وفاقی وزیر امور کشمیر برجیس طاہر ، وزیر
اطلاعات پرویز رشید اور وزیر اعظم پاکستان کے معاون خصوصی ڈاکٹر آصف کرمانی
گزشتہ دنوں ایک روزہ دورہ پر پلندری آئے انھوں نے اس موقع پر کشمیر کونسل
کے کچھ ترقیاتی منصوبہ جات کا معائنہ کیا اور بعض نئے کا سنگ بنیاد بھی
رکھا ۔ وہ مصروفیات سے وقت نکال کر نواحی گاؤں اسلام پورہ بھی گئے جہا ں
انھوں نے قومی اسمبلی کی ممبر محترمہ کرن ڈار کیطرف سے دیئے گئے عشائیہ میں
بھی شرکت کی ۔ جس میں مسلم لیگ کے مقامی رہنماء زبیر ڈار ریٹائرڈ ناظم
تعمیرات عامہ خواجہ فضل حسین ڈار اوردیگر نے بھی شرکت کی ۔
محترمہ کرن ڈار دہلی مسلم ہوٹل لاہور کے مالک سردار محمد عالم (پھلیاں والے)
کی نواسی ہیں۔سردار عالم خان کا شمار تحریک آزاد ی کشمیر کے اولین رہنماؤں
میں ہوتا ہے۔ وہ قائد ملت چوہدری غلام عباسؒ کے قریبی ساتھی اور مجاہد اول
سردار محمد عبدالقیوم خان کے دیرینہ جانثار تھے۔ اُن کے گھر پر موجود البم
میں رئیس الاحرار ، مجاہد اول، غازی ملت ، شیخ محمد عبداﷲ، بخشی غلام محمد،
میر واعظ محمد یوسف شاہ اور کے ایچ خورشید کیساتھ اُن کی تصاویر موجود
ہیں۔اُن کے گھر میں موجود ریکارڈ میں رئیس الاحرار چوہدری غلام عباس اور
مجاہد اول کے نایاب خطوط بھی موجود ہیں۔ وہ بیس سال تک مسلم کانفرنس لاہور
سرکل کے صدر اور زندگی کے آخری سانسوں تک مسلم کانفرنس سے وابستہ رہے۔
لاہور میں قیام کے دوران شریف فیملی کیساتھ سردار عالم خان کے قریبی تعلقات
تھے۔ ایک دستاویز کے مطابق مسلم کانفرنس لاہور کی جس برانچ کے وہ صدر تھے
میاں محمد نواز شریف اس کے جنرل سیکرٹری تھے۔ اگر وزیر اعظم پاکستان میاں
محمد نواز شریف ہی ان کے جنرل سیکرٹری تھے تو اس سے اُن کے باہمی تعلقات کا
اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ سردار محمد عالم خان کی دوسری بیٹی اُن کے بھتیجے
خواجہ فضل حسین ڈار ناظم تعمیرات عامہ سے بیاہی تھی۔ وہ مسلسل پندرہ سال تک
آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس ضلع پونچھ کی صدارت کے عہدہ پر فائز رہیں۔
اسلام پورہ کے ہی رہنے والے خواجہ عبداﷲ بٹ کا شمار بھی مسلم کانفرنسی
رہنماؤں میں ہوتا ہے۔ مجاہد اول سردار محمد عبدالقیوم خان جب پلندری جاتے
عبداﷲ بٹ کے گھر ضرور تشریف لے جاتے۔ صدر مسلم کانفرنس سردار عتیق احمد خان
نے وزیر اعظم آزاد کشمیر کا پہلی دفعہ حلف اٹھانے کے بعد اسمبلی میں تقریر
کے دوران جو پہلا حکم جاری کیا تھا وہ اسلام پورہ میں گرلز ہائی سکول کے
قیام اور اِسے عبداﷲ بٹ مرحوم کے نام سے منسوب کرنے کا آرڈر تھا۔ اسلام
پورہ شروع ہی سے مسلم کانفرنس کا مضبوط گڑھ رہا ہے۔
اس حلقے میں ہونے والے انتخابات میں مسلم کانفرنس اسلام پورہ سے واضح
اکثریت حاصل کرتی رہی۔ تاہم 2011 ء کے انتخابات میں مسلم کانفرنس کا اپنا
اُمیدوارنہ ہونے کی وجہ سے یہاں کے لوگوں نے ڈاکٹر نجیب نقی کی جیت میں
