پاکستان میں دہشت گردی کے خلاف نئے قوانین
اور قواعد و ضوابط کی روشنی میں آزاد کشمیر میں بھی اقدامات کئے گئے ہیں ۔گزشتہ
سال آزاد کشمیر کی سرکاری انتظامیہ کی طرف سے چند ایسے اخبارات کو متنبہ
کیا گیا جوبیرون ملک آزاد کشمیر کے پاکستان اور کشمیر کاز کے مخالف ایسے
عناصر کو اپنے اخبارات میں نمایاں کوریج دیتے تھے جو بیرون ملک عالمی
اداروں میں کشمیر کے حوالے سے پاکستان مخالف سرگرمیوں میں مسلسل مصروف
ہیں۔اس پر آزاد کشمیر کے اخبارات کی تنظیم نے اس حوالے سے یقین دہانی پر
مبنی بیانات جاری کئے اورپاکستان مخالف عناصر کے گمراہ کن پروپیگنڈے کی
اشاعت میں آلہ کار نہ بننے سے متعلق فیصلے اور اقدامات کئے۔آزاد کشمیر کی
ایک صحافتی تنظیم نے اسی صورتحال کے تناظر میں اپنی طرف سے ایک ضابطہ اخلاق
بھی شائع کر دیا۔ان کاروائیوں کے دوران میرا موقف یہی رہا کہ جب ہماری
صحافت میں غیر ذمہ داری،جھوٹ اور جہالت کا مظاہرہ ہوگا تو اس پر انتظامیہ
کی طرف سے تادیبی کاروائی لازمی امر ہے ،لیکن اس صورتحال سے یہ تاثر بالکل
بھی نہ لیا جائے کہ آزاد کشمیر میں صحافت اور آزادی اظہار پر کوئی قدغن ہے۔
اس کے بعد بھی بیرون ملک پاکستان مخالف پروپیگنڈہ کرنے والوں کے بیانات
شائع ہوتے ہیں لیکن اب ان بیانات میں جذباتی ، جنونی نعرے بازی،جھوٹ ،گمراہ
کن، اشتعال انگیز ،جاہلانہ طرزپر مبنی باتوں کو اخبار میں شائع ہونے سے
پہلے حذف کر لیا جاتا ہے۔چند روز قبل آزاد کشمیر کے ایک روزنامہ اخبار سے
وابستہ ایک صحافی نے سوشل میڈیا ’’ فیس بک ‘‘ پہ لکھا کہ ’’آج کی خبر،کشمیر
کی تاریخ و مسئلہ کشمیر پر لکھی گئی سولہ کتب پر طاقتور حلقوں کی ایما ء پر
پابندی عائد کرنے کے حوالے سے اداریہ لکھنے اور جموں کشمیر کی قومی آزادی
کے حق میں کالم نگار سمینہ راجہ کے مضامین شائع کرنے پر ریاستی روزنامہ
اخبار کے خلاف حکام بالا نے نوٹس جاری کر دیا،آزادکشمیر انتظامیہ کی طرف
اخبار بند کرنے کی دھمکی،آزاد صحافت زیادہ باد،آزاد ریاست پائندہ باد‘‘۔
یہ پوسٹ پڑھنے کے بعد میرا پہلا کمنٹ یہی تھا کہ ’’ اس کا مطلب ہے کہ اب
آزاد کشمیر کے اخبارات میں شائع ہونے والے کالم دیکھے جاتے ہیں‘‘۔میں نے اس
صحافی سے اشاعت کی تاریخ معلوم کرنے کے بعد دو اقساط میں شائع ہونے والا
مضمون پڑھا تو اس کا برا مقصد شروع کے چند جملوں سے ہی واضح ہو گیا۔مکمل
کالم پڑھنے کے بعد میں نے اس صحافی سے کہا کہ اس کالم میں تو بہت جھوٹ لکھا
گیا ہے ۔اس پر اس صحافی نے بات چیت کے دوران ’فیس بک ‘ پہ کالم لکھنے والی
ثمینہ راجہ نامی خاتون کو مخاطب کیا کہ وہ اس بات کا جواب دیں۔اس پر میں نے
کہا کہ پہلے کالم نگار کا تعارف کرایا جائے، لیکن تعارف حاصل نہ ہو سکا۔
پاکستان مخالف جھوٹ و گمراہ کن پروپیگنڈے کی بات کا جواب کالم نگار کی طرف
سے نہیں دیا گیا۔ثمینہ راجہ نے ’فیس بک ‘ پہ ہی اس صحافی سے کہا کہ اسے
نوٹس کی کاپی دی جائے ،وہ یہ معاملہ اٹھائے گی،شاید اسے بیرون ملک پاکستان
مخالف پروپیگنڈہ مہم کے طور پر استعمال کرتے ہوئے۔بیرون ملک کشمیر کاز اور
پاکستان مخالف سرگرمیوں میں بھارتی آلہ کار کے طور پر مشہور ایک شخص کو بھی
اپنا کام دکھانے کا موقع مل گیا۔ ثمینہ راجہ نامی خاتون نے اپنے مضمون میں
جو الفاظ استعمال کئے،غلط بیانی کا جو گمراہ کن انداز اپنایا،اس سے کافی حد
تک اس کا تعارف ہو گیا۔ثمینہ راجہ نے اپنے مضمون کا آغاز ہی اس شر انگیز
اور جھوٹے جملوں سے کیا کہ’’ دنیا میں سب سے زیادہ ظلم گلگت بلتستان میں ہو
رہا ہے‘‘۔ مضمون میں گلگت بلتستان اوربلوچستان کے حوالے سے یوں جھوٹے،
گمراہ کن اور شر انگیز ’’تانے بانے‘‘ بنے گئے کہ جسے کسی طور پر آزادی
اظہار سے تعبیر نہیں کیا جا سکتا ،بلکہ اسے قلمی تخریب کاری کہنا مناسب ہو
گا۔اس مضمون سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ ثمینہ راجہ کو مضمون کا مواد اخبارات
میں اشاعت کے لئے کسی کی طرف سے مہیا کیا گیا ہے۔
آزاد کشمیر کے اخبارات میں شائع ہونے والی تحریوں کی زیادہ جانچ پرکھ نہیں
کی جاتی اور اس میں علمی قابلیت اور معلومات کا فقدان بھی کارفرما ہے۔الفاظ
آگ کے شعلوں اور اسلحے سے بھی زیادہ خطرناک ہوتے ہیں،لہذا کسی بھی تحریر
میں الفاظ کا استعمال بہت سوچ سمجھ کر کرنا چاہئے اور لکھتے ہوئے اس بات کا
پورا خیال رکھنا ضروری ہے کہ لکھے گئے جملوں پر باز پرس کی صورت اپنی بات
کا پوری طرح دفاع کیا جا سکے۔یوں تو کسی بھی شعبے میں اخلاقیات کو اولیت
حاصل ہوتی ہے لیکن صحافت میں اخلاقیات ناگزیر جز ہے۔مجھے اس بات پہ اطمینان
ہے کہ آزاد کشمیر میں انتظامیہ کی طرف سے اب صحافت کی کسی حد تک’’ مانیٹرنگ‘‘
کی جاتی ہے اور اس سے آزاد کشمیر کے اخبارات میں شائع تحریروں کے معیار کو
بہتر بنانے میں مدد بھی مل رہی ہے۔
قانون کے طالب علم جانتے ہیں کہ تنقیدکے حوالے سے اہم ترین بات یہ دیکھی
جاتی ہے کہ تحریر نگار کا متمع نظر،مقصد کیا ہے،اچھی یا بری نیت کا فرق
تنقید کے جائز یا ناجائز ہونے کا تعین کرتا ہے۔مجھ سے ملنے جلنے والے کئی
بار اس بات کی شکایت کر چکے ہیں کہ میں تحریر اور گفتگو میں کئی بار بہت
سخت الفاظ کا استعمال کرتا ہوں،اس پر میرا جواب یہی ہوتا ہے کہ سخت الفاظ
کے استعمال سے آپ کو سمجھ جانا چاہئے کہ موضوع سے متعلق صورتحال کتنی سنگین
ہے۔مجھ سمیت آزاد کشمیر کے کئی قلم کار سرکاری پالیسیوں، اقدامات،طریقہ کار
اور انداز سے متعلق کافی سخت انداز اپناتے ہیں لیکن ہمیں یہ یقین حاصل ہے
کہ ایسا بدنیتی پر مبنی ہر گز نہیں ہوتا اور یہی ملک و عوام کا بہترین مفاد
ہے۔یہ دیکھا جا رہا ہے کہ پاکستان کی اساس کے مخالف بیرون ملک مقیم بعض
عناصر آزاد کشمیر اورگلگت بلتستان میں زیادہ متحرک ہو رہے ہیں اور ہندوستان
ان کی سرگرمیوں کو اپنے میڈیا پہ بہت زیادہ ’کوریج‘ دیتا ہے۔میری صحافی
ساتھیوں،قلم کاروں سے درخواست ہے کہ وہ جس موضوع پر بھی لکھیں ،اس بارے میں
انہیں کافی حد تک معلومات حاصل ہونی چاہئے،محض جذباتی،غیر اخلاقی ،گمراہ کن،
شر انگیز انداز اپنانے سے گریز کیا جائے۔میری غیر جانبدارانہ رائے میں آزاد
کشمیر میں آزادی صحافت اور آزادی اظہار رائے میسر ہے، البتہ جھوٹ ،جنونیت
اور شر انگیزی کو معاشرے پر اثرانداز ہونے کی اجازت ہرگز نہیں دی جا
سکتی۔تاہم اس حوالے سے ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ آزاد کشمیر کے خطے کی
مخصوص صورتحال،تقاضوں کے برعکس آزاد کشمیر کے اخبارات و جرائد کو نت نئے
قوانین اور ضابطوں کے ذریعے عاجز کر رکھا ہے۔یہاں میں صحافیوں ،قلم کاروں
سے بھی التماس کرتا ہوں کہ وہ سینئر اور جونیئر کے مقام اور احترام پر توجہ
دیں اور یہی درخواست حکومت ،ارباب اختیار سے بھی ہے کہ وہ ان صحافیوں اور
قلم کاروں سے رابطے پر توجہ دیں جو اہم ملکی امور کو اپنا موضوع بناتے ہیں
اور ہندوستان کی کشمیر کازاور پاکستان مخالف پروپیگنڈہ مہم کی جارحیت کا
مقابلہ کرتے ہوئے اس کا موثر جواب دیتے ہیں۔ |