تحفظ ناموس رسالت قرآن و سنت اور اکابر ینِ اسلام کی نظر میں
(Peer Muhammad Tabasum Bashir Owaisi, Narowal)
اسلام میں عقیدہ توحید کے بعد دوسرے نمبر
پر عقیدہ رسالت (ﷺ)پر ایمان لانا بہت ضروری ہے مسلمانوں پر لازم ہے کہ تمام
پیغمبروں پر ایمان لائیں ان کا ادب و احترام کریں اور پھر نبی آخرالزماں
حضرت محمد ﷺ پر ایمان لانے کے بعد ان کی اطاعت کریں اور آپ کی جملہ امور
میں پیروی بھی کریں اﷲ تعالیٰ کا قرآن مجید میں ارشاد ہے۔ترجمہ:۔’’ہر وہ
شخص جو اﷲ اور روزِ آخرت پر ایمان رکھتا ہے اس کے لئے اﷲ کے رسول ﷺ کی حیات
طیبہ میں بہترین نمونہ موجود ہے ۔(آل عمران 31)
ایک دوسرے مقام پر ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ:۔‘‘ترجمہ:۔ ’’اے پیغمبر ﷺ
فرمادیں اگر تم اﷲ سے محبت رکھتے ہو تو پھر میری اتباع کروپھر اﷲ بھی تم سے
محبت کرے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا۔‘‘ایک تیسرے مقام پر ارشاد باری
تعالیٰ ہے کہ :۔ ترجمہ:۔’’جس نے رسول کی اطاعت کی اس نے اﷲ کی ہی اطاعت
کی۔‘‘
قرآن کریم کی مذکورہ آیات سے واضح ہوتا ہے کہ ایک مسلمان کے لئے نبی کریم ﷺ
کی ذات گرامی میں بہترین نمونہ موجود ہے آپ ﷺ کی اتباع کرنے سے ہی مسلمان
اﷲ کو راضی کر سکتے ہیں اور اس کی رضا و رحمت و محبت بھی حاصل کر سکتے ہیں
اس سے مسلمانوں کے گناہ کی بخشش ہو گی تیسری آیت میں تو اﷲ تعالیٰ نے اطاعت
رسول (ﷺ) کو عین اپنی اطاعت قرار دیا ہے اس کی یہی وجہ ہے کہ رسول ﷺ اس
دنیا میں اﷲ تعالیٰ کے نمائندہ ہیں اورتمام الہٰی تعلیمات اﷲ کے بندوں تک
پہنچانے والے ہیں ۔ قرآن و سنت ،آثار صحابہ اور مذاہب اربعہ کی روشنی میں
رسول اکرم ﷺ احترام و اکرام واجب ہے اور آپ ﷺ کے خلاف تحقیر آمیز الفاظ
کہنے ،گالیاں دینے اور برا بھلا کہنے والے شخص کو قتل کرنا واجب ہے اندلس
کے قاضی عیاض نے اپنی معروف تصنیف’’الشفاء‘‘ میں توہین رسالت کے موضوع پر
کئی ابواب وقلمبند کئے ہیں وہ لکھتے ہیں’’ تمام علماء امت کا اس بات پر
اتفاق ہے کہ شاتم رسول ﷺ یا وہ شخص جو آپ ﷺ کی ذات میں نقص نکالے کافر ہے
اور مستحق وعید عذاب ہے اور پوری امت کے نزدیک واجب القتل ہے اس طرح امام
مالک رحمۃ اﷲ علیہ نے ارشاد فرمایا کہ ’’جو شخص حضور اکرم ﷺکو یا کسی نبی
کو گالی دے، اسے قتل کیا جائے اور اس کی توبہ قبول نہیں کی جائے گی چاہے وہ
مسلمان ہو یا کافر۔‘‘
ناموس رسالت ﷺ کے بارے میں غیرت الہٰی اس قدر حساس ہے کہ قرآن نے گستاخان
رسول کو ہمیشہ سخت لہجے میں جواب دیا ان پرلعنتیں بر سا ئیں اور ان کو عذاب
الیم کی وعیدیں سنائیں مثلاً ابو لہب کے بارے میں سورۃ لہب نازل ہوئی امیہ
بن خلف کے بارے میں سورۃ ہمز اور ابی بن خلف کے بارے میں سورۃ یٰسین
78تا83،عقبہ بن ابی معیط کے بارے میں سورۃ فرقان آیات 23تا31ولید بن مغیرہ
کے بارے میں سورۃ زخرف آیت 31تا32اور القلم آیات 8سے12،نفر بن الحارث کے
بارے میں سورۃ لقمان آیت7,6اور عاص بن وائل سہمی کے بارے میں مکمل سورۃ
کوثر نازل ہوئیں یہ تو رب ذالجلال کا توہین رسالت کرنے والوں کے بارے میں
سخت رد عمل تھا ان سب دشمنوں کا خوفناک انجام کسے معلوم نہیں ابو لہب اس کے
بیٹے عقبہ ،ولید بن مغیرہ اور عاص بن وائل سہمی کی موتیں بڑی عبرتناک تھیں
پھر خود رسول مقبول ﷺ کے حکم پر اس طرح کے پندرہ کے لگ بھگ گستاخوں کا قتل
اور عبرتناک انجام سب کے سامنے ہے جب اﷲ تعالیٰ نے حضور اکرم ﷺ کی اطاعت
اور اتباع مسلمانوں پر واجب قرار دی تو اس کے لئے دلوں میں حب رسول ﷺ کا
جذبہ پیدا کیا اور توہین رسالت ﷺ سے خود اﷲ کریم نے حضرت محمد ﷺ کا دفاع
کیا اور مسلمانوں پر بھی رسول اکرم ﷺ کی عزت و ناموس اور آبرو کا احترام
کرنا اور اس کی حفاظت کرنا واجب قرار دیا جب تک آپ ﷺ کی سچی محبت دل میں
موجود نہیں کوئی آپ ﷺ کی پیروی کیسے کر سکتا ہے اور اﷲ تعالیٰ کی خوشنودی و
محبت کیسے حاصل کرسکتا ہے۔
محمد ﷺ کی محبت کا رشتہ سب رشتوں سے اعلیٰ ہے
یہ رشتہ قانون کے سب رشتوں سے بالا ہے
محمد ﷺ متاع عالم ایجاد سے پیارا
پدر ،مادر ،برادر ، مال و جان،اولاد سے پیارا
ایک مسلمان کے نزدیک اﷲ کے رسول ﷺ کی محبت عین ایمان ہے مسلمان سب کچھ
برداشت کر سکتا ہے لیکن اﷲ کے رسول ﷺ کی شان اقدس میں ادنیٰ سی گستاخی بھی
برداشت نہیں کر سکتا ۔حضور خاتم النبین ﷺ اور امت مسلمہ کے مابین وہی ربط
تعلق ہے جو جسم و جان کا ہے آپ ﷺ کی ناموس ملت اسلامیہ کا اہم ترین فریضہ
ہے مسلمان آپ ﷺ کی توہین ،تنقیص ،بے ادبی برداشت نہیں کر سکتا وہ اپنے آقا
و مولا حضرت محمد ﷺ کی عزت و ناموس پر مر مٹنے اور اس کی خاطر دنیا کی ہر
چیز قربان کرنے کو زندگی کا مقصد سمجھتا ہے اس پر تاریخ کی کسی جرح سے نہ
ٹوٹنے والی ایسی شہادت موجود ہے جو مسلمہ حقیقت بن چکی ہے یہی وجہ ہے کہ
مسلمانوں کو خواہ وہ ایشیا ہو یا یورپ، افریقہ ہو یا کوئی خطہ ارض جہاں بھی
اقتدار رہا وہاں کی عدالتوں نے اسلامی قانون کی رو سے شاتمان رسول ﷺ کے لئے
سزائے موت کا فیصلہ سنایا اس کے بر عکس جب کبھی یا جہاں ان کے پاس حکومت
نہیں رہی وہاں جانثاران رسول ﷺ نے غیر مسلم حکومتوں کے رائج الوقت قانون کی
پرواہ کئے بغیر گستاخانِ رسول ﷺ کو کیفر ِ کردار تک پہنچایا اور خود ہنستے
مسکراتے تختہ دارپر چڑھ گئے اور نسل نو کو یہ پیغام دے گئے۔
جان دی، دی ہوئی اسی کی تھی
حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا
یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ قرآن کریم نے اپنی سچی اور بے باک تعلیمات
کی بناء پر ساری باطل اور مشرک دنیا سے جنگ مول لے لی سب سے پہلے توحید کے
عقیدہ نے مشرکوں پر کاری ضرب لگائی پھر یہود کو زیر کیا ۔نصاریٰ بھی محکوم
ہو گئے اور اسلام کی بڑھتی ہوئی طاقت کو دیکھ کر سبھی تلملا اٹھے اور خفیہ
ریشہ دوانیوں میں مصروف ہو گئے اگرچہ حضور ﷺ کی انقلابی دعوت اور ان کے
فیضان صحبت سے صحابہ کرام رضوان اﷲ علیہم اجمعین کی سیرت و کردار میں نکھار
پیدا ہو گیا تھا اور جانثاروں کی ایک جماعت وجود میں آگئی تھی جو موت سے
ڈرتی نہ جنگ کی آگ سے بلکہ ہر وقت شہادت کی طلبگار رہتی تھی قرآن مجید میں
بھی اس جماعت کا ذکر ان الفاظ میں آیا ہے۔
ترجمہ’’نہ پاؤ گے ان لوگوں کو جو یقین رکھتے ہیں اﷲ (تعالیٰ) اور پچھلے دن
پر دوستی کریں ان سے جنہوں نے اﷲ اور اس کے رسول (ﷺ) سے مخالفت مول لی
اگرچہ وہ ان کے باپ یا بیٹے یا بھائی یا کنبے والے ہوں یہ ہیں جن کے دلوں
میں ایمان نقش فر ما دیا اور اپنی طرف کی روح سے ان کی مدد کی، انہیں باغوں
میں لے جائے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں ان میں ہمیشہ رہیں (گے) اﷲ
تعالیٰ ان سے راضی اور وہ اﷲ تعالیٰ سے راضی ،یہ اﷲ تعالیٰ کی جماعت ہے
سنتا ہے اﷲ تعالیٰ ،ان کی ہی جماعت کامیاب ہے۔(المجادلہ 64)
یہی وجہ ہے کہ رسول کریم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے آپ ﷺ نے فرمایا :ترجمہ:۔حضرت
انس بن مالک رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا تم میں سے
کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں بن سکتا جب تک کہ میں اس کے نزدیک اس کے
والدین اور اولاد اور سب لوگوں سے بڑھ کر محبوب نہ ہو جاؤں ۔(بخاری کتاب
الایمان)
در اصل ایمان نام ہے محبت رسول ﷺ کا، حب رسول ﷺکا، محبت رسول ﷺ اور حب رسول
ﷺ کے بغیر ایمان کی تکمیل ناممکن ہے بلکہ مسلمان ہونے کی شرط اولین، عشقِ
رسولﷺ ہے۔
بخاری شریف ہی میں یہ روایت بھی موجود ہے کہ ایک روز حضرت عمر فاروق رضی اﷲ
عنہ نے رسول اﷲ ﷺ سے عرض کیا بے شک آپ سوائے میری جان کے جو دونوں پہلوؤں
میں ہے میرے نزدیک ہر شے سے زیادہ محبوب ہیں حضور خیر الانام علیہ الصلوٰۃ
والسلام نے فرمایا تم میں سے کوئی شخص ہر گز مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ
میں اس کے نزدیک اس کی جان سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں یہ سن کر حضرت عمر
فاروق رضی اﷲ عنہ نے کہا کیا قسم ہے اس ذاتکی جس نے آپ ﷺ پر کتاب نازل
فرمائی آپ ﷺ میرے نزدیک میری جان سے جو میرے دونوں پہلوؤں میں ہے زیادہ
محبوب ہیں اس پر حضور ﷺ نے فرمایا:اے عمر رضی اﷲ عنہ ! اب آپ کا ایمان کامل
ہو گیا اس سے پتہ چلا کہ حضور سید المرسلین ﷺ کو جان سے زیادہ محبوب رکھے
بغیر ہم مسلمان نہیں ہو سکتے اور جو ہستی جان سے بھی زیادہ عزیز ہو اس کی
شان میں دریدہ وہنی کیونکہ برداشت کی جاسکتی ہے اس لئے عاشقان مصطفےٰ ﷺ نے
وقت آنے پر اپنی جانوں کی ،عزیز و اقارب کی ،مال و اموال کی،مستقبل و حال
کی پروہ نہیں کی اپنے آقا ﷺ کے خلاف بھونکنے والے کتوں کا خاتمہ کر کے دم
لیا،بیشک انہوں نے قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں انہیں تختہ دار پر
لٹکنا پڑا لیکن انہوں نے کبھی آقا و مولا حضرت محمد ﷺ کی توہین برداشت نہیں
کی۔
شاتمانِ رسول ﷺ کا عبرتناک انجام: (تاریخی تناظر میں)محبت محبوب خدا کا حق
ہے اور ان کے امتیوں پر فرض ہے حضور ﷺ کی حقیقی محبت کا نام ہی اسلام ہے جس
کے محبوب ،خدا کے محبوب نہیں وہ مسلمان نہیں اور جو محبت میں جان عزیزی کو
عزیز ازجان سمجھے وہی سچا محب ہے ،حضور ﷺکی عظمت کو سلام کرنا، محبوب کی
عزت و آبرو کی حفاظت کرنا اور اس راہ میں جان لے لینا یا جان دے دینا ہی
معراج محبت ہے تاریخ کے درخشاں اوراق جابجا ایسی مثالوں سے بھرے ہوئے ہیں
۔آئیے !ایسے تاریخی شواہد کی روشنی میں ہم ناموس رسالت ﷺ کے جانثاروں
،پروانوں اور دیوانوں کی ولولہ انگیز ،ایمان پرور اور غیرت ایمان سے مزین
سرشاریوں پر اچٹتی ہوئی نظر دوڑائیں تاریخ کے تناظر میں عاشقان رسول ﷺ کی
غیرت وحمیت اور ایمانی جذبات کی فکر انگیز جدو جہد میں سے چند واقعات بطور
نمونہ قارئین کی خدمت میں پیش کئے جاتے ہیں تاکہ نسل نوان سے رہنمائی لے کر
فکر آخرت اور تحفظ ناموس رسالت کے جذبات طیب سے معمور ہو کر سر خر وہو
۔(آمین!)
گستاخ بیوی کا قتل:سنن ابو داؤد میں ہے کہ ایک نابینا صحابی نے اپنی بیوی
کو اس لئے قتل کر دیا کہ وہ سرکار دو عالم ﷺ کی شان میں گستاخی کا ارتکاب
کرتی تھی حضور اقدس ﷺ نے اس صحابی کے حق میں فیصلہ دیتے ہوئے فرمایا کہ اس
عورت کا خون رائیگاں ہے۔
عبد اللّٰہ بن خطل کا قتل:یہ فتح مکہ سے پہلے مدینہ آیا اور مسلمان ہو گیا
اس کے بعد حضور ﷺ نے اسے زکوٰۃ وصول کرنے کے لئے بغض قبیلوں کی طرف بھیجا
اس کے ساتھ ایک انصاری تھا اور اس کے ساتھ ایک خزاعی مسلمان خد متگاری میں
تھا وہ خود سو گیا اس خزاعی نے بھی خدمت میں کوتاہی کی وہ سو گیا اور کھانا
تیار نہ کر سکا جب دیکھا کہ کھانا تیار نہیں ہوا تو غصہ میں آکر خزاعی کو
قتل کر دیا اور صدقہ کے جانور لے کر (اہل مکہ) کفار سے جا ملا اور ان سے
کہا کہ تمہارے دین کو میں نے محمد (ﷺ) کے دین سے بہتر پایا اور وہ اپنی
باندیوں سے حضور ﷺ کی ہجوکفار کو سناتا، بڑا گستاخ اور زبان دراز تھاعبد اﷲ
بن خطل حضور سرور کونین ﷺ کی ہجو میں اشعار کہتا تھا فرتنا اور قربیہ اس کی
دو باندیاں تھیں جو اس کے اشعار گایا کرتی تھیں فتح مکہ کے دن حضور ﷺ کعبہ
کا طوائف فرما رہے تھے تو اس نے مسجد حرام میں پناہ لے لی اور کعبہ کے
پردوں سے چمٹ گیا کسی صحابی نے اسے دیکھ لیا اور عرض کیا یا رسول اﷲ ﷺ یہ
ابن خطل ہے اور غلاف کعبہ سے لپٹا ہوا ہے فرمایا جہاں ہو اسے قتل کرو
چنانچہ اسے مسجد حرام ہی میں قتل کر دیا گیا اور اس کی ایک باندی قریبہ کو
بھی اس جرم کی سزا میں لقمہ اجل بننا پڑا کہ وہ اہانت رسول ﷺ کا ارتکاب
کرتی تھی۔
ولید بن مغیرہ کا قتل:ولید بن مغیرہ نے رحمت مجسم ،محسن اعظم ،رسول اکرم ﷺ
کو ’’مجنون‘‘ کہہ دیا اس پر اﷲ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا کہ اے میرے
محبوب ! (ﷺ) آپ ہر گز مجنون نہیں ’’بعد ذٰلک زنیم‘‘ کہہ کر اس کے ولداالزنا
ہونے کا برملا اعلان کر دیا۔یہ دشمن رسول ﷺ ابو جہل کا چچا تھا ولید بن
مغیرہ خاندان قریش کارئیس اعظم تھا اور مال دار بھی اپنے بیٹوں اور رشتہ
داروں سے کہتا تھا کہ اگر تم میں سے کسی نے محمد ﷺ کا کلمہ پڑھا تو میں اسے
اپنے مال میں سے کچھ نہیں دوں گا اور نبی کریم ﷺ کی شان میں کہتا یہ تو
مجنون ہے اور جادو گر بھی اور قرآن کو اگلوں کی کہانیاں بتاتا جس کے جواب
میں اﷲ تعالیٰ نے اس کے دس عیب گنوائے۔
ترجمہ’’ اور ہر ایسے کی بات پر توجہ نہ دینا جو زیادہ قسمیں کھانے والا ہو
،ذلیل ،بہت طعنے دینے والا، بہت ادھر کی ادھر لگاتا پھرنے والا،بھلائی سے
روکنے والا ،حد سے بڑھنے والا، گنہگار ،درشت خو، اس پر طرہ یہ کہ اس کی اصل
میں خطا ہ ے۔(القلم 10تا13)
جب یہ آیت نازل ہوئی تو ولید بن مغیرہ نے اپنی ماں سے کہا کہ محمد ﷺ نے
میرے حق میں دس باتیں بتائیں ہیں نوکو تو میں جانتا ہوں کہ مجھ میں موجود
ہیں لیکن دسویں بات اصل میں خطا ہونے کی اس کا ماں مجھے معلوم نہیں یا تو
مجھے سچ مچ بتادے ورنہ تیری گردن ماردوں گا اس پر اس کی ماں نے کہا کہ تیرا
باپ نامرد تھا مجھے اندیشہ ہوا کہ وہ مر جائے گا تو اس کا مال غیر لے جائیں
گے تو میں نے ایک چروا ہے کو بلالیا تو اس میں سے ہے۔اس پر سورۃ مدثر کی
آیا ت11تا30نازل ہوئیں جو پڑھنے سے تعلق رکھتی ہیں ۔
ولید بن مغیرہ اپنی قوم میں وحید کے لقب سے ملقب تھا غزوہ بدر میں اس کی
ناک کٹ گئی جسے شرم کے مارے چھپائے رکھتا تھا ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ
:ترجمہ:’’قریب ہے کہ ہم اسکو سور کی تھوتھنی پر داغ دیں گے۔(القلم ۔16)
عاص بن وائل کا قتل:عاص بن وائل نے آپ ﷺ کو بہت دکھ دیئے اس کا حال بیان
کرتے ہوئے مورخین نے لکھا ہے جس شخص نے اپنے قول و فعل سے آنحضرت ﷺ کو
تکلیف دی اﷲ تعالیٰ نے اس سے ضرور بدلہ لیا جب نبی کریم ﷺ کے صاحبزادے حضرت
قاسم رضی اﷲ عنہ کا اور حضرت ابراہیم رضی اﷲ عنہ کا انتقال ہو گیا تو عاص
بن وائل نے کہا کہ ان کی اولاد نرینہ زندہ نہیں رہی اس لئے آپ ﷺ کے بعد آپ
کا نام ختم ہو جائے گا اس پر اﷲ تعالیٰ نے سورہ کوثر نازل فرمائی اور عاص
بن وائل کے’’ابتر‘‘ ہونے کی خبر دی دیکھئے سید المرسلین رحمت اللعالمین ﷺ
کو لاولد ہونے کا طعنہ دینے والے کو اﷲ تعالیٰ نے منقطع النسل بنا دیا۔
ابو لہب کا عبر تناک انجام:یہ حضور ﷺ کا سگا چچا تھا اور آپ کا سخت دشمن
تھا ابو لہب آپ ﷺ سے بڑی عداوت رکھتا تھا جب حضور ختمی المرتبت ﷺ نے کوہ
صفا پر چڑھ کر لوگوں کو پکارا اور انہیں توحید باری تعالیٰ کا درس دیا تو
ابو لہب نے بگڑ کر کہا’’تو برباد ہو جائے کیا تو نے ہمیں یہی سنانے کے لئے
جمع کیا تھا؟‘‘ اس پر خالق ارض و سما نے اس کی تباہی و بربادی کا یوں اعلان
فرمایا۔تبت یدآ ابی لھب وتب۔(سورۃ لہب ۔1)ترجمہ:’’ ابو لہب کے ہاتھ ٹوٹ
جائیں اور وہ برباد ہو جائے۔‘‘
ابو لہب کے دونوں ہاتھ ٹوٹ گئے اور وہ تباہ ہو ہی گیا دنیا میں تو اس کا
حال یہ ہوا کہ اس کے زہریلی قسم کا ایک چھالہ(العدسہ) نکلا جو سارے جسم میں
پھیل گیا ہر جگہ سے بد بودار پیپ بہنے لگی گو شت گل گل کر گرنے لگا اس کے
بیٹوں نے اسے گھر سے باہر پھینک دیا اور اس نے تڑپتے تڑپئے جان دے دی اس کی
نعش تین دن تک یونہی رہی اور لوگ اس کے تعفن اور بدبو سے تنگ آگئے اور اس
کے بیٹوں کو لعنت ملامت کرنے لگے تو انہوں نے چند حبشی غلاموں سے گڑھا
کھدوایا اور لکڑیوں سے اس کی لاش کو دھکیل کر اس گڑھے میں پھینکوا دیا اور
اوپر مٹی ڈال دی اس کا یہ حشر اﷲ کے غضب ہی کا نتیجہ تھا کہ مکہ کے چار
رئیسوں میں سے ایک رئیس کا حشر ہوا اور قیامت کے روزسیصلیٰ نارا ذات لھب O
’’عنقریب وہ جھونکا جائے گا شعلوں والی آگ میں۔‘‘
ابو لہب کے خاندان کا انجام:ابو لہب کی بیوی اروہ کنیت ام جمیل اور ابو
سفیان کی بہن تھی جس کے دل میں حضور ﷺ کے نفرت کوٹ کوٹ کر بھری تھی دشمنیٔ
رسالت میں اپنے خاندان سے کم نہ تھی جنگل سے خاردار لکڑیاں چن کر رات کو اس
راستہ پر بچھا دیتی جس سے حضور ﷺ کا گزر ہوتا ایک روز بوجھ اٹھا کر لا رہی
تھی کہ تھک کر آرام کے لئے ایک پتھر پر بیٹھ گئی ایک فرشتے نے بحکم الہٰی
اس کے پیچھے سے اس کے گٹھے کو کھینچا وہ گری اور اس سے گلے میں پھانسی لگ
گئی اور مر گئی ،دیکھئے قرآن ارشاد فرمارہا ہے۔ترجمہ’’اور اس کی جورو
لکڑیوں کا گٹھا سر پر اٹھاتی اور اس کے گلے میں کجھور کی چھال کا رسہ اور
قیامت کے روز بفرمان نبوی ﷺ اس کا حشر ہو گا کہ جس آگ میں اس کا گستاخ
خاوند جلایا جائے گا اسی آگ میں وہ بھی جھونکی جائے گی۔
ابو لہب کے دو بیٹے عتبہ اور شیبہ کے ساتھ سرور دو عالم ﷺ کی دو صاحبزادیوں
حضرت رقیہ رضی اﷲ عنہا اورحضرت ام کلثوم رضی اﷲ عنہا کی شادی ہوئی تھی جب
حضور ﷺ نے اسلام کی تبلیغ شروع کی تو ابو لہب کے کہنے پر دونوں بیٹوں نے
طلاق دے دی عتبہ نے اپنے خبثِ باطن کا کچھ زیادہ ہی مظاہرہ کیا کہ اس ناپاک
نے رخ انور ﷺ پر تھو کنے کی جسارت کی جو لوٹ کر اس قبیح کے منہ پر آپڑی
حضور ﷺ کی زبان سے نکلا’’الہٰی ! اپنے کتوں میں سے ایک کتا اس ناہنجار پر
مقرر فرمادے چنانچہ ایک سفر میں ایک شیر نے اسے پھاڑ ڈالا مگر نہ اس ناپاک
کا گوشت کھایا نہ لہو پیا جب اس نے بے ادبی کی۔نہایت گستاخی سے پیش آیا آپ
ﷺ کی بد دعا کی فکر سے کہنے لگا قافلہ کے سب لوگ ہماری خبر رکھیں ایک منزل
پر پہنچے وہاں زیادہ شیر تھے رات کو تمام قافلہ کا سامان ایک جگہ جمع کیا
اور اس کا ٹیلہ بنا کر عتبہ کو سلایا اور قافلہ کے تمام آدمی چاروں طرف سو
گئے رات کو شیر آیا اور سب کے منہ سونگھے اس کے بعد ایک جست لگائی اور اس
ٹیلے پر پہنچ گیا اور عتبہ کا سر بدن سے جدا کر دیا اس نے ایک آواز لگائی
مگر ساتھ ہی کام تمام ہو چکا تھا اس کے دوسرے بھائی شیبہ نے چونکہ حضور ﷺ
