زبانیں مفرد' مرکب آوازوں اور لفظوں کی
سانجھ کے حوالہ سے' ایک دوسرے کے قریب ہیں۔ ہاں البتہ ان کے استعمال کی ذیل
میں' اپنی مرضی اور لسانیاتی معاملات کو اولیت دیتی ہیں۔ جس زبان سے لفظ
اختیار کرتی ہیں' اس زبان کا جانو بھی پہچان سے دور رہتا ہے۔ مثلا
لیڈیاں' پنسلیں' کریمیں لفظ کسی انگریز کی پہچان میں نہ آ سکیں گے۔
حور' احوال' اوقات کوئی عربی واحد تسلیم نہیں کرے گا۔
حلیم' غریب' خصم کا معنوی اعتبار سے' عربی سے دور کا رشتہ نہیں۔
کامی قابل فہم ہے' لیکن جاپانی معنی قطعی الگ سے ہیں۔
آ می بھالو' بھالو میں اور بھلا میں قربت موجود ہے۔
غرض ایسی سیکڑوں مثالیں پپش کی جا سکتی ہیں' لیکن اپنی اصل کے مطابق یہ
اردو کے لفظ بھی نہیں ہیں۔ بولتے' سمجھتے' پڑھتے اور لکھتے وقت ماں بولی
والے بھی یہ نہیں جانتے' کہ وہ کس زبان کے لفظ کو کس طرح اور کس انداز سے'
استعمال میں رہے ہیں ہے۔
اردو اس وقت استعمال میں آنے والی' دنیا کی دوسری بڑی زبان ہے۔ لچک پذیری'
الفاظ گھڑنے اور اختیار کرنے میں فراخ دل واقع ہوئی ہے۔ انگریز کے ابتدائی
عہد کے علاوہ' سرکاری سطع پر' اس کی کبھی بھی سرپرستی یا حوصلہ افزائی نہیں
ہوئی۔
میں نے زبانوں کے اشتراک کے مطالعہ کے دوران محسوس کیا ہے' کہ اس نے دیسی
اور بدیسی زبانوں سے' ہیلو ہائے کرنے میں کبھی بخل اور تھوڑدلی سے کام نہیں
لیا۔
صوفیا کرام کے کلام کا مطالعہ کرتے' میں نے محسوس کیا کہ انسان ہی اانسان
سے دور رہتا ہے' ورنہ زبانیں تو ایک دوسری کے قریب ہیں۔ اگر کوئی معمولی سا
غور کرے تو اردو کو دوسری زبانوں کے قریب تر پائے گا۔
حضرت خواجہ معیین الدین چشتی کے کچھ شعرپاروں کا مطالعہ پیش کر رہا ہوں۔ اس
مطالعے کو پڑھنے کے بعد قاری ان کے وجد آمیز کلام سے لطف اٹھا سکے گا۔
ہست
ہستی وجود موجود یعنی ہونے کے لیے ہے۔
...........
آواز بڑھانے سے
نتواں: ناتواں
...........
است: الف گرا کر ست' ست سے درست ہر دو یعنی در اور ست فارسی میں مستعمل
ہیں۔
است کے ساتھ ر بڑھانے سے استر
...........
آوازیں گرانے سے
گہش:
گہ' گاہ
سازد: ساز
بلبلیم: بلبل
بالاں: بالا
رازے: راز
دمے: دم
...........
آواز میم گرانے سے
بوستانم: بوستان
وجودم: وجود
دلم: دل
...........
آواز میم گرانے سے
گویم: گوی
گناہیم: گناہی
خواہیم: خواہی
گیاہیم: گیاہی
مصطفائیم: مصطفائی
گدائیم: گدائی
لولوئیم: لولوئی
گناہیم: گناہ' گناہی
...........
خواہی: خیر خواہی
آپ کریم نے بیگانوں کی بھی خیر خواہی چاہی ہے۔
خدائی: خدائی فیصلہ
مصطفائیم: مصطفائی
مصطفائی میں خدائی ہے۔
گیاہیم: آب و گیاہ
گیاہی علاقے خوش حال رہے ہیں
گدائیم: گدائی
حضور کریم کے در کی گدائی' دنیا کی بادشاہی سے کہیں بڑھ کر ہے۔
...........
مرکب آواز یم گرانے سے
گناہیم: گناہ بےگناہ
خواہیم: خواہ خیر خواہ
گیاہیم: گیاہ آب و گیاہ
آمدیم: آمد' خوشامد
گویم: گو گفتگو
...........
