استحکامِ پاکستان ومدارس كانفرنس كی ضرورت

وفاق المدارس العربيہ پاكستان وطن عزيز كے دينى مدارس كا سب سے بڑا ،منظم اور مضبوط تعليمى بورڈ ہے، اس كى بنيادى ذمہ دارىوں ميں دينى مدارس كادفاع، حفاظت، رجسٹريشن، ترقى، نظام ،نصاب سازى، امتحانات اور ڈگرى سے منسلكہ معاملات ہیں، وفاق كے تحت رجسٹرد مدارس اور ان كى ذيلى شاخوں كى تعداد 20 ہزار سے زائد ہے، جن ميں 25 لاكھ طلبہ و طالبات دينى تعليم و تربيت حاصل كر رہے ہيں ،جن ميں طلبہ كى تعداد 16 لاكھ 61 ہزار 8 سو 55 ہے جبكہ طالبات كى تعداد 8 لاكھ 48 ہزار 6 سو 27 ہے، ان طلبہ و طالبات كے ليے 72 ہزار 3 سو 88 اساتذہ 30 ہزار 4 سو 6 معلمات 19ہزار 85 ديگر عملے كے افراد آج كے ہو شر با مہنگائی كے دور ميں بھى واجبى سے حق الخدمت پر اپنى خدمات ايك دينى اور ملى فريضہ سمجھ كر ادا كر رہے ہيں۔

اب تك شعبہ تحفيظ القرآن ميں وفاق 7 لاكھ 71 ہزار 9 سو 92 حفاظ اور 2 لاكھ 17 ہزار 6 سو 67 حافظات تيار كر واچكا ہے۔ قرآن كريم كى اس عظيم خدمت كا ايسا منظم نیٹ ورك دنيا ميں اور كہيں ديكھنے كو نہيں ملتا۔ شعبہ درس نظامى كے تحت فارغ التحصيل علماء كى تعداد 1 لاكھ 27 ہزار 2 ہے۔ يہ فارغ التحصيل نوجوان اپنى روايتى تعليم مكمل كرنے كے بعدپوری دنیا اور ملك بھر كے دينى ،عصرى نیزعسكرى اداروں ميں دينى وملى خدمات سر انجام دے رہے ہيں۔

مولانا مفتی محمد مرحوم نےقیامِ وفاق كے تين سال بعد 1960 ميں درس نظامى كے آخرى سال درجہ عالميہ (ایم اے اسلامیات وعربی)كا امتحان سب سے پہلے منعقد كيا تھا اور پھر تدريجاً مختلف درجات كے امتحانات بھى وِفاق كے تحت ہونے لگےتھے۔ 1960 سے 2015 تك كے 55 سالوں ميں وفاق كے تحت مختلف درجاتِ کتب(حفظ کے علاوہ) ميں 31 لاكھ84 ہزار 2 سو 98 طلبہ و طالبات نے امتحانات میں شرکت کی ہے، جن كى درجہ وار تفصيل وفاق كى ويب سائٹ پر ديكھی جا سكتى ہے۔ وفاق كى كاركردگى كا جائزہ ليا جائے ،تو كہا جا سكتا ہے كہ اب تك اوسطا ًوفاق ہر سال 57 ہزار سے زائد طلبہ و طالبات كے امتحان ليتا رہا ہے، لیکن گذشتہ دہائى سے ايك مخصوص طبقہ نے مدارس كے خلاف ايك منفى اور حقارت آميز فضاء بنا نے کی کوششیں کی ہیں، بد قسمتى سے اس دين بيزار طبقہ كو بيرونى آشير باد بھى حاصل رہى ہے اور پروپيگنڈا كے تمام وسائل بھى انہیں دستياب ہيں، اس كے باوجود يہ عجيب اتفاق ہے كہ دينى مدارس ميں طلبہ كى تعداد ميں كمى كے بجائے مسلسل اضاف ديكھنے ميں آ رہا ہے۔

اس كا اندازہ آپ اس سے لگا سكتے ہيں صرف گذشتہ سال 2015 ميں وفاق نے 2 لاكھ 65 ہزار 7 سو 95 طلبہ و طالبات كا امتحان ليا، جن كے ليے ملك بھر ميں 1 ہزار 6 سو 91 امتحانى مراكز قائم كيے،وفاق المدارس نے اپنےادارتی نظم كو مختلف انتظامى شعبہ جات ميں تقسيم كر ركھا ہے ،ان انتظامى شعبہ جات كى تعداد 25 سے زائدہے،وفاق كى يہ انتظامى تقسيم اس كے حسن انتظام اور سليقہ مندى كى نشاندہى كرتى ہے۔

وفاق المدارس العربيہ كى دينى و ملى خدمات ،اس كے مضبوط و مربوط نظامِ تعليم اور اس كے معيار كو ديكھتے ہوئے يونيورسٹى گرانٹس كميشن نے 17 نومبر 1982 كو وفاق كى شہادة العالميہ كى سند كو ايم اے عربى، ايم اے اسلاميات كے مساوى تسليم كر ليا تھا، جس كے بعد دينى مدارس كے فضلاء كے ليے عصرى تعليمى اداروں ميں مزيد اعلى تعليم جیسےايم فل، پى ايچ ڈى كے دروازے بھى كھل گئے۔

وفاق المدارس العربيہ پاكستان كے تحت ملك كے طول و عرض ميں پھيلے ہوئے ہزاروں مدارس بلا شبہ تعليم كے ميدان ميں دنيا كى سب سے بڑى اين جى او كا نیٹ ورك كہلائے جا سكتے ہيں،يہ ادارے طلبہ و طالبات كو نہ صرف مفت دينى تعليم ديتے ہيں ،بلكہ ان كو رہائش، خوراك ، لباس علاج معالجہ حتى كہ درسى كتب تك بلا معاوضہ مہيا كرتے ہيں، اكثر مدارس ميں رہائش پذير طلبہ كو جيب خرچ بھى ديا جاتا ہے، اس كے علاوہ تعليمى ميدان ميں نماياں كاميابی حاصل كرنے والوں كى حوصلہ افزائى كے ليے انعامات بھى ديے جاتے ہيں۔
ان پر اٹھنے والے اخراجات ہميشہ ہى موضوع بحث رہے ہيں اور جب كبھى مدارس كى كردار كشى شروع كى جاتى ہے اس كى بسم اللہ يہاں سے ہى كى جاتى ہے جبكہ حقائق يہ ميں نہ مانوں كى رٹ لگائے بيٹھے ايك لبرل طبقہ كے علاوہ سارے ملك كو معلوم ہے كہ ان مدارس كو معاشرے كے اصحاب ثروت مسلمانوں كے تعاون سے چلايا جاتا ہے، وہ اپنى زكاۃ ،صدقات ،خيرات ،تبرعات اور عطيات سے ان مدارس كى ضروريات پوری كرتے ہيں۔

حكومتى ادارے بار ہا ان معاملات كى چھان بين كر چكے ہيں، خود وفاق كے اكابرين نے مدارس كے حوالے سے پائے جانے والے ہر قسم كے شكوك و شبہات كو دور كرنے كے ليے حكومت سے ہر سطح پر مكمل تعاون كيا ۔ مگرنائن اليون كے بعد باقاعدہ منصوبہ بندى سے دينى مدارس كى ان خدمات كو پس پشت ڈالا جانے لگاہے، مدارس كو يوں پيش كيا جاتا رہا،گويا دنيا بھر ميں پھیلائى جانے والى تباہى اور فساد كے ذمہ دار يہى مدارس ہيں، الميہ يہ ہے كہ صديوں سے جو ادارے خير كے مراكز سمجھے جا رہے تھے ،انہيں ہى شر كى آماجگاہيں قرار ديا جانے لگا اور اس سفيد جھوٹ كو سچ ثابت كرنے كے ليے ہر قسم كے اوچھے ہتھكنڈے استعمال كيے جانے لگے، دينى مدارس كے بارے ميں اتنا جھوٹ بولا گیا كہ عام مسلمان تو رہے ايك طرف اچھے خاصے پڑھے لكھے حضرات ،جو ان اداروں سے كسى نہ كسى طرح كا تعلق ركھنے والے تھے ،وہ بھى شكوك و شبہات ميں الجھ كر ان اداروں سے محتاط ہونا شروع ہو گئے۔

