1940میں مارچ کے مہینے کا کسی نہیں معلوم
تھا کہ یہ مہینہ برصغیر میں ایسی تاریخ رقم کرے گاجس کو برصغیر کی عوام
بالخصوص مسلمان کبھی نہیں بھلا سکتے۔ رہتی دنیاتک پاکستانی عوام اس دن کو
بڑے شایان شان سے منائے گی ۔ 23مارچ وہ دن ہے جب پاکستان کی پہلی خشت رکھی
گئی۔ایک پُراعتماد تحریک شروع ہوئی اور جو بعد میں انگریز اور ہندوؤں دونوں
کے لیے گلے کی ہڈی بن کر رہ گئی۔ برصغیر کی عوام جو انگریزوں کے شکنجے میں
پھنسی ہوئی تھی ان کو نہیں معلوم تھا کہ ایک دبلا پتلا نوجوان شطرنج کی
ایسی بازی کھیلے گا کہ ہندو اور مسلمان دونوں آزادی کی زندگی گزار سکیں گے۔
یہ الگ بات تھی کہ انگریزو اور ہندو دونوں کفار مسلمانوں کے خلاف بڑی شاطر
چالیں چل رہے تھے مگر ان کفار کو کیا معلوم کہ مسلمان ایسی چال چلیں گے کہ
ان کے مہرے مات کھا جائیں گے۔ 23مارچ کا سورج برصغیر کے مسلمانوں کے لیے
ایسی نوید لیکر چڑھا کہ جس کی روشنی میں کفار مات کھاگئے۔
آل انڈیا مسلم لیگ کا ستائیسواں سالانہ اجلاس منٹو پارک لاہور میں منعقد
ہوا جو 22 مارچ سے 24 مارچ 1940تک جاری رہا۔ اسی جگہ پر آج یادگار
پاکستان(مینار پاکستان) قائم ہے۔ اس تاریخی اجلاس کی صدارت قائداعظم نے
کی۔اس اجلاس میں شرکت کے لیے وہ دہلی سے بذریعہ ٹرین لاہور پہنچے۔ قائداعظم
نے اسی دن 22 مارچ0 194کو ڈھائی گھنٹے فی البدیہہ تقریر کی۔ اس تقریر میں
انھوں نے فرمایا کہ ’’مسلمان کسی بھی تعریف کی رو سے ایک قوم ہیں، ہندو اور
مسلمان دو مختلف مذہبی فلسفوں، سماجی عادات، علوم سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہ
لوگ نہ تو آپس میں شادی کر سکتے ہیں نہ یہ لوگ اکٹھے کھانا کھا سکتے ہیں
اور یقیناً یہ لوگ مختلف تہذیبوں سے تعلق رکھتے ہیں جو بنیادی طور پر
اختلافی خیالات اور تصورات پر محیط ہیں۔ یہ بالکل واضح ہے کہ ہندو اور
مسلمان تاریخ کے مختلف ذرائع سے ہدایت حاصل کرتے ہیں۔ ان دونوں کے ہیروز
اور قصے کہانیاں ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ اکثر ایک کا ہیرو دوسرے کا ولن ہے۔
23 مارچ 1940وہ تاریخی لمحہ ہے جب آل انڈیا مسلم لیگ نے لاہور کے تاریخی
اجتماع میں ہندوستان کے مسلمانوں نے ایک علیحدہ اور آزاد ریاست کے قیام کا
مطالبہ کیا ۔ یہ قرارداد لاہور جو بعد میں قرارداد پاکستان کے نام سے مشہور
ہوئی۔ اس قرارداد کو قائداعظم اوران کے ساتھ سکندر حیات نے تیار کیا۔ لیاقت
علی خان نے 22 مارچ کو اسے کمیٹی میں پیش کیا۔ اس قرارداد کو اے کے فضل
الحق نے 23 مارچ کو کھلے اجلاس میں پیش کیا۔سب سے پہلے چوہدری خلیق الزماں
نے قرارداد کی تائید کی۔ان کے ساتھ اہم مسلم لیگی رہنماؤں نے قرارداد کی
حمایت کی جن میں پنجاب سے مولانا ظفر علی خان ، سرحد سے سردار اورنگ زیب
