ظلم جس رنگ ڈھنگ کا ہو بہر صورت قابلِ
مذمت ہوا کرتا ہے ۔ظالم چاہے کوئی بھی ہو انسانی ضمیر اسے قابل ِ نفرت
گردانتا ہے ۔اب اگر ظلم و جور پر تکیہ کرنے والے افراد کی بو د و باش کسی
مقدس سرزمین پر ہو نہ ہونیز وہ کسی مقدس منصب پر خود کو براجمان سمجھتے ہوں
۔ان کا ظلم و جبر ہر گز ہرگز انصاف کا چولا پہن کر سادہ لوح افراد کو فریب
دے تو دے صاحبِ فہم اور باضمیر افراد اس فریب کاری کا شکار نہیں ہو سکتے
ہیں۔یہی وجہ ہے کہ اپنی پہچان چھپانے کے لئے یہ لوگ کوئی بھی دیدہ زیب
لبادہ کیوں نہ اوڑھے ۔ان کا حقیقی چہرہ مہرہ چھپائے نہیں چھپ سکتا۔ملت ِ
مرحومہ سے اس کا تعلق بھی انہیں لعنت و ملامتِ پروردگار سے نہیں بچا سکتا
ہے۔ ظالموں کا اصل میں کسی بھی قوم و مذہب سے تعلق نہیں ہوتا ہے ظلم و جور
سے خوگر حکمران اور افراد مختلف قومیتوں اور مختلف ممالک سے تعلق رکھنے کے
باوجود اس قدر عملی شباہت رکھتے ہیں کہ جیسے یہ ایک ہی خاندان اور ایک ہی
مرزبوم سے ہی ہوں۔اس سلسلے میں اگر آپ کو زندہ مثال کی طلب ہو تو غزہ اور
یمن کے خونچکان مناظر تنگ اور مخصوص نظریاتی روزن سے دیکھنے کے بجائے خالص
انسانی نگاہ سے دیکھیں۔آپ کو صنعا اور غزہ میں کوئی فرق محسوس نہ ہو گا۔غزہ
گزشتہ ایک دہائی سے مسلسل ظلم و جور کی انتہا ء سے کراہ رہا ہے اور یمن بھی
گزشتہ ایک سال سے مشترکہ سعودی اور صہیونی جارحیت کا شکار ہے۔ ہزاروں کی
تعداد میں عام یمنیوں کا خونِ ناحق اس سر زمین پر گرا ہے کہ جس کی خوشبو
رسول َ رحمت ؐک کے لئے باعثِ فرحت ہوا کرتی تھی۔لیکن افسوس صد افسوس اس
بربریت کے تئیں امتِ اسلامیہ نے بحیثیت مجموعی آنکھیں موند لی ہیں ۔اور
انسانی حقوق کے نام نہاد محافظوں نے ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم کی پالیسی
اختیار کر رکھی ہے۔ پے درپے ہوائی حملوں کے نتیجے میں یمن کا انفراسٹریکچر
تباہ و برباد کردیا گیا ہے۔ اس پرمستزاد یہ کہ اقوام متحدہ نے بھی یمن میں
انسانی بحران پر تشویش کے اظہار پر ہی اکتفا کیا ہے۔ حملوں کی حدت و شدت
اور ہدف کو دیکھ کر بلاناغہ اسرائیل کی بربریت آنکھوں کے سامنے آجاتی ہے۔
جس کا اظہار غزہ اور لبنان میں وقتاً فوقتاً ہوتا رہتا ہے۔
سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں نے نہ صرف اسرائیلی طرز پر ملک یمن کی اینٹ
سے اینٹ بجادی۔ بلکہ انسانی بحران کو انتہاء تک لے جانے کیلئے بھی اسرائیل
ہی کی تقلید کی۔ چنانچہ اسرائیل جب بے دریغ ہوائی حملوں سے غزہ میں انسانی
بحران کی کیفیت پیدا کرتا ہے تو ساتھ ہی ساتھ وہ غزہ کے محاصرے کو اور بھی
مستحکم کرکے عالمی امدادی کارروائیوں میں بھی مزاحم ہوجاتا ہے۔ ٹھیک اُسی
طرح یمن میں بھی انسانی بحران پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ اس کا گھیراؤ بھی کیا
گیا تاکہ کہیں سے بھی امدادی سامان یمن میں نہ آنے پائے۔
غزہ اور یمن کے حالات و کیفیات اس قدر متماثل ہیں کہ اگر محلِ وقوع کا
تذکرہ کیئے بغیر صرف حالات و واقعات کو پیش کیا جائے اور صرف بمباری کے
ہولناک مناظر کو الفاظ کا لبادہ پہنایا جائے تو سعودی عرب اس کے اتحادیوں
پر اسرائیل کا گمان ہوگا اور یمن میں غزہ کی ہی تصویر دکھائی دے گی۔ کیونکہ
وہی ننھے مننھے بچوں کی جلی بنی لاشیں۔ وہی عام لوگوں کی ماردھاڑ، وہی
عوامی اور سرکاری املاک کے تباہی و بربادی کے مناظر، وہی مسمار شدہ کچی پکی
عمارتوں کا ملبہ اور اس کے نیچے دبے کچلے انسانی احساسات ۔وہی ہر طرف
مردوزن کی بکھری پڑی مسخ شدہ لاشیں، عام لوگوں میں وہی خوف و وحشت اور وہی
بحرانی کیفیت، لیکن تصویر کا دوسرا متماثل مثبت رخ بھی قابل دید ہے اور وہ
یہ ہے کہ تحریک انصاراﷲ بھی حماس اور حزب اﷲ کی طرح عزم و حوصلہ کی علامت
بن کے ابھررہی ہے۔ ان کا نعرہ بھی وہی ہے جو حزب اﷲ اور حماس کا ہے۔ یعنی
’’الموت للامریکہ الموت للاسرائیل‘‘۔ اور ان کا اصل قصور بھی یہی ہے۔ انصار
اﷲ نے عالمی طاغوت سے جنگ کا علم بلند کیا ہے۔ اور اسرائیل کی نابودی کا
عزم ظاہر کردیا ہے۔انصاراﷲ کا یمن کے بیشتر علاقوں پر قبضے کے ساتھ ہی ہر
اہم چوک اور ہر اہم شاہراہ پر جلی حروف میں ’’الموت للامریکہ الموت
للاسرائیل‘‘ کے نعرے بڑی بڑی تختیوں میں نمایاں ہوئے یہ دیکھ کر عالم ِ
استکبار کی آنکھوں میں عجیب قسم کی جلن پیدا ہو گئی۔ استکباری حکمرانوں نے
خطے میں اپنے مامور کردہ کھڈ پیچوں کوان کی کوتا ہی پر ڈھانٹ پلائی۔ یہی
وجہ ہے کہ سامراجی پٹھؤوں نے اس قسم کی تبدیلی کو نقارۂ جنگ کی آواز سمجھا
۔ اور آؤ تاؤ دیکھے بغیر ہی پورے لاؤ لشکر کے ساتھ مفلوک الحال یمن پر ہلہ
بول دیا۔یہ اور ہے کہ اپنے تمام تر ظالمانہ حربوں اور کاروائیوں کے باوجود
انہیں یمن میں منہ کی کھانی پڑی۔ ایک سال تک مسلسل فضائی حملوں کے باوجود
بھی وہ یمنیوں کے عزم و حوصلہ کو مات نہ دے سکے۔اپنے حالیہ انٹر ویو میں
صدر اوبامہ نے جو الفاظ سعودی عرب اور ترکی کے لئے استعمال کئے وہ اس بات
کی غمازی کرتے ہیں۔ کہ عالمی سامراج بھی اپنے ان دیرینہ ہرکاروں کی نااہلی
پر کافی نالاں ہے۔
بالفرض انصاراﷲ کے جنگجوامریکہ نواز اور اسرائیل کے حامی ہوتے اور یوں ہی
اس عبوری صدر کو اپنے عہدے سے دستبردار کردیتے تو کیا ایسی صورت میں سعودی
عرب اور اس کے اتحادی یمن کے خلاف آمادہ بہ جنگ ہوتے؟ ہرگز نہیں! کیونکہ یہ
ایک کھلی حقیقت ہے کہ مشرقِ وسطیٰ میں کوئی ایک بھی ایسی مزاحمتی تنظیم و
تحریک یا ملک نہیں ہے کہ جو بیک وقت اسرائیل کا دشمن بھی ہو اور آلِ سعود
کا دوست بھی ہو۔ یعنی آلِ سعود کے ساتھ دوستانہ اورخارجہ سطح پر تعلقات
قائم کرنے کی شرطِ اساسی مذہب اور مسلک نہیں ہے بلکہ امریکہ اور اسرائیل کے
حوالے سے دشمنانہ پالیسی سے مبرہ ہونا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ’’فرنگ‘‘
کی طرح ’’آل سعود‘‘ کی رگ جاں بھی پنجۂ یہود میں ہے۔ آلِ سعود ان ہی جیسے
دیگر مطلق العنان عرب حکمرانوں کو اس بات کا پختہ یقین ہے۔ کہ جس روز وہ
اسرائیل موافق خارجہ پالیسی پر نظر ثانی کر کے تبدیل کرنے کے بارے میں بھی