كتنے دكھ كا مقام ہے كہ پاكستان كے دينى مدارس كا يہ عظيم نیٹ ورك جو ہمارے سر كا تاج بن سكتا ہے، اسے دنيا كے سامنے ہمارے بعض عاقبت ناانديش لوگ اپنے گلے كا طوق بنا كر پيش كر رہے ہيں، اسلام كے نام پر حاصل كردہ ملك ميں مدارس ہى پاكستان كى نظرياتى اساس كى حفاظت كے امين ہيں، انہيں نشانہ بنانا پاكستان كى اساس یعنی دو قومى نظريہ كو نشانہ بنانے كے مترادف ہے۔

پاكستان كا ہر طبقہ یہ سمجھتا ہے كہ پاكستان كا استحكام ان بنيادوں كو مضبوط كرنے سے ہى ممكن ہو گا، جن بنيادوں پر اسے ہمارے آباؤ اجداد نے حاصل كيا تھا، ہمارے بڑے پاكستان كا مطلب كيا لا الہ اللہ كہتے كہتے شہيد ہو گئےاور آج ان لاكھوں شہداء كے امين يہى دينى مدارس ہيں اور يہاں سے ہى علماء ومفکرین تمام تر نا مساعد حالات كے باوجود بزرگوں كے اس جذبے كو آنے والى نئى نسل تك پہچانے كا فريضہ سر انجام دے رہے ہيں۔

اس پس منظر ميں وفاق المدارس العربيہ پاكستان كى قيادت نے بر وقت فيصلہ كرتے ہوئے 3 اپريل 2016 كو اقبال ٹاؤن لاہور ميں ايك عظيم الشان استحكام پاكستان ومدارس كانفرنس منعقد كرنے كا فيصلہ كيا ہے ۔ آج كل مولانا قارى حنيف اپنى ٹيم كے ہمراہ دن رات اس كانفرنس كى تياريوں ميں مصروف ہيں، توقع كى جا رہى ہے كہ مستقبل میں يہ عظيم الشان كانفرنس دينى مدارس كے خلاف ہونے والے عالمى سامراجى پروپيگنڈے كاتوڑ كرتےہوئے مدارس كے محكم و مثبت كردار كو اجاگر كرنے كى تحريك كى خشتِ اول بنے گى،شنید ہےکہ وفاق المدارس كے طرز عمل پر چلتے ہوئے پاكستان ميں مدارس كے دوسرے وفاق بھى ايسے ہى عملى اقدامات کریں گے،جو دينى مدارس كے حقيقى كردار اور ضرورت كو معاشرے كے سامنے پيش كرنے ميں معاون ثابت ہو ں گے۔

نظریاتی جنگوں کی اس پُر پیچ دنیا میں یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ پاکستان اورمدارس دونوں کے استحکام کو اس کانفرنس کا موضوع کیوں قرار دیا گیا ہے،یہ اس لئےکہ عمومی طورپر یہ آگاہی دی جاسکے کہ پاکستان کا استحکام ہی ان مدارس کا استحکام ہے اور ان مدارس کا مستحکم ومؤثر ہونا ہی پاکستان کی طاقت وقوت ہے، لہذا سمجھنے کی ضرورت ہے کہ پاکستان کا مخالف ان مدارس کا مخالف تصور کیا جائے گا،اور ان مدارس کا مخالف نہ صرف پاکستان کا بلکہ اس کی بنیادوں کا دشمن ہوگا،گویا ان دونوں میں نسبتِ تلازُم ہے،ملاحظہ کیجئے کیفیات میں زکی کیفی یہی تو کہتے ہیں:
اسلام کی بنیاد پہ یہ ملک بنا ہے
اسلام ہی اس ملک کا سامانِ بقا ہے

