مغلوں سے پہلے غزنوی ، غوری ، لودھی اور
سوری حکمران تھے اور اُن سے پہلے جے پال ، انند پال اور چوہان اپنا شاہی
فرمان جاری کرتے تھے۔ مغلوں کے بعد سکھ آئے اور پھر انگریز دور آگیا ملکہ
وکٹوریہ اور شاہ جارج کے سکے نے نانک شاہی کا خاتمہ کیا تو موجودہ پاکستان
میں نئے جاگیردار ، گدی نشین پیر ، ٹھیکیدار اور کارخانہ دار خاندان پہلے
وکٹوریہ اور پھر جارج کے گیت گانے لگے ۔ انگریزی دور میں پریس کا وجود
سامنے آیا تو مضمون نویس، کالم نگار اور رپورٹر بھی اپنا بستہ اُٹھائے
اخباروں کے دفاتر سے منسلک ہو گئے۔
اخبار سے پہلے کتاب کا دور تھا اور اُس سے پہلے تقریر ، مشاعرہ اور تھیڑ
اظہار خیال کے ذرائع تھے۔ مصنفین کتابوں ، شعروں اور بعد میں سٹیج پر پیش
کیے جانے والے کھیلوں کے ذریعے اپنا پیغام عوام الناس تک پہنچاتے اور اکثر
حکمرانوں کے عتاب کا نشانہ بن جاتے ۔ بادشاہوں اور حکمرانوں کی تعریف و
توصیف میں لکھی جانے والی کتابوں ، اشعار ، قصیدوں ، قصوں اور گیتوں پر
انعام و اکرام سے نوازا جاتا ۔ درباری شاعروں ، قصیدہ خوانوں اور مصنفوں کو
جاگیر یں ،خلعتیں اور القا بات سے بھی نواز ا جاتا ۔ یہی حال رقاصاؤں اور
مصاحبوں کا تھا۔
فریدالدین عطار نے ’’ پرندوں کی مجلس ‘‘ لکھی تو نہ صرف یہ کتاب ضبط کر لی
گئی بلکہ فریدکو بھی جیل جانا پڑا ۔ ابن الہیشم کو سائنسی نظریات اور خلیل
جبران کو معاشی ، سیاسی اور اخلاقی برائیوں پر قلم اُٹھانے کی سزا ملی اور
کتابیں نذر آتش کر دی گئیں۔
ایسا ہی حال مقررین کا تھا ۔ ادھر کسی ظالم حکمران کے خلاف آواز اُٹھی کہ
شاہی فرمان جاری ہوا اور سر تن سے جدا کر دیا گیا۔ انگریز گئے تو اُن کے
حواری سیاستدانوں کے روپ میں ملک پر قابض ہو گے ۔ لوگ سکندر مرزا ، ایوب
خان ، یحییٰ خان ، ضیا ء الحق اور پرویز مشرف پر تنقید تو کرتے ہیں مگر یہ
نہیں سوچتے کہ انہیں ایوان اقتدار تک لانے والے اور ان کے قصے اور قصیدے
لکھنے اور پڑھنے والے کون تھے؟ جناب بھٹو نے سکندر مرزا کو قائداعظم سے بڑا
لیڈر اور ایوب خان کو ایشیا کا ڈیگال اور صلاح الدین ایوبی کہا ۔ جناب بھٹو
کو خان عبدالولی خان اور ائیر مارشل اصغر خان نے اپنی پارٹیوں میں کوئی بڑا
مقام دینے سے انکا ر کیا تو یحییٰ خان نے انہیں پیپلز پارٹی بنانے کا مشورہ
دیا۔ جناب بھٹو نے ہی جنرل ضیاء الحق کوآرمی چیف بنایا اور جنر ل پرویز
مشرف کے مشرف بہ اقتدار ہونے کی کہانی زیادہ پرانی نہیں۔
جناب پرویز مشرف کے سارے قصیدہ خوان ، قصہ گو ، ادیب ، کالم نگا ر اور
