سیاست میں نہیں ہے فرق جینے اور مرنے کا

انگریزی زبان میں لِونگ کے معنیٰ جینے اور لیونگ کا مطلب جانے کے ہوتے ہیں ۔ سری سری روی شنکر جینے کا فن سکھا تے ہیں اور وجئے ملیا جانے کی مہارت کا مظاہرہ کرتے ہیں ۔ ان دونوں کا مسکن بنگلورو میں ہے نیز ان کے درمیان قدرِ مشترک بی جے پی ہے۔ وجئے ملیا نےایک آزاد امیدوار کی حیثیت سے راجیہ سبھا کی رکنیت اختیار کی تو انہیں جنتا دل (ایس) نے ۲۳ ووٹ اور بی جے پی نے ۳۰ ووٹ عنایت کئے تھے اس طرح ۵۳ ووٹ لے کر وہ ایون بالا کے رکن بنے اور ان کے فرار میں ارکان پارلیمان کو حاصل سفارتی پاسپورٹ ہی کام آیا اور اس طرح مختلف بنکوں کا ۹۰۰ کروڈ قرض چرا کر وہ بھاگ کھڑے ہوئے۔ ملیا کی طرح روی شنکر بھی وزیراعظم کے بہت بڑے مداح ہیں اور انہیں برسوں سے یوگا سکھانے کی کوشش کررہے ہیں یہ اور بات ہے کہ مودی جی کی اکڑ اورتوند ان کی راہوں میں حائل ہے -

مودی جی کو چاہئے کہ وہ آر ایس ایس کی شاکھاوں میں لاٹھ بازی کے بجائے یوگا کی ورزش کا اہتمام کروائیں تاکہ کم از کم سنگھ پریوار کی آئندہ نسل اس قدر لچکدار ہو جائے کہ یوگا کرسکے۔ ویسے مودی جی کی فیشن پرستی کاآرایس ایس پر یہ اثر ضرور ہوا کہ اس نے خاکی نیکر کے بجائے پتلون پہننے کا فیصلہ کرلیا۔ ویسے کچھ لوگوں کا خیال ہے اس تبدیلی میں سب سے اہم کردار رابڑی دیوی نے اداکاش ہے۔ انہوں نے کہا تھا یہ لوگ نیکر پہن کر عوامی مقامات پر آجاتے ہیں انہیں شرم نہیں آتی ؟ ہمیں شرم آتی ہے۔ رابڑی دیوی کے اس فقرے میں نہ جانے کیا جادو تھا کہ اچانک نیکر کی لمبائی میں اضافہ ہوگیا اور وہ اچانک پتلون بن گئی۔ صحیح بات تو یہ ہے کہ سنگھ پریوار کی چڈی ڈھیلی کرنے میں نتیش سے لے کر کنھیا تک بہاریوں نے غیر معمولی کردار ادا کیا ہے۔

سنگھ پریوار کی ٹوپی اچھالنے کا کام دہلی میں اروند کیجریوال نے کیا تھا اور ایسی پٹخنی دی کہ ہندوتوا والےراجدھانی میں جلسہ کرنا بھول گئے۔ اسی لئے سری روی شنکر کی شکر میں لپٹی ہوئی زہر کی پڑیا لے کر مودی جی کو آنا پڑا لیکن شومئی قسمت سے شکر کی پرت دیکھتے دیکھتے بارش میں بھیگ جمنا میں بہہ گئی ۔ پروگرام کے دوہفتہ قبل اجتماع گاہ کی تیاری کے سبب ہونے والے ماحولیات کے نقصان کو لے کر کچھ لوگوں نے قومی سبز عدالت کے دروازے پر دستک دی ۔ عدالت نے اپنے ماہرین کی ایک ٹیم کو نقصان کا اندازہ لگانے کی ذمہ داری سونپی تو ۱۲۰ کروڈ کا تخمینہ لگایا گیا۔ سری سری روی شنکر کو جینے کا فن سکھانے کیلئے ان پر کم از کم ۲۵۰ کروڈ کا جرمانہ لگایا جانا چاہئے تھا لیکن گوں ناگوں وجوہات کی بناء پر عدالت نے ۱۰۰ کروڈ پر اکتفاء کیا۔

