اگر تم چارلی ہو تو ہمیں محمد ؐسے محبت ہے

کعب بن اشرف ایک بد بخت یہودی تھا، جو ہر وقت اللہ ، اس کے رسول محمد ﷺ اور مسلمانوں کو تکلیف پہنچانے کے فراق میں لگا رہتاتھا ، اس کے شب وروز کا کوئی بھی پَل ایسا نہیں گذرتاتھا، جس کو وہ آپ ﷺ کی شان میں گستاخی کرنے اورمسلمانوں کوضرر پہنچانے میں صرف نہیں کرتا ،اس کی خباثت جب حد سے بڑھ گئی اور یہ عناد وسرکشی میں آگے ہی بڑھتا چلاگیا ، تو ایک دن رحمتِ عالمؐ کو بھی اس پر غصہ آگیا اور آپ ﷺ نے اپنے اصحاب سے سوال کیا کہ تم میں سے کون ہے جو کعب بن اشرف کے قتل کا شرف حاصل کرے، صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین بھی اس کی خباثتوں اور رذالتوں سے تو اوب چکے تھے اور جب رحمت عالم ﷺ کی مبارک زبان سے اس کی قسمت کا فیصلہ کرنے کا حکم صادر ہوا ، تو حضرت مسلمہ رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور انتہائی چابک دستی اور دیدہ وری سے اس کا قصہ تمام کردیا۔آپ ﷺ نے اس کے قتل کا حکم نعوذ باللہ اپنی کوئی ذاتی رنجش دور کرنے کے لیے نہیں فرمایا تھا، بلکہ اس کا قتل ہونا اس لیے ضروری تھا کہ یہ عام لوگوں کے دلوں میں اسلام اور پیغمبرِ اسلام جناب محمد ﷺ کے خلاف بہتان تراشی کرتا تھا ، لوگوں کے دلوں کو اسلام کے خلاف پراگندہ کرتا تھا اور جب تالاب کے اندر ایک مچھلی سڑ جائے اور خدشہ ہو کہ اس کی وجہ سے تالاب کی ساری مچھلیاں مرجائیں گی، تو اس مچھلی کو تالاب سے نکال باہر کرنے ہی میں بھلائی ہے۔ نیز یہ ہر ملک کا قانون ہے کہ جو بھی اپنے ملک کے خلاف جاسوسی کرے ، یا بادشاہِ وقت پر غلط بہتان تراشی کرے اس کو پھانسی دے دی جائے، حالیہ دنوں میں پیرس کے چارلی ہیبڈو میگزن کے دفتر پرکچھ نقاب پوشوں نے حملہ کردیا اور رسوائے زمانہ صحافی اور شاتم رسول ﷺ چارلی ہیبڈوسمیت بارہ لوگوں کو موت کے گھاٹ اتاردیا، اس حملہ کی چوطرفہ مذت ہوئی اور ہنوز یہ سلسلہ جاری ہے ۔ بلکہ گذشتہ کل انہوں نے آپ ﷺ کا ایک اور کارٹون بنا کر اپنے دل کی پوری بھراس نکال لی،اس حملہ کے خلاف عالمی طور پرفرانس میں ریلیاں نکالی گئیں، بچہ بچہ (Je suis Charlie, or I Am Charlie) کا بینر لیے اس حملہ کے خلاف مظاہرہ کرتا ہوانظر آیا۔مگر یہاں سوال ہے کہ آخر کب تک اس غیر فطری حرکت کو برداشت کیا جائے گا؛ اس لیے کہ ہر چیز کی کوئی نہ کوئی حد ہوتی ہے، اگر آپ ظلم وبربریت اور عناد وسرکشی میں آگے ہی بڑھتے چلے جائیں ، تو کیا ہمیں اتنا بھی حق نہیں ہے کہ ہم اپنے نبیؐ کی ناموس پر اپنی عزت کو قربان کردیں، اگرآپ کے نزدیک آزادیِ اظہارِ رائے کا مفہوم اس قدر وسیع ہے کہ کسی بھی مذہب کے پیشوا اور رسول کا غلط کارٹون بناکر برسرِ عام اپنی خباثتوں کا ننگا ناچ ناچیں ، تو کیا ہمیں اتنا بھی حق نہیں ہے کہ اس کے خلاف آواز بلند کریں۔ اور ظاہر ہے کہ جب کسی انسان پر یا اس کے ایمان ویقین پر مسلسل یلغار ہو اور اس کو مستقل نشانہ بنایا جائے اور اس کی آزادی کو سلب کرلیاجائے، تو یقیناًوہ ایک دن شعلۂ جوالہ بن کر زمین کے کسی نہ کسی کونہ سے ابل پڑے گااور مکاں کو مکیں سمیت تہ وبالا کردے گا۔ اور یہی کچھ پیرس کے اس متنازع میگزن کے کارکنان اور ایڈیٹروں کے ساتھ ہوا ہے ۔ چارلی ہیبڈو اور اس کے معاونین کئی سالوں سے مسلسل مسلمانوں کے جذبات کے ساتھ کھیلواڑ کرتے آرہے تھے ، صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ پوری انسانیت کے اس رسول کے خلاف جن کو مسلمان اپنے ماں باپ سے بھی زیادہ محبت کرتا ہے؛ مسلمانوں کو تو یہ پسند ہے کہ ان کے والدین ہلاک ہوجائیں ، مگراس کو کبھی یہ گوارہ نہیں کہ اس کے محبوب نبی کو کانٹا بھی چبھ جائے، پھر جب اس شخصیت کے خلاف اگر کوئی نازیبا حرکت کرے یا ان کا کارٹون بنا کر مسلمانوں کے صبر کا امتحان لے تو ایک سچا مسلمان؛ بلکہ اپنے محبوب نبی سے عشق کرنے والا اس کو کب تک برداشت کرسکتا ہے؟ اگر آپ اپنی حرکتوں کو (Freedom of Expression or Speech) کی آڑ میں صحیح کہہ سکتے ہیں ،تو اس قانون کے تحت ہمیں بھی یہ حق ملنا چاہیے کہ ہم اس کے قاتل کو سراہ سکیں اور اسے دنیا کا ایک عظیم ترین جانباز کہ سکیں ۔ اس لیے کہ آزادیِ اظہار رائے کا مفہوم آپ کے اعتبارسے یہ ہے کہ ہرشخص اپنی مافی الضمیر کی ادائیگی میں بلا قید واستثنا ہر بات کہنے کی آزادی رکھتا ہے، پھر کوئی بھی جب چاہے کسی کے ماں اور بہن کی ننگی تصوریں بنا کر برسرِ عام چسپاں کردے ، یا کسی اخبار اورٹی وی چینل پر جب چاہے اس کے محرم کی ننگی تصویریں یا ویڈیو شیئر کردے اور کسی کو بھی اس کو غلط کہنے کاکوئی حق نہیں ہوگا، کیونکہ اسے اظہار رائے کی آزادی کا حق حاصل ہے ، مگر کیا آپ اس کوصحیح تسلیم کرلیں گے؟ نہیں، ہر گز نہیں؛ اس لیے کہ آپ کو اس سے تکلیف ہوگی ، تو کیا اگر آپ کسی دوسرے مذہب کے رہنما اور پیشوا کی گندی تصوریں بنائیں یا ان کی شان میں نازیبا کلمات کہیں اور وہ بھی اس شخصیت کے بارے میں لب کشائی کی جرأت کریں جن کی شخصیت بلا قید مذہب وملت اور فکرونظر تمام اربابِ دانش اور عقل ونظر کی نگاہ میں دنیا میں سب سے افضل ہے، تو کیا اس مذہب کے ماننے والے کو اس حرکت پر خوشی ہوگی؟ظاہر ہے ہرگز بھی خوشی نہیں ہوگی؛ بلکہ ماں باپ کے قتل ہوجانے سے بھی زیادہ صدمہ پہنچے گا۔