نورتن آجکل جناب میاں نواز شریف کے دربار سے منسلک ہیں۔ یہ سارے فنکار اور
قلم کا ر پرانے سروں میں نئے گیت بنا اور گار ہے ہیں اور اینکر حضرات دھمال
پر دھمال ڈال رہے ہیں۔ موجودہ دور میں قصیدہ گو اور قصہ خوانوں کی جگہ بڑے
صحافیوں ، اینکروں ، تجزیہ نگاروں اور مبصروں نے لے رکھی ہے اور ہر دور کے
شاہوں سے پلاٹ ، بنگلے اور بیرون ملک اثاثے حاصل کیے ہیں ۔ اکثر سینئر
صحافیوں ، اینکروں اور تجزیہ نگاروں کے گھر اور فلیٹ امریکہ ، مغربی ممالک
اور دبئی وغیرہ میں ہیں اور اُن کے بچے بھی بیرون ملک پڑھتے ہیں جو سب
مختلف درباروں اور سرکاروں کی عنائیت ہے۔ کچھ شاہ کے دربانوں نے بخشا تو
کچھ اغیار کے قصے اور قصیدے لکھنے پر نچھاور کیا گیا۔
اسکندر مرزاسے لیکر پرویز مشرف تک سبھی حکمران زوال پذیر ہوئے مگر شاہی
دربار سے منسلک درباریوں ، قصیدہ گوؤں اور قصہ خوانوں پر کبھی زوال نہ آیا
چونکہ یہ لوگ ہر دربار اور ہر سرکار کی ضرورت ہوتے ہیں۔ موجودہ دور میں بہت
سے قلم کاروزیر اور مشیر ہیں اور باقی بچ جانے والے تجزیہ نگار ، مبصر ،
اینکر اور فنکار ہیں۔
ایسے لوگو ں کے لیے حضرت سعدی ؒ نے لکھا ہے کہ اے نادان کیا تجھے پتہ نہیں
کہ بادشاہ کا قصیدہ لکھنے والے ہاتھ سے وہ ہاتھ افضل ہے جو مٹی سے بھر ہوا
ہے اور محنت سے رزق کما کر تیرا پیٹ بھرتا ہے۔ ہمارے سینئر صحافی ، کالم
نگار ، مبصر اور اینکر بھول جاتے ہیں کہ جو کچھ وہ حکمرانوں سے وصولتے ہیں
وہ عام لوگوں کی محنت اور مشقت سے کمایا ہوا پیسہ ہے جو جناب اسحاق ڈار
مختلف ٹیکسوں کی صورت میں محنت کشوں کے بینک اکاؤنٹوں اور جیبوں سے نکالتے
ہیں ۔ کیا مشتاق مہنا س جیسے صحافی کبھی اپنے خرچے پر بذریعہ ہوائی جہاز
کراچی تک گئے تھے ؟ یقینا نہیں۔ مگر جب سے موصوف شاہی دربار سے منسلک ہوئے
ہیں شاہ کی ہوائی سواری میں اُن کی سیٹ مختص کر دی گئی ہے۔ کرنل اشفاق احمد
لکھتے ہیں کہ میں نے زندگی میں بڑے بڑے عہدوں پر چھوٹے چھوٹے لوگوں کو اور
چھوٹے چھوٹے عہدوں پر بڑے بڑے لوگوں کو فائز دیکھا ۔ کالکارنجن قانون گو
لکھتا ہے کہ شیر شاہ سوری کی کامیابی کا ایک رازیہ تھا کہ قصیدہ گوؤں اور
قصہ خوانوں سے پرہیز کرتا تھا۔ اگر ایسا کوئی فنکار شیر خان تک رسائی حاصل
کر لیتاتو وہ اُسے فوراً کسی مہم پر بھجوا دیتا۔ ہمارے بہت سے سینئر صحافی
،قصیدہ گو،قصہ خوان اینکر اور تجزیہ نگار اس انعام کے حقدار ہیں کہ انہیں
وقت ضائع کیے بغیر سیا ہ چین یا شمالی وزیر ستان بھجوا یا جائے ۔اگر یہ لوگ
اسلام آباد جیسے پرتعیش شہر میں ہی رہے تو قو م اور ملک کے لیے مہلک ثابت