مرکب آواز یم اردو میں بھی مستعمل ہے۔ مثلا
کریم: انگریزی سپریم' آئس کریم- عربی عبدالکریم' حریم; حریم غائب علامہ
مشرقی کے شعری مجموعے کا نام - شمیم' نسیم
حلیم: مقامی سطع پر ایک پکوان کا نام ہے۔
...........
آواز ے گرانے سے
سرودے:
سرود' سرود جان ضافت سے پڑھنے پر سرودے جان پڑھا جائے گا۔
درودے:
درود پاک دال کے نیچے زیر ہے یعنی اضافت سے ڑھنے پر درودے پاک پڑھا جائے
گا۔
...........
در:
درکار' درگزر' دراصل
مگو
مرکب لفظ: گومگو
حقا
حق سے حقا; حقانی' حقانیت' حقائی' حقارت حقیقت
حقیر: حق پر یر کا لاحقہ
جس میں حقیقت کی کمی ہو' حقیقت سے خالی
معمولی' تھوڑا سا
...........
جہدست: جہد' جہد است جہد دست
مرکب: جدوجہد
...........
مفرد آواز
مفرد اور مرکب آوازیں
و:
بلند و بالا' سیاہ و سفید' شب و روز
...........
مرکب آوازیں
چوں:
چوں کہ' چونکہ
از:
از قصور تا اجمیر' ازاں
بز:
دو اسموں ترکیب پایا لفظ: بزدل
امت:
امتاں: پنجابی اور قدیم اردو میں جمع بنانے کے اں لاحقہ مستعمل تھا۔ اب یں
رائج ہے; امتیں' حوریں' راہیں
معین سے معینے
اردو اور خصوصا پنجابی میں پکارنے یا بلانے کے لیے ے بڑھا دیتے ہیں۔ جیسے
فضل فجے' شوکت سے شوکے' نور سے نورے
عرفی نام کے لیے ے بڑھا دیتے ہیں۔ جیسے برکت بی بی سے برکتے' کرامت بی بی
سے کرامتے
بشنود; شنود:
خوشنود احمد' خوشنود علی' خوشنود حسین' نام سننے کو ملتے ہیں۔ خوشنودی بھی
استعمال میں ہے۔
...........
بہ
بچشم: بہ چشم' بہ چشم نم....
بباز: بہ باز کبوتر بہ کبوتر باز بہ باز
بگذری: بہ گذری
ساتھ' کے ساتھ کے لیے بہ با سابقہ بڑھاتے ہیں۔ مثلا باذوق' باوفا' باہمت'
باوردی' مشبہ بہ
الف کا تبادل حائے مقصورہ ہے۔ لفظ کے ساتھ لکھتے ہذف ہو جاتا ہے۔
...........
مصدر گفتن سے لفظ ترکیب پائے ہیں تاہم اردو میں اس کی بنیادی صورت گفت رہی
ہے اور اسی سے لفظ اور مرکب تشکیل پائے ہیں۔ اردو میں' گفت شگفت وغیرہ کا
کوئی مصدر موجود نہیں' لیکن اس نوع کے بہت سے لفظ' کثرت سے رواج رکھتے ہیں۔
گفت: گفتار' گفتگو' گفت و شونید
فارسی میں گفت کی اشکال دیگر اشکال جو حضرت خواجہ صاحب کے ہاں استعمال میں
آئی ہیں۔
گفتن گویم بگو گفتنی گفتی بگفت گفتمش گفتند
...........