تو اب لامحالہ ہمیں یہ طے کرنا ہوگا کہ اظہار کی آزادی کا صحیح مطلب کیا ہے، اگر ہم اس کے صحیح مفہوم کو سمجھ لیں گے، تو یقیناًیہ دنیا امن وامان کا گہوارہ بن سکتی ہے ، اس کے باوجود اگر کوئی سرپھرا اور بدکردار من چلااس فعل شنیع کا مرتکب ہوا، تو اس سے بدترین انسان دنیا میں کوئی نہیں ہے، جس طرح جانوروں میں خنز یر کو سب سے ناپاک اور مکروہ جانورسمجھا جاتا ہے ، وہ اس جانور سے بھی زیادہ مکروہ وملعون ہوگااور ایسے شخص کی سزا قتل اور صرف قتل ہے۔ تاکہ یہ ان تمام لوگوں کے لیے عبرت کا باعث بنے جو مستقبل میں اس طرح کی حرکت کرنے کا خواہاں ہوں۔ یقیناًآزادیِ اظہارِ رائے کی ضرورت سے کسی کو انکار نہیں ؛ اس لیے کہ اگراس کو جائز اور ایک انسان کا بنیادی حق قرار نہیں دیا جائے، تو ایک عام انسان کسی کے سامنے اپنے حق کا مطالبہ کیسے کر سکتا ہے ، مگر ہر وہ چیز جو ضرورت اور جائز ہو اس کی حد ہوتی ہے، جیسے کہ ماں اپنے بچے کو دودھ پلاتی ہے ، یہ بچے کی ضروت ہے اور جائز ہی نہیں بلکہ ایک وقت ماں پر بچوں کو دودھ پلانا فرض بھی ہوجاتا ہے، لیکن اس کی بھی ایک حد ہے، کہ ڈھائی سال کے بعد ماں اپنے بچوں کا دودھ چھڑا دے، اب اگر کوئی ماں اپنے جوان بچے کو اپنی چھاتی کا دودھ پلاتی ہے ، یا خود اس کا جواں سال عمر کا لڑکا اس کے دودھ کا مطالبہ کرتا ہے اور انکار کی صورت میں دھرنے اور مظاہرے پر اتر جاتا ہے ، تو یقیناًایسے شخص کو معاشرے میں کم عقل یابدکردار تصور کیا جائے گا، اس لیے کہ اس نے ایک ایسی چیز کا مطالبہ کیا ہے جو اب اس کی ضرورت نہیں رہی ، اسی طرح آزادیِ اظہارِ رائے یا عمل سب کچھ اپنے محل اور وقت پر درست ہے ، اگر یہ اپنے محل اور وقت سے تجاوز کرجائے، تو پھر یہ انارکی اور ظلم تصور کیا جائے گااور جو شخص بار بار ظلم کا مرتکب ہو ، بار بار کی تنبیہ اور سمجھانے سے بھی باز نہ آئے تو اس کی وہی سزا ہے جس کا کعب بن اشرف مستحق ہواتھا۔ حقیقت یہ ہے کہ آج ہم نے آزادیِ اظہارِ رائے میں اس قدر غلو کردیا ہے کہ اس کی وجہ سے ہمارا پورا معاشرہ مکدر اور زہر آلود ہوگیا ہے ، جب سے پیرس کے چارلی پر حملہ ہوا ہے، اس کے بعد سے لے کر نہ جانے پوری دنیا میں کتنے معصوموں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا ہوگا ، مگر کوئی بھی ان کے حال پر آنسو نہیں بہاتا، بلکہ طرفہ کی بات یہ ہے کہ آج پوری میڈیا خواہ وہ الیکٹرانک میڈیا ہو یا پرنٹ میڈیا اس نے چارلی ہیبڈو کو ہیرو بنا کر پیش کردیا ہے، حالانکہ وہ اپنے ناعاقبت کی بنیاد پر اپنے انجام کو پہنچ چکا ہے ، اب تک قبر میں اس پر حقیقت منکشف