خان، سندھ سے حاجی سر عبداﷲ ہارون، بلوچستان سے قاضی عیسیٰ سمیت بہت سے لوگ
شامل تھے۔
یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ اس قرارداد کی حمایت کرتے ہوئے بیگم مولانا محمد
علی جوہر نے سب سے پہلے قرارداد پاکستان کا لفظ استعمال کیا۔ ہندوستان کی
تقسیم سے قبل ہی آل انڈیا مسلم لیگ نے 1941سے 23 مارچ کے دن ہندوستان بھر
میں یوم پاکستان منانا شروع کر دیا تھا۔ قرارداد لاہور بعد ازاں قرارداد
پاکستان کے نام سے مشہور ہوئی۔ اس قرارداد میں پاکستان کا لفظ شامل نہیں
ہوا تھا۔ لفظ پاکستان کے خالق چوہدری رحمت علی تھے۔ 1943 میں قائداعظم نے
اپنی ایک تقریر میں قرارداد لاہور کے لیے پاکستان کا لفظ قبول کرتے ہوئے
اسے قرارداد پاکستان قرار دیا۔یہ قرارداد 1941 میں نہ صرف مسلم لیگ کے آئین
کا حصہ بنی بلکہ اسی کی بنیاد پر سات سال بعد 14 اگست 1947 کو پاکستان معرض
وجود میں آیا۔
قیام پاکستان سے پہلے ہندوستان میں دو قومیں آباد تھیں ہندواور مسلم ۔
مسلمانوں کو ہندوستان میں اسلام کے مطابق آزادانہ زندگی گزارنے کی اجازت
نہیں تھی۔ ہندو مسلمانوں پر طرح طرح کے ظلم ڈھاتے تھے۔ ان حالات نے
مسلمانوں کو الگ وطن حاصل کرنے کے لیے مجبور کیا۔ اس سے پہلے مسلمان کانگرس
پارٹی کے ساتھ چل رہے تھے مگر پھر انہوں نے ایک الگ پارٹی بنائی جس کا نام
آل انڈیا مسلم لیگ رکھا گیا۔ مسلم لیگ نے مسلمانوں کے حقوق کے لیے تن من کی
بازی لگادی۔ الگ وطن حاصل کرنے کے لیے مسلمانوں نے کسی بھی چیز کی قربانی
سے دریغ نہیں کیا۔ ماوؤں نے اپنے بیٹوں کی جانوں کا نظرانہ پیش کیا۔بہنوں
نے بھائی کی قربانیاں دیں اور بیویوں نے اپنے سہاگ تک لٹا دیے۔ سب کی زبان
پر ایک ہی نعرہ تھا ’’بن کے رہے گا پاکستان ، لیکر رہیں گے پاکستان‘‘
آج ہم جس ملک میں آزادی سے جی رہے ہیں اس کو حاصل کرنے کی اہمیت ہم سے بہتر
وہ ہی بتا سکتے ہیں جنہوں نے اپنا سب کچھ قربان کیا۔ ہم تو آج پلیٹ میں
حلوہ رکھ کرکھارہے ہیں بلکہ حلوے کے ساتھ اب تو پلیٹ کو بھی کھایا جارہا
ہے۔ اگر سوچا جائے تو کیا پاکستان اس لیے حاصل کیا تھا کہ آج اُس پاکستان
کے لوگ ’’نیاپاکستان‘‘ اور’’ لبرل پاکستان‘‘ کا نعرہ لگائیں؟ کیا پاکستان
دوٹکڑے کرنے کے لیے بنایا گیا تھا؟ خدارا اس پاکستان کو ان دیمک سے بچائیں
جو اس کی جڑیں چاٹ چاٹ کر کھوکھلا کرنے کے در پر ہیں۔ ابھی بھی وقت کہ ہم
اپنے آستینوں میں چھپے سانپوں کو ڈھونڈ لیں ورنہ بعد میں پچھتانا پڑے گا۔
رب العزت سے دعا ہے کہ ’’اے اﷲ اس ملک کو اندرونی اور بیرونی دشمنوں سے
محفوظ فرما اور ہمارے اس ملک کی حفاظت فرما اور ہمیں ہدایت دے کہ ہم انصاف،
سچائی اور ایمانداری کے راستے پر چلیں اور دوسروں کی حق تلفی، رشوت خوری
اور لڑائی جھگڑوں سے دورر ہیں ۔آمین
|