ڈائریکٹر انٹی کرپشن صوبہ کے پی کے ضیاء اﷲ
طورو کے بقول گذشتہ 18ماہ میں محکمہ نے ایک ارب 60کروڑ روپے کرپٹ افسران سے
جمع کرکے سرکاری خزانے میں جمع کروائے۔ 1150کرپٹ سرکاری افسران و ملازمین
کو گرفتار کیا گیا۔ جن میں 21گریڈ کے افسر بھی شامل ہیں۔ اسکے علاوہ مختلف
محکموں اور اہلکاروں کے خلاف 3050 انکوائریاں چل رہی ہیں۔ انٹی کرپشن کو
مزید فعال بنانے کیلئے سخت ترین قوانین بنائے جارہے ہیں۔ انہوں نے ڈیرہ
اسماعیل خان کے دورے کے دوران فرمایا کہ صوبے میں احتساب کمیشن اور انٹی
کرپشن کا محکمہ دونوں بہتر انداز میں کام کررہے ہیں۔ دونوں میں کوئی تضاد
نہیں ہے۔ انہوں نے محکمے کو مزید فعال بنانے کیلئے 254نئی پوسٹوں کی منظوری
کا بھی اعلان کیا جس میں کانسٹیبل سے لیکر اسسٹنٹ ڈائریکٹر کی اسامیاں شامل
ہیں۔ دفاتر کو 20نئی گاڑیاں بھی فراہم کی جائیں گی جبکہ انکے بقول وزیر
اعلی نے پراسیکیوٹ ونگ کی بھی منظوری دیدی ہے جس کی عدم دستیابی کے باعث
پہلے ملزمان چھوٹ جاتے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ ہسپتالوں میں ادویات کی
خریداری اور سی اینڈ ڈبلیو ، ایریگیشن، مال وغیرہ میں کرپشن کی سطح بہت
زیادہ ہے۔ ڈائریکٹر انٹی کرپشن کی باتیں اور عزم حوصلہ افزا ہیں۔ گذشتہ
18ماہ میں محکمہ نے تھوڑی بہت کارروائیاں بھی کی ہیں لیکن انہیں کرپشن کے
خلاف کوئی بڑی کامیابی حاصل نہ ہوسکی ہے۔ انہوں نے چند محکموں کا ذکر کیا
لیکن بلدیہ، تعلیم، زراعت، جنگلات، پبلک ہیلتھ، پولیس کی کرپشن کو گول مول
کرگئے حالانکہ کوئی بھی دودھ کا دھلا ہوا نہیں ہے۔ یہ کہا جاسکتاہے کہ
محکموں کی کارکردگی میں قدرے بہتری آئی ہے لیکن جس رفتار اور عزم کے ساتھ
کام ہورہاہے برسوں بھی کرپشن کا ناسور ختم نہیں ہوسکتا۔ کرپشن کے خاتمے میں
سب سے بڑی رکاوٹ ہمارا کرپٹ سیاسی کلچر اور محکمہ انٹی کرپشن میں موجود
کالی بھیڑیں ہیں جو عرصہ دراز سے براجمان ہیں۔ سب سے پہلے تو ضرورت اس بات
کی ہے کہ انٹی کرپشن محکمے کا احتساب کیاجائے اور اسے سیاسی دباؤ سے آزاد
کیاجائے۔ بلا امتیاز کارروائیاں کرپٹ عناصر کے خلاف ہی کرپشن سے پاک معاشرہ
تشکیل دینے میں مدد دے سکتاہے۔ لیکن یہاں تو اپنے سیاسی نمائندوں اور افسر
شاہی کو تحفظ فراہم کرنے کیلئے قانون میں ترامیم کی جاتی ہیں۔ PTI کی حکومت
نے اپنی الیکشن مہم میں جس طرح کرپشن سے پاک سیاسی نظام متعارف کروانے
کاوعدہ کیا تھا اس میں وہ خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں کرپائے ہیں۔ چند
محکموں کی کرپشن اور اپنی مجبوریوں اور رکاوٹوں کا تو انہوں نے خود ذکر کیا
لیکن جن محکمہ جات کو انہوں نے چھوڑدیا جنکا ذکر میں نے اوپر کی سطور میں
کیا، میں بھی کرپشن موجود ہے۔ بلدیہ کے محکمے صوبہ بھر میں بدنظمی و کرپشن
کا شکا رہیں۔ سیاسی بھرتیاں کی جارہی ہیں۔ ٹھیکوں کی بندربانٹ جاری ہے۔
بلدیہ کی آمدنی کوجعلی رسیدوں کے ذریعے ہڑپ کیاجارہاہے ۔ اربوں روپوں کی
کمرشل اراضی کو اونے پونے اپنے منظور نظر افراد کو دیکر سرکاری خزانے کو
نقصان پہنچایا جارہاہے۔ بلدیہ کا 50فیصد سے زائد عملہ سرکاری افسران، سیاسی
نمائندوں وغیرہ کے گھروں میں ڈیوٹیاں سرانجام دے رہاہے۔ گذشتہ اور موجودہ
دور میں جو سیاسی بھرتیاں کی گئیں، خاکروب، جمعدار وغیرہ کی اسامیوں پر وہ