روی شنکر جی چونکہ جینے کا فن سیکھ چکے ہیں اس لئے انہوں نے اپنے رسوخ کا استعمال کرتے ہوئے اس جرمانے کوگھٹا کر۵ کروڈ کروا دیا ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اب باقی کے ۱۱۵ کروڈ کون خرچ کرے گا؟ اگر حکومت کرے گی تو کیوں؟ یا پھر اس نقصان کی بھرپائی ہی نہیں ہوگی ؟ اگر نہیں تو لعنت ہو زندگی گذارنے کے اس فن پر جس نے نہ صرف مقامی لوگوں کا بلکہ وہاں رہنے بسنے والےچرند پرند کا بھی جینا اجیرن کردیاہے۔ اگرایک عام ہندوستانی سے یہ سوال کیا جائے کہ زندگی گذارنے کا فن کیا ہے تو وہ برجستہ کہے گا ’’جیو اور جینے دو‘‘ لیکن سری سری روی شنکر اس حقیقت سے ناواقف ہیں ۔ ایک زمانے تک وہ صبر و ضبط کے ماہر سمجھے جاتے تھے حالانکہ وہ تو ایک مکھوٹا تھا جسے چڑھا کر وہ عوام میں آتے تھے۔ اپنے بھکتوں کے درمیان وہ اسی رعونت اور غم وغصہ کا مظاہرہ کرتے تھے جو سنگھ پریوار کا خاصہ ہے۔ یو ٹیوب پر ڈاکٹر ذاکر نائک کو لعن طعن کرنے والاویڈیوز اس کا شاہد ہے۔
تہمتِ چند اپنے ذمّے دھر چلے
کس لئے آئے تھے ہم کیا کر چلے

مودی جی نے سوچا ہوگا کہ لوگوں کو مارنے کا گرُ تو آر ایس ایس سے سیکھ لیااب کیوں نہ سری سری روی شنکر سے جینے کا فن سیکھا جائے؟ لیکن ایسا لگتا ہے مودی جی کے بجائے خود سوامی جی ان کے بھکت بن گئے ہیں ورنہ یہ اعلان نہیں کرتے کہ میں ۵ کروڈ جرمانہ ادا کرنے کے بجائے جیل جانا پسند کروں گا ۔ سوامی جی کویہ غلط فہمی تھی کہ حکومت سے ان کی قربت کے سبب عدالت ان کی گیدڑ بھپکی میں آجائیگی لیکن جب ایوان میں اس پر ہنگامہ ہوگیا توانہیں اندیشہ ہوا کہ مبادہ اس سخت گیرموقف کے سبب پابندی نہ لگ جائے ؟ بعد از خرابیٔ بسیارسو امی جی نے جرمانہ یکمشت ادا کرنے کے بجائےچار ہفتوں کا وقت مانگا ۔ عدالت نے فوراً۲۵ لاکھ جمع کرنے کی شرط پر۳ ہفتوں کی مہلت دے دی ۔یہ اسی طرح کا گھوم جاو تھا جیسےتحویل اراضی کے بل پر مودی سرکار کا پہلے اڑنا اور پھرجھک جانا یا ای پی ایف پر ٹیکس کو لے کرمختلف حیلوں بہانوں کے بعدبالآخرجیٹلی جی کا گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوجانا ۔
دوستو دیکھا تماشا یاں کا بس
تم رہو اب ہم تو اپنے گھر چلے