کلیدی کردار ادا کیا۔ ڈاکٹر نجیب نقی کو 217 ووٹوں کی اکثریت سے جو فتح
ہوئی اُس میں اسلام پورہ کے لوگوں کا بنیادی رول ہے۔ محترمہ کرن ڈار کے
والد خواجہ محمد حسین ڈار اپنے چچا اور سسر سردار عالم خان کے ساتھ بچپن ہی
میں لاہور چلے گئے جہاں اُن کی سرپرستی میں اپنے نجی کاروبار کو فروغ دیا ۔
اُن کی سات بیٹیاں ا ور ایک بیٹا(ناصر ڈار) ہے۔ جسے پہلے تو سینیٹربننے
کالولی پاپ دیا گیا پھر اُنھیں کشمیر کونسل کاعندیہ دیاگیا۔ تاہم مجاہد اول
کے بقول سیاست میں دو اور دو چار نہیں ہوتے ۔ چنانچہ ناصر ڈار کے کے نصیب
کی بارشیں ہمیشہ کرن ڈار پر برستی رہیں۔ پہلے تو اُنھیں پنجاب ممبر پنجاب
اسمبلی نامزد کیا گیا پھر ان سے خواتین کے لئے مخصوص سینٹ کی نشست کے لئے
کاغذ جمع کروائے تاہم بات نہ بن پائی تو پھر اُنھیں خواتین کے لئے مخصوص
نشست پر ممبر قومی اسمبلی نامزد کر دیا گیا۔ کرن ڈار سیاست میں زیادہ سرگرم
عمل نہیں ہیں۔ تاہم اُن کی کمی ناصر ڈار کی سرگرمیوں سے پوری ہو جاتی ہے۔
اُمید ہے کہ وہ کسی نہ کسی وقت اپنے منزل پا لیں گے۔ عشایہ کے موقع پر کچھ
غیر رسمی اور آف دی ریکارڈ گفتگو بھی ہوئی کچھ اور نئے انکشافات بھی ہوئے
ایک تو یہ کہ مسلم لیگ نواز آزاد کشمیر میں آئندہ ہونے والے کشمیر کونسل کے
انتخابات میں نکیال سے سابق وزیر اعظم آزاد کشمیر سردار سکندر حیات خان کے
بیٹے سردار فاروق سکندر کو ٹکٹ دے گی ۔ لگتا یہ ہے کہ سردار سکندر حیات خان
اپنے بیٹے کی متوقع شکست کے آثار دیکھتے ہوئے کشمیر کونسل کی سیٹ لے کر کسی
کمزور اُمیدوار کو اسمبلی الیکشن میں ا تارنا چاہتے ہیں۔ راقم کے خیال میں
اگر’’ م‘‘ اور’’ ن‘‘ کا اتحاد ہو جائے تو مسلم کانفرنس کا ٹھپہ لگنے سے وہ
اپنی عظمت رفتہ کو بحال کر سکتے ہیں۔ ایک اور ذرائع نے انکشاف کیا ہے کہ
سردار سکندر حیات خان نے مسلم کانفرنس کے مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل سردار
خضر حیات خان کو ن لیگ میں شمولیت کی شرط پر کشمیر کونسل کا ممبر نامزد
کرانے اور اُنھیں کامیاب کرانے کی پیش کش کر دی ہے۔ کرن ڈار کے عشایہ میں
پاکستان مسلم لیگ اور مسلم کانفرنس کے درمیان اتحاد کے صدائے باز گشت بھی
سنائی دی ۔ مرکزی وزراء نے اس بارے میں کوئی واضح بات کہنے سے گریز کیا۔
البتہ یہ ضرور کہا کہ اتحاد کا فیصلہ میاں صاحب کریں گے۔ اور اُن کا فیصلہ
آزاد کشمیر کی لیگی قیادت بھی من و عن قبول کر لے گی۔ سردار عتیق احمد خان
کے بارے میں وقافی وزراء کی گفتگو کا انداز نرم اور دوستانہ تھا بعض حضرات
کے اُکسانے کے باوجود مہمان وزراء میں سے کسی نے بھی اُن کے خلاف منفی
ریمارکس دینے سے اجتناب برتا ۔ جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اتحاد کے حوالے سے
ہونے والی پیش رفت سے وہ آگاہ ہیں۔ البتہ ڈاکٹر نجیب نقی کا ماننا ہے کہ
اتحاد انتخابات سے پہلے ہو گا یا بعد اس کا فیصلہ ابھی باقی ہے۔ |