کل تک ہمارے سب دانشوران اور مبصرین یہی
راگ الاپتے نظر آتے تھے کہ ہم جمہوریت کا تسلسل چاہتے ہیں مگر آرمی چیف کے
اپنی مقررہ مدت پر ریٹائرہونے کا اعلان سننے کے بعد سیاسی اشرافیہ کافی حد
تک پرسکون اور من موجی ہو چکی ہے اور ا ب برسر اقتدار طبقہ کہہ رہا ہے کہ
جمہوریت کے تسلسل میں ہی قومی اور ملکی مفاد پوشیدہ ہے ان کے بقول ملک ترقی
کی راہ پر گامزن ہے ایسے میں سوال یہ اٹھتا ہے کہ جمہوریت کسے کہتے ہیں،
کیا جمہوریت کا مفہوم بدل گیا ہے یا واقعتاًموجودہ دور حکومت ہی جمہوریت کی
حقیقی شکل ہے ؟ جمہوریت ایک ایسا طرزِ حکومت ہے جس میں عوام اپنے نمائندے
چنتے ہیں اور عوامی نمائندے تمام فیصلے عوام کی رضا سے کرتے ہیں جمہوریت
آمریت کی ضد ہے کیونکہ اس میں نظام حکومت خود عوام یا عوامی نمائندوں کے
ذریعے قائم ہوتاہے مگر اس کے ثمرات صرف اس وقت حاصل ہوتے ہیں جب اسمبلیوں
میں عوام کی صحیح نمائندگی ہو اور عوامی نمائندگان کا انتخاب شفاف طریقے سے
عوامی رائے دہی سے ہو اتفاق سے ہمارے ملک میں جس طور کا سیاسی نظام رائج ہے
اس میں شفاف انتخابات کا تصورمحال ہی نہیں ناممکن بھی ہے اسی لیے شاید
علامہ اقبال نے کہا تھا کہ جمہوریت وہ طرز حکومت ہے جس میں لوگوں کو ان کی
تعداد کے لحاظ سے اہمیت دی جاتی ہے یعنی برتری کا معیار شعور ،تعلیم اور
آگاہی نہیں بلکہ تعدادی اکثریت ہے اورہمارے ہاں بدقسمتی سے یہی وطیرہ رائج
الوقت ہے -
ہمارے موجودہ سیاسی نظام کا سب سے قبیح پہلو یہ ہے کہ الیکشن لڑنا بذات خود
ایک بہت بڑی تجارت اور کاریگری بن چکا ہے مروجہ طریقوں سے انتخاب لڑنے پر
پندرہ، بیس لاکھ سے لیکر دو اڑھائی کروڑ روپے خرچ آتے ہیں۔عام طور پر یہ
خرچ تنہاامیدوار کو ہی برداشت کرنا ہوتا ہے جو امیدوار انتخاب میں خاطر
خواہ رقم خرچ نہ کر سکے اس کی کامیابی کا امکان کم ہو جاتا ہے ایسے میں اکا
دکا خوش نصیب ہی ہوتا ہوگا جو محض اپنے بہتر کردار اور اہلیت کی بنیاد پر
اسمبلی میں پہنچ جاتا ہوگا یا پھر وہ کہ جس پر کوئی پارٹی اپنی وفاداری کی
بنیاد پراپنی گرہ سے رقم لگاتی ہے اور اس کی جیت کی راہیں بھی ہموار کرنے
کے لیے ہر پینترہ بدلتی ہیں اب ظاہر ہے کہ جو آدمی اتنی رقم لگا کر لباس
بندگی پہن کر آتا ہے وہ محض نظریاتی بحث اورعوامی فلاح و بہبودکے لیے
اسمبلی میں کیوں بیٹھے گا بلکہ وہ یہ عزم لیکر آیا ہوتا ہے کہ وہ اپنی رقم
یا وفاداری کی قیمت کی واپسی منافع کے ساتھ حاصل کرے گا تا کہ ناصرف وہ
اپنی مالی حالت سنوار سکے بلکہ آئندہ انتخاب بھی لڑ سکے اور مزید براں وہ
پیسہ لگانے والوں کے سامنے بھی جواب دہ ہوتا ہے ایسے میں اس کا ہر قدم ذاتی
مفاد اور اپنیـ’’ پروردہ‘‘ کی رضا کے مطابق ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ کچھ عرصے
بعد ہی وہ عوامی حلقوں سے بھی لاتعلق ہوجاتا ہے تاکہ اس کے روز و شب پوشیدہ
رہیں اس کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ اراکین پارلیمینٹ عوامی مسائل اور قانون
سازی کی طرف بہت کم توجہ دیتے ہیں بلکہ جب کوئی عوامی مسئلہ ہو تو اسمبلیوں
میں جوتے ،چپلیں یاڈائیلاگ بازی ہی دیکھنے کو ملتی ہے اوراکثر دیکھا گیا ہے
کہ کوئی رکن پارلیمینٹ ملکی اہم ترین معاملات یا مسائل پر بات کر رہا ہو
تواکثر نمائندگان خواب خرگوش کے مزے لیتے دکھائی دیتے ہیں یا اس حد تک غیر
ذمہ دار اور لاتعلق ہوتے ہیں کہ مسودہ قانون منظور ہو جانے کے بعد بھی
انھیں تفصیلات کا علم نہیں ہوتا کہ کس چیز کابل تھا اور اس کے اہم مندرجات
کیا تھے اس سے زیادہ افسوسناک صورتحال کیا ہوسکتی ہے کہ ہمارے ملک کے کرتا
دھرتا اسمبلیوں کا رخ ہی کم کرتے ہیں جس کے خلاف حال ہی میں سپریم کورٹ میں
درخواست بھی دائر کی گئی تھی جس کے مطابق کہ وزیرا عظم پاکستان میاں محمد
نواز شریف اور وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان سمیت بعض اراکین پارلیمنٹ نے
2013 سے 2016 تک قومی اسمبلی اور سینٹ و پارلیمنٹ کے اجلا س میں صرف اور
صرف 8/10 بار شرکت کی جبکہ بیرونی ممالک کے دورے زیادہ کئے یہاں تک کہ وہ
ملک میں موجود ہوتے ہوئے بھی اسمبلی اجلاس میں شریک نہیں ہوتے اسی طرح ان
کی کابینہ کے اراکین کی حاضری بھی قابل اعتراض رہی یہی وجہ ہے کہ 20 کروڑ
عوام کے مسائل یا فلاح و بہبود پر کوئی خاطر خواہ بحث و مباحثہ بھی نہیں
ہوا ،گورننس کی صورتحال بھی پوشیدہ نہیں ہے اور قانون و انصاف کی صورتحال
کی کشیدگی کو چیف جسٹس آف پاکستان بیان کر چکے ہیں ایسے میں سوال یہی اٹھتا
ہے کہ یہ اراکین پارلیمینٹ جو کہ عوامی نمائندے کہلاتے ہیں اورعوام کا
اعتماد جیت کر آتے ہیں وہ جمہوریت کا مطلب اپنے بچوں کے لیے’’ پالنے‘‘ تیار
کرنا کیوں لیتے ہیں اور اپنے مقاصد اور مفادات حاصل کرتے ہوئے ان بیس کروڑ
عوام کو کیوں بھول جاتے ہیں جنھوں نے انھیں برانڈڈ گاڑیوں اور عالیشان
کوٹھیوں میں پہنچایا ہے ان کے لیے ان کے پاس اتنا وقت نہیں ہوتا کہ گھر کے
گیٹ پر کھڑے ہو کر ان کی بات سن لیں وہاں سے بھی ان کا گارڈ یوں جھڑک کر
بھگادیتا ہے جیسے کوئی گلی کا بھوکا آوارہ راستہ بھول گیا ہو اور ان کی
نخوت یہاں تک ختم نہیں ہوتی جس جگہ یہ دورے کے لیے چلے جائیں وہاں اس وقت
