ممتاز قادری کبھی پھانسی نہ لگتا اگر

ایک طرف ڈاکٹرجاوید احمد غامدی ہیں جن کے نہ علم سے کسی کو انکار ہے نہ ہی دلائل و برہان میں ان جیسا ملکہ کسی کو حاصل ہے،ایک طرف این جی اوز اپنے مخصوص ا سکول آف تھاٹ کے ساتھ موجود ہیں توایک طرف لٹھ بردار مولوی حضرات ہیں جن کا طریق حسب معمول چلو ادھر کو جدھر کی ہوا چلے،ایک طرف کچھ سنجیدہ اہل علم اور دین دار لوگ ہیں اور ایک طرف ملک کا آئین جسے اسلامی آئین ہونے کے لیے کسی مولوی یا پیر کی سند کی ضرورت نہیں ہے کیوں کہ یہ کسی بنیاد پرست اور سخت گیر قسم کے ملا کا نہیں بلکہ ایک روشن خیال اور اکثریت کے نزدیک بائیں بازو کے سرخیل ذوالفقار علی بھٹو کی اسمبلی کا بنایا ہوا ہے اور جب بات ملک کے آئین کی آتی ہے تو اس کے ساتھ ملک کا پورا قانون اور نظام نتھی ہوتا ہے،یوں ایک طرف اس ملک کا قانون بلکہ پورا عدالتی نظام جسے جوڈیشل سسٹم بھی کہتے ہیں وابستہ ہے، ممتاز قادری کے عمل اس کی نیت اور اس کی سزا پر میں اپنی طرف سے کوئی بھی رائے دینے سے پہلے جاوید احمد غامدی سے شروع کرتا ہوں غامدی جنہوں نے پوری زندگی اسلام اور اسلامیات پڑھتے پڑھاتے اور تحقیق و جستجو میں گذار دی ان کی رائے اس مسئلے میں یہ ہے کہ ممتاز قادری نے دو جرم کیے ہیں ایک تو اس نے ایک انسان کو قتل کیا ہے جو کسی بھی صورت میں جائز نہیں کیوں سلمان تاثیر کے قتل کا فتویٰ کسی بھی عالم دین یا مفتی نے نہیں دیا تھا نہ ہی انہیں کسی عدالت نے ہی کوئی سزا سنائی تھی اور یوں اپنے طور پر ہی کسی کو یہ اختیا رنہیں دیا جا سکتا کہ وہ خود ہی مدعی اور خود ہی جج بننے کے بعد خود ہی جلاد بھی بن جائے،اور دوسرا جرم ممتاز قادری کا یہ ہے کہ اس نے ریاست پاکستان سے وفاداری کا ایک حلف لیا ہو ا تھا جس پر سابق جسٹس نذیر احمد نے یہ کہہ کر سوال اٹھایا کہ سپاہی کا کون سا حلف ہوتا ہے جسٹس صاحب شاید ساری زندگی اعلیٰ عہدوں پر براجمان رہے اور سمجھتے ہیں کہ اس ملک سے وفاداری کا حلف صرف اعلیٰ عہدوں پر براجمان لوگ ہی اٹھاتے ہیں جو کہ حقیقت نہیں ہے یہاں پر ہر سرکاری و نیم سرکاری بلکہ اب تو پرائیویٹ اداروں میں بھی باقاعدہ ایک فارم دیا جاتا ہے کہ جس کے پیچھے ایک تحریر موجود ہوتی ہے جسے پڑھ کر اس پر دستخط کرنے کا کہا جاتا ہے اور یہی حلف ہوتاہے جو ان سرکاری ملازمین سے لیا جاتا ہے ہاں باقاعدہ شیروانی، جناح کیپ اور فوٹو سیشن نہیں ہوتا ، یہ جاوید احمد غامدی صاحب کی رائے ہے جس سے اختلاف کیا جا سکتا ہے مگر کیا ہی بہتر ہو کہ بجائے جاوید احمد غامدی جیسے صاحب علم شخص پر جاہلیت کے فتوے ٹھوکنے کے ان کی رائے سے اختلاف بھی انہی کی طرح دلائل سے کیا جائے،دوسرا طبقہ این جی او کا جن کی صرف ایک بات اگر وہ کہیں کہ خدا ایک ہے تو یہ قوم مان لے گی باقی ان کی کیا مجال وہ پہلے دن سے مطعون ہیں اور نہ جانے کب تک رہیں گے،مگر ان کے منصوبے ان کی طرف سے دیے گئے فنڈز اور ان کے دفاتر میں نوکریوں کے لیے ترلے منتیں اپنی جگہ ایک الگ داستان ہے ان میں کچھ لوگ بھلے اچھا اور نیک کام بھی کر رہے ہوں مگر بات جب بھی کرنی ہے ان کے لیے لعن طعن پہلے نکلنی ہے مگر یہ لعن طعن عوامی فورم پہ ہوتی ہے نجی اور ذاتی سطح پر نہیں،اگلی قسم لٹھ برداروں کی ہے کہ جن کی وجہ سے آج پشاور سے لیکر کراچی تک ملک آگ کا گولہ بنا ہوا ہے اور سب سے زیادہ خرابی اور بگاڑ کے ذمہ دار یہی لوگ ہیں اور یہ طالبان کی ہی ایک قسم ہے چاہے ان کا تعلق کسی بھی مکتبہ فکر سے ہو سوچ ان کی طالبانی ہے کہ ہم نے جو کہہ دیا سو کہہ دیا بس اب یہ پتھر پہ لکیر ہے اس سے اختلاف ممکن ہی نہیں اور جو کرے گا اس کی کم سے کم سزا یہ ہے کہ وہ واجب القتل ہے،نہ جانے ان کے خلاف اور اس سوچ کے خلاف کوئی نیشنل ایکشن پلان یا ضرب عضب کب شروع ہوگا،یہ اپنی بات کے صحیح ہونے کے لیے دوسروں پر کفر تک کے فتوے تو لگا دیتے ہیں مگر اگلے محاذوں پر ہمیشہ اس ملک کے معصوم نوجوانوں کو ہی رکھتے ہیں،یہ بلند و بانگ دعوے کرتے ہیں مرجانے اور سروں پر کفن باندھ لینے کا عزم کرتے ہیں اور تو اور کبھی کبھی تو شاہراہ دستور پر بھولے بھالے مریدوں سے قبریں تک کھدوا لیتے ہیں کہ مرجانا ہے مگر واپس نہیں جانا مگر ـ"اپنا کام"ہوتے ہی پتلی گلی سے نکل لیتے ہیں گھر کا سار ا سازو سامان بیچ کر انقلاب کے لیے دو دو ماہ مٹی میں رلنے والے فالورزمٹی پہ ہی بیٹھے رہ جاتے ہیں، اگلی قسم سنجیدہ اور اہل علم حضرات کی ہے جو کسی زیادہ بکھیڑے میں نہیں پڑتے اور اپنے کام سے کام رکھتے ہیں غلط کو غلط اور صحیح کو صحیح کہتے ہیں مگر اپنی حدود و قیود سے باہر نہیں نکلتے،کون کیا کر رہا ہے ان کو کوئی غرض مطلب نہیں،اس وقت ملک و قوم کو ایسے ہی لوگوں اور ایسی ہی سوچ کی ضرورت ہے مگر کیا کیاجائے کہ ایسے لوگ اس وقت آٹے میں نمک کے برابر ہیں اپنے ہاں،اور ممتاز قادری کیس کی آخری قسم اس ملک کا قانون اور عدالتی نظام ہے،جس کے تحت ممتاز قادری نے ایک شخص جو کہ گورنرپنجاب تھا کو قتل کیا اور قتل کے بعد ظاہر ہے کہ ایف آئی درج ہوئی کیس عدالت میں گیا،سلمان تاثیر کی پیروی گورنمنٹ نے کی اور سرکار کی طرف سے ایک دو وکلاء جبکہ قادری کی طرف سے درجنوں وکلا بلکہ وکیلوں کا جلوس عدالت میں پیش ہوا،دونوں طرف سے زوردار بحث مباحثہ ہوا دلائل کے انبار لگائے گئے،سول جج جو کہ خود مسلمان تھے نے تمام دلائل سننے کے بعد وکلاء کی فوج کی بجائے دو تین وکلاء کے دلائل سے اتفاق کیا اور ملزم ممتاز قادری کو سزائے موت سنا دی، یہاں سے اصل کھیل شروع ہوتا ہے (اس سزا پہ کوئی لاکھوں کا مجمع اکٹھا ہوا نہ کہیں کو ئی دھرنا ہوا نہ حکمرانوں پر غداری کے الزمات لگے نہ بڑے بڑے مولویوں کے بیانات آئے نہ ہی عاشقان