کی توہین نہیں کی تھی اس لئے اﷲ عالیٰ نے دولت اسلام سے نواز دیا۔
کعب بن اشرف کا قتل: کعب بن اشرف کا قتل بھی اسی سلسلہ کی کڑی ہے ۔کعب بن
اشرف شاعر تھا جو رسول ﷺ اور مسلمانوں کی ہجو میں مشغول رہتا تھا اور کفار
قریش کو جنگ کی ترغیب دیتا تھا حضور ﷺ نے دعا کی ۔یا اﷲ ! ابن اشرف کے شر
سے ہمیں بچا ۔امام بخاری نے حضرت جابر رضی اﷲ عنہ سے روایت کیا ہے حضور ﷺ
نے فرمایا کون ہے جو کعب بن اشرف کو قتل کرنے کیلئے تیار ہے اس لئے کہ وہ
خدا اور اس کے رسول ﷺ کو ایذا پہنچاتا ہے چنانچہ حضرت محمد بن مسلم نے کھڑے
ہو کر عرض کیا۔یا رسول اﷲ ﷺ کیا آپ پسند فرماتے ہیں کہ میں اسے ہلاک
کروں؟۔فرمایا ہاں! آپ کے ساتھ حضرت حارث بن اوس رضی اﷲ عنہ بھی گئے جنہوں
نے اسے قتل کیا اور اس کا سر کاٹ کر حضور ﷺ کے قدموں پر ذلت اور حقارت کے
ساتھ ڈالا۔
عقبہ بن ابی معیط کا قتل:عقبہ بن ابی معیط کا قتل اسی سلسلہ کی کڑی ہے وہ
جب کبھی سفر سے واپس آتا تو دعوت عام کرتا جس میں اہل مکہ شریک ہوتے یہ
اکثر حضورﷺ کی خدمت میں حاضر ہوتا حضور ﷺ کی باتیں سنتا اور انہیں پسند
تاکہ ایک دفعہ وہ سفر سے واپس آیا تو اس نے حسب دستور دعوت عام کا اہتمام
کیا اور حضور ﷺ کو بھی دعوت دی حضور ﷺ نے فرمایا جب تک تو مشرف باسلام نہ
ہو میں تیری دعوت قبول نہیں کروں گاچنانچہ اس نے کلمہ شہادت پڑھا اور اپنے
اسلام کا اعلان کر دیا ابی بن خلف سے عقبہ کا بڑا یارا نہ تھا اس نے سناتو
آکر کہا اے عقبہ! سنا ہے تو مرتد ہو گیا ہے اس نے کہا ہر گز نہیں میں نے تو
محض ایک غرض کیلئے اسلام کا اظہار کیا ہے ابی کہنے لگا میں تم سے اس وقت تک
راضی نہیں ہوں گا جب تک تو اس کے پاس جا کر ایسی ایسی گستاخیاں نہ کرے عقبہ
اپنے یار کو خوش کرنے کے لئے حضور ﷺ کے پاس گیا اور وہ ساری گستاخیاں جن کی
فرمائش اس کے یار نے کی تھی یہاں تک کہ اس نے رخ انور پر تھوک دیا(معاذ
اﷲ)لیکن اﷲ تعالیٰ نے اس تھوک کو آگ کا انگار ہ بنا کر لوٹا یا اور اس کے
منہ پر دے مارا جس سے اس کا منہ جل گیا اور مرتے دم تک گالوں پر داغ رہا
حضور ﷺ نے فرمایا جب سر زمین مکہ سے باہر تیری ملاقات ہو گی تو تیرا سر
تلوار سے اڑادوں گا یہ بات اس کے دل میں تیر کی طرح پیوست ہو گئی کئی سال
بعد جب اہل مکہ بدر کی طرف جانے لگے تو اس نے پہلو تہی کرنا چاہی اور کہا
تم کو معلوم ہے اس شخص نے مجھے دھمکی دی تھی اور جو بات ان کے منہ سے نکلتی
ہے پوری ہو کر رہتی ہے مجھے یہیں رہنے دو انہوں نے کہا کہ تم عجیب آدمی ہو
پہلے تو اس کے غالب آنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اور اگر بالفرض محال
کوئی ایسی صورت پیش آبھی گئی تو تمہارے پاس تیرا تیز رفتار سرخ اونٹ ہے اور
اس پر سوار ہو کرآ جانا۔چنانچہ اسے اپنی بد بختی لے گئی کفر کو شکست ہو گئی
یہ اپنے اونٹ کو لے کر بھا گا لیکن وادیوں کے پیچ و خم میں الجھ کر رہ گیا
اور گرفتار کر لیا گیا چنانچہ حضور ﷺ کے حکم سے سیدنا علی کرم اﷲ وجہہ نے
اس کا سر قلم کر دیا قیامت کے روز یہ جب قبر سے اٹھے گا تو اس کی حسرت و
ندامت کی یہ حالت ہو گی جو اس آیت مذکورہ میں ہے۔ترجمہ’’ ہائے افسوس ! کاش
نہ بنایا ہوتا میں نے فلاں کو دوست اپنا۔(الفرقان۔28)
ابی بن خلف کا قتل:ابی بن خلف کا قتل بھی اسی سلسلہ کی کڑی ہے اس کا قصہ یہ
ہے کہ اس کی گستاخیوں کو دیکھ کر حضور ﷺ نے فرمایا تھا کہ تیرا قاتل میں
ہوں گا یہ خوف اس کے دل میں یقین کے ساتھ بیٹھ گیا خروج کے وقت احد کی جانب
میں آنا نہ چاہتا تھا کہ کہیں وہ مارا نہ جائے ابو سفیان اسے اصرار کر کے
لایا تھا اس کا قصہ یوں بیان کرتے ہیں کہ وہ اسیران بدر میں شامل تھا جب اس
کا فدیہ قبول کیا گیا تو اس نے مکہ جانے کی اجازت پائی تاکہ وہ فدیہ ادا
کرے اس بے حیانے لوٹتے وقت حضور ﷺ کے روبرو بکواس کی کہ اے محمد (ﷺ) میرا
ایک گھوڑا ہے میں اسے خوب دانہ پانی دوں گا تاکہ فربہ ہو جائے پھر اس گھوڑے
پر سوار ہو کر آپ ﷺ سے جنگ کروں گا اور آپ کو (خاکم بدہن) قتل کروں گا حضور
ﷺ نے فرمایا بلکہ اس گھوڑے پر سوار ہونے کی حالت میں ہی میں تجھے قتل کروں
گاعلماء فرماتے ہیں بد ترین خلق اور بد ترین مخلوق وہ ہے جسے حضور ﷺ قتل
کریں۔
روزاحد حضور اکرم ﷺ نے فرمایا کہ ’’ابی بن خلف سے ہو شیار رہو کیونکہ
ناخلف،بے خبری میں پیچھے سے نہ آجائے اگر وہ تمہیں نظر آجائے تو مجھے بتا
دینا‘‘ اچانک جنگ کے آخر میں وہ اپنے گھوڑے پر سوار نمودار ہوا جب اس کی
نظر حضور ﷺ پر پڑی تو اس نے نالائقی کی باتیں کہنی شروع کر دیں اس نے کہا ا
ے محمد (ﷺ)آپ ابی کے ہاتھ سے نہ بچ سکیں گے اگر آج آپ میرے ہاتھ سے بچ گئے
تو۔۔۔۔‘‘یہ کتنا بے حیا اور بے شرم تھا کہ باوجود اس اعتقاد کے کہ حضور ﷺ
کے ہاتھ سے مارا جائے گا پھر بھی لاف زنی کرتا تھا صحابہ نے عرض کیا یا
رسول اﷲ ﷺ ہمیں اشارہ فرمائیے ہم اس پر حملہ کریں اور اسے دوزخ میں
پہنچائیں۔‘‘
جب یہ ملعون قریب پہنچا حضرت زبیر بن العوام رضی اﷲ عنہ حضور ﷺ کے پاس کھڑے
تھے حضور ﷺ نے ان سے نیزہ لیا ایک رویت میں ہے کہ اسی کا نیزہ اس کے ہاتھ
سے لیکر اس پر پھینکا یہ اس شقی کی گردن پر پڑا اس وقت اس نے اپنے گھوڑے کی
لگام پھیری اور اپنی قوم سے مل گیا اور خود کو گھوڑے سے گرادیا اور گائے
بیلوں کی مانند ڈکرانے لگا۔‘‘
اس کی قوم نے اس سے کہا’’تیرا زخم تو ایک معمولی سی خراش سے زیادہ نہیں
اتنی چیخ و پکار اور واویلا کیوں کرتا ہے؟اس نے کہا تمہیں معلوم ہے کہ یہ
زخم کس کی مار کا ہے؟ میں واقف ہوں کہ اس زخم سے میری جان نہ بچ سکے گی اگر
یہ زخم جو مجھ اکیلے کو لگا ہے تمام حجاز والوں کو لگ جائے تو وہ یکبار گی
سب کے سب مرجائیں اس لئے کہ محمد(ﷺ) میرے منہ پر کھجور کی گٹھلی بھی مار
دیتے توبھی میں مارا جاتا وہ یونہی چیختا چلاتا رہا پھر وہ ملعون مشرکوں کے
