کشمیری طلبہ کا استحصال کیوں

کشمیر ایک زمانے تک خود مختار ریاست ہوا کرتا تھا، 1947کے بعد کشمیر نے ہندوستان کے ساتھ رہنے کا انتخاب کیا اور اپنے تمام تر حقوق ہندی رہنماؤں کے حوالے کردئیے، اپنی حفاظت وپاسداری کا ذمہ انہیں سونپ دیا، ان کے آئین کی اتباع اور احترام کی ذمہ داری قبول کی، چند شرائط پر اس اتحاد کی بنیادیں ٹکی ہیں۔ تاریخ کے اوراق پلٹتے جائیے اور ماضی کے حالات و واقعات کو بنظر عمیق جانچتے اور پرکھتے جائیے، کشمیریوں نے ہمیشہ اپنے ہندوستانی ہونے کا ثبوت پیش کیا اور اپنے جذبۂ وطن پرستی پر کبھی انگلی دھرنے کا موقع فراہم نہیں ہونے دیا ،قیام کے شرائط پر ضرب آئی، خون کی ہولی کھیلی گئی، آبروئیں نوچی گئیں، کلیوں کو مسل دیا گیا۔ ظلم، تشدد جبر واستبداد کی تاریخ رقم کی گئی مگر سلام پیش کیجئے وادی کے افراد کو آہنی چٹان بنے رہے اور جمہوری اقدار کو متزلزل نہیں ہونے دیا،آئین کی پاسداری کا مثالی نمونہ پیش کرتے رہے۔ ظلم و جبر کی پاداش میں جب کوئی صدا بلند ہوئی اسے عبرت خیز سزا سے ہمکنار ہونا پڑا۔ چند افراد نے کبھی کبھی آزادی کا نعرہ بھی بلند کیا اور اپنے حقوق کی بازیابی کے لئے زبان کھولی اور ملک کی نظروں میں کانٹے کی طرح چبھے لیکن ملک کی خوبصورتی میں جہاں وادی کے حسن نے چارچاند لگائے، وہیں وادی کے افراد نے بھی اپنے کاموں سے ہندوستان کی قدروں کو بلند کیا اور اسے دنیاوی جنت اپنے دامن میں رکھنے کا شرف بخشا اور ملک کی علمی، عملی، دینی، سیاسی، سرگرمیوں میں بھرپور حصہ لیا اور قابل فخر افراد پیدا کئے۔ امام العصر علامہ انورشاہؒ ،شاعر مشرق علامہ اقبال وغیرہ وغیرہ، یہ افراد ایک کہکشاں کے مثل ہیں جنہوں نے پوری دنیا میں ہندوستان کا نام روشن کیا۔

کشمیریوں کا المیہ یہ ہے کہ ابتدا سے یہ تو کہا جاتارہا کشمیر ہندوستان کا اٹوٹ حصہ اور جز ولا ینفک ہے مگر کشمیریوں کے ساتھ اجنبیوں اور غیروں کا سا رویہ رہا حکومتیں بدلتی رہیں، سیاسی انقلاب آئے، اس نظرئیے کو تبدیل نہ کرسکے۔ کشمیریوں کو شک کی نگاہوں سے دیکھا جاتا رہا، ان کی وفاداری پر سوالات کی بوچھار ہوتی رہی، ملک میں ان کا جو استحصال ہوا وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے اور آج جبکہ ملک نظریاتی جنگ لڑرہا ہے ،سیکولرزم کی کشتی ہچکولے کھارہی ہے، 1925میں کیشوا، بلی رام، ہیڑگیوار کے ذریعہ قائم کی گئی آر ایس ایس اپنے خوابوں کو تعبیر کرنے کے لئے بڑے ہی خطرناک اندازسے سرگرم عمل ہے اور اقلیتوں کی ناک میں دم کرنے کی حتی الامکان کوششیں کررہی ہے، ملک کو ایسے حالات سے دوچار کرنے کی سازشیں رچی جارہی ہیں اور ہندتو کا لبادہ اڑھانے کے لئے کوئی کسر باقی نہیں رکھی جارہی ہے۔

بی جے پی حکومت میں یہ سب ہونا یقینی ہے کیونکہ اس کا مقصد وہی ہے جو آر ایس ایس کاہے، اس کا سب سے زیادہ نقصان پہنچتا ہے مسلمانوں کو اور خاص طور سے وہ خطہ اور وہ علاقہ جن میں مسلمانوں کی اکثریت ہے اور سرفہرست کشمیر جہاں مسلمان 90فیصد سے زیادہ ہیں۔ بعض علاقوں میں66فیصد، بعض میں 28فیصد ہیں۔ اس مرتبہ حکومت کی پالیسی نے جمہوریت کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا اور اس انداز پر کام کررہی کہ اقلیتوں کو بے دست و پا کر دیا جائے، ان کے مستقبل کو تاریک کردیا جائے، اس کی عملی شکلیں اس انداز میں ظاہر ہوتی ہیں کہ مسلمانوں کو نوکری دینے سے انکار کیاجاتا ہے اقلیت حامی اداروں پر حملہ کئے جاتے ہیں اور اقلیتی طبقوں سے تعلق رکھنے والے طلبہ کا استحصال کیا جاتا ہے، اس میں بھی خاص طور سے کشمیری طلبہ کا استحصال اس بات کا غماز ہے کہ ملک کس راستے پر کھڑا ہے، جہاں سے تباہی اور ہندتو کا فاصلہ زیادہ نہیں ہے، جہاں ملک کے وزیر داخلہ کا قول یہ ہے کہ کشمیری طلبہ کی تمام معلومات فراہم چھان بین کی جائے، تحقیقات کی جائیں، وہاں استحصال اور عصبیت کی روداد بیان کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی اور جواب بھی عجیب غریب ہے کہ یہ قدم کشمیری طلبہ کو حفاظت فراہم کرنے کے لئے اٹھایا گیا ۔ سارے ہندوستان میں صرف کشمیری طلبہ دوسری ریاستوں میں تعلیم حاصل کرتے ہیں، کیا اس زمرے میں دوسرے طلبہ نہیں آتے ہیں کیا اور کسی حفاظت کی ضرورت نہیں، پھر یہ فرق کیوں اس سے محبت پھیلی گی یا عصبیت سے اس ملک ترقی کرے گا یا تنزلی۔اگر یہ قدم ان کے ملک مخالف سرگر میوں میں ملوث ہونے کے خطرہ کو ذہن میں رکھتے ہوئے اٹھایا گیا تو سوال کھڑا ہوتا ہے کیا کشمیر کے علاوہ ایسے علاقے ملک میں نہیں ہیں جو حساس ہوں، کیا نکسل واد سے تعلق رکھنے والے افراد زیور تعلیم سے آراستہ و پیراستہ نہیں ہوتے؟ کیا ان کے قریبی خطوں سے تعلق رکھنے والے طلبہ سے متعلق تفتیش کا حکم نامہ جاری ہوا یا موااد سے کوئی خطرہ نہیں۔ یہ سوالات پکار رہے ہیں کہ کھیل کیا ہے اور کس طرز اور انداز سے کھیلا جا رہا ہے؟ کس طرح تعلیم سے اقلیتوں کو دور کرکے ان گفتار کا سلیقہ چھیننے کی کوشش کی جارہی ہے اور مسائل کی چکی میں پیسا جارہا ہے۔ اگر ایسے طریقوں سے محبت پھیلتی ہے تو پھر راجستھان میں میور یونیورسٹی میں کشمیری طلبہ کو بیف کھانے کے جرم میں زدو کوب کیوں کیا گیا ؟شرپسندوں نے خوب پیٹا اور پولیس نے انہیں گرفتار کیا پھر معلوم ہوا کہ وہ بکری کا گوشت کھارہے تھے۔اگر ہمارے وزیر خزانہ محبت کو عام کررہے ہیں تو پھر ایسا کیوں؟ یہ جرأت کہاں سے پیدا ہوئی؟ طلبہ مارنے کیوں گئے؟ تحقیقات سے پہلے ان پر ہاتھ کیوں اٹھائے گئے؟ وہ ملک جہاں تصور یہ ہے کہ سو مجرم بچ جائیں مگر ایک بے قصور کو سزا نہ دی جائے پھر یہ کون سا طرز ہے جو ہمارے ملک میں عام ہورہا ہے اور آگے بڑھئے تو کل پھر موہالی میں کشمیری طلبہ کو زدو کوب کیاگیا اور تکلیف پہونچائی گئی جس کے لئے غلام نبی آزاد نے مکتوب بھی لکھا اور پنجاب کے وزیر اعلیٰ سے اس طرح کے واقعات پر قدغن لگانے کی اپیل کی، یہی حفاظت فراہم کی ہے ہمارے وزیرداخلہ نے ؟تاریخ گواہ ہے کہ سینکڑوں واقعات ہیں جو کشمیری طلبہ کے استحصال کی روداد بیان کرتے ہیں، ہر طرف سے ان پر نفرت کی سیاست کی گئی اور ملک کے مستقل سے ایک عظیم سرمایہ کو ختم کرنے کی ناقابل انکار کوشش کی گئی۔

جے این یو تنازع میں بھی ایک موقع ایسا آیا جہاں سارا معاملہ عمر خالد کے سر تھوپنے کی کوشش ہو ئی اوریہ کہا گیا سارا کیا دھرااسی کا، وہ لشکر طیبہ کا فردہے ہندوستانی ہونے پر فخر کرنے والے کے ساتھ یہ رویہ کہاں تک درست ہے؟ اگر جے این یو مضبوطی سے نہ کھڑا ہوتا تو نتائج سنگین ہو سکتے تھے اور میڈیا نے تو عمر خالد کو ماسٹر مائنڈ ثابت کرہی دیا تھا، نہ جانے کیوں ہمارے برادر وطن کشمیری کو ایک ہندوستانی کی جگہ دہشت گرد کی طرح اور اس بیماری سے تعلیم یافتہ طبقہ بھی محفوظ نہیں دیکھتے ہیں،جو انتھائی خطرناک اور مہلک ہے، جس نے کشمیریوں ہی نہیں ملک کو بھی نقصان پہنچایا، وادی کی ان صلاحیتوں سے ملک کو محروم کردیا جو بڑی خدمات انجام دے سکتی تھیں ملک کی خدمت کا جذبہ جن کے قلوب میں موجزن تھا کبھی انتخاب کی خاطر کرسی کے لالچ نے جیسے ہمارے وزیر داخلہ کا یہ بیان پانچ ریاستوں کے انتخاب سے پہلے، کبھی مذہبی منافرت میں کشمیری طلبہ کا استحصال ہورہا ہے۔

دیکھنا یہ ہے کہ آخر کب تک یہ فضا عام رہے گی اور کب تک ملک کا نقصان ہوتا رہے گا؟ اور کب تک ملک کا خسارہ کرنے والے یہ افراد محب وطن خیال کئے جاتے رہیں گے؟یہ تو وقت ہی بتائے گا۔
٭٭٭
Rahat Ali Siddiqui
About the Author: Rahat Ali Siddiqui Read More Articles by Rahat Ali Siddiqui: 82 Articles with 84955 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.