سروں پہ کفن باندھ کے نکلے)ممتاز قادری کے بھائی بندوں نے سول جج کے حکم کے خلاف ہائی کورٹ میں اپیل کر دی،ہائی کورٹ میں بھی ممتاز قادری کے مقابلے میں مقتول گورنر کی طرف سے دو وکیل پیش ہوئے جبکہ دوسری طرف سے ہر وکیل نے اپنی خدمات پیش کیں اور متعدد حضرات اکٹھے بھی پیش ہوئے،مگر جج کے سامنے وکلاء کی تعداد کی بجائے اہمیت دلائل کی ہوتی ہے یہاں بھی یہ لوگ ہائی کورٹ کے ججز جو تمام کے تمام مسلمان تھے کو اس بات پر قائل نہ کر سکے کہ ممتاز قادری مظلوم اور سلمان تاثیر ظالم تھا،نتیجتاًلوئر کورٹ کا ممتاز قادری کی سزائے موت کا فیصلہ بحال رکھا گیا (اس سزا پہ کوئی لاکھوں کا مجمع اکٹھا ہوانہ کہیں کو ئی دھرنا ہوا نہ حکمرانوں پر غداری کے الزمات لگے نہ بڑے بڑے مولویوں کے بیانات آئے نہ ہی عاشقان سروں پہ کفن باندھ کے نکلے)یہاں سے یہ معاملہ پاکستان کی سب سے بڑی عدالت سپریم کورٹ میں لے جایا گیا وہاں بھی وکلاء کی تعداد اسی طرح رہی مگر سپریم کورٹ کے تمام ججزاور چیف جسٹس آف پاکستان جو کہ سب مسلمان ہیں اور اس وقت اس ملک میں قانون کو سب سے زیادہ سمجھتے ہیں نے بھی ممتاز قادری کی سزائے موت کے فیصلے کو برقرار رکھا اور جس دن یہ فیصلہ سنایا اس دن یا اگلے دن (اس سزا پہ کوئی لاکھوں کا مجمع اکٹھا ہوا نہ کہیں کو ئی دھرنا ہوا نہ حکمرانوں پر غداری کے الزمات لگے نہ بڑے بڑے مولویوں کے بیانات آئے نہ ہی عاشقان سروں پہ کفن باندھ کے نکلے اور پھر ایک دن ممتاز قادری کو سزائے موت ہو گئی،میں یہاں یہ واضح کرتا چلوں کہ ممتاز قاددری بگرام جیل افغانستان یا مچھ جیل کوئٹہ میں قید نہیں تھا جہاں تک کسی کی اپروچ و سوچ نہ تھی وہ اسی شہر کی ایک جیل میں قید تھا جہاں اس کے مرنے کے بعد بقول شخصے لاکھوں لوگ اس کے جنازے پر اکٹھے ہوئے ،کہا جا رہا ہے کہ ممتاز قادری کی موت نے ملک کے تمام مکاتب فکر اور خصوصاً مولوی حضرات کو اکٹھا کر دیا لفظ پہ غور کیجیے گا ممتاز قادری کی موت نے کیا ہی اچھا ہوتا کہ یہ کسی کی زندگی میں ہی ایک نقطے پہ متفق ہو جاتے ،یہ ہیں وہ تمام حالات و واقعات انہیں پڑھنے کے بعد آپ خود فیصلہ کر سکتے ہیں کہ ہم کس قدر پستی میں گر چکے ہیں ہماری اخلاقیات کا معیار کیا رہ گیا ہے ان سب حالات و واقعات کا نچوڑ نرم نرم سے لفظوں میں یہ ہے کہ ہم منفاقت کی اس سطح تک پہنچ چکے ہیں کہ نعوذ باﷲ اب ہم خدا کو بھی داؤ لگانے کے چکروں میں ہیں،اب میں اپنی بات کرتا ہوں کہ جو اس کالم کا عنوان ہے کہ ممتاز قادری کبھی پھانسی نہ لگتا اگر اس کے جنازے میں جتنے خاص و عام لوگ شامل ہوئے اس کا دس پرسنٹ لوگ بھی اس کی زندگی میں باہر نکل آتے اور اڈیالہ جیل کے باہر آکے بیٹھ جاتے تو یقین جانئے ممتاز قادری کو پھانسی دینے سے پہلے یہ حکمران ایک سو دس بار سوچتے،،،،،،،اﷲ ہم سب پر اپنا کرم جاری رکھے۔