جس طرح سے ہماری مسجدوں ، مدرسوں اور علماء
کا بٹوارہ ہواہے اسی طرح سے ہم نے اب مسلم سیاسی و ملی قائدین کا بٹوارہ
بھی شروع کردیا ہے ۔ جب ہم نماز کے لئے کسی مسجد کی تلا ش کرتے ہیں تو ہم
سے پوچھا جاتاہے کہ کس کی مسجد چاہئے ، کسی امام سے رابطہ کرنے کی بات کی
جاتی ہے تو ہم سے سوال پوچھا جاتاہے کہ کونسے مسلک کے امام کی ضرورت ہے ۔
لیکن آج ہماری نوبت یہاں تک آگئی ہے کہ ہم اپنے لئے سیاسی لیڈر کاانتخاب
بھی مسلک کی بنیادپر کررہے ہیں ۔ بھلے کسی لیڈر میں قوم کی ترجمانی کرنے کی
تمام صلاحتیں ہو ں ، وہ قوم کی رہبری کرنے کی استطاعت رکھتاہو، اپنے مفادات
کو ترک کرتے ہوئے خالص قوم کی ترجمانی کرنے کا جذبہ رکھتے ہو ، کسی سے ایک
روپئے کی خواہش نہ کرتا ہو لیکن ہماری قوم سب سے پہلے یہ جاننا چاہتی ہے کہ
وہ کونسے مسلک کا ہے اور وہ کس مسجد کو جاتاہے ۔ ہم مسلمان آپس میں ایک
دوسرے کو اپنے مسلک سے پہچاننے کی کوشش کرتے ہیں ، ہماری شناخت مسلمانوں سے
زیادہ مسلک کی بنیادپر کی جاتی ہے ۔ ہم مسلمان ایک دوسرے پر انگلی اٹھاتے
رہے ہیں اور ہم نے کبھی یہ کہنا مناسب نہیں سمجھا کہ ہمارا مذہب ایک ہے ،
ہمارا دین ایک ہے ، ہمارا رب ایک ہے اور ہمارے رسول ﷺ ایک ہیں ، ہم نے آپس
میں فرقہ بازی کو اہمیت دے رکھی ہے لیکن ایک کافر ہی ہے جو ہم تمام مسلکوں
کے مسلمانوں کو ایک مسلمان مانتاہے اور وہ جب بھی اسلام کو ماننے والوں پر
نشانہ لگا تاہے اس وقت یہ نہیں دیکھتا کہ یہ کونسے مسلک کا ہے ، یہ کس مسجد
کو جانے والا ہے بلکہ یہ دیکھتاہے کہ کیا یہ مسلمان ہے ۔ ہماری آپسی رنجشیں
ہمیں ہر مورچے پر پست کررہی ہیں ۔ ہمارے اختلافات غیروں کے لئے طاقت بنتے
جارہے ہیں ۔ ہماری تو تو میں میں کافروں کے لئے راستیں ہموار کررہی ہیں یہی
وجہ ہے کہ ملک میں بیس کروڑ مسلمان ہونے کے باوجود ہمارے پاس کو ئی مضبوط
سیاسی پارٹی نہیں ، سیاسی پارٹی کی بات تو دور ایک مضبوط لیڈر بھی نہیں ہے
اور بیس کروڑ مسلمانوں میں سے 15؍ کروڑ مسلمانوں کی مجبوری یہ ہے کہ وہ
غیروں کو اپنا رہبر مان رہے ہیں ، غیروں کی تقلید کرنا انکی بے بسی بن گئی
ہے ۔ آج ہمارے اپنے مسائل بھی غیروں کی دہلیز پر سلجھنے لگے ہیں ، جو لوگ
ہمارے ایمان کی ذرہ برابر بھی برابری نہیں کرسکتے آج ویسے لوگ ہمارے رہنماء
ہیں ۔ ہر پانچ سالوں میں ایک دفعہ ہم ان کافروں کو اپنا رہنماء بنادیتے ہیں
اور جو مسلمان اپنے قوم کی قیادت کرنا چاہے ، ایک مسلمان کی موت پر کندھا