مکہ مکرمہ پہنچنے سے پہلے مرا طہران میں جو کہ مکہ سے ایک منزل پر ہے واصل
جہنم ہو گیا۔
مجاہد تحفظ ناموس رسالت حبیب بن زید رضی اﷲ عنہ کی جان نثار:تاریخ اسلام
میں ناموس رسالت ﷺ کے لئے سب سے پہلے اپنی جان کا نذرانہ رسول اﷲ ﷺ کے
نوجوان صحابی حضرت حبیب بن زید انصاری رضی اﷲ عنہ نے پیش کیا وہ مسیلمہ
کذاب کے ساتھیوں کے ہاتھوں گرفتار ہوئے اور انہیں مسیلمہ ملعون کے دربار
میں پیش کیا گیا مسیلمہ نے ان سے پوچھا کہ کیا تم حضرت محمد ﷺ کو اﷲ کا
رسول مانتے ہو؟۔ انہوں نے جواب دیا ہاں مانتا ہوں مسیلمہ نے پھر پوچھا کہ
کیا تم مجھے اﷲ کا رسول تسلیم کرتے ہو؟ حضرت حبیب بن زید رضی اﷲ عنہ نے
جواب میں فرمایا۔میرے کان تمہاری یہ بات سننے کے لئے تیار نہیں ہیں مسیلمہ
نے انہیں قتل کرنے کا حکم دیا اور تاریخ کی کتابوں میں لکھا ہے کہ حضرت
حبیب بن زید رضی اﷲ عنہ کو مسیلمہ کے دربار میں اس درندگی کے ساتھ شہید کیا
گیا کہ پہلے ان کا ایک بازو کاٹا گیا اور پھر دوسرا ،پھر ایک ٹانگ پھر
دوسری ٹانگ، اس دوران مسیلمہ مسلسل سوال کرتا جاتاتھا اور اس پروانہ ناموس
رسالت کا ہر سوال پر یہی جواب تھا کہ میرے کان جناب نبی اکرم ﷺ کے بعد کسی
اور کے لئے نبوت کا لفظ سننے کے لئے تیار نہیں حتیٰ کہ حضرت حبیب بن زید
انصاری رضی اﷲ عنہ ناموس رسالت کے اس والہانہ اظہار کے ساتھ جام شہادت نوش
کر گئے۔
حضرت قاضی عیاض رحمۃ اﷲ علیہ کا فتویٰ: شفا شریف میں قاضی عیاض لکھتے ہیں
کہ ایک شخص نے کہا کہ مدینہ طیبہ کی مٹی خراب ہے حضرت امام مالک رحمۃ اﷲ
علیہ نے فتویٰ دیا کہ اسے تیس درے مارے جائیں اور قید کیا جائے اور فرمایا
کہ ایسا شخص تو اس لائق ہے کہ اس کی گردن ماری جائے وہ زمین جس میں رسول اﷲ
ﷺ آرام فرما رہے تھے اس کی نسبت و ہ گمان کرتا ہے کہ وہ خراب ہے۔
امام ابو یوسف رحمۃ اﷲ علیہ کا فتویٰ:اس طرح امام ابو یوسف رحمۃ اﷲ علیہ کے
سامنے ایک شخص نے کدو کے بارے میں کہا انا مااحبہ (میں اس کو پسند نہیں
کرتا ) یہ سن کر امام موصوف نے تلوار کھینچ لی اور فرمایا’’تجدید ایمان کرو
ورنہ میں تمہیں ضرور قتل کردوں گا۔
خود اﷲ تعالیٰ ٗ،اپنے محبوب بندوں سے عداوت رکھنے والوں کے لئے اعلان جنگ
فرماتے ہیں حضور اکرم ﷺ تو رب ذوالجلال کو سب سے زیادہ محبوب ہیں ان سے
عداوت رکھنے والے ان کی اہانت و تضحیک کرنے والے سے جنگ کرنا سنت اﷲ ہے جس
پر عمل کرنا ہر مسلمان کا فرض ہے حضور سرور کونین ﷺ کی شان سے فروتر الفاظ
کہنے یا لکھنے والے کو ہر گز معاف نہیں کرنا چاہئے لیکن افسوس کہ ہمارے ہاں
ناموس رسالت کیلئے چلنے والی تحریکیں منظم اور بھر پور نہیں ہوتیں اور نہ
ہی واضح اور دو ٹوک مقصد کے حصول کیلئے چلتی ہیں۔
منافقین کا قتل:تاریخ بتاتی ہے کہ مشرکین مکہ کے ساتھ مسلمانوں کے پانچ
آدمی بھی بدر میں لڑنے آئے تھے جن کو مسلمانوں کی تلواروں نے موت کا مزہ
چکھایا یہ مقتولین مشرکین میں شمار ہوئے بنو اسد بن عبد العزیٰ بن قصی سے
حدث بن زمعہ ،بنو مخزوم سے ابو قیس ابن الفاکہ بن المغیرہ و ابو قیس بن
الولید بن مغیرہ ،بنو جمع سے علی بن امیہ بن خلف، بنو سہم سے عاصی بن
منیہ،یہ لوگ قبل ہجرت کے ایمان لا چکے تھے لیکن جب حکم ہجرت صادر ہوا اور
آنحضور ﷺ مدینہ ہجرت فرماگئے ان لوگوں کو ان کے اعزاہ وخاص اقارب نے مکہ
میں روک لیا آخر ان لوگوں نے ان لوگوں کے سمجھانے سے اسلام چھوڑ دیا ۔توہین
رسالت کے جرم میں خود رسالت مآب ﷺ کی زبان مبارک سے مستوجب قتل قرار دیئے
جانے والے افراد کی تعداد کم و بیش ڈیڑھ درجن ہے جو کتب سیرت کے سرسری
مطالعہ سے نظروں کے سامنے آجاتی ہے اگر اہل علم مزید گہرائی سے کتب سیرت و
احادیث کا جائزہ لیں تو عین ممکن ہے ان مثالوں کی تعداد میں اضافہ ہو جائے
تا ہم جیسا کہ معلوم ہے کہ کسی قانون کے تائیدی نظائر کی تعداد اجرائے سزا
کے معاملہ میں اضافہ اہمیت رکھتی ہے اصل اہمیت کسی قانون کے وجود اور آئینی
جواز کی ہے حضور ﷺ نے اپنی حیات طیبہ میں توہین رسالت کے کسی ایک مجرم کو
بھی سزائے موت دی ہوتی تب بھی تنہا نظیر امت مسلمہ کے لئے واجب التعلیم
قانون کی حیثیت رکھتی تھی چہ جائیکہ اس معاملہ میں تقریباً ڈیڑھ درجن
تسادصفحہ تاریخ پر موجود ہے ان نظائر کی موجودگی میں اگر کوئی شخص دعویٰ
کرتا ہے کہ اپنی توہین کرنے والے کسی شخص کو حضور ﷺ نے اپنی ظاہری مبارک
زندگی کے دوران کوئی سزا نہیں دی تو صاف ظاہر ہے کہ اس کا یہ دعویٰ سراسر
لا علمی پر مبنی ہے یا پھر دیگر محرکات پر، جس کا علم خدائے علیم و خبیر ہی
کو ہو سکتا ہے ۔جہاں تک حضور ﷺ کے ’’رحمۃ اللعالمین ‘‘ ہونے کا تعلق ہے تو
ہر شخص جانتا ہے کہ حضور ﷺ کو یہ منفرد و یگانہ خطاب ،آنحضور ﷺ کے کسی
عقیدت مندیا ان کی امت کے کسی عالم یا دانشور نے نہیں دیا بلکہ قرآن مجید
کے مطابق یہ خطاب براہ راست خدائے بزرگ و برتر کا عطا کردہ ہے جس نے انہیں
بطور خاتم النبین مبعوث فرمایا تھا،اﷲ تعالیٰ نے یہ خطاب مرحمت فرمانے کے
بعد اگر حضور ﷺ کو اپنی قائم کردہ اسلامی ریاست کی خارجہ پالیسی میں فتنہ
پرور کفار و مشرکین کے ساتھ مسلح جہاد وقتال کا حکم دیا اور اپنی داخلی
پالیسی میں معاشرتی جرائم کی سزا میں حدود کی صورت میں سزا اور تعزیز کی
صورت میں قید و بند کے نفاذ کا فرمان جاری کیا تو ایسے تمام خدائی احکامات
کو حضور ﷺ کی صفت رحمۃ اللعالمین کاایک حصہ ہی قرار دیا جائے گا کسی بھی
ہلاکت خیز مخلوق پر ،خواہ و ہ انسان کی نوع سے ہویا درندوں اور زہریلے کیڑے
مکوڑوں کی صورت میں ،ترس کھانا یا اس سے چشم پوشی کرنا، اس کی ہلاکت آفرینی
کے عمل میں ممدو معاون بننے کے مترادف ہے جسے ظلم ہی کہا جاسکتا ہے اس کے
بر عکس جرم و سزا کا وہ نظام جو بنی نوع انسان کو خود اس کے ظلم و جور اور
ایذا رسانی سے محفوظ کرنے کیلئے وجود میں آئے دراصل رحمت ہی کا دوسرا نام
ہے یہی وجہ ہے کے انفرادی اور اجتماعی دونوں قسم کے جرائم کی سزا پر مبنی