نیزکسی بھی ملک میں جو بھی قانون بنتے ہیں، اُن سب کی بنیادومأخذ اُس ملک کا آئین ودستور ہوتا ہے، دستور میں اُس ملک کے نصب العین کی پوری تفصیل اور وضاحت درج ہوتی ہے، دستور کے خلاف قانون سازی اُس ریاست کی اساس سے انحراف سمجھا جاتا ہے، پاکستان کے دستور کا ابتدائی حصہ ایک قرار داد پر مشتمل ہے، جس کو ۱۹۴۹ء میں پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی نے منظور کیا تھا، اس کو عام طورپر ’’قرار دادِ مقاصد‘‘ کہا جاتا ہے،23 مارچ کی مناسبت سے اس کے صرف دو مختصر اقتباسات یہاں پیش کئے جاتے ہیں، جن سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ بانیانِ پاکستان کے ذہنوں میں یہ ایک‘‘اسلامی مملکت’’ تھا یا بعض لوگوں کے زعم کے مطابق یہ ‘‘لیبرل اسٹیٹ’’ تھا:
’’اس کائنات کا حقیقی حاکم صرف اللہ ہے اور اس نے پاکستان کے باشندوں کی وساطت سے مملکت پاکستان کو جو اختیارات دئیے ہیں ،وہ ایک مقدس امانت ہیں، جنہیں ‘‘اس کی مقرر کردہ حدود ’’کے اندر استعمال کیا جا سکتا ہے۔‘‘

’’آزاد و خود مختار مملکتِ پاکستان کے دستور میں ‘‘اسلام کے اصولوں کے مطابق’’ جمہوریت، آزادی، مساوات، رواداری اور معاشرتی انصاف کا پورا پورا خیال رکھا جائے گا اور مسلمانوں کو اس قابل بنایا جائے گا کہ وہ اپنی زندگیوں کو ‘‘قرآن و سنت ’’کی روشنی میں اسلامی تقاضوں کے مطابق ڈھال سکیں۔‘‘

الحمد للہ ہمارے درمیان اب بھی ایسے لوگوں کی کمی نہیں جنہوں نے نوعمری میں اپنی آنکھوں کے سامنے اس مملکت کو وجود میں آتے دیکھاتھا، وہ آج بھی بتاتے ہیں کہ تحریکِ پاکستان کے دوران جس نعرے نے جذبات کو مہمیز بخشی تھی، بے بس اور کمزور لوگوں کو ہندؤوں اور انگریزوں سے ٹکرانے کا حوصلہ بخشا، وہ یہ ایمان افروز نعرہ ہی تھا ‘‘پاکستان کا مطلب کیا؟ لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ‘’۔

