خانقاہی نظام اور اسلام* (گزشتہ سے پیوستہ قسط نمبر5)
(عمران شہزاد تارڑ, منڈی بہاوالدین)
اگر کوئی شخص مزاروں'خانقاہوں کا سفر کرتا ہے تو وہ ہمارے بیان کردہ واقعات کے ایک ایک حرف کو سچ پائے گا۔ |
|
کچھوے کی جہادی اورعسکری فلاسفی:اب ہم اس
درگاہ سے واپس ہوئے-تالاب کے قریب سے گزرے-پلیتروں اور کچھوں سے پیار کے
مناظر اسی طر ح جوبن پرتھے-میں کچھ دیر کے لئے وہاں رک گیا-ان کی طرف
دیکھنے لگ گیا اور سوچنے لگا.... واہ رے کچھوے اور پلیتر!! قربان جاوں میں
تیرے بنانے والے پر کہ جس نے تجھے بکتر بند گاڑی کی طرح تیرے اوپر گول اور
مضبوط خول بنایا-غرض جس طرح بکتر بند گاڑی کے پہیوں اور دیگر چیزوں کو ہر
جانب سے بند کرکے اسے بیرونی حملہ آور سے محفوظ و مامون بنایا اسی طرح اے
پلیتر اور کچھوے ! تو جب بیرونی حملہ کا خطرہ محسوس کرتا ہے تو اپنی گردن
اور سر کو اپنے محفوظ اور مضبوط خول کے نیچے لے جاتا ہے-اپنے پاوں کو اوپر
چڑھا لیتا ہے-غرض تو ایک چھوٹی سی بکتر بند گاڑی ہے جو پانی میں تیرتی
پھرتی ہے اور خشکی پر چلنا پڑ جائے تو وہاں بھی اپنا سفر جاری رکھ سکتی ہے-
انگریز انجینئروں نے تیری طرف دیکھ کر ٹینک اور بکتر بند گاڑیاں بنا
ڈالیں-انہوں نے یہ ایجادیں کیں اور میدانوں میں مسلمانوں کو کچل کر رکھ دیا
اور جب شہری آبادیوں نے اٹھنے کی کوشش کی تو بکتر بند گاڑیوں نے سڑکوں پر
گشت کرکے مشین گن کی گولیوں کا چھڑک کرکے آڑے آنے والوں کو بھون کر رکھ
دیا-تجھ سے کافروں نے تو یہ سبق لے لیا جبکہ ہمارے لوگ آہ! کہ اے اللہ کی
بکتر بند گاڑی ! تجھے پوجنے میں لگ گئے.... اور ایسے لگے کہ پوجتے چلے
جارہے ہیں-رکنے کا نام ہی نہیں لیتے-لہٰذا ذلیل سے ذلیل تر ہوتے چلے جا رہے
ہیں .... اچھا ! ہم ان شاءاللہ ! تیری اور تیرے ہم جنس مگر مچھ ‘ بندر ‘
گائے ‘ کتے ‘ کوے‘ بلے‘ گھوڑے وغیرہ کی پوجا سے حضرت انسان کو ہٹانے کی
مقدور بھر کوششیں کرتے رہیں گے-کچھوں کی دنیا کی مختصر جھلک کے بعد اب ہم
آپ کو دوبارہ پیر منگو کے دربارپر مگر مچھوں کی دنیا میں لئے چلتے ہیں....