عدل کے تصور سے مہذب دنیا کا کوئی فلسفہ قانون خالی نظر نہیں آتا۔
حضور ﷺ کی توہین کا ارتکاب اس قبیل کا کوئی سنگین جرم ہے جو معاشرہ میں زبر
دست فتنہ و فساد پیدا کرنے کی نوبت لا سکتا ہے یہ جرم صریحاً امن و سلامتی
کے اس نظام کو منہدم کرنے کی کوشش کے مترادف ہے جسے اﷲ تعالیٰ نے اسلام کے
نام سے بواسطہ حضور ﷺ بنی نوع انسان کیلئے پسند فرمایا ہے اس لئے قرآن مجید
میں ارشاد باری تعالیٰ ہے ۔ ترجمہ:’’قتل اگر چہ بڑا ہے مگر فتنہ اس سے
زیادہ بڑا ہے(البقرہ 9)
حضور ﷺ کی رسالت سے اگر کوئی شخص انکار کرے تو ایسے منکر سے کوئی شرعی
قانون تعرض نہیں کرتا لیکن اگر کوئی شخص آنحضورﷺ کی توہین کا مرتکب ہوا تو
اس کا واضح مقصد حضور ﷺ کے منصب نبوت اور اس منصب پر انہیں مامور کرنے والے
رب عزوجل کی توہین ہو گا یہ توہین منکر کی بجائے ایسے شخص کو باغی کے مقام
تک پہنچادیتی ہے ظاہر ہے کہ دنیا کے کسی معاشرہ یا ریا ست کو کسی باغی کا
وجود گوارا نہیں ہو سکتا جو اس کی سلامتی اور عافیت کے درپے ہوا یسی صورت
میں معاشرہ یا ریاست کی سلامتی و عافیت کا تقاضا یہی ہو گا کہ اس کے وجود
پر حملہ آور ہونے والے شخص کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا جائے اس بناء پر حضور ﷺ
نے اپنی اہانت کے مرتکب اشخاص کو قتل کرنے کا حکم دیا اور پھر اس جرم کی
سزا کے متعدد نظائر عملی طور پر قائم کرکے اپنی امت کو تاقیامت اس جرم کے
کماحقہ استحصال پر مامور کر دیا اکابر کا فتویٰ یہ ہے کہ’’اگر شاتم رسول ﷺ
کے قتل کے جواز کے باوجود اسے قتل نہ کیا جائے تو یہ صریحاً حد درجہ کی
رسوائی اور تحقیر و تذلیل کی بات ہے‘‘
ادھر امام مالک کا یہ قول اس موضوع پر حرف آخر ہے کہ ’’امت کو زندہ رہنے کا
کیا حق ہے ۔جب اس کے رسول ﷺ کو گالیاں دی جائیں‘‘
گویا قرآن حکیم کے مقدس متن کے پیش منظر میں جھانکتے ہی محبوب رب لم یزل کا
نوری سراپا نگاہ باطن کو خیر ہ کرنے لگتا ہے دراصل حضور ﷺ کی حیات باطنی
اور آپ کی بے عیب شخصیت کا تصور ہی وہ قوت ہے جو چاہنے والوں کے دلوں میں
ہر آن موجزن رہتی ہے یہی قوت کبھی عشق و عقیدت کا روپ اختیار کرتی ہے اور
کبھی محبت و وارفتگی کے نام پر جان سپردگی کے آداب سکھاتی ہے کبھی مردہ
رگوں میں خون زندگی بن کردوڑ تی ہے اور کبھی بنجردلوں کی کھیتیوں کو شہید
الفت مولانا کفایت علی کافی رحمۃ اﷲ علیہ کے جذبات شہادت کے نام پر احساسات
عشق حضور ﷺ کے اس گلاب کی تازگی عطا کرتی ہے کہ
کوئی گل باقی رہے گا، نہ چمن رہ جائے گا
پر رسول ﷺ اﷲ کا دین حسن رہ جائے گا
سچ تو یہ ہے کہ ساڑھے چودہ سو سال کے ایمان افزوز افق پر تواتر سے بکھری
ہوئی داستان تحفظ ناموس رسالت کو تمام ترجزئیات کے ساتھ ترتیب دینا اور عشق
و عقیدت کے ان ایمان افروز نظائر کو اپنی اپنی اولیت اورزمانی و مکانی
فوقیت کے ساتھ پیش کرنا میرے خامہ عاجز اورمحدود مطالعہ کی بناء پر ممکن
نہیں البتہ قارئین کے ذوق کو جِلادینے کے لئے بھی توشہ آخرت اور ذریعہ نجات
ہو تاریخ کے اوراق پر بکھرے ہوئے واقعات کو دیکھنے اور پڑھنے سے اندازہ
ہوتا ہے کہ صفحہ دہر پر تحفظ ناموس رسالت ﷺ کیلئے تو قدم قدم پر جان کی
بازی کی فدا کاری کو شعار بنایا جاتا رہا ہے اس راہ میں لفظوں کی مناجات
نہیں بلکہ عمل کی سوغات پیش کی جاتی رہی ہے سرکار دو عالم ﷺ کی ناموس پر
اشعار کے گجرے نہیں بلکہ شہادت کے لہو رنگ گلدستے بازیاب ہوتے رہے ہیں۔
شہادت گاہ الفت میں قدم رکھنا ہے
لوگ آسان سمجھتے ہیں مسلماں ہونا
میں تخیل کو خضرراہ بناتا ہوں تو کہیں سیدنا زیدرضی اﷲ عنہ اور کہیں سیدنا
خبیب رضی اﷲ عنہ نرغہ کفر میں معرکہ آراء نظر آتے ہیں اور کہیں جواں
ہمت،بلند بخت اور سعید قسمت خواتین ناموس رسالت مآب ﷺ کا احساس دل کی
خلوتوں سے ابھرا، آنکھوں سے عقیدت کے آنسوؤں کا خراج لیتا جذبات کوناموس
رسالت مصطفی ﷺ پر مر مٹنے کیلئے آمادہ کرتا اور سر کو درگاہ رسول ﷺ پر فدا
کاری کے آداب سکھاتا ماضی ہو یا حال یا حال کی کوکھ سے ابھرنے والا مستقبل
،ہر لحظہ ،ہر آن امت مصطفوی ﷺ کے پیش نظر اپنے آقا و مولا(ﷺ) کی عزت و
ناموس پر کٹ مرنے کا جذبہ موجود رہا ہے اور یہ بات ایک حقیقت ہے کہ عشق و
عقیدت کی کٹھن راہوں پر وہی چل سکتا ہے جس کے دل میں مقام مصطفیﷺ کی شمع
پوری ایمانی تب و تاب کے ساتھ جل رہی ہو ہم شاہ دوعالم ﷺ کی عقیدت و احترام
کے حوالے سے عاشقان رسول ﷺ کے کارواں کے سالار سیدنا امام مالک رحمۃ اﷲ
علیہ کے حوالے سے ایک تاریخی حقیقت کا جائزہ لیتے ہیں۔
امام مالک رحمۃ اﷲ علیہ کا فتویٰ:ایک مرتبہ خلیفہ ابو جعفر منصور عباسی نے
رسول (ﷺ) کی مسجد میں امام مالک رحمۃ اﷲ علیہ سے مناظر ہ کیا اثنائے مناظر
ہ میں آواز بلند کی تو حضرت امام مالک نے فرمایا اے امیر المومنین اس مسجد
میں اپنی آوازوں کو بلند مت کرو کیونکہ اﷲ تعالیٰ نے ہمیں یوں ادب سکھایا
ہے کہ اپنی آواز حضور نبی کریم ﷺ کی آواز سے پست رکھا کرو حضور ﷺ کا احترام
وصال شریف کے بعد بھی ویسا ہی ضروری ہے جیسا حالت حیات میں تھا یہ سن کر
ابو جعفر دھیما پڑ گیا اور کہنے لگا امام مالک ! کیا میں قبلہ روہو کر دعا
مانگوں یا رسول اﷲ (ﷺ) کی جانب منہ کرو ں امام مالک رحمۃ اﷲ علیہ نے فرمایا
کہ تم رسول اﷲ ﷺ کی طرف سے اپنا منہ کیوں پھیرتے ہو حالانکہ وہ قیامت کے دن
تمہارے اور تمہارے باپ آدم کے وسیلہ ہیں بلکہ تم حضور (ﷺ) ہی کی طرف منہ
کرو اور آپ ہی کے وسیلہ سے دعا مانگو اﷲ تعالیٰ قبول کرے گا کیونکہ ارشاد
باری تعالیٰ ہے’’اور اگر یہ لوگ اپنی جانوں پر ظلم کرتے ہیں اور آپ ﷺ کے
پاس آتے اور خدا سے بخشش مانگتے اور پیغمبر ﷺ ان کے لئے بخشش مانگتے ہیں تو
ضرور اﷲ کو معاف کرنے والا مہربان پاتے ہیں ۔‘‘(سورۃ النسآء۔64 )
تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی کسی شاتم ر نے سول مکرم، نبی معظم ،نور مجسم ،احمد
