۲۰ مارچ - چڑیوں کا عالمی دن

۲۰ مارچ چڑیوں کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے پاکستان اوردنیا بھر میں بہت سے پرندوں کی نسل کے ختم ہونے کے خدشات کے پیش نظر اسلام میں ان کی بقا کے لیے شعور کو اجاگر کرنا،اس دن کو منانے کا ایک بڑا مقصد ہے ۔ پاکستان میں ۷۸۶ سے زائد پرندوں کی نسلیں پائی جاتی ہیں ان میں سے ۳۷ سے زائد نسلوں کو خاتمے کا ڈر ہے ۔ اس کا بڑا سبب بڑھتی ہوئی آلودگی، درختوں کی کمی موبائل فونز کے ٹاورز سے نکلتی زہریلی لہریں، کچے گھروں کی بجائے پکے گھروں کی کثرت اور فصلوں پر چھڑکی جانے والی زہریلی ادویات ہیں۔
پرندے کائنات کا حسن ہیں خصوصا چڑیا ایسا پرندہ ہے جس کی چہکار ماحول میں ایک خوبصورت سماں باندھ دیتی ہے ۔ فجر کے بعد اپنے گھونسلوں سے نکل کر جب غولوں کی شکل میں چہچہاتی ہوئی آبادیوں میں داخل ہوتی ہیں تو ان کے نغمے اور تسبیحات ماحول کو خوشنما بنا دیتی ہیں۔ پاکستان میں ان کی نسلوں کے تحفظ کے لیے قوانین بنائے جا رہے ہیں اوران کے شکار پرپابندی بھی عائد کی جا رہی ہے تاکہ ان کی نسلیں ختم نہ ہوں۔
اسلام میں پرندوں اور دوسرے جانوروں کے حقوق ہیں۔ اگر ان کا خیال رکھا جائے تو یقینا بہت سی ختم ہونے والی نسلیں محفوظ رہ سکتی ہیں۔ رحمت جہاناں محمد رسول اﷲؐ ان کی بقا کے لیے کیا درس ارشاد فرماتے ہیں ۔ غور فرمائیے! حضرت عبداﷲ بن مسعودؓ فرماتے ہیں ہم ایک سفر میں رسول اﷲؐکے ساتھ تھے۔ آپ قضائے حاجت کے لیے ایک طرف گئے ہم نے ایک چڑیا دیکھی اس کے ساتھ دو بچے بھی تھے۔ ہم نے اس کے بچے اٹھا لیے وہ چڑیا اپنے بچوں کے قریب ہو کر پھڑپھڑانے لگی نبی رحمت تشریف لائے تو فرمایا:
’’کس نے اس کے بچے اٹھا کر اس کو مضطرب کیا ہے اس کے بچے اس کے پاس واپس رکھ آؤ۔‘‘پھر آپ نے چیونٹیوں کا ایک بل دیکھا جسے ہم نے آگ لگا دی تھی آپ نے فرمایا: اسے کس نے آگ لگائی ہے؟ ہم نے کہا : ہم نے، توآپ نے فرمایا:’’یہ درست نہیں ہے کہ آگ کے ذریعے آگ کے رب کے سوا کوئی اور عذاب دے ۔‘‘أبوداود(۵۲۸۶ )
مسند احمد (۳۸۳۵)میں انڈوں کا ذکر ہے ۔ رسول اﷲؐنے سوال کیا کہ اسے کس نے تکلیف پہنچائی ہے تو ایک شخص نے کہا:’’میں نے اس کے انڈے اٹھائے ہیں۔‘‘تو رسول اﷲؐنے فرمایا: واپس رکھ دے۔صرف انسانوں ہی پر نہیں بلکہ اﷲ کی دیگر مخلوقات، جیسے جانوروں اور پرندوں پر بھی رحم کرنے کی احادیث میں تاکید کی گئی ہے۔
قرہ بن معاویہؓ کا بیان ہے کہ ایک آدمی نبیؐ سے عرض کرنے لگا کہ میں بکری ذبح کروں گا اور (ذبح کرتے وقت) میں اس پر رحم کروں گا۔ آپؐ نے فرمایا: ’’اگر تو بکری پر رحم کرے گا تو اﷲ تجھ پر رحم کرے گا۔‘‘ [مسند احمد: ۳۴/۵]
اسی طرح ابو امامہؓ کی بیان کردہ حدیث میں ہے کہ رسول اﷲؐنے فرمایا: ’’جو رحم کرتا ہے اگرچہ پرندے کے ذبیحے پر ہی کرے، اﷲ تعالیٰ قیامت کے دن اس پر رحم فرمائیں گے۔‘‘ [الصحیحۃ(۲۷)]بعض لوگ زہریلی ادویات کے ذریعے ان کو مارنے کی کوشش کرتے ہیں اور کچھ شکار کے لیے ایسے طریقے اختیار کرتے ہیں کہ جن سے بہت سے پرندے مارتے تو جاتے ہیں لیکن وہ کسی کام نہیں آسکتے۔ رسول اﷲ ؐارشاد فرماتے ہیں:’’جوشخص چڑیا یا اس سے چھو ٹے جانور کو ناحق قتل کرے تو اﷲ تعالیٰ (قیامت کے دن) اس سے اس کے بارے میں پوچھے گا۔‘‘پوچھا گیا اس کا حق کیا ہے؟ فرمایا : اسے ذبح کر کے کھائے اس کا سر کاٹ کر نہ پھینک دے ۔النسائی( ۴۳۵۴)
ذبح کرتے وقت کوئی تیز دھار آلہ استعمال کیا جائے تاکہ مذبوح کو تکلیف کم ہو حضرت شداد بن اوسؓکہتے ہیں: میں نے دو چیزیں رسول اﷲؐسے حفظ کی ہیں آپؐ نے فرمایا:
’’اﷲ نے ہر چیز پر احسان کرنے کا حکم دیا ہے لہٰذا جب تم کسی کو قتل کرو تو اچھی طرح قتل کرو (یعنی فورا قتل کردو تڑپاؤ نہیں) اور جب کسی جانور کو ذبح کرو تو اچھی طرح ذبح کرو ،اس کے لیے اپنی چھری تیز کر لو اور ذبح ہونے والے جانور کو آرام پہنچاؤ۔‘‘مسلم(۱۹۵۵)
اسلام نے جانوروں کے حقوق رکھے ہیں ان کو حق آزادی دیا ہے اگر کسی کو نشانہ لگانا ہے آزاد کو لگاؤ تاکہ اسے جان بچانے کا موقع میسر ہو اس کے لیے ممکن ہو تو اڑ جائے یابھاگ جائے۔حضرت ہشام بن زید کہتے ہیں میں حضرت انس بن مالکؓکے ساتھ حکم بن ایوب کے پاس آیا، دیکھا کہ کچھ لڑکے مرغی باندھ کر تیر مار رہے ہیں حضرت انسؓ فرمانے لگے:
’’نبیؓ نے جانوروں کو باندھ کر مارنے سے منع فرمایا ہے۔‘‘البخاری،( ۵۵۱۳)
حضرت عبداﷲ بن عمرؓبیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اﷲؐکو یہ فرماتے ہوئے سنا:’’ا ﷲ تعالیٰ اس پر لعنت فرمائے جس نے جانور کا مثلہ کیا۔‘‘نسائی(۴۴۴۲)حضرت جابرؓکہتے ہیں کہ رسول اﷲؐ ایک گدھے کے پاس سے گزرے جس کے چہرے پر داغ لگایا گیا تھا تو رسول اﷲؐنے فرمایا:’’اﷲ اس پر لعنت فرمائے جس نے اس کو داغا ہے۔‘‘مسلم( ۲۱۱۷)ابوداود میں چہرے پر مارنے کی ممانعت بھی موجود ہے۔ آپؐفرماتے ہیں:’’تمھیں معلوم نہیں کہ میں اس شخص پر لعنت کی ہے جو جانور کے چہرے کو داغے یا اس کے چہرے پر مارے۔‘‘أبوداود( ۲۵۶۴)دوران سفر جانور کی ضروریات کا اور اس کی تھکاوٹ کا بھی احساس کرنا چاہیے حضرت ابوہریرہؓ کہتے ہیں کہ رسول اﷲؐنے فرمایا:’’جب تم ہریالی میں سفر کرو تو اونٹ کو اس کا حق دو(یعنی اسے اچھا چارہ دو) اور جب تم قحط سالی میں سفر کرو تو جلدی جلدی سفر طے کر لو(تاکہ بھوک سے لاغر نہ ہوجائے) ۔‘‘أبوداود( ۲۵۶۹)
کچھ جانور پالتو ہوتے ہیں ان کا خیال تو انسان رکھتا ہے اور اگر غیر پالتو جانوروں سے شفقت کی جائے تو اﷲ تعالیٰ بندے کے عمل ضائع نہیں کرتے ہیں۔ اگر جانور موذی ہیں تو ان کو مارڈالنے کا حکم ہے اس لیے کہ انسان اشرف المخلوقات ہے جہاں نقصان کا اندیشہ نہیں وہاں جانوروں سے اچھا سلوک کیا جائے تو یقینا اﷲ تعالیٰ اس پر اجروثواب عطا فرمائیں گے۔ سیدناابوہریرہؐ کہتے ہیں کہ ایک آدمی کو دوران سفر بہت پیاس لگی اسے ایک کنواں نظر آیا وہ اس میں اترا پانی پیا اور پھر باہر نکل آیا ۔ باہر دیکھا کہ ایک کتا پیاس کی وجہ سے ہانپ رہا ہے اور گیلی مٹی چاٹ رہا ہے اس نے سوچا کہ پیاس کی شدت سے اس کا بھی وہی حال ہے جو میرا تھا وہ کنویں میں اترا پنے موزے میں لیا منہ سے پکڑا اور باہر آکر کتے کو پانی پلایا۔
’’اﷲ تعالی نے اس کی قدر کی اور اسے معاف کر دیا۔‘‘
صحابہ کرامؓ نے سوال کیا کیا جانوروں سے حسن سلوک میں بھی ہمیں اجر ملے گا؟ تو رسول اﷲؐنے فرمایا: ’’ ہر زندہ چیز میں (حسن سلوک کی وجہ سے ) اجر ہے۔‘‘مسلم (۲۲۴۴)
حضرت عبداﷲ بن جعفرؓکہتے ہیں کہ رسول اﷲؐنے مجھے اپنے پیچھے سواری پر بٹھایا ایک انصاری کے باغ میں گئے۔ ایک اونٹ نے نبی کریمؐکو دیکھا تو رونے لگ گیا۔ نبی ؐاس کے پاس تشریف لے گئے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا وہ خاموش ہو گیا۔آپ نے پوچھا اس کا مالک کون ہے؟ ایک انصاری جوان حاضر ہوا اور عرض کی اے اﷲ کے رسول ؐ یہ اونٹ میرا ہے تو آپ ؐ نے فرمایا: ’’اس جانور کے معاملے میں تواﷲ سے ڈرتا نہیں کہ اﷲ نے تجھے اس کا مالک بنایا ہے اس اونٹ نے تیری مجھے شکایت کی ہے کہ تو اسے بھوکا رکھتا ہے اور کام زیادہ لیتا ہے۔‘‘
أبوداود(۲۵۴۹)
کرو مہربانی تم اہل زمین پر
=خدا مہربان ہو گا عرش بریں پر
ƒجانوروں کے حقوق ادا کرو ورنہ اﷲ عدالت میں مجرم بن جاؤ گے‘حضرت ابوہریرہؓکے پاس سے قبیلہ بنو عامر کا ایک شخص گزرا۔ لوگوں نے کہا کہ حضرت یہ اپنے قبیلہ میں سب سے بڑا مال دار ہے۔ آپ نے اسے بلوایا اور فرمایا‘ کیا واقعی تم سب سے زیادہ مال دار ہو؟ اس نے کہا‘ ہاں میرے پاس رنگ برنگ کے سینکڑوں اونٹ‘ قسم قسم کے غلام‘ اعلیٰ اعلیٰ درجے کے گھوڑے وغیرہ ہیں۔ حضرت ابوہریرہؓ نے فرمایا‘ دیکھو خبردار ایسا نہ ہو کہ یہ جانور اپنے پاؤں سے تمہیں روندیں اور اپنے سینگوں سے تمہیں ماریں‘ بار بار یہی فرماتے رہے یہاں تک کہ عامری کے چہرے کا رنگ اڑ گیا اور اس نے کہا حضرت یہ کیوں؟ آپ نے فرمایا سنو! میں نے رسول اﷲؐسے سنا ہے کہ جو اپنے اونٹوں کا حق ادا نہ کرے گا ان کی سختی میں اور ان کی آسانی میں تو اسے اﷲ تعالیٰ قیامت کے دن ایک چٹیل لمبے چوڑے صاف میدان میں چت لٹائے گا اور ان تمام جانوروں کو موٹا تازہ کر کے حکم دے گا کہ اسے روندتے ہوئے چلو۔ چنانچہ ایک ایک کر کے اسے کچلتے ہوئے گزریں گے جب آخر والا گزر جائے گا تو اوّل والا لوٹ کر آ جائے گا۔ یہی عذاب اسے ہوتا رہے گا۔ اس دن میں جس کی مقدار پچاس ہزار سال کی ہے یہاں تک کہ لوگوں کے درمیان فیصلہ ہو جائے۔ پھر وہ اپنا راستہ دیکھ لے گا۔ اسی طرح گائے‘ گھوڑے‘ بکری وغیرہ بھی سینگدار جانور اپنے سینگوں سے بھی اسے مارتے جائیں گے‘ کوئی ان میں بے سینگ کا یا ٹوٹے ہوئے سینگ والا نہ ہو گا۔ عامری نے پوچھا اے ابو ہریرہؓ! فرمایئے‘ اونٹوں میں اﷲ تعالیٰ کا حق کیا ہے؟ فرمایا مسکینوں کو سواری کے لئے تحفتہً دینا‘ غربا کے ساتھ سلوک کرنا‘ دودھ پینے کے لئے جانور دینا‘ ان کے نروں کی ضرورت جنہیں مادہ کے لئے ہو انہیں مانگا ہوا بے قیمت دینا۔‘‘ ابوداود(۱۶۶۰ )
Azeem Hasalpuri
About the Author: Azeem Hasalpuri Read More Articles by Azeem Hasalpuri: 29 Articles with 40911 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.