دینے والا ہو اسکی قیادت ہمیں منظور نہیں کیونکہ وہ تو کسی اور مسلک کا
آدمی ہے ۔ جب ہم زندہ رہیں تو ہمیں دوسرے مسلک کے فرد کا سایہ بھی گنوارا
نہیں اور جب ہماری موت ہوجائے تو ہماری میت میں تمام مسلک کے لوگوں کا
کندھا قبول ہے ، آخر ہم مسلمان کیوں اتنے تنگ نظر ہورہے ہیں ۔ ملک کے موجود
ہ حالات میں ہمیں مل کر ایک دوسرے کاساتھ دیناہے ۔ ہمارے درمیان جو نوجوان
کھڑے ہیں ان نوجوانوں کی ہمت افزائی کرنی ہے تاکہ وہ ہماری قیادت کرسکیں ،
ہماری آواز بن سکیں ۔ہم یہ نہ سوچیں کہ وہ اقتدار کرنے کے بعد ہماری کس حد
تک نمائندگی کریگا بلکہ یہ سوچیں کہ اسے ایک دفعہ موقع دے کر تو دیکھیں، جب
ہم غیروں سے وفاداری کی امید لگائے بغیر ہی اپنا قائد مانتے ہیں تو اپنوں
پر اعتبار کیوں نہیں کرتے ۔ آج ہماری یہی کمزوری ہے کہ ہم مسلمان دوسرے
مسلمان پر اعتبار کرنے سے گریز کرتے ہیں ، شاید اسی بات پر مولانا
ابوالکلام آزاد نے کہا تھا کہ ’’ اگر دنیا مزید دس بیس ہزار سال بھی قائم
رہیں تو دوچیزیں نہیں بدل سکتیں ، ایک ہندوؤں کی اپنے مذہب کو لے کر تنگ
نظر ی ، دوسرا مسلمانوں کا اپنے مخلص لیڈر کو برا بھلا کہنے کی عادت ‘‘ ۔
آج ہم اسی قول پر عمل کررہے ہیں جبکہ دنیا کہاں سے کہاں چلی گئی ۔ چائے
بیچنے والا جب ملک کا وزیر اعظم بن سکتاہے ، مندروں میں گھنٹیاں بجانے والے
اراکین پارلیمان بن سکتے ہیں ، بکرے چرانے والی ذات کے لوگ وزیر اعلیٰ بن
سکتے ہیں ، دو دھ دوہنے والی یادؤں کی ذات ملک کے وزیر اعظم کی کرسی کے
خواب دیکھ سکتی ہے تو ہم دنیا پر خلافت کرنے والی مسلمان قوم کو کیا ہوگیا
؟۔ اب بھی وقت ہے اگر مسلمان ایک ہوجائیں تو یقینا بہت بڑا کام ہوسکتاہے
ورنہ ہماری قوم کی تنکوں میں بٹ جائیگی ۔ یہ تحریر پڑھ کر اطمینان کرنے سے
زیادہ دوسروں تک پہنچانے والی بات ہے اور اسے عمل میں لانے کے لئے بھی پہل
کرنی چاہئے ۔ کوشش کرنا ہمارا کام ہے ، نتیجہ نکالنے ہمارے رب کی رضا ہے ۔
اگر ہم اب بھی یہ سوچتے ہی رہینگے کہ اس قوم کا کچھ نہیں ہونے والا تو
یقینا کچھ نہیں ہوگا ، اب ہمیں قوم کے لئے کچھ کرنے کا عزم لے کر اٹھنا ہے
تبھی قوم کا کچھ ہوسکتاہے۔ یقینا تحریر مختصر ہے لیکن کام بہت بڑاہے اور اس
امید کے ساتھ تحریر ختم کرتے ہیں کہ ’’نہیں تیرا نشیمن قصر سلطبانی کے گنبد
پر ۔۔۔ تو شاہیں ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں پر ۔۔ |