پاکستان کی بقا صرف لا الہ الا اﷲ

مارچ کا مہینہ آتے ہی پاکستان سے محبت کرنے والوں کے جذبات ایک نئی امنگ اور تگ و تاز محسوس کرنا شروع کر دیتے ہیں کہ اس مہینے میں وطن عزیز کے قیام کے لئے عملی جدوجہد کو ایک واضح راستہ ملا تھا۔
یوں تو ہندوستان میں مسلمانوں کی ایک علیحدہ ریاست کے قیام کا جزوی اور واضح تصور بہت سارے دانشوروں، اہل علم اور سیاستدانوں نے دیا مگرمارچ 1940میں مسلم لیگ کے اجلاس میں جو قرارداد منظور ہوئی وہ وہ درحقیقت علامہ ڈاکٹر محمد اقبالؔ کی کاوش کا نتیجہ تھی جو انہوں قائد اعظم کے ساتھ خط و کتابت میں کی تھی۔ اقبالؔ نے اپنے ان خطوط میں قائداعظم پر زور دیا تھا کہ وہ ہندوستان میں مسلمانوں کی علیحدہ ریاست کا مطالبہ کریں

اقبالؔ نے اپنے ان خطوط میں قائداعظم پر زور دیا تھا کہ وہ ہندوستان میں مسلمانوں کی علیحدہ ریاست کا مطالبہ کریں اور جلد از جلد مسلم اکثریتی علاقے لاہور میں مسلم لیگ کا اجلاس منعقد کریں۔ قائداعظم نے اقبالؔ کے ان خطوط کے بارے میں اظہار کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ انھوں نے اقبالؔ کے اس تصور کو اس لیے قبول کیا تھا کہ وہ ان کے اپنے خیالات کے مطابق تھا۔ یعنی ہندوستان میں مسلمانوں کے حقوق کی حفاظت کرتے ہوئے قائداعظم بھی اسی نتیجے پر پہنچے جس طرف اقبال نے ان کی توجہ مبذول کروائی تھی۔آل انڈیا مسلم لیگ کا ستائیسواں سالانہ اجلاس منٹو پارک لاہور میں منعقد ہوا جو 22 مارچ سے 24 مارچ 1940ء تک جاری رہا۔ اسی جگہ پر آج یادگار پاکستان (مینار پاکستان) قائم ہے۔ اس تاریخی اجلاس کی صدارت قائداعظم نے کی جس کے لیے وہ دہلی سے بذریعہ ٹرین فرنٹیئر میل لاہور پہنچے تھے۔یہ تاریخی اجتماع جہاں ایک طرف اسلامی اخوت اور بھائی چارے کا مظہر تھا وہاں دوسری طرف مسلمانوں کی تہذیب و ثقافت اور تمدن کی جیتی جاگتی تصویر بھی تھا۔ اجلاس میں قائداعظم اور لیاقت علی خان کی آمد کا منظر بڑا خیرہ کن تھا۔ دونوں نے شیروانیاں زیب تن کر رکھی تھیں۔ صدیق علی خان کی قیادت میں تلواریں اٹھائے مسلم لیگ گارڈز انھیں اپنے جلو میں لے کر ڈائس تک پہنچے۔ اے کے فضل الحق اور چوہدری خلیق الزماں بھی شیروانیوں میں ملبوس تھے۔ یہ تاریخی اور روح پرور اجتماع خواص و عوام کے سنگم سے عبارت تھا، جس میں ہندوستان کے مسلم اقلیتی اور اکثریتی علاقوں سے مسلم لیگ کے رہنماؤں نے شرکت کی۔ ان میں حیدرآباد دکن سے مسلم لیگی رہنما بہادر یار جنگ اور لاہور سے مولانا ظفر علی خان بھی شامل تھے جب کہ بیگم مولانا محمد علی جوہر سر تا پاؤں کالے برقعے میں ملبوس اجلاس میں موجود تھیں۔ قرارداد پاکستان کی حمایت میں بولنے والوں میں ان کی آواز بھی شامل تھی۔

