کالی برف

سید کی حالت کا سن کر طبیعت بے قرار تھی ۔ بہت کوشش کے بعد رابطہ ہوا ‘ دل دھڑکنے لگا۔

ہزار مشکلات سد راہ ہیں اور کشمیر کے افق پر گہری دھند چھائی ہے ۔ گنگا میں اشنان کر کے پاک ہونے والے اور ’’حرم ‘‘سے نکل کر گناہ گار ٹھہرنے والے دونوں اداس ہیں ‘لیکن کشمیر کا بوڑھا سیدہمالیہ سے بلند عزائم کے ساتھ محو سفر ہے ۔

گزشتہ ہفتے سے طبیعت خراب ہوئی تو خیریت دریافت کرنے کے لیے فون کیا ۔ لہجے کا وہی ٹھہراؤ ‘ دردمندی اور جگر سوزی کی وہی کیفیت۔کہنے لگے ……’زندگی موت رب کے پاس ہے ۔ پاکستان آنا چاہتا ہوں ۔ مدت گزری ریڈیو پر ہی ترانے سنتے آئے ہیں ۔ ہم نے بار ہا اپنے خطبات میں مظلوم عوام کو یقین دلایا تھا کہ ان شاء اﷲ اگلا یوم آزادی ہم پاکستان میں منائیں گے ۔ یہ کہتے کہتے اب میں خود قبر کے کنارے پہنچ چکا ہوں ۔ معلوم نہیں کتنی آزمائشیں باقی ہیں ‘ کتنے جوانوں کا لہو اس تشنہ دھرتی کو سیراب کرے گا ‘ کتنی خواتین کی امنگوں کا خون ہوگا ‘ کتنے بوڑھوں کی حسرتیں ناتمام رہیں گی ۔‘‘ کہنہ سال بابے کے لہجے سے کھنک ختم ہو گئی ۔ آواز ڈوبنے لگی اور ایک سسکی نے آواز کی جگہ لے لی ۔

’’آپ مایوس ہو چکے ہیں کیا ……؟ ‘‘اس سوال کے جواب میں ان کے لہجے میں احتجاج نمایاں تھا۔’’ میں اپنے عزم کو پھر دہراتا ہوں ‘ کسی کوکوئی غلط فہمی نہ رہے ‘ میں بیماری کے جس مرحلے میں ہوں ‘جہاں سے واپسی کا سفر تیز ہو جاتا ہے ۔ میں اور کتنا جی لوں گا ‘ چند دن ‘یہ تو اسی کو معلوم ہے جس نے ہمیں اپنی مرضی کے ساتھ یہاں بھیجا اور اب بھی مرضی اسی کی چلے گی ۔ اس کے باوجود میں عہد کرتا ہوں کہ جب تک دم میں دم ہے تب تک میں جموں و کشمیر کے مظلوم عوام کی آواز بن کر ان کی امنگوں کا ترجمان بن کر میدان میں ڈٹا رہوں گا ۔‘‘

’’مجھے اس بات کی کوئی فکر نہیں کہ کوئی حکمران مجھ سے ناراض ہوتا ہے یا راضی ۔ مجھے بس ایک ہی فکر ہے کہ میرا اﷲ مجھ سے راضی رہے ۔ ہم اسی کی عبادت کرتے ہیں اوراسی سے مدد بھی طلب کرتے ہیں ‘وہی ہمارا حامی و ناصر ہے ‘ ہمیں حکمرانوں کے ناز نخرے اٹھانے کا سلیقہ نہیں آتا ‘نہ ہی ہمیں مرشدؒ نے ایسا کرنا سکھایا ہے ۔ جن حالات میں جدوجہد جاری رکھنا ناممکن ہوان ہی حالات میں استقامت دکھانا اﷲ کو مطلوب ہے ۔ ‘‘بوڑھے سید کے لہجے میں عزم چٹان بن کر نمودار ہو ا تھا ۔ وہ موجودہ صورت حال سے مایوس نہیں تو دکھی ضرور تھے کہ کچھ رو زپہلے سری نگر کے اخبارات میں ان کے بیانات پاکستانی حکمرانوں سے ’’ شکوہ کناں ‘‘ تھے ۔ اس جانب توجہ دلائی تو وہ پھر بولے ۔ قمر بھائی ! میں نے آپ کو بہت پہلے کشمیری زبان کا ایک محاورہ سنایا تھا ۔
اگر کریھُن شین تہ پیہ
توتہِ روزِ سآنی جدوجہد جاء ری
’’ اگر کالی برف بھی پڑنے لگے تو ہماری جدوجہد پھر بھی جاری رہے گی ۔‘‘

’’آج پھر میں اس عزم کودہراتا ہوں ۔ ہمیں پاکستانی عوام سے کوئی شکوہ نہیں ۔حکمرانوں سے بھی کوئی گلہ نہیں۔ عوام ہمیشہ سے ہمارے ساتھ ہیں اور حکمران ………… حکمران بھی جب ہمارے مصائب کا ادراک کر لیں گے تو پھر وہ بھی ہمارا ساتھ دیں گے ۔ حریت کانفرنس کا ذکر ہوا تو فرمانے لگے ۔ ‘‘حریت کانفرنس جموں و کشمیر کے عوام کی نمائندہ تحریک ہے ۔ یہ اگر عوام کی درست ترجمانی نہ کر سکے تو عوام کو حق پہنچتا ہے کہ وہ ان کااحتساب کریں ۔ اب عوام اتنے بھی بھولے نہیں رہے ۔جموں و کشمیر کے عوام آزمائشوں کی بھٹی سے گزر کر کندن بن چکے ہیں ۔ کوئی شیخ عبداﷲ اب کشمیر کی دھرتی پر نہیں ہے ‘ کوئی بننے کی ہمت کرے گا تو عوام اس کا انجام وہی کریں گے جو اس سے پہلے غداروں کا ہو چکا ہے ۔حریت کانفرنس کا اتحاد ضروری ہے ‘ لیکن اس کے لیے یہ امر بھی ضروری ہے کہ ان لوگوں کا احتساب ہونا چاہیے جنہوں نے عوام کی امنگوں کا خون کیا ۔ لاکھوں شہیدوں کے لہو کا پاس و احساس نہیں کیا ۔ بھارت سے مذاکرات کس شرط پر ؟ اس کے لیے باہم مشاورت کی ضرورت ہے ۔‘‘ عالمی حالات کے تناظر میں مسئلے کے حل کی جانب پیش قدمی کے حوالے سے ان کا نقطہ نظر واضح تھا ۔

’’ ہم ہٹ دھرم نہیں ‘ ہمیں اپنے مصائب کا ادراک ہے ۔ہم بھی چاہتے ہیں کہ آزاد زندگی گزاریں ‘ جیلیں اور عقوبت خانے بند ہوں ‘ نوجوان رہا ہوں ‘ بھارت کی ظالم فوج ہماری بستیاں خالی کر ے ‘ ہمارے معذور اور ہجرت کرنے والے اپنے گھروں میں لوٹیں ‘ خوف و ہراس کے سائے مٹ جائیں ‘ کریک ڈاؤن اور پکڑ دھکڑبندہو ‘ قوموں کی صف میں ہم باوقار زندگی کا آغاز کریں ‘ ہماری عفت مآب مائیں ‘ بہنیں اور بیٹیاں سکھ کا سانس لیں ‘ لیکن یہ سب کچھ برداشت کرنے کے باوجود ہماری مرضی اور امنگوں کے خلاف کوئی فیصلہ باہر سے مسلط کیاگیا تو میں واضح کر دیتا ہوں اصل فریق ہم ہیں ۔ ہمیں دیوار کے ساتھ لگانے کی کوئی کوشش نہ کرے۔ ایسا ہوا تو پھر اس خطے میں امن کی ضمانت کوئی نہیں دے سکتا …… کوئی بھی نہیں ……نہ بھارت ‘نہ امریکا اورنہ اس کا کوئی حواری …… جو تھک گئے ہیں وہ بیٹھ جائیں۔ کمزور ی اور بزدلی کے عالم میں ہمارے مستقبل کا فیصلہ کوئی نہ کرے ۔ ‘‘میں بیمار ضرور ہوں ‘ مایوس نہیں ۔ مجھے امید ہے میرے بعد کشمیر کے ہیرو جوان یہ کام جاری رکھیں گے۔ میری زندگی کا ہر لمحہ اس جدوجہد میں گزرا ہے ۔ یہ جدوجہد جاری رکھنا آپ سب کی ذمے داری ہے۔

سید علی گیلانی کا لہجہ دو ٹوک تھا ۔ عزائم ہمالیہ تھے ‘جذبوں کی حدت دلوں کو گرما رہی تھی ‘میں ہمہ تن گوش تھا اور کشمیر کا قائد دو ٹوک لہجے میں کہہ رہا تھا: ۔
’’ کالی برف بھی پڑنے لگے تب بھی ہماری جدوجہد جاری رہے گی۔‘‘
Saghir Qamar
About the Author: Saghir Qamar Read More Articles by Saghir Qamar: 51 Articles with 34131 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.