ویسے بات بنانےکے فن میں جیٹلی جی وزیراعظم سے آگے نکل چکے ہیں ۔ وجئے ملیا کے نکل بھاگنے پر جب ایوان پارلیمان میں ہنگامہ ہوا تو جیٹلی کوقطروچی یاد آگئے ۔ انہوں نے کہا کانگریس بھی قطروچی کو روکنے میں ناکام رہی تھی۔ یہ منطق کئی دلچسپ سوالوں کو جنم دیتی ہے۔ اول تو کیا جیٹلی یہ تسلیم کرتے ہیں کہ بدعنوانی کے معاملے میں کانگریس اور بی جے پی کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے؟ دوسرے کیا اب بی جے پی کی نظر میںکانگریس کا اب قطروچی کے فرار میں مدد کرنا جائز ہوگیا ہے؟ تیسرےکیا بی جے پی نے کانگریس کی مجبوری کا خیال کرتے ہوئے ہنگامہ نہیں کیا تھا ؟ سچ تو یہ ہے کہ کانگریس نے قطروچی اور بوفورس کے معاملے کی جو قیمت چکائی تھی بی جے پی کو بھی اب اس کیلئے تیار ہو جانا چاہئے؟ یاد رہے راجیو گاندھی کے ساتھ لوک سبھا میں ۴۰۰ سے زیادہ ارکان تھے اور بوفورس کی بدعنوانی نے انہیں اقتدار سے محروم کردیا تھااس لئے بی جے پی ۲۷۵ کی کیا بساط ہے ؟

قطروچی اور وجئے ملیا میں کا معاملہ خاصہ مختلف ہے ۔ بوفورس کی دلالی کل۶۴ کروڈ تھی جس میں افراط زر کا تناسب بھی جوڑیں تب بھی ۹۰۰ کروڈ نہیں بنتے ۔ اگر یہ مان لیا جائے کہ وہ ساری رقم قطروچی کی جیب میں چلی گئی تھی تو راجیوگاندھی کے خلاف چلائی جانے والی ساری مہم تہمت بازی میں بدل جاتی ہے۔ قطروچی یقیناً اس رشوت کا ایک حصہ دار تھا اور وہ رشوت بھی ناجائز تھی لیکن ایک غیر ملکی کمپنی کی جیب سے نکل کر آئی تھی ۔ وجئے ملیا نےتو ہمارے اپنے بنکوں کو لوٹا ہے۔ وجئے ملیا کی طرح قطروچی رکن پارلیمان نہیں بلکہ ایک غیر ملکی باشندہ تھا ۔ اس پر اگر مقدمہ قائم بھی ہوتا تو اطالوی سرکار کا دباو اسے چھڑا سکتا تھا جیسا کہ کیرالا میں اطالوی جہاز رانوں کو اپنے ماہی گیروں کے قتل کی سزادلانے میں مودی سرکار ناکام رہی ۔

وجئے ملیا کے معاملے میں کوئی غیر ملکی دباو نہیں بلکہ خود اپنی حکومت کا دباو کام کررہا تھا ۔ ۸اکتوبر؁۲۰۱۵ کوسی بی آئی کی جانب سے جو سرکو لر جاری ہوا اس میں ہدایت کی گئی تھی کہ وجئے ملیا کو ہوائی اڈے پر دیکھتے ہی گرفتار کرلیا جائے۔ ملیا صاحب اس وقت برطانیہ میں عیش کررہے تھے ۔ واپس آنے سے قبل انہوں نے اس سرکو لر کو تبدیل کروا دیا اور اب انہیں گرفتار کرنے کے بجائے نظر رکھنے کی تاکید کی گئی ۔ سی بی آئی کے مطابقگرفتاری کا اندراج ایک جونیر افسر کی غلطی تھی حالانکہ وہ فیصلہ درست تھا ۔ اگر اسی وقت ملیا کو گرفتار کرلیا جاتا تو آج جیٹلی جی کو یہ نہ کہنا پڑتا کہ بنک نے عدالت سے رجوع کرنے میں تاخیر کی۔جیٹلی جی یہ نہ بتائیں کہ بنک والوں نے کیا نہیں کیا بلکہ یہ وضاحت فرمائیں کہ ان کی حکومت نے کیا کیا؟ اور اگر کچھ نہیں کیا تو اس ۹۰۰ کروڈ میں کتنا حصہ اس کی اپنی تجوری میں جمع ہوگیا ۔ وجئے ملیا نےاکتوبر کے بعد ۳ مرتبہ غیر ملکی سفر کیا اور چوتھی بار للت مودی کی مانند ہمیشہ کیلئے فرار ہوگیا۔