یہاں ایک طرف کوئی کام نہیں کرتے الٹا گھر میں براجمان تنخواہیں وصول کررہی
ہیں لیکن محکمہ انٹی کرپشن کی آنکھوں سے سب کچھ اوجھل ہے۔ معلوم ایسا
ہوتاہے کہ مبینہ طورپر بلدیہ ان کے کنٹرول سے باہرہے۔ محکمہ مال کا پٹواری
سرکاری فیسوں سے زائد وصول کررہاہے۔ دوروں کو کینسل کیاجاتاہے ۔ چارسالے
نامکمل اہل کمیشن کی درخواستوں پر عمل درآمد نہیں ہوتا ۔چمک کے ذریعے
پٹواریوں کی ٹرانسفرز ہورہی ہیں ۔PTI حکومت کے ابتدائی سال میں محکمہ مال
کی کرپشن کے خلاف اقدامات کئے گئے ۔ اب دوبارہ ویسے ہی اقدامات کی ضرورت ہے۔
ہسپتالوں کی حالت قدرے بہتر ہے لیکن ڈاکٹرز ڈیوٹی نہیں دیتے اور ادویات کی
خریداری میں کرپشن کی نشاندہی تو خود ڈائریکٹر انٹی کرپشن نے کردی ہے۔ حاضر
سروس ڈاکٹرز عملہ دوران نوکری پرائیویٹ کلینک وہسپتالوں میں رقم بٹوررہے
ہوتے ہیں۔ زچگی کے نارمل کیسز کو آپریشن کے ذریعے آپریٹ کرنے کا رحجان
زوروں پر ہے۔ لیکن ڈاکٹر مافیا کے خلاف کارروائی کون کرے؟ خاص کر سینیئر
ڈاکٹرز کے خلاف چیف سیکریٹریز سے اجازت چاہئے۔ محکمہ جنگلات ، زراعت میں
شجرکاری مہم کو سیاست کی بھینٹ چڑھادیا گیا۔ جسکے ردعمل میں ڈیرہ و ٹانک کے
ڈویژنل فارسٹ آفیسر مظہر اقبال نے جو کہ گریڈ 18کے افسر ہیں، اپنے عہدے سے
استعفی دیدیا۔ مبینہ طورپر ان کا یہ الزام ہے کہ میرے پاس کوئی اختیار نہیں
ہے۔ سب کچھ احکامات اوپر سے آتے ہیں۔ محکمہ تعلیم کے بھوت سکول قائم و دائم
ہیں لیکن ایک اچھی چیز PTIحکومت کے کریڈٹ میں جاتی ہے کہ ان کے دور میں
پہلی مرتبہ یہ دیکھا گیا ہے کہ بے روزگارکو گھر بیٹھے میرٹ پر ان کے علاقوں
میں نوکریاں ملی ہیں۔ میرٹ پر نوکری کا تصور MMA اور اے این پی میں دیوانے
کا خواب تھا ۔ نااہلوں ، نالائقوں، جاہلوں اور جعلی ڈگری کے حامل لوگوں کو
محکمہ تعلیم جیسے اہم شعبے میں بھرتی کرکے نوجوانو ں کے مستقبل سے کھیلا
گیا۔ بہرحال اب بھی محکمہ تعلیم کے سکولوں کی عمارتوں کی زبوں حالی قابل
دید ہے۔ تزئین و آرائش، فرنیچراور مفت کتب کی فراہمی کا سلسلہ کرپشن سے
بھرپور ہے۔ ایریگیشن اور پبلک ہیلتھ کے محکموں میں پینے کے صاف پانی اور
اراضی کی سیرابی کیلئے ترقیاتی کاموں پر وڈیروں، سیاسی نمائندوں اور
جاگیرداروں کا قبضہ ہے خاص کر دیہاتوں میں پینے کے صاف پانی کی فراہمی کے
ٹیوب ویلز اکثر خراب رہتے ہیں۔ بااثر لوگ ہیوی موٹر پمپ لگاکر پانی پر قبضہ
کرلیتے ہیں لیکن ان کے خلاف کارروائی ندارد، محکمہ سی اینڈ ڈبلیو کے اکثر
ترقیاتی کاموں، دراصل ماضی کی طرح اپنوں ہی کے پاس جو غیر ضروری تاخیر کا
شکار ہیں، اربوں روپوں کے ترقیاتی بجٹ کی رقوم کام نہ کرنے کے باعث واپس
ہوجاتی ہیں۔ پولیس کا محکمہ قدرے بہتری کی جانب سیاسی دباؤ سے آزاد ہے لیکن
تھانوں کی سطح پر کرپشن ختم نہیں ہوئی۔ محکمہ ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن کا بھی
یہی حال ہے۔ غرض کرنے کو انٹی کرپشن کے پاس بہت کچھ ہے مگر اسکے لئے Will
استعداد اور امتیاز کاروائی کی ضرورت ہے اور جب تک ملک میں بلا امتیاز
احتساب کا عمل شروع نہیں ہوتا سرکاری Constraintsمجبوریوں کو ختم نہیں
کیاجاسکتا۔ کالی بھیڑوں کا احتساب اور محکمے کو ان سے پاک نہیں کیاجاتا
کرپشن کے خاتمے کے دعوے صرف کاغذی حد تک دعوے ہی رہیں گے۔ |