ہفتے کی رات کسی کام کی غرض سے گھر سے نکلا
تو دیکھا کہ گلیاں ویران تھیں۔ اکا دکا موٹریں سنسان سڑکوں پر فراٹے بھرتی
نظرآئیں۔ سارے کام چھوڑ کر اہل شہر کی نظریں سکرینوں پر جمی ہوئی تھیں۔
دکانوں ٹی وی کے سامنے کرسیاں لگائے ہجوم ہمہ چشم دید تھے۔ اس شہر ہی نہیں
خیبر تا کراچی پورے ملک کا یہی حال تھا۔
انڈیا اورپاکستان کے درمیان T20 کا معرکہ جاری تھا۔ قوم کی دعائیں اور
صدائیں کلکتہ کے سٹیدیم میں موجود گرین شرٹس کے لیے بلند ہو رہی تھیں۔
انڈیا سے مقابلہ ہوا اور کوئی سکرین سے جدا رہے یہ مشکل ہے۔ یہی نہیں
کروڑوں کے جوئے بھی لگائے جا چکے تھے۔ کراچی کے ایک صاحب نے فتح کی صورت
میں مہینہ بھر اپنی بس سروس فری کرنے کا اعلان کر رکھا تھا۔
مگر شب بیداری بے نتیجہ ثابت ہوئی۔ کلکتہ کے ایڈن گارڈن می بھارتی ٹیم کے
ہاتھوں پاکستانی ٹیم کی پٹائی پر ملک کے تمام کرکٹ شائقین دل گرفتہ تھے۔
صبح اخبارات میں شکست کی خبروں پر ہر فرد اپنا سامنہ لیے ہوئے تھا۔ پھر
تبصروں کا سلسلہ شروع ہوا۔ پاکستانی ٹیم، کپتان اور کرکٹ بورڈ تنقید کی زد
میں تھا۔
اسی اثنا میں مجے چند روز قبل کا کشمر کا ایک منظر یاد آگیا۔ یہ سرینگر کے
قریبی قصبے پام پور کا منظر تھا۔
پام پور میں بھارتی فوج اور کشمیریوں کے درمیان ایک میچ جاری تھا۔
ہوا کچھ یوں کہ بھارتی فوج نے چند روز قبل ایک بی ایس آنر کی طالبہ شائستہ
کو زیادتی کا نشانہ بناتے ہوئے قتل کر دیا جس پر کشمیری بہت سیخ پا ہوئے۔
انہوں نے قانونی طریقے سے انصاف حاصل کرنے کی کوشش کی لیکن بے سود۔ اس بے
بسی اور مجبوری پر چند کشمیری نوجوانوں نے عزم کیا کہ وہ وادی میں دندناتی
اس فوج سے بدلہ لیں گے۔ بالخصوص کیپٹن ترش مہاجن سے جو اس واردات کا مرکزی
مجرم تھا۔
پھر انہوں نے سی آر پی ایف کی ایک بس پر دھاوا بولا اور تمام فوجیوں سے قرض
چکانے کے بعد انہوں نے ایک فوجی عمارت پر ہلہ بولا یہ عمارت بھارتی فوج نے
اپنی سیکیورٹی کے لیے خصوصی طور پر تیار کروائی تھی۔ یہ عمارت کنکریٹ کی
مضبوط دیواروں سے بننی تھی۔ انہوں نے عمارت میں موجود تمام ملازمین جن میں
عام کشمیری شامل تھے کو وہاں سے یہ کہتے ہوئے نکل جانے کا اعلان کیا کہ
ہماری تمہاری کوئی جنگ نہیں۔ ہم نے فوج سے اپنا ایک حساب برابر کرنا ہے۔
یوں عمارت کو خالی کر کے انہوں نے اس کو مورچہ کے طور پر استعمال کرتے ہوئے
فوج سے مقابلہ کی "پچ" ہموار کی۔ یہ میچ تین دن تک جاری رہا او فوج اس
عمارت میں داخل ہونے کی جرات نہ سکی۔ فوج کی وکٹیں اڑ چکی تھیں۔ کیپٹن اپنے
ایک ہم منصب کے ساتھ آئوٹ ہو چکا تھا۔
باہر پویلین کا منظر بھی عجیب تھا۔ گرائونڈ کو بھارتی فوج نے گھیرا ہوا تھا
اور پویلین میں موجود شائقین بھارتی فوج پر پتھر پھینک کر "ہوٹنگ" کر رہے
تھے۔ اندر لگنے والے ہر چھکے پر نعرہ بلند ہو رتا تھا۔ جب جان کی بازی
ہارتے فوجی پچ کو چھوڑ کر باہر آتے تو آزادی اور پاکستان کے حق میں بلند
ہوتے نعرے ان کا "استقبال" کرتے۔
قریبی مساجد میں جنگی نغمے باہر جوش و خروش سے معمور شائقین کے جذبے اور
اشتیاق کو نیا ولولہ دے رکھا تھا۔ قریبی دیہاتوں میں راتیں جاگتی بوڑھی
مائیں مصلے پر بیٹھی حریت پسندوں کی فتح کی دعائیں کر رہی تھیں۔۔۔۔۔۔ یہ
ایک عجیب منظر تھا۔جو کلکتہ کے سٹیڈیم میں موجود تھکے کھلاڑیوں، ان کے
کپتان جس کو بھارتی پیار نے رام کر دیا تھا اور مایوس شائقین کو پیام دے
رہا تھا کہ کلکتہ کے کرکٹ میچ نہیں پامپور کی رزم گاہیں قوم کی فتح یا شکست
کا فیصلہ کریں گی۔ |