وجئے ملیا ہی کی طرح بی جے پی نے للت مودی کے ساتھ بھی کمال شفقت کا مظاہرہ کیا۔ راجستھان کی وزیراعلیٰ وجئے راجے سندھیا نے للت مودی کے فرار میں سہولت فراہم کرنے کیلئے حلف نامہ دیا ۔ وزیرخارجہ سشما سواراج نے انسانی بنیادوں پر للت مودی کے فرار کا جواز فراہم کیا۔ ایوانِ پارلیمان میں اس مسئلہ پر ہنگامے کے بعد حکومت نے بڑے طمطراق سے گرفتار کرنے کا عزم دوہرایا لیکن جومودی سرکارگزشتہ ۶ ماہ سے للت مودی کے خلاف ریڈ کارنر نوٹس جاری کروانے میں ناکام رہی ہےوہ بھلا وجئے ملیا کو کیا واپس لائےگی ؟ ویسے اگر حکومت وجئے ملیا کوواپس لانے میں کامیاب بھی ہوجائے تو اس کا کیا بگاڑ لے گی؟ ایک عرصے سے چھوٹا راجن حکومت کی تحویل میں عیش کررہا ہے ۔ اس کا بال بیکا نہیں ہوایہی کچھ وجئے ملیا کے ساتھ بھی ہوگا۔

سری سری روی شنکر کو جینے کا فن سکھانے کیلئے تین فٹبال گراونڈ کے برابر کا اسٹیج بنانا پڑا اور اس پر ۳۵ ہزار سازندوں کو بٹھانا پڑا اس کے باوجود ان کے اس تماشے میں شریک ہونے کیلئے دنیا بھر سے کوئی قابل ِ ذکر ہستی آنے کیلئے تیار نہیں ہوئی ۔ مجبوراً دنیا کے سب سے بدعنوان آمرصدر موگابے کو مہمانِ اعزازی بناناپڑا لیکن جب مودی جی کے صلاح کاروں نےاسٹیج کو غیر محفوظ قرار دیا تو’’ موگامبو ڈر گیا‘‘ اور شرکت سے انکار کردیا ۔ صدر جمہوریہ دیکھا کہ اس پروگرام کے منتظمین نے اکثرو بیشتر محکموں سے اجازت حاصل نہیں کی ہےاور ماحولیات کو بری طرح تباہ و برباد کررہے ہیں تو وہ بھی کنی ّ کاٹ گئے ۔وزیراعظم نریندر مودی اپنے آپ کو نہیں روک سکے اور انہوں نے اپنے لئے علٰحیدہ اسٹیج بنوا کر شرکت کی ۔ مودی جی نے اس کو فن و ثقافت کا کمبھ میلہ قرار دے دیا۔ ہندو ہردیہ سمراٹ کے علاوہ اگر کوئی اور یہ حرکت کرتا تو سنگھ پریوار اس بیان کو لے کر آسمان سر پر اٹھالیتا۔ ہندو دھرم کی توہین کا بہانہ بنا کر ملک بھر میں ہنگامہ کھڑا کردیتا۔
مودی جی نےاپنے خطاب میں کہا کہ اگر ہم ہر شےکو تنقید کا نشانہ بنائیں گے تودنیا ہمارا احترام کیسے کرےگی؟ اس بیان میں ایک طرف تو یہ اعتراف ہے کہ وزیراعظم ماحولیات کی تباہی کو کوئی اہمیت نہیں دیتے ۔ ان کے نزدیک ملکی قوانین کو پامال کرنا معمولی بات ہے۔ وزیراعظم کو معلوم ہونا چاہئے کہ ساری دنیا کے اندرملک کی عزت و توقیر تو درکنار دن بہ دن بدنامی ہورہی ہے ۔ اس رسوائی کیلئے کوئی اور نہیں بلکہ ان کا اپنا سنگھ پریوار ذمہ دار ہے اگر وہ سلسلہ بند ہوجائے تو بغیر کسی تماشے کے قوم کا نام روشن ہوجائیگا۔ وزیر اعظم نے اپنی تقریر میں ہندوستانی ثقافت پر فخر کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ سری سری روی شنکر کے شکر گذار ہیں کہ انہوں نے اسے ساری دنیا میں پھیلا دیا ہے۔ مودی جی نے پچھلے دنوں اس قدر غیر ملکی دورے کئے کہ جمنا کے کنارے بھی انہیں احساس نہیں ہوا کہ وہ بیرونِ ملک نہیں بلکہ خود اپنے ملک میں بھاشن دے رہے ہیں اور حقیقت یہ ہے کہ سوامی جی نے اپنی ثقافت کو برآمد کرنے کے بجائے دنیا بھر کے فنکاروں کو یہاں جمع کرلیا ہے جو ان کی تہذیب سے ہندوستانیوں کو مرعوب کررہے ہیں۔ شرکاء کا یہ حال ہے کہ وہ بھنگڑہ کے بجائے افریقی ناچ کی دھنوں پر تھرک رہے ہیں ۔ مودی جی جب امریکہ گئے تھے تو انہوں نے لوگوں کو جمع کرنے کیلئے کسی کتھک رقاصہ کے بجائے کے راک ڈانسر کو بلایا اس کے باوجود کوئی انگریز ان کے قریب نہیں پھٹکا اب چونکہ ہندوستان میں بھی عوام نے مودی جی کے جلسوں میں آنا ترک کردیا ہے اس لئے دنیا بھر کے ناچنے گانے والوں کو جمع کرکے مجمع لگایا گیا لیکن برا ہوبادو باراں کا کہ اس نے رنگ میں بھنگ ڈال دیا۔ شاید آج کل عدالت تو کجا قدرت بھی سرکار سے نالاں ہے۔ آج کل ان لوگوں کی حالتِ زار پر خواجہ میر درد کا یہ شعر صادق آتا ہے ؎
زندگی ہے یا کوئی طوفان ہے
ہم تو اس جینے کے ہاتھوں مر چلے