بھی ہوچکی ہوگی اور ہر چہار طرف سے اس پر لعنتیں برس رہی ہونگی،وہ چیخ رہا ہوگا، مگراب اس کا چیخنا بے سود ہوگا، اس کی آہ وبکا اور گریہ وزاری عذاب کے فرشتوں کے کانوں پر کوئی اثر نہیں ڈالے گا، کیونکہ اس نے اس انسان کی شان میں گستاخی کرنے کی جرأ ت کی ہے ، جس کو خود ربِ کائنات نے ’’ورفعنا لک ذکرک‘‘ میں اس کے مقام کوعالمین میں سب سے اونچاکر دیا ہے،چنانچہ اگر دنیا کی پوری طاقت مل کر بھی اس ذات کی شان میں گستاخی کرنا چاہے، تو اس کی ذات میں ذرہ برابر بھی کمی نہیں آئے گی اور اگر پوری دنیا کے لوگ آپ ﷺ کی تعریف پر اتر آئے،تو خدا نے آپﷺ کو جو مقام ومرتبہ عطا کیا ہے ، اس میں بالکل بھی کوئی اضافہ نہیں ہوگا؛اس لیے کوئی کچھ بھی کرلے ، اسلام اور مسلمانوں کو رسوا کرنے کا جتنا بھی جتن چاہے کرلے وہ کبھی بھی کامیاب نہیں ہوسکتا۔ آج پوری دنیا میں اسلام اور مسلمانوں کو ختم کرنے کی جو سازشیں اور مہم چل رہی ہیں، کیا وہ کم ہیں، مگر پھر بھی ہر روز ہزاروں کی تعداد میں لوگ پراوانہ وار اس مذہب کی طرف لپک رہے ہیں اور اس کی خوشبو سے مشامِ جاں کو معطر کررہے ہیں۔ اس میڈیا کی دوہری پالیسی ہی کی بنیاد پریہ مسئلہ اتنا طول پکڑتا جارہا ہے، ایک طرف یہ جس کو چاہتی ہے منٹوں میں ہیرو اور قائد آعظم بنادیتی ہے اور کسی کو آن واحد میں عرش سے فرش پر دے مارتی ہے ، کئی دہائیوں سے بے شمار مسلمانوں کا افغانستان ، عراق،مصراور فلسطین؛ بلکہ پوری دنیا میں جس بے دردی سے قتلِ عام ہوا، کیا اس وقت میڈیا والوں کا کیمرہ خراب ہوگیا تھا؟ حقیقت یہ ہے کہ امنِ عالم کے لیے ہمیں دوغلی پالیسیوں سے اوپر اٹھ کر سوچنا پڑے گا اور پھر آزادایِ اظہار رائے کے معانی کا تعین کرنا پڑے گا ، اس لیے کہ اگر ہم ایک دوسرے کے حقوق اور ان کی مذہبی ذمہ دارویوں کاپاس ولحاظ نہیں رکھیں گے ، ہر وقت کسی کے مذہب کو برا بھلا کہتے رہیں گے، تودنیا میں اسی قدر فتنہ وفساد برپا ہوتا رہے گا۔ کسی بھی مذہب یا مذہبی پیشوا پر کیچڑ اچھالنا، یا اس کو شب وشتم کرنا ،اس کی نہ تو کسی انسانی منشور میں اجازت ہے اور نہ ہی اسلام میں اس کی گنجائش ہے ۔ اس نصیحت کے باوجود اگر وہ لوگ اپنی حرکت سے باز نہیں آئے اور (Je Suis Charlie, or I am Charlie)میں ہوں چارلی کے نعرے لگاتے رہے ، توہر مسلمان (Je Suis Said, or I am said)’’میں ہوں سعید ‘‘کا نعرہ لگانے پر مجبور ہوگا۔
 
Rameez Ahmad Taquee
About the Author: Rameez Ahmad Taquee Read More Articles by Rameez Ahmad Taquee: 89 Articles with 66204 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.