ہم کراچی میں اس تالاب کے کنارے منگو بابا کے دربار پر کھڑے ان مگر مچھوں
کو دیکھ رہے تھے-دربار کے زائرین بھی یہاں موجود تھے -وہ دعائیں کرنے میں
مصروف تھے-وہ انسانیت جو پانی کی ایک مخلوق کو بابے کی جوئیں قرار دے کراس
کی پوجا کرنے میں مگن ہے‘یہ وہ انسانیت ہے کہ جس پہ جانور بھی جو کہ صرف
اور صرف اللہ کی عبادت بجالاتے ہیں‘ہنستے ہوں گے‘کہ یہ کیسے انسان ہیں جو
ہم جانوروں کو اپنا حاجت روا اور مشکل کشا مانے ہوئے ہیں-سچ کہا قرآن نے
بَل ھُم اَضَلُّ ترجمہ :یہ (انسان )تو جانوروں سے بھی بدتر ہیں- جہادی
راہوں پہ خانقاہی نشانات: محمد بن قاسم رحمہ اللہ کا جو لشکر شیراز سے
مکران آیا اور پھر مکران سے دیبل (موجودہ کراچی)میں خشکی کے راستے ساحل کے
ساتھ ساتھ آیا ‘اب اس راستے پر قبر پرستی کا بول بالا ہے-کراچی شہر میں
داخل ہونے سے چار پانچ کلومیٹرپہلے”جوں والے منگا پیر“ سے واسطہ پڑتا ہے-تب
کراچی شہر میں داخلہ ہوتا ہے ....اسی طرح محمد بن قاسم رحمہ اللہ کے لشکر
کے جس حصے نے سمندر کے راستے دیبل پہ حملہ کیا اب وہاں کلفٹن ایسے خوبصورت
تفریحی مقام میں ایک پہاڑی چٹان پر عبداللہ شاہ غازی کا دربار بنا دیا گیا
ہے-اور کہا جاتا ہے کہ بابا جی نے سمندر کے پانی کو کراچی میں داخل ہونے سے
روک رکها ہے.جن کا میلہ 21 اور 22 ذی الحجہ کو لگتا ہے یعنی جو سمندر سے
باب الاسلام میں داخل ہو ‘10 ذی الحجہ کو مکہ میں حج کرکے دیبل کے ساحل پہ
آئے تو 20 ذی الحجہ کو منائے جانے والے عرس سے اس کا واسطہ پڑے....اور پھر
ہر کوئی کیوں نہ یہی سمجھے کہ اسلام تو صوفیاء نے پھیلایا ہے اس لئے کہ ہر
موڑ پر اور ہر اہم مقام پر یہی دربار اور خانقاہیں ہیں جو دکھلائی دیتی
ہے-تو یہ ہے اسلام اور اسلام کی چوٹی (جہاد)کے خلاف سازش جو علامہ اقبال کے
بقول ابلیس کی مجلس شوریٰ میں تیار ہوئی اور اس سازش کو کامیاب کرنے کے لئے
ابلیس نے اپنے ساتھیوں کو یہ مشورہ دیا کہ مست رکھو ذکر وفکر و صبحگاہی میں
اسے پختہ تر کردو مزاج خانقاہی میں اسےسوا لاکھ ولیوں کے مسکن میں کراچی
میں ولیوں اور ان کے مزاروں کا کوئی شمار نہیں ‘ ایک سے دوسرا بڑھ کر
ہے-مگر ہم نے سب سے بڑے ان دو درباروں کے ذکر ہی پر اکتفا کیا ہے کہ جو
محمد بن قاسم کے بری اور بحری دو جہادی راستوں پہ طریق تصوف کے ناکے لگائے
ہوئے ہیں-اب ہم ٹھٹھہ شہر کے قریب برلب سڑک ایک ایسے قبرستان میں موجود ہیں
کہ جس کے بارے میں لوگ کہتے ہیں کہ یہ ایشیا کا سب سے بڑا قبرستان ہے-یہ
قبرستان تقریبا چودہ پندرہ کلومیٹر کے علاقے میں پھیلا ہوا ہے-بڑا قدیم
قبرستان ہے-اس کے صدر دروازے پر لکھا ہوا ہے ”مکلی کا شہر خموشاں- “مکلی “
کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ ایک بزرگ حج پر جارہے تھے-جب انہوں نے راستے میں ایک
رات یہاں سوا لاکھ ولیوں کے مسکن میں سیر کی اور تجلیات و انوار کا مشاہدہ
کیا تو ان کی زبان پر بیساختہ یہ کلمہ جاری ہوگیا ”ھذا مکة لی“ میرا تو یہی
مکہ ہے-چنانچہ ”مکة لی“ کثرت استعمال سے مکلی ہوگیا-جس کا مطلب یہی ہے کہ ”
میرا تو مکہ یہی ہے“ یعنی جو یہاں آ جائے سوا لاکھ ولیوں کے مسکن میں تو
اسے اب مکہ جانے کی کیا ضرورت ہے!! وہ اسی وسیع و عریض قبرستان میں قبروں
کو پوجتا رہے-اور ایسے بد قسمت جب کہیں مکہ پہنچ بھی جاتے ہیں تو وہاں بھی
پرستش کے لئے قبریں ہی ڈھونڈتے رہتے ہیں-یہ قبرپرستی ان کے ذہنوں پہ اس قدر
سوار ہوتی ہے کہ کئی لوگ بیت اللہ کا طواف کرتے ہوئے بھی یہ پوچھتے پھرتے
ہیں کہ یہ کس بزرگ کا دربار ہے کہ جس کے گرد ہم گھوم رہے ہیں-
جاری ہے ....... |
|