اس تاریخی اجتماع کا آغاز 22 مارچ 1940ء کو ہوا۔ ابتدا میں میاں بشیر احمد کی نظم ’’ملت کا پاسباں‘‘ غیاث غازی آبادی نے پڑھی۔ قائداعظم نے اسی دن 22 مارچ 1940ء کو ان اہم اور تاریخی لمحات میں ڈھائی گھنٹے فی البدیہہ تقریر کی۔ اس تقریر میں انھوں نے فرمایا کہ ’’مسلمان کسی بھی تعریف کی رو سے ایک قوم ہیں، ہندو اور مسلمان دو مختلف مذہبی فلسفوں، سماجی عادات، علوم سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہ لوگ نہ تو آپس میں شادی کر سکتے ہیں نہ یہ لوگ اکٹھے کھانا کھا سکتے ہیں اور یقیناً یہ لوگ مختلف تہذیبوں سے تعلق رکھتے ہیں جو بنیادی طور پر اختلافی خیالات اور تصورات پر محیط ہیں۔ یہ بالکل واضح ہے کہ ہندو اور مسلمان تاریخ کے مختلف ذرائع سے ہدایت حاصل کرتے ہیں۔ ان دونوں کے ہیروز اور قصے کہانیاں ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ اکثر ایک کا ہیرو دوسرے کا ولن ہے۔ یہی حال ان دونوں کی فتوحات اور شکستوں کے حوالے سے ہے۔ اس طرح کی دو قوموں کو ایک واحد ریاست میں اکٹھے رکھنا کہ جس میں عددی اعتبار سے ایک اقلیت میں ہو اور دوسری اکثریت میں سوائے تباہی اور بربادی کے کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔ مسلمان قوم کی کسی بھی تعریف کی رو سے ایک قوم ہیں اور ان کے پاس اپنا وطن، اپنا علاقہ اور اپنی ریاست ہونی چاہیے جہاں مسلمان مکمل طور پر اپنی روحانی، ثقافتی، اقتصادی، سماجی اور سیاسی زندگی کی اس طرح تعمیر کریں جسے ہم سب بہتر سمجھیں اور جو ہمارے تصور سے مطابقت رکھے اور ہمارے لوگوں کی خواہش کے مطابق ہو‘‘۔

قائداعظم کی تقریر ایسی سحر انگیز اور متاثر کن تھی کہ اس جلسے میں انسانوں کے سمندر پر جیسے سکوت طاری ہو گیا ہو۔ لوگوں کی اکثریت انگریزی سے نابلد تھی لیکن سبھی لوگ یہ محسوس کر رہے تھے کہ جیسے یہ ان کے دلوں کی آواز ہے۔

23 مارچ 1940ء کو وہ تاریخی لمحہ آ پہنچا جب آل انڈیا مسلم لیگ نے لاہور کے تاریخی اجتماع میں ہندوستان کے شمال مشرقی اور مغربی زونوں میں جہاں مسلمانوں کی اکثریت تھی، پر مشتمل مسلمانوں کی ایک علیحدہ اور آزاد ریاست کے قیام کا مطالبہ کیا تھا۔ یہ قرارداد لاہور بعد ازاں قرارداد پاکستان کے نام سے مشہور ہوئی۔ اس قرارداد کو قائداعظم اور سکندر حیات نے تیار کیا جب کہ لیاقت علی خان نے 22 مارچ کو اسے سبجیکٹ کمیٹی میں پیش کیا۔ مولانا ظفر علی خان نے اس کا اردو ترجمہ کیا۔ اس قرارداد کو صوبہ بنگال کے وزیر اعلیٰ اے کے فضل الحق نے 23 مارچ کو کھلے اجلاس میں پیش کیا۔ یوپی کے چوہدری خلیق الزماں نے قرارداد کی تائید کی۔ جن اہم مسلم لیگی رہنماؤں نے قرارداد کی حمایت کