کنہیا کی رہائی کافی نہیں !
(Falah Uddin Falahi, India)
جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کی طلبا
یونین کے سربراہ کنہیا کمار کو جنھیں ملک سے بغاوت کی دفعات کے تحت گرفتار
کیا گیا تھا چھ ماہ کی عبوری ضمانت پر رہا کر دیا گیا ہے۔کنہیا کمار کو
گذشتہ ماہ یونیورسٹی میں کشمیر سے تعلق رکھنے والے افضل گورو کی برسی پر
ایک تقریب کے منعقد ہونے کے بعد گرفتار کر لیا گیا تھا۔دلی ہائی کورٹ نے
کنہیا کمار کی ضمانت کا حکم جاری کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ پولیس کو معلوم
ہونا چاہئے کہ ملک سے بغاوت کا مطلب کیا ہوتا ہے۔ان پر پولیس کا الزام ہے
کہ یونیورسٹی کیمپس میں نو فروری کو منعقد ہونے والی ایک تقریب میں انھوں
نے اپنے کچھ ساتھیوں کیساتھ دیش مخالف نعرے بلند کیے تھے۔ یہ تقریب افضل
گورو کی پھانسی کو تین برس مکمل ہونے کے موقع پر معنقد کی گئی تھی۔ افضل
گورو کو بھارتی پارلیمان پر سنہ 2001 کے حملے کے سلسلے میں پھانسی دی گئی
تھی۔یہ کیس تقریباً تین ہفتوں سے اخبارات کی سرخیوں میں چھایا ہوا ہے اور
حزب اختلاف کا الزام ہے کہ حکومت جے این یو کو تباہ کرنے اور اظہار خیال کی
آزادی کو صلب کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ جے این یو بائیں بازو کی جماعتوں کا
گڑھ تصور کی جاتی ہے۔اس کیس میں دو دیگر طلبہ بھی جیل میں ہیں اور اب ان کی
بھی ضمانت پر رہائی کی راہ ہموار ہو جائے گی کیونکہ انہیں بھی اسی نوعیت کے
الزامات کا سامنا ہے۔طلبہ تمام الزامات سے انکار کرتے ہیں اور ان کا دعوی
ہے کہ نعرے بلند کرنے والوں سے ان کا کوئی تعلق نہیں تھا۔یہ مقدمہ بی جے پی
کے ایک رکن پارلیمان کی شکایت پر قائم کیا گیا تھا۔ پولیس نے ایک ویڈیو کی
بنیاد پر ایف آئی آر درج کی تھی جو کچھ ٹی وی چینلوں پر دکھائی گئی تھی۔
لیکن بعد میں یہ الزامات سامنے آئے کہ ٹی وی چینل نے اس واقعہ کی رپورٹ
بڑھا چڑھا کر پیش کی تھی۔اور حیدرآباد میں فارنسنگ رپور ٹ میں یہ واضح ہوا
ہے کہ ویڈیو کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی گئی ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ شر پسند
عناصر خیر میں بھی شر کا پہلو تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور اپنے مخالفین
کو بدنام کرنے کیلئے وہ کچھ کر گزرنے کو تیار ہیں۔عدالت کا تفصیلی حکم
سامنے آنے کے بعد ہی یہ معلوم ہوگا کہ اس کی نظر میں پولیس کا کیس کتنا
کمزور ہے، لیکن پولیس کوئی ایسا ویڈیو پیش کرنے میں ناکام رہی ہے جس میں
کنہیا کمار کو دیش مخالف نعرے لگاتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہو۔قانونی ماہرین کی
بھی رائے ہے کہ اگر انھوں نے نعرے لگائے بھی تھے تب بھی غداری کا مقدمہ
نہیں بنتا اور اس سلسلے میں سپریم کورٹ کے فیصلوں کی نظیر موجود ہیں۔اب تو
پولیس اور حکومت ہند دونوں عدالت کی نگاہ میں گر چکے ہیں دیکھنا یہ ہے کہ
عدالت حکومت اور دہلی پولیس پر کیا کارروائی کرتی ہے۔جبکہملک بھر میں جے
این یو طالب علم یونین کے صدر کنہیا کمار کی گرفتاری کے خلاف مظاہرہ کر رہے
تھے۔ ساتھ ہی جے این یو معاملے میں دخل دینے کے لئے جمعہ کی شام کو آر جے
ڈی، جے ڈی یواور لیفٹ کے رہنما صدر پرنب مکھرجی سے ملاقات کی۔اتنا ہی نہیں
ملک اور بیرون ملک کے بڑی بڑی یونیورسیٹیوں میں ان کی رہائی کیلئے آواز
اٹھائی گئی جس سے ہمارے ملک ہندوستان کی شبیہ خراب ہوئی ہے کہ ایک معمولی
واقع پر جس طرح سے حکومت اور پولیس نے کارروائی کی اور پھر اس کی گرفتاری
کے بعد کورٹ میں جس طرح سے قانون و انتظامیہ کا کھل کر مذاق اڑایا گیا ہے
اس سے ہندوستان کی شبیہ خراب ہوئی ہے ۔پوری حکومت اور پولیس بیک فٹ پر آچکی
ہے ۔وزیر داخلہ سے جب ٹی وی چینل والوں نے سوال کیا کہ کنہیا کی رہائی ہو
رہی ہے آپ کا اس معاملے میں کیا خیال ہے تو انہوں نے صاف صاف کہا کہ ہم
عدالت کی کارروائی پر کوئی بحث نہیں کرنا چاہتے ہیں ۔لیکن اس وقت انہوں نے
اس معاملے کو انٹر نیشنل بنانے کی ہر طرح سے کوشش کی اور اسے حافظ سعید سے
بھی جوڑ کر دیکھنے کی سر عام بات کہی یہاں تک کہ دہلی پولیس کے کمشنر نے
بھی ان کے سر میں سر ملاتے دکھے ۔اور کہا کہ میرے پاس واضح ثبوت ہیں لیکن
عدالت میں ثبوت پیش کرنے سے قاصر رہے ۔اب دیکھنا یہ ہے کہ عدالت پولیس
کمشنر پر کیا کارروائی کرتی ہے اور جس نے اس معاملے میں ویڈیو کے ساتھ چھیڑ
چھاڑ کی اور معاملے کو اتنا طول دیا ان کے خلاف عدالت کس طرح کی کارروائی
کرے گی چونکہ اصل ملک مخالف اور دہشت گردی تو یہی ہے کہ جس سے پورا ملک
متاثر ہو اور لوگوں میں خوف کا ماحول پیدا ہو اور اس معاملے نے ہندوستان
میں کافی افرا تفری کا ماحول پیدا کیا ہے اس لئے امید کی جاتی ہے کہ عدالت
انصاف کے ساتھ ان سب کو سبق سیکھائے گی جس نے ملک کے ماحول کو خراب کرنے کی
کوشش کی ہے ۔ |
|