جس طرح ایک انسان اپنی زندگی کی بقا کے لیے خوراک اور پوشاک کو ضروری خیال کرتا ہے، اسی طرح ایک حقیقی مسلمان اپنی اسلامی شناخت، تہذیبی خصوصیات اور معاشرتی امتیازات سے وابستگی اور اپنے ملی وجود کی حفاظت کو اس سے کہیں بڑھ کر اہمیت دیتا ہے، وہ کسی دام پر اپنے ملی تشخص او راپنے امتیازات وشعائر سے دستبردارنہیں ہوسکتا؛ چونکہ خوراک سے پیٹ اور پوشاک سے جسم کی حفاظت توہوسکتی ہے؛ لیکن ایک حقیقی مسلمان کے پاس اس کے پیٹ او رجسم کے ان تقاضوں اور ان مادی ضرورتوں کے علاوہ بھی ایک اہم چیز اور بھی ہے، وہ ہے اس کاد ین اور ایمان۔علامہ اقبال مرحوم نے ان ہی عربی مدارس ومکاتب کے متعلق کیا خوبصورت کلام ارشاد کیاہے:‘‘جب میں تمہاری طرح جوان تھا، تو میرےقلب کی کیفیت بھی ایسی ہی تھی، میں بھی وہی کچھ چاہتا تھا، جو تم چاہتےہو، انقلاب، ایک ایسا انقلاب جو ہندوستان کےمسلمانوں کو مغرب کی مہذب اور متمدن قوموں کےدوش بدوش کھڑا کردے، لیکن یورپ کو دیکھنےکےبعد میری رائےبدل گئی، ان مکتبوں (مدرسوں)کو اسی حال میں رہنےدو، غریب مسلمانوں کےبچوں کو ان ہی مکتبوں میں پڑھنےدو، اگر یہ ملّا اور درویش نہ رہے،تو جانتےہو کیا ہوگا ؟ جو کچھ ہوگا ،اسےمیں اپنی آنکھوں سےدیکھ آیا ہوں، اگر ہندوستان کےمسلمان مکتبوں کےاثرسےمحروم ہو گئے،تو بالکل اسی طرح جس طرح ہسپانیہ (اسپین) میں مسلمانوں کی آٹھ سو سالہ حکومت کےباوجود آج غرناطہ اور قرطبہ کےکھنڈر اور الحمراءاور باب الاخوتین کےسوا اسلام کےپیرؤوں اور اسلامی تہذیب کےآثار کا کوئی نقش نہیں ملتا، ہندوستان میں بھی آگرہ کےتاج محل اور دہلی کےلال قلعہ کےسِوا مسلمانوں کی آٹھ سو سالہ حکومت اور تہذیب کا کوئی نشان نہیں ملےگا’’۔

ان دنوں یہ بحث گرم ہے کہ مدارس رجسٹریشن سے کترارہے ہیں،یہ ایک غلط پروپیگنڈاہے، اہل مدارس کا کہنا یہ کہ تعلیمی اداروں کے لئے جوعام رجسٹریشن سسٹم موجود ہے،مدارس بھی اس کے تحت رجسٹرڈ ہیں،اگر اس میں کوئی سقم ہے،تو جو نظام بھی متعارف کرایاجائے،وہ تمام ایجوکیشنل اداروں کے لئے ہو،بلاوجہ کی حدود وقیود صرف مدارس کے لئے قبول نہیں ہوں گی،نیز اہل مدارس سے مطالبہ کیا جاتاہے کہ آپ حضرات اپنا سورس آف انکم بتائیں،گویا پیسہ ‘‘کہاں ’’سے آتاہے یہ بتایاجائے،یہ بالکل بے جا مطالبہ ہے،ان سے یہ مطالبہ کیاجائےکہ ‘‘کتنا’’ اور کیسے خرچ کیا،زیادہ اعتراض تو اس بات پر ہے کہ کہیں ملک مخالف سرگرمیوں میں تو خرچ نہیں ہورہا،تومطالبہ بھی معقول انداز میں کیاجائے،لیکن حکومت کے لوگ معاملات سلجھانے کے بجائے الجھاتے رہتے ہیں اس لئے مدارس اور اہل مدارس کو بعض اوقات ضرورت پڑتی ہے کہ وہ عوام کی عدالت میں جاکر اپنی بات رکھیں، اس لئے اس طرح کی کانفرنسوں کاانعقاد کرنا پڑتاہے۔
Dr shaikh wali khan almuzaffar
About the Author: Dr shaikh wali khan almuzaffar Read More Articles by Dr shaikh wali khan almuzaffar: 450 Articles with 816814 views نُحب :_ الشعب العربي لأن رسول الله(ص)منهم،واللسان العربي لأن كلام الله نزل به، والعالم العربي لأن بيت الله فيه
.. View More