ کر
یہودونصاری پر جاپھٹے،انشاء اﷲ تعالی۔ |
|