گشت: فورسز میں عام استعمال کا لفظ ہے۔ گشتی' فاحشہ کے لیے استعمال ہوتا
ہے۔
آنکہ: آں کہ
خطوط میں عموما لکھا جاتا تھا
صورت احوال آنکہ
یہ بھی استعمال میں تھا
صورت احوال یہ ہے کہ
لفظوں کو اکٹھا لکھا جانا عام رواج میں تھا۔ یہ رواج آج بھی موجود ہے۔ جیسے
اسکی' اسکے' انکے وغیرہ۔ اکٹھا لکھتے نون غنہ نون میں بدل جاتا ہے۔ مثلا
کروں گا سے کرونگا۔ بولنے میں کروں گا ہی آتا ہے۔
سابقے
با:
باذوق' باعزت' باجماعت
بر:
براعظم' برصغر' بحر و بر' برتؤ
ما:
ماقبل' مابعد' مانع
داد
دادرسی
داد دینا' داد فریاد' داد و فریاد
در
دربان' درکنار' درگزر
درگاہ' دربار' درماندہ' درکار
درست' درستی' درندہ' درندگی
درگزر' درحقیقت'درکنار' درجہ' درمن
درگا' نام دیوی دال کے اوپر پیش ہے۔ دیکھنے میں دونوں ایک سے ہیں لیکن
دونوں کا تلفظ ایک نہیں۔
در و دیوار
چو:
چور' چورس' چوگرد
لاحقے
را:
ہمارا' تمہارا' سہارا' کھارا' گارا
چہ:
چنانچہ' خواں چہ خوانچہ' دیگ چہ دیگچہ' باغیچہ
مخواں: خواں
قرآن خوان' نعت خوان' مرثیہ خوان' نوحہ خوان
یائے مصدری بڑھانے سے: قرآن خوانی' نعت خوانی' مرثیہ خوانی' نوحہ خوانی
داد:
خداداد
شد:
ختم شد
خواہ:
خوامخواہ' بدخواہ
کرد:
حاصل کردہ' کارکردگی
کن: کارکن' رکن
ہاہے مقصورہ بڑھانے سے کنہ
کنی: دو رکنی' کان کنی
گو
من نمی گویم انا الحق یار می گوید بگو
چوں نگویم چوں مرا دلدار می گوید بگو
گویم نگویم:
بولوں کہ نہ بولوں. کہا' نہ کہا. کیا' نہ کیا
کچھ مرکب آوازیں جن کے کوئی ذاتی معنی نہیں ہوتے لیکن لفظوں کو نئی معنویت
سے ہم کنار کرتی ہیں۔ مثلا ئی اور ئے
ئی: دریائی' گرمائی' شرمائی
خواجہ صاحب کے ہاں اس کا استعمال ملاحظہ ہو۔
ایں دوئی را از میاں بر دار می گوید بگو
ئے: آئے' پائے' جائے
جائے' جگہ اور جانے سے متتعلق ہے۔ مثلا
وہ جائے گا۔
قیامت کے روز شیطان کو جائے پناہ میسر آ سکے گی۔
خواجہ صاحب کے ہاں اس کا استعمال ملاحظہ ہو۔
تا کہ من مست از تجلی ہائے ربانی شدم
حقا کہ بنائے لا الہ ہست حسین
اردو میں رائج الفاظ
شاہ حسین بادشاہ دین دین پناہ سر دست یزید کہ بنائے لا الہ جان منزل جانان
محمد صد کشا دل از جان باغ و دیگر قرآں بستان محمد غم اے آب و گل جان و دل
تا بہ یژب افغان دیگر برسر واں کہ یاور برہان محمد خون عاشق عشق اگر ہدر
فردا دوست تاوان درد زخم عصیاں غم مرہم شفاعت درمان محمد مستغرق ہرچند عذر
پژمردہ باران گلستان احمد مرجاں عمان محمد یا رب کہ اندر نور حق فانی مطلع
انوار فیض ذات سبحانی ذرہ ذرہ از طالب دیدار تا کہ مست از تجلی ہائے ربانی
زنگ غیرت مرآت دود عشق تا واقف اسرار پنہانی بیروں ظلمت ہستی تا نور ہستی
دانی گر دود نفس ظلمت پاک سوختہ امتزاج آتش عشق تو نورانی خلق راہ را
بدشواری اے عفاک اللہ کہ بارے بآسانی دم بدم روح القدس اندر معینی مگر
عیسیٰ ثانی اگر حقیقت وجود خود بینی قیام جملہ اشیاء بہبود خود بینی دجود
نار موسوی اگر از سر تو دود خود بینی قعر لجہ توحید عشق کہ گنج مخفی حق را
نفود خود بینی بہ قصر عشق ترا پایہ از سر کہ تخت ہر دو جہاں خود بینی تو
فرشتہ نظر جمال دوست نہ لعیں کہ ہمیں سجود خود بینی شاید کہ تا دنا خود
بینی آ و نور دوست نگر تو چند شیشہ سرخ و کبود خود بینی اگر آئینہ زنگ حدوث
بزوائی جمال شائد حق شہود خود بینی بند دیدہ اعیاں کہ تا ز عین عیاں وجود
دوست جان وجود خود بینی بزم گدایاں شہ نشاں خودی کہ تا نتیجہ احساں وجود
خود بینی آ بہ مجلس مسکیں معین شوریدہ کہ نقل و بادہ گفت و شنود خود بینی
انا الحق یار مرا دلدار بار اندر صومعہ با زاہداں بے تحاشا سر بازار محرم
با در و دیوار سر منصوری نہاں حد ہم ہم دار آتش عشق درخت جان من زد علم با
موسی آں یار نیم مدام اسرار اے صبا کہ پرسدت طالب دین سلطان محمد معیں دوئی
میاں دار خویش خانہ بروں ازیں خانہ بروں ازیں
خویش: اول خویش بعد درویش' معروف مقولہ ہے۔
امروز: ایک اردو اخبار اس نام سے شائع ہوتا رہا ہے۔
..................
شاہ ہست حسین پادشاہ ہست حسین
دین ہست حسین دین پناہ ہست حسین
سر داد نداد دست در دست یزید
حقا کہ بنائے لا الہ ہست حسین
..................
در جان چو کرد منزل جانان ما محمد
صد در کشا در دل از جان ما محمد
ما بلبلیم بالاں در گلستان احمد
ما لولوئیم و مرجاں عمان ما محمد
مستغرق گناہیم ہر چند عذر خواہیم
پژ مردہ چوں گیاہیم باران ما محمد
از درد زخم عصیاں مارا چہ غم چو سازد
از مرہم شفاعت درمان ما محمد
امروز خون عاشق در عشق اگر ہدر شد
فردا ز دوست خواہم تاوان ما محمد
ما طالب خدایئم بر دین مصطفائیم
بر در گہش گدائیم سلطان ما محمد
از امتاں دیگر ما آمدیم برسر
واں را کہ نیست یاور برہان ما محمد
اے آب و گل سرودے وی جان و دل درودے
تا بشنود بہ یژب افغان ما محمد
در باغ و بوستانم دیگر مخواں معینے
باغم بشست قرآں بستان ما محمد
خواجہ معین الدین چشتی
..................
ایں منم یا رب کہ اندر نور حق فانی شدم
مطلع انوار فیض ذات سبحانی شدم
ذرہ ذرہ از وجودم طالب دیدار گشت
تا کہ من مست از تجلی ہائے ربانی شدم
زنگ غیرت را ز مرآت دلم بزدود عشق
تا بکلی واقف اسرار پنہانی شدم
من چناں بیروں شدم از ظلمت ہستی خویش
تا ز نور ہستی او آنکہ می دانی شدم
گر ز دود نفس ظلمت پاک بودم سوختہ
ز امتزاج آتش عشق تو نورانی شدم
خلق می گفتند کیں راہ را بدشواری روند
اے عفاک اللہ کہ من بارے بآسانی شدم
دم بدم روح القدس اندر معینی می دمد
من نمی دانم مگر عیسیٰ ثانی شدم
خواجہ معین الدین چشتی
..................
اگر بچشم حقیقت وجود خود بینی
قیام جملہ اشیاء بہبود خود بینی
دجود ہیزمیت نار موسوی گردد
اگر بروں کنی از سر تو دود خود بینی
ز قعر لجہ توحید در عشق برار
کہ گنج مخفی حق را نفود خود بینی
بہ قصر عشق تراپایہ از سر جہدست
کہ تخت ہر دو جہاں را فرود خود بینی
تو چوں فرشتہ نظر بر جمال دوست گمار
نہ چوں لعیں کہ ہمیں در سجود خود بینی
ازیں حضیض و دنایت چو بگذری شاید
کہ تا دنا فتدلیٰ صعود خود بینی
بباز خانہ بروں آ ونور دوست نگر
تو چند شیشہ سرخ و کبود خود بینی
اگر ز آئینہ زنگ حدوث بزوائی
جمال شائد حق در شہود خود بینی
بہ بند دیدہ ز اعیاں کہ تا ز عین عیاں
وجود دوست چو جان وجود خود بینی
بیا بزم گدایاں شہ نشاں خودی ست
کہ تا نتیجہ احساں وجود خود بینی
در آ بہ مجلس مسکیں معین شوریدہ
کہ نقل و بادہ ز گفت و شنود خود بینی
خواجہ معین الدین چشتی
..................
من نمی گویم انا الحق یار می گوید بگو
چوں نگویم چوں مرا دلدار می گوید بگو
ہر چہ می گفتنی بمن بار می گفتی مگو
من نمی دانم چرا ایں بار می گوید بگو
آں چہ نتواں گفتن اندر صومعہ با زاہداں
بے تحاشا بر سر بازار می گوید بگو
گفتمش رازے کہ دارم با کہ گویم در جہاں
نیست محرم با در و دیوار می گوید بگو
سر منصوری نہاں کردن حد چوں منست
چوں کنم ہم ریسماں ہم دار می گوید بگو
آتش عشق از درخت جان من بر زد علم
ہر چہ با موسی بگفت آں یار می گوید بگو
گفتمش من چوں نیم در من مدام می دمے
من نخواہم گفتن اسرار می گوید بگو
اے صبا کہ پرسدت کز ما چہ می گوید معیں
ایں دوئی را از میاں بر دار می گوید بگو
خواجہ معین الدین چشتی
..................
|