مجتبیٰ، محمد مصطفی ﷺ کی شان اقدس میں سرمو گستاخی کا ارتکاب کیا ۔عشاق
مصطفی ﷺ کے قلوب میں ایسی آتش غضب بھڑ کی جس نے توہین و تضحیک کے مرتکب
لعنتی کو بھسم کر دیا اور اس فتنہ کی سرکوبی کیلئے جہاد بالقلم ، جہاد
باللسان اور جہاد بالسیف کا عملی مظاہرہ کیا انہوں نے منبرو محراب ،جلسہ و
جلوس، اور اسٹیجوں پر اشتعال انگیز تقاریر کے ساتھ اﷲ تعالیٰ کے بے عیب
محبوب (ﷺ) کی تنقیص کرنے والوں کو واصل جہنم کرکے دم لیا انہوں نے سرور
کونین ﷺ کے خلاف بھونکنے والے کتوں کے گلے کاٹ دیئے اور ہر بد بخت قلم کار
،زبان دراز کوفی النار کر کے دم لیا،شاتمت خیر الانام ﷺ کی تحریک صرف عالم
عرب یا ہندوستان میں نہیں بلکہ اس فتنے نے اندلس میں بھی سر اٹھایا ۔ہاں بر
صغیر پا ک وہند کا یہ تحضص ہے کہ یہاں شاتمت کے بھوتوں کا قلع قمع کرنے
والوں نے خود بھی جام شہادت نوش کیا جب کہ بلاد اسلامیہ میں جب بھی کسی بد
بخت نے آنحضرت ﷺ کی توہین و تضحیک کی یا ان کی حیات طیبہ کو غلط رنگ دے کر
استہزاء کیا تمسخر اڑایا تو مسلم حکمرانوں نے ایسے اشخاص کو قتل کروا کر
اپنے بندۂ مومن ہونے کا ثبوت دیا ناموس رسالت کے تحفظ کیلئے مسلمان خلفاء
فقہا سبھی کا یہ موقف رہا ہے کہ جب کسی نے حضور سرور کائنات ﷺ کی شان میں
گستاخی کی تو فوراً اس کے قتل کا حکم صادر کیا گیا خود نبی کریم ﷺ کے عہد
سعید میں گستاخی رسول (ﷺ) کا ارتکاب کرنے والے افراد کو قتل کیا گیا اسی
طرح تاریخ شاہد ہے کہ جب بھی کسی نے صحابہ کرام رضوان اﷲ علیہم اجمعین کے
سامنے سرکار مدینہ ﷺ کی توہین و تضحیک کی یا آپ ﷺ پر سبّ و شتم کیا تو
انہوں نے فوراً ایسے شخص کو قتل کردیا۔حضرت سیف اﷲ خالد بن ولید رضی اﷲ عنہ
نے مالک بن نویرہ کو اس لئے قتل کر دیا کہ اس نے گفتگو میں سرکار دو عالم ﷺ
کیلئے صاحبکم (تمہارے ساتھی) کا لفظ استعمال کرکے توہین کی تھی۔
حضرت ابو بکر صدیق رضی اﷲ عنہ کے نزدیک گستاخ کی سزا:ابن وہب نے حضرت عبد
اﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہ کا ایک قول نقل کیا ہے کہ ایک راہب نے سرکار دو عالم
ﷺ کی بارگاہ میں گستاخی کی خلیفہ اول ابو بکر صدیق رضی اﷲ عنہ کو اپنی
خلافت کے زمانے میں اطلاع ملی کہ آپ کے ماتحت ایک والی نے ایک عورت کے دانت
اکھیڑد یئے ہیں چونکہ اس عورت نے حضور ﷺ کی شان میں ناروا کلمات بکے تھے اس
لئے آپ نے فرمایا’’اب سزا دی جا چکی ہے ورنہ میں حکم دیتا کہ عورت کو قتل
کر دیا جائے۔‘‘ اس لئے کہ حضور ﷺ کی شان اقدس میں ذرا بھی گستاخی کا ارتکاب
کرنے والے کی سزا’’قتل‘‘ ہے۔‘‘تاریخ کے واقعات سے مترشح ہوتا ہے کہ صحابہ
کرام رضوان اﷲ علیہم اجمعین نے ہمیشہ گستاخ رسول ﷺ کو واجب القتل سمجھا اور
اپنے پیارے آقا و مولا ﷺ کی شان اقدس میں ذرا سی گستاخی کرنے والے کو بھی
سزا ضرور دی۔
حضرت عمر بن عبد العزیز رضی اﷲ عنہ کے نزدیک شاتم رسول(ﷺ) کی سزا:حضرت عمر
بن عبد العزیز رضی اﷲ عنہ کے نزدیک شاتم رسول ﷺ کی سزا بھی قتل تھی ان کا
مختصر دور خلافت بنوامیہ کی تاریخ کا ایک زریں باب ہے ۔انہوں نے اپنے پیش
رو حکمرانوں کے طرز عمل سے ہٹ کر حکومت اور ملوکیت کو ایک بار پھر خلافت
میں بدل دیا اس لئے بعض مورخین انہیں پانچویں خلیفہ راشد کے لقب سے موسوم
کرتے ہیں آپ سرکار مدینہ ﷺ کی بارگاہ میں گستاخی کا ارتکاب کرنے والوں کو
واجب القتل سمجھتے تھے ایک مرتبہ کوفہ کے عامل کے استفسار پر آپ نے تحریر
فرمایا کہ سوائے اس شخص کے جو سروردوعالم ﷺ کی بارگاہ میں گستاخی کا مرتکب
ہو کسی دوسرے کی گالی دینے کو وجہ سے قتل نہیں کیا جائے گا۔
موسیٰ بن مہدی عباسی اور گستاخان رسول(ﷺ):عباسی خلیفۂ موسیٰ بن مہدی الملقب
بہ ہادی کے عہد میں ایک شخص نے قبیلہ قریش کو برا بھلا کہا اس سلسلہ میں
حضور نبی کریم ﷺ کی ذات پاک کے متعلق بھی گستاخی کی وہ ہادی کے سامنے لایا
گیا اس نے علماء فقہاء کو جمع کر کے اس کے متعلق فتویٰ لیا انہوں نے اس کے
قتل کا فتویٰ صادر کیا اس پر خلیفہ نے کہا کہ اس کی سزا کے لئے قریش ہی کی
اہانت کافی تھی (کیونکہ یہ سرکار مدینہ ﷺ کا خاندان ہے اس دشمن خدا نے رسول
اﷲ ﷺ کو بھی شامل کر لیا چنانچہ اس کا سر قلم کر دیا گیا۔
خلیفہ ہارون الرشید اور امام مالک رحمۃ اﷲ علیہ:خلیفہ ہارون الرشید نے امام
مالک رحمۃ اﷲ علیہ سے اس شخص کے بارے میں دریافت کیا جو سرکار ﷺ کی بارگاہ
میں گستاخی کرتا ہو ہارون الرشید نے لکھا تھا کہ علماء نے شاتم رسول ﷺ کے
لئے کوڑوں کی سزا تجویز کی ہے آپ کا اس سلسلہ میں کیا فتویٰ ہے؟ امام مالک
رحمۃ اﷲ علیہ نے غصے کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا جو شخص حضور نبی ﷺ کو گالی
دے وہ ملت اسلامیہ کا فرد نہیں رہتا ایسا شخص واجب القتل ہے امام مالک رحمۃ
اﷲ علیہ کا موقف یہ تھا کہ جو شخص آنحضرت ﷺ کی ذراسی بھی اہانت کرے اس کی
گردن اڑادی جائے ایک مرتبہ کا ذکر ہے کہ دو آدمی آپس میں جھگڑ رہے تھے ایک
نے کہا کہ تم امی(ان پڑھ) ہو اس نے کہا ’’امی تو حضور اکرم ﷺ بھی تھے‘‘ اس
پر امام صاحب نے اس کے قتل کا فتویٰ صادر فرمادیا۔
شاتم رسول (ﷺ) ریجی نالڈ اور صلاح الدین ایوبی رحمۃ اﷲ علیہ:شیطان صفت پرنس
ارطاۃ والی کرک ریجی نالڈ نے جزیرہ نمائے عرب پر لشکر کشی کا قصد کیا تاکہ
مدینہ منورہ میں آں حضرت ﷺ کے مزار کو مہندم اور مکہ معظمہ میں خانہ کعبہ
کو مسمار کر دے جب وہ سمندری راستے سے حملہ آور ہوا تو مسلمان مقابلہ کیلئے
مدینہ پاک سے روانہ ہوئے اس کی فوج اسلامی لشکر کو دیکھ کر گھبراگئی وہ
اپنے جہازوں کو چھوڑ کر پہاڑوں کی جانب بھاگی مسلم سپاہ کے جیالوں نے انہیں
پہاڑوں اور باغوں سے پکڑ کر ان کے ٹکڑے کردئیے۔ریجی نالڈ جیسا شاتم رسول(ﷺ)
خود بھاگ کر جان بچانے میں کامیاب ہو گیا لیکن ابلیس کا یہ فرزند اپنی
حرکتوں سے باز نہ آیا اور مسلمانوں کو دکھ پہنچانا اور حضور ﷺ کی توہین کا
ارتکاب کرنا اس کی فطرت کا جز بن گیا لین پول کا بیان ہے کہ ریجی نالڈ
نے1179ء میں مسلمانوں کا ایک کارواں لوٹ لیا اور اس کے تمام آدمی گرفتار کر
لئے بادشاہ یروشلم نے اس پر اعتراض کیا اور کارواں کے لوگوں کی رہائی اور
لوٹے ہوئے مال کی واپسی کیلئے سفیر بھیجے ریجی نالڈ نے ان کا مذاق
اڑایا۔1183ء میں مسلمان تاجروں کے ایک قافلے کو لوٹ کر اہل قافلہ کو گرفتار
کر لیا جب ان لوگوں نے اس سے رہائی کیلئے کہا تو اس نے طعن آمیز جواب
دیا’’تم محمد (ﷺ) پر ایمان رکھتے ہو اس سے کیوں نہیں کہتے کہ وہ آکر تم کو
چھڑائے‘‘ جس وقت سلطان صلاح الدین ایوبی رحمۃ اﷲ علیہ کو ریجی نالڈ کی اس
گستاخانہ گفتگو کی خبر ملی تو اس نے قسم کھا کر کہا۔’’اس صلح شکن کافر کو
خدا نے چاہا تو میں اپنے ہاتھوں سے قتل کروں گا۔
صلیبی لڑائیوں کے موقع پر ایک دفعہ فرنگیوں کو شکست ہو گئی شہنشاہ اور
شہزادے قید کرکے صلاح الدین ایوبی رحمۃ اﷲ علیہ کے سامنے لائے گئے ان میں
ریجی نالڈ بھی تھا سلطان کو دیکھ کر اسے اپنی بد اعمالیاں یاد آگئیں اور
ساتھ ہی سلطان کی قسم بھی یاد آگئی جس نے ریجی نالڈ کا خون خشک کر دیا
سلطان صلاح الدین ایوبی رحمۃ اﷲ علیہ نے اس کی تمام بد اعمالیاں گنائیں اور
یہ بھی کہا کہ اس وقت میں محمد ﷺ سے مدد چاہتا ہوں اور یہ کہہ کر اپنے
ہاتھوں سے اس موذی کا سر قلم کر دیا اس کے بعد فرمایا کہ ہم مسلمانوں کا یہ
دستور نہیں ہے کہ لوگوں کو خواہ مخواہ قتل کرتے رہیں ریجی نالڈ تو صرف حد
سے بڑھی ہوئی بد اعمالیوں اور حضور کریمﷺ کے ساتھ گستاخی کی پاداش میں قتل
کیا گیا ہے اس طرح سلطان صلاح الدین ایوبی رحمۃ اﷲ علیہ نے قبلہ اول بیت
المقدس کو عیسائیوں کے قبضہ سے آزاد کرایا تھا وہ اسلام کا عظیم سپوت تھا
اور اس کا دل عشق مصطفےٰ ﷺ کی دولت سے مالا مال تھا اس نے اس عیسائی حکمران
کو جس نے اہانت رسول (ﷺ) کا ارتکاب کیا تھا اپنے ہاتھوں سے جہنم رسید کیا۔
فقہائے اندلس اور گستاخان رسول(ﷺ):ابراہیم فرازی ماہر علوم اور اپنے زمانے
کا مشہور شاعر تھا وہ قاضی ابو العباس بن طالب کی علمی مجلس میں شریک ہوا
کرتا تھا جب اس کے متعلق یہ معلوم ہوا کہ خدا وند تعالیٰ ،انبیاء علیہم
السلام اور خاتم الانبیاء ﷺ کی بارگاہ میں گستاخیاں کرتا ہے اور استہزاء کے
کلمات استعمال کرتا ہے تو قاضی بن عمر و اور دیگر فقہاء نے اس کو عدالت میں
طلب کیا اور کوتاہیوں کے ثبوت کے بعد اس کے قتل اور پھانسی کا حکم دیا
چنانچہ پہلے اس کے پیٹ میں چھری ماری گئی اور اس کے بعد اس کو اٹھا کر سولی
پر لٹکا یا گیا بعد میں اس کی نعش سولی سے اتار کر جلا دی گئی۔
یہ سچ ہے کہ حضور خاتم النبین ﷺ سے لامحدود اور غیر مشروط محبت و احترام ہر
مسلمان کے ایمان کی بنیاد ہے جب کوئی بد بخت حضور ﷺ کی شان میں ادنیٰ سی
گستاخی کرتا ہے توہین کا مرتکب ہوتا ہے تو غیرت وحمیت سے سرشار ہر مسلمان
کا خون کھول اٹھتا ہے اور اس رکے رگ و پے میں لاوا سا دوڑ نے لگتا ہے
دیکھتی آنکھوں اس کا وجود غیظ و غضب کی کڑکتی بجلیوں کا روپ دھار لیتا ہے
اور اسے اس وقت تک کسی پہلو قرار نہیں آتا جب تک وہ شاتم رسول ﷺ کے ناپاک
اور غلیظ وجود سے اس دھرتی کو پاک نہیں کرلیتا اس ہدف تک رسائی کیلئے وہ دن
رات بے تاب رہتا ہے اس جان لیوا مہم کو سر کرنے کیلئے چاہے اسے لاکھ چٹانیں
اور خون کے سمندر ہی کیوں نہ عبور کرنا پڑیں اس کیلئے بے قابوجذبوں ،ناقابل
تسخیر جنوں اور کہسار صفت اخلاص وفا کے سامنے کفر کی ہر طاقت گھٹنے ٹیکنے
پر مجبور ہو جاتی ہے راہ محبت کا یہ راہی لشکر عشق کا یہ سپاہی جانتا ہے کہ
اس کی یہ جدو جہد ہی حاصل زندگی ہے اس میں ہی اس کی بقا ہے حیات ابدی ہے
کسی نے سچ کہا ہے کہ
فنا فی اﷲ میں بقاباﷲ کا راز مضمر ہے
جسے مرنا نہیں آتا اسے جینا نہیں آتا
شہیدان ناموس رسالت ﷺ کی عظمت یہ ہے کہ وہ نہ صرف شاتمان رسول(ﷺ) کو فی
النار کرتے رہے ہیں بلکہ وارثان منبر و محراب اور خداوندان مکتب سے کوئی
توقع وابستہ کئے بغیر ہی شاتمان کو عبرتناک سزا دیکر مسکراتے دار ورسن سے
گزر تے رہیں ہیں انہی عاشقان رسول میں سے غازی ممتاز حسین قادری رحمۃ اﷲ
علیہ نے اپنے اسلاف کی یا د کو تازہ کرتے ہوئے عظمت رسول ﷺ پر اپنی جان
قربان کر کے بارگاہ رسالت ﷺ میں اپنی جان کا نذرانہ عقیدت و محبت پیش کیا
۔غازی ممتاز حسین قادری رحمۃ اﷲ علیہ نے اپنی شہادت سے اپنا جذبۂ عشق رسول
ﷺ ثابت کر دیا ہے ۔تا قیامت غلامان رسول ﷺ کے دلوں میں غازی ممتاز حسین
قادری رحمۃ اﷲ علیہ زندہ رہے گا۔ غازی ممتاز حسین قادری رحمۃ اﷲ علیہ کی
شہادت نے ملت اسلامیہ کو بیداری عطا کی ۔ غازی اسلام کا عمل پوری قوم مسلم
کیلئے باعث فخر ہے ۔آج غلامان رسول ﷺ نے غازی ممتاز حسین قادری رحمۃ اﷲ
علیہ کو آنسوؤں کا خراج تحسین پیش کر کے ثابت کر دیا ہے کہ پوری امت کا
تعلق آپس میں جذبۂ عشق رسول ﷺ سے ہی ہے ۔ گستاخان رسول کو قتل کرنا ایک
تاریخی حقیقت اور ایمانی جذبہ ہے ۔جس کو آج کے دور میں غازی ممتاز حسین
قادری رحمۃ اﷲ علیہ نے دہرایا ہے ۔غازی ممتاز حسین قادری کے جنازے پر
لاکھوں افراد کی شرکت اور ہزاروں علماؤ مشائخ کا جمع ہونا اتحاد امت کی
نوید ہو گا۔ ہمارے جنازے ہی ہماری حقانیت کی علامت ہیں۔گستاخ رسول کا جنازہ
پڑھنے اور پڑھانے کیلئے کوئی تیار نہ تھا جبکہ عاشقِ رسول غازی ممتاز حسین
قادری رحمۃ اﷲ علیہ کے جنازے میں لاکھوں عاشقان رسول ﷺ کی شرکت نے غازی
ممتاز حسین قادری رحمۃ اﷲ علیہ کو مجر م نہیں بلکہ عاشقِ رسول ﷺ ثابت کیا
ہے۔ آئندہ کسی نے ناموس رسالت ﷺ پر حملہ کرنے کی ناکام کوشش کی تویہی جذبہ
امت دہراتی رہے گی
پڑا فلک کو دل جلوں سے کام نہیں
جلا کر راکھ نہ کروں تو داغ نام نہیں
محمد کی محبت دین حق کی شرطِ اول ہے
گر ہو اس میں خامی تو سبھی کچھ نامکمل ہے |
|