سری سری ہری کے مطابق اس نوٹنکی میں شریک ہونے کیلئے کل ۳۶ہزار فنکاروں کو اندرون وبیرون ِملک سے بلایا گیا ۔ ان قسمت کے ماروں کو آندھی آئے یا طوفان پنڈال کے اندر تو آنا ہی تھا۔ اخباروں کے مطابق پہلے دن جب وزیراعظم نے تقریر کی تو صرف ۴۰ سے ۵۰ ہزار کے درمیان لوگ موجود تھے۔ مطلب پروگرام کے شرکاء کی تعداد پیسے دے کر بلائے جانے والے فنکاروں کی بہ نسبت ایک چوتھائی بھی نہیں تھی ۔ دوسرے دن صبح لیڈرشپ کیمپ پروگرام سر ی سری روی شنکر نے یہ کہہ کر ملتوی کردیا کہ جب لوگ ہی نہیں ہیں تو کیا فائدہ ۔ بعد میں قریب کے ایک ہال میں ۳۰۰ لوگوں کو جمع کرکے معیشت پر گفتگو شروع ہوئی تو حکومت کے خلاف شکایت کا دفتر کھل گیا ۔ایک اور پروگرام میںسارے غیر ملکی سیاستداں اقتدار سے بے دخل ہوجانے والےتھے۔ ان میں سے ایک فرانس کے سابق صدر ویلپن نے کہا کہ افغانستان ،عراق اور لیبیا پر فوج کشی ایک حماقت تھی بلکہ دہشت گردی کے خلاف چھیڑی جانے والی یہ جنگ بجائے خود ایک بہت بڑی حماقت ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مودی جی اٹھتے بیٹھتے دہشت گردی کے خلاف جس عالمی جنگ میں شریک ہونے کا نعرہ بلند کرتے ہیں وہ کیا ہے؟