ہونگے ۔
مشہور کشمیری شاعر اور دانشور غنی کاشمیری نے صدیوں پہلے لکھا تھا کہ دریا
کا پانی دیوار کے قدم چومتا ہے مگر بالآخر اسے گرادیتا ۔ اے نادان تو قصیدہ
گوؤں سے دوررہ اور زوال سے بچ ورنہ تو صفحہ ہستی سے ہی مٹ جائے گا۔
سینئر صحافی جناب نواز رضا کے دو کالم میرے سامنے ہیں۔ پہلا کالم جناب
وزیراعظم کی کشمیر پالیسی اور دوسرا مریم نواز شریف سے ملاقات کے متعلق ہے۔
میں نے میاں نواز شریف کی کشمیر پالیسی والا کالم نہیں پڑھا اور نہ ہی یہ
کالم پڑھنے کی ضرورت ہے۔ میں کشمیری ہوں اور کشمیر کے حالات میرے سامنے
ہیں۔ جبکہ حقیقتاً میاں صاحب کی کوئی کشمیر پالیسی ہی نہیں ۔ میاں صاحب نے
کبھی بھی مودی کی موذی کشمیر پالیسی پر کوئی اعتراض نہیں کیا اور نہ ہی
آزادکشمیر میں ہونے والی حکومتی کرپشن اور عوام کش پالیسوں پر کوئی روک
لگائی ہے چونکہ میاں صاحب پیپلز پارٹی کے ساتھ ہونے والے میثاق جمہوریت پر
عمل پیرا ہیں۔ میاں صاحب اقتدار سنبھالنے کے بعد آزادکشمیر کے جیالے
وزیراعظم چوہدری عبدالمجید سے بغل گیر ہوئے اور انہیں اپنا بڑا بھائی قرار
دیا۔ اگر میاں صاحب کی کوئی کشمیر پالیسی ہوتی تو وہ مولانا فضل الرحمن کو
کشمیر کمیٹی کاچیئرمین نہ لگاتے اور نہ ہی مجیدی حکومت کو کھل کر لوٹ مار
کرنے کا موقع فراہم کرتے ۔ میاں صاحب کی کشمیر پالیسی مشتاق منہاس کے
مشوروں کے گرد گھومتی ہے اور مسلسل گھماؤ میں ہے۔ کیا میاں صاحب نے
آزادکشمیر کے جنگلات کی بے دریغ کٹائی اور نیلم ویلی سے معدنیات اور نباتات
کی سمگلنگ کو روکا ہے اور سمگلر وزیر سے کوئی باز پرس کی ہے؟؟۔ کیا مشتاق
منہا س نے اُنہیں جاگراں پاور پروجیکٹ اور جہلم نیلم منصوبے میں ہونے والی
کرپشن پر کوئی بریفنگ دی ہے؟؟۔ اگرجاگراں ٹو اور تھری پر کام ہوتا تو یہ
منصوبے تین سال قبل مکمل ہو چکے ہوتے اور کرپشن کرنیوالا وزیر جیل میں ہوتا
۔ کیا میاں صاحب کو وزیراعظم چوہدری عبدالمجید اور اُن کے صاحبزادوں کے
کارناموں سے کسی وزیر، مشیر اور وزیراعظم بھگتا نے والے صحافی نے آگاہ کیا
ہے؟ سینئر صحافی حاجی نواز رضا کو وزیراعظم ہاؤس سے فراغت ملے تو وہ صرف
میرپور کا ہی دور ہ کر لیں اور خود دیکھیں کہ مجید حکومت نے ایشیا ء کا لند
ن کہلانے والے میرپور شہر کا کیا حشر کر رکھا ہے۔ سڑکیں ٹوٹ کر کھنڈرات بن
چکی ہیں اور ہر طرف تجاوزات کی بھر مار ہے۔ بڑی سٹرکیں اور خوبصورت عمارتیں
لنڈا بازروں میں تبدیل ہو چکی ہیں اور شہر کے سارے پارک مویشی منڈی کا منظر