سوچیں گے اس کے اگلے روز ہی یہودی لابی اپنی مکارانہ حربوں سے ان کے اقتدار
کی چولیں ہلادکر رکھ دے گی۔
آلِ سعواینڈ کمپنی تومشرق وسطیٰ میں امریکی اور اسرائیلی ہر کارے ہیں۔جو
اپنے آقاووں کے ہر منصوبے کو عملی جامہ پہنانے پرہمیشہ مستعد نظر آتے
ہیں۔اس بات کا ناقابل تردید ثبوت اسی خاندان کے چشم و چراغ اورسب سے دولت
مند شہزادہ ولید بن طلال کا وہ بیا ن ہے کہ جس میں اس نے کہا کہ ہم نے
ہمیشہ اسرائیل اور فلسطین کی لڑائی میں اسرائیل کا ساتھ دیاہے اور آئندہ
بھی اسی پالیسی پر کاربند رہیں گے۔دوسری جانب یمنی حریت پسند تحریک انصاراﷲ
کے ترجمان محمد عبدالسلام نے بھی اس عزم کا اعادہ کیا کہ یمنی قوم کسی بھی
ملک کو یمن کے داخلی امور میں مداخلت کی اجازت نہیں دے گی۔محمد عبدالسلام
نے مزید کہا کہ یمن کے عوام آل سعود کے تمام تر دباو دھونس اور جارحیت کے
باوجود اپنی خود مختاری تک رسائی کے لئے اپنے لہو سے اپنی جدوجہد اور
قربانی کی مشعل فروزاں رکھیں گے۔
انصاراﷲ کے ترجمان نے عدن شہر میں اولڈ ایج کیئر ہوم پر حملے کی مذمت کرتے
ہوئے جنوبی یمن میں ہونے والے اس طرح کے مظالم و جرائم کا ذمہ دار سعودی
عرب اور اس کے پٹھوووں کو قرار دیا۔قابل ذکر ہے کہ مسلح دہشت گردوں نے عدن
شہر اولڈ ایج کیئر ہوم میں فائرنگ کرکے سولہ افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا
تھا۔ واقعاً آلِ سعود نے اسرائیل کے دشمنوں کے خلاف چاہے( وہ جہاں کہیں بھی
ہوں اور جس روپ میں بھی ہوں) محاذ کھولنے کا بھیڑا اٹھا رکھا ہے۔ اگر حزب
اﷲ کا وجود اس لحاظ سے ناقابل برداشت ہے کہ وہ شیعہ ملیشہ ہے تو وہ حماس کو
بیخ و بن سے اکھاڑ پھینکنے میں کیوں اپنے تمام تر حربے استعمال کر رہے ہیں۔
یہ تو صد فی صد سنی مزاحمتی تحریک ہے کہ جس کی عسکری ونگ میں سلفی نوجوانوں
کی ایک بڑی تعداد شامل ہے۔جسے یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ سعودی عرب مسلکی
بنیادوں پر عالم اسلام کو تقسیم کر نا چاہتا ہے اور اپنی فریب کاری سے ملت
اسلامیہ کے سواد اعظم کی حمایت حاصل کرنا چاہتا ہے۔ یعنی یہاں بھی اپنے ہم
جولیوں (اسرائیل و امریکہ ) کے فارمولے کو ہی عملی جامہ پہنایا ہے۔ جس کی
طرف سربراہ سید حسن نصراﷲ نے بھی اپنے حالیہ خطاب میں اشارہ کیا۔ کہ سعودی
عرب کی جانب سے لبنانی فوج کی مالی مد د ختم کرنے کے پس پردہ بھی یہی ارادہ
کارفرما ہے کہ سعودی فرمانروا شیعہ اور سنی کے درمیان فتنہ و فساد ڈالنا
چاہتے ہیں۔ جبکہ اس ناپاک ارادونں کو عملانے میں ان حوالی موالی بھی ان کا
ساتھ نبھا رہے ہیں۔چنانچہ بعض عرب ممالک نے اپنے شہریوں کو ہدایت کی کہ وہ
لبنان سے نکل جائیں تاکہ حزب اﷲ کے خلاف جھوٹی خبریں نشر کرنے کا بہانہ
ہاتھ لگ جائے۔
حزب اﷲ کے سربراہ نے اپنے خطاب میں سعودی عرب اور اسرائیل کے مشترکہ مقاصد
کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ علاقے میں سعودی عرب کا منصوبہ فتنے کی آگ
بھڑکانا ہے اور یہ اسرائیل کا منصوبہ بھی ہے۔ ہم اسلامی شعائر کی کسی بھی