اس عالمی ثقافتی میلے کا نقطۂ عروج اس وقت آیا جب پاکستان سے آنے والے مفتی سعید احمد خاں کی تقریر کے بعد جوش میں آکر سوامی جی نے وزیرداخلہ کی موجودگی میں پاکستان زندہ باد کا نعرہ بلند کردیا ۔ جواہر لال یونیورسٹی کے اندر پاکستان زندہ باد کے نعرے کی افواہ پھیلا کر بونڈر مچانے والے سارے بھکت سوامی جی کے نعرے پر تالیاں پیٹتے رہے حالانکہ یہ تو ان کیلئے سر پیٹ لینے کا مقام تھا ۔بھارتیہ جنتا پارٹی کو اب جینے کا فن سیکھنے کے بجائے آرٹ آف رننگ یعنی بھاگنے کا فن سیکھنا چاہئے ۔ اس لئے کہ وزیراعظم نے خود تسلیم کرلیا ہے کہ جب اقتدار اور حکومت ناکام ہوجاتی ہے تو اس طرح کے میلوں ٹھیلوں کی ضرورت پیش آتی ہے۔ اس اعتراف کے بعد ان لوگوں کو اب اپنے جانے کی تیاری شروع کردینی چاہئے۔ آرٹ آف رننگ کیلئے ویسے بی جے پی خود کفیل ہے ۔ اس کو کسی سوامی جی کے بجائے شریمتی ہیمالنی اور سوبھاگیہ وتی سمرتی ایرانی سے استفادہ کافی و شافی ہے ۔ چند ماہ قبل راجستھان میں ہیمامالنی کی گاڑی نے ایک اور گاڑی کو ٹکر مارکر اس ایک بچے کو ہلاک اور باپ کوزخمی کردیا۔ہیمامالنی کیلئے خصوصی سواری کا اہتمام کیا گیا اور انہیں نجی اسپتال میں پہنچا دیا گیا تاکہ فوراً پلاسٹک سرجری ہوسکےنیز مرنے والے بچے اور اس کے زخمی باپ کو سرکاری دواخانے میں لے جاکر ڈال دیا گیا جہاں ان کا کو ئی پرسانِ حال نہیں تھا ۔ موجودہ سیاست کا شعار یہی ہے بقول غالب (ترمیم کے ساتھ )؎
سیاست میں نہیں ہے فرق جینے اور مرنے کا
اسی کو دیکھ کر جیتے ہیں جس جابر پہ دم نکلے

ہیمامالنی کی جب طبیعت سنبھلی تو انہوں نے ٹویٹ کرکے بچے کی موت پر اظہار افسوس کیا مگر اس کیلئے اس کے باپ کو موردِ الزام ٹھہراتے ہوئے کہہ دیا کہ اگروہ ٹرافک کے قوانین کی پاسداری کرتا تو اپنے بچے کو نہ گنواتا ۔ اس طرح ہیماجی نے یہ ثابت کردیا کہ ٹرافک کے قوانین کی بابت وہ پولس سے زیادہ ماہر ہیں ۔ پولس نے ہیما کے ڈرائیور کو حراست میں لے رکھا تھا اور یہ بات طے ہے کہ انتظامیہ کسی وی آئی پی کے چپراسی پر بھی خوب سوچ سمجھ کر ہاتھ ڈالتاہے ۔ ہیما مالنی تو خیر اب ساس کا کردار نبھانے لائق ہو گئی ہیں لیکن بی جے پی کی تیز طرار بہو ان سے دوقدم آگے نکل گئیں ۔ آگرہ شاہراہ پر جب ان کے قافلے کی ایک گاڑی نے موٹر سائیکل پر سوار ایک ڈاکٹر کو ٹکر ماری تو اس کے بچے بلک بلک کر روتے رہے لیکن سنگدل سمرتی پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوا وہ وہاں سے بھاگ کھڑی ہوئیں۔زخمیوں کی مدد کرنے کے بجائے انہوں نے یہ ماننے سے انکار کردیا کہ ٹکر مارنے والی گاڑی ان کے قافلہ میں شامل تھی نیز مرحوم ڈاکٹر کی بیٹی سے ایف آئی آر میں ایک فرضی گاڑی کا نمبر اندراج کروادیا۔ ان لوگوں کیحرکات تو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ بہت جلد بی جے پی کے معنیٰ ’’ بھاگو جنتا پیٹے گی‘‘ ہوجائیں گے اور اس وقت اس پارٹی کے رہنما للت مودی اور وجئے مالیا کے نقش قدم پر کروڈوں کے گھپلے کرکے ملک بدر ہوجائیں گے۔ لوگ تو کہیں گے خس کم جہاں پاک لیکن ان کی زبان پر یہ شعر ہوگا ؎
شمع کے مانند ہم اس بزم میں
چشمِ تر آئے تھے دامن تر چلے
 
Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1449624 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.