پیش کر رہے ہیں ۔ ہر طرف غلاظت کے ڈھیر ہیں اور مریضوں سے ہسپتال بھرے پڑے
ہیں ۔ میرپور کوٹلی روڈ توسیع اور مرمت کے لیے دو سال پہلے کھودی گئی تھی
جو تاحال کھدی پڑی ہے۔ چک ریحام پل پانچ سال سے زائد عرصہ سے زیر تعمیر ہے
جس پر دو سال سے کوئی کام ہی نہیں ہوا۔ یہی حال آزادکشمیر کے دیگر شہروں ،
قصبوں اور سٹرکوں کا ہے۔ سرکاری نوکریاں صرف حکومت حکمران برادری کے لیے
ہیں جوڈوگرا دور کی تازہ جھلک ہے۔ چار سال تک آزاد خطہ میں پبلک سروس کمیشن
ہی نہ تھا چونکہ نوکریاں بیچی جاتی تھیں اور اب بھی بک رہی ہیں۔ حاجی نواز
رضا اور اُن کے دانشور وزیراعظم اور مستقبل کی وزیراعظم مریم نواز شریف سے
سوال ہے کہ کیا یہی آپ لوگوں کی کشمیر پالیسی ہے؟؟؟؟
جہاں تک مریم نواز شریف کی قیادت میں کام کرنیوالے تھنک ٹینک کا تعلق ہے تو
اس تھنک ٹینک کا کام صرف اور صرف عمران خان پر تنقید کرنا اور اینٹ کا جواب
پتھر سے دینا ہے۔ کیا کسی لیڈر اورپارلمینٹرین کو زیب دیتا ہے کہ وہ
بداخلاقی اور بھڑ بولے پن کا مظاہرہ کرے اور وہ بھی ایک ایسی خاتون کی مرضی
و منشا سے جو خود کو مستقبل کی قائد تصور کیے گدی نشینی کی دعویدار ہے۔
مریم نواز شریف اگر واقعی مدبر اور مستقبل پر نظر رکھنے والی شخصیت ہیں تو
وہ نیشنل سیکورٹی پر توجہ دیں نہ کہ عمران خان کے الزامات پر۔ بجائے اینٹ
کا جواب پتھر سے دینے کے وہ عمران خان کی تنقید کا جواب تعمیری سوچ اور عمل
سے دیں اور معاملات کو درست کرنے پر توجہ دیں۔
پاکستان ہر طرف سے دشمن کے نشانے پر ہے اور میڈیا سمیت خود غرض سیاستدانوں
اور نام نہاد دانشوروں کا مخصوص ٹولہ دشمن کا آلہ کار ہے۔ فوج ، اسلام ،
پاکستان اور آئی ایس آئی اپنوں اور غیروں کی تنقید کا حدف ہیں اور عوام
الناس کو دیگر مسائل میں اُلجھانے والے مستقبل کی قائدکے تھنک ٹینک کا حصہ
ہیں۔ حیرت ہے کہ ایک فضول اور غیر تعمیر ی سوچ کی تشہیر کرنیوالے سینئر
صحافی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے بلکہ فخر و تکبرسے کہتے ہیں کہ وزیراعطم
ہاؤس میرے لیے نئی جگہ نہیں میں نے بہت سے وزیراعظم بھگتا ئے ہیں۔
آج ہم جس مشکل مقام اور تباہی کے دہانے پر پہنچ چکے ہیں اس سے بچ نکلنے کے
لیے دانشمند اور دوراندیش قیادت کی ضرورت ہے۔ ٹھیکیدارانہ سوچ اور تاجرانہ
سیاست پر قصید ے لکھنا نہ تو صحافت ہے اور نہ ہی ملک اور قوم کی خدمت ۔ اگر
حالات یہی رہے تو شاہنامے لکھنے والے جلد ہی نوحے اور زوال نامے لکھیں گئے
مگر کوئی پڑھنے والا ، داد دینے والا اور صلے میں سونے کی اشرفیاں نچھاور
کرنیوالا نہ ہوگا۔
|