طرح کی توہین کو رد کرتے ہیں، یہ ایک غلطی ہی نہیں بلکہ گناہ بھی ہے۔
در اصل صہیونی ریاست اور آلِ سعود کی بادشاہت کے لئے عرب دنیا کی آمریت
امرت کی حیثیت رکھتی ہے یہی وجہ ہے کہ عرب کی آمریت کا مرکز آل سعود کی
حکومت قرار پائی ۔ کسی بھی عرب ملک میں آمریت(ڈکٹیٹرشپ) کو خطرے میں دیکھ
کر آلِ سعود کا اپنے تئیں خطرہ محسوس کرنا ایک فطری بات ہے۔ انہیں بنیادی
طور پر عوامی اور جمہوری تحریکوں سے شدید خطرہ لاحق ہے لہٰذا ہر قیمت پر ان
تحریکوں کے خاتمے پر کمربستہ ہیں۔ اس بات کا ثبوت مندرجہ ذیل نکات میں پیش
کیا جاسکتا ہے۔
۱۔ جہاں کہیں عرب دنیا میں آمریت کوخطرہ لاحق ہوا تو سعودی حکومت اسے بچانے
کیلئے دوڑ پڑی۔
۲۔ جن آمروں کاعوامی تحریکوں کے نتیجے میں بسترہ گول ہوا وہ جاکر آل سعود
کی چھترچھایا میں پناہ گزین ہوئے۔
۳۔ موجودہ سعودی حکومت کو جمہوری طرزِ حکومت سے نفرت ہے۔ جس کے ٹھوس شواہد
یہ ہیں۔
(الف) جب تک ایران میں ملوکیت کا دورِ دورہ تھا۔ تب تک آلِ سعود کو مسلکی
بنیادوں پر ایران کے ساتھ کوئی سیاسی مخاصمت تھی نہ مذہبی چپقلش، شاہ ایران
اور شاہ سعود کے مابین گہرے دوستانہ تعلق تھے۔ اسلامی انقلاب کے وقوع پزیر
ہوتے ہی آلِ سعود کارویہ یکسر تبدیل ہوگیا۔ وہی ایران ان کی نظروں میں دشمن
بن گیا کہ جس کے ساتھ دوستانہ تعلقات استوار تھے۔
(ب) اخوان المسلمین نے طویل جدوجہد کے بعد جمہوری طرزِ سیاست کے ذریعے
بالآخر مصر کی زمامِ حکومت اپنے ہاتھ میں لی۔ اور ڈاکٹر محمد مرسی کو
سرابراہِ حکومت بنادیا۔ یہ جمہوری انقلاب بھی آل سعود کی آنکھوں میں کھٹکتا
رہا تاوقتیکہ اپنے دیرینہ کرم فرماؤوں(اسرائیل اور امریکہ) سے مل کر اور
بارہ ارب ڈالر کی کثیر رقم خرچ کرکے محمد مرسی کی جمہوری حکومت کا تختہ پلٹ
دیا۔ اور حسنِ مبارک ثانی یعنی جنرل السیسی کی ڈکٹیٹر شپ کو مصر پر مسلط
کرنے میں کامیاب ہوئے۔
(پ) فلسطین میں حماس نے الیکشن کے ذریعے حکومت تشکیل دی تو جمہوریت مخالف
قوتوں کے ساتھ ساتھ آلِ سعود کو یہ حکومت کبھی ایک آنکھ نہ بھائی۔
(ت) بحرین میں گزشتہ کئی سالوں سے غیر مسلح عوامی تحریک جاری ہے جس کا بس
اور بس ایک ہی مطالبہ ہے کہ آلِ خلیفہ کے سالہاسال سے چلے آرہے خاندانی راج
کو ختم کرکے جمہوری حکومت تشکیل دی جائے۔ لیکن یہاں بھی اس عوامی تحریک کو
کچلنے کیلئے سعودی حکومت نے نہ صرف آلِ خلیفہ کی پشت پناہی کی بلکہ وہاں کے
نہتے لوگوں پر ظلم و تشدد روا رکھنے کیلئے اس چھوٹے سے ملک پر بھی فوج کشی
کی۔ سعودی فوج نے اب تک دسیوں پرامن احتجاج کرنے والے بحرینیوں کو موت کے
گھاٹ اتارا ہے۔
(ج) داعش کو پیدا کرنے اور پالنے پوسنے میں اسرائیل اور سعودی عرب کی جوڑی
کا کردار عیاں را چہ بیاں کی زندہ علامت ہے۔دہشت گردی کا یہ فتنہ اسی لئے
اٹھایا گیا تاکہ عالم عرب کے بیشتر اسرائیل نواز حکمرانوں سے ہٹ کر ان مٹھی
بھر عربی حکمرانوں کو ٹھکانے لگایا جائے جو اسرائیل کو عظیم اسرائیل بننے
کی راہ میں خواہ مخواہ حائل ہورہے ہیں۔ |