تک کوئی نہیں جاسکتا جبتک ان کا قافلہ کوچ نہ کر جائے ایسے ہی کراچی میں
بلاول زرداری جب ہسپتال کا دورہ کر رہے تھے تو ایک بچی نے اپنے باپ کے
ہاتھوں میں جان دے دی مگر سیکیورٹی والوں نے ہسپتال کے اندر داخل نہیں ہونے
دیا۔۔کیوں؟ اگر آپ کو جان کا اسقدر ہی خوف ہے تو اس موروثی سیاست کو چھوڑ
کیوں نہیں دیتے کیوں عذاب بن کر معصوم عوام پر مسلط ہو چکے ہیں تھر میں بچے
بھوک پیاس سے مر رہے ہیں کراچی میں ایک ہی آواز آتی ہی لاشیں گرائی ہیں۔۔
لاشیں گریں گی۔۔! پنجاب میں سڑکیں اور پل کا راگ رہ گیا ہے ،خیبر پختونخواہ
وہ تجرباتی نیو پاکستان ہے جس کی حالت بھی سامنے آ ہی جائے گی ایسے میں یہ
بات سنائی دیتی ہے کہ پنجاب میں جو ہورہا ہے وہ کہیں نہیں ہوا ہے!جبکہ یہ
بھی موجودہ جمہوری نظام کا ایک قابل فکر پہلو ہے کہ حکومت جان بوجھ کر ایسی
پالیسیاں بناتی ہے جس سے ہارس ٹریڈنگ اور ممبروں کی خرید و فروخت کی کھلی
حوصلہ افزائی ہو اور اس کی واضح مثال بلدیاتی انتخابات میں دیکھی گئی ہے کہ
سب کچھ سر عام ہوا ہے اور سینٹ کا الیکشن بھی ایک دلفریب ڈرامہ ٹھہرا تھا
اب ایسے میں جب ایک ہی سوچ اور لگن کے لوگ اکٹھے ہوتے ہیں تو بند دروازوں
میں سودے بازی ہوتی ہے جس میں ترقیاتی فنڈ صرف برسر اقتدار اراکین پارلیمنٹ
کو دیے جاتے ہیں اور حزب اختلاف کے ممبران کو اس سے محروم رکھا جاتا ہے
گویا یہ’’ سزا ‘‘بھی عوام کو ملتی ہے کہ انھوں نے ووٹ کیوں نہیں دیا تھا
اور ساتھ ہی فنڈ بانٹ کر غلام خرید لئے جاتے ہیں توظاہر ہے حالت تو وہیں
بدلے گی جہاں کچھ ہوگا یا جہاں سے ووٹ بنک کے گرنے کی امید زیادہ ہوگی
مگرقابل افسوس یہ ہے کہ وہ سب بھی دکھاوے اور تشہیر کی نظر ہوجاتا ہے اور
سارا وقت مراعات جمع کرنے اپنے حلقے کے افراد کے لیے ناجائز سفارشات کروانے
، اپنے رشتے داران اور ہم رکابوں کو بڑے بڑے ٹھیکے دلوانے میں گزرا دیا
جاتاہے جس میں سب کا خاص حصہ موجود ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ ٹھیکے کے کام
کاغذوں تک محدود رہتے ہیں جبکہ تشہیرمیں زمین و آسمان کے قلابے ملا دئیے
جاتے ہیں اس ساری صورتحال میں جب اتحادیوں کو گھاٹا نظر آتا ہے تو دھڑے
بندیوں کی صورتحال پیدا ہوجاتی ہے اور باقی توجہ کرسی و اقتدار بچانے میں
صرف ہوجاتی ہے ایسے میں ان جوکروں اور نام نہاد شعبدہ باز لکھاریوں سمیت سب
خوشامدیوں کی بھی چاندی ہو جاتی ہے جو اپنے اوپر ’’ عزت ما ٰب ‘‘ کا لیبل
لگا کر پھرتے ہیں اور بر سر اقتدار حکومت کو ’’مثالی حکومت ‘‘ قرار دینے کے
لیے الفاظ کے گورکھ دھندے سے برائی پر بھی اچھائی کا ایسا دلنشیں پردہ
گراتے ہیں کہ لاشعوری طور پرہر مخلص شہری بھی اس آکٹوپس میں پھنس جاتا ہے
بعد ازاں میڈیا پر گالم گلوچ سے قبیح پہلوؤں کا یوں دفاع کیا جاتا ہے کہ
اہم ترین مسئلہ بھی اپنی وقعت کھو دیتا ہے اوریہ نام نہاد دانشوران اسے
جمہوریت کا حسن کہتے ہیں جبکہ اس ساری کشمکش میں عوام کے ہاتھ سوائے مایوسی
کے کچھ نہیں آتا یہاں تک کہ اسے اتنی رسائی میسر نہیں آتی کہ وہ جھوٹے دلکش
نعروں اور دلفریب وعدوں کے بارے پوچھ گچھ ہی کر سکے جبکہ جمہوریت تو نام ہی
اس کاہے کہ حکومتی حکمران عوام کے سامنے جواب دہ ہوں کہ ان کی کار کردگی
کیا ہے اور طویل المدت منصوبوں سمیت تمام اہم معاملات وخارجہ پالیسی اور ان
سے فوائد یا نقصانات اور بیرون ملک عہدوں سے حاصل ہونے والے تحائف وغیرہ ہر
چیز کا حساب دینے کی جمہوری حکومت مجاز ہوتی ہے مگر یہاں حکومت تو دور کی
بعد ہے یہاں اعلیٰ عوامی عہدے داران اور بیوروکریسی بھی ایک ہوّا ہے کہ جن
سے آپ کسی کام کے لیے بھی آسانی سے نہیں مل سکتے حالانکہ وہ اسی خدمت کے
لیے عالیشان دفاتر میں بیٹھے ہوتے ہیں اگر عمیق نظری سے مشاہدہ کیا جائے تو
پاکستان میں جمہوریت سے ہمیں کیا ملا ہے؟قبضہ گروپس ،ہر طرح کی کرپشن ،ماموں
چاچوں اور سمدھیوں کی بھرتیاں ،مایوسیاں ،جعلی ڈگریاں ،اندھیرے ،مہنگائی ،جعلی
ادویات ،بھوک ۔پیاس ،بد امنی ، بے انصافی اور اس پر ہٹ دھرمی ایسے میں جواب
دہی کس سے اور کون کر سکتا ہے ۔۔۔؟جو حکومتیں دودھ ،دہی ،مکھن اور گھی جیسی
بنیادی ضروریات زندگی کے معیار اور قیمت کو یقینی نہ بنا سکیں ایسی حکومتوں
کے زیر سایہ پلنے والے کم سن بچے کس وجود اور صحت کے ساتھ جوان ہو کر ایسی
حکومتوں کے گیت گائیں گے باقی اشرافیہ کے لیے بنائے گئے ہوٹل ،ریستوران اور
ایسے ہی اہم معاملات کے سلسلہ میں محکمے آپریشن کرتے ہیں اور پکڑ دھکڑ کرتے
ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ خواص اور امیروں کا نقصان ہو رہا ہے مگر ایک
غریب اور متوسط طبقے کے لیے یہ محکمے لاچار اور مجبور ہیں تو مسئلہ یہ ہے
کہ جمہوریت کے تسلسل سے کسی کو مسئلہ نہیں ہے جمہوریت کے مفہوم سے مسئلہ ہے
یا تو جمہوریت کا مطلب بدل دیں یا جمہوری دور کو یقینی بنائیں تاکہ اب کے
مؤرخ لکھے تو مثالی ریاستوں میں پاکستان کا نام شامل ہو مگر یہ تبھی ممکن
ہے کہ جب عوام کی صحیح نمائندگی ہو اور عوامی نمائندگان کا انتخاب شفاف
عوامی رائے دہی سے انجام پائے اس میں کوئی شک نہیں کہ جمہوریت آمریت سے
بہتر ہے مگر جمہوریت شفافیت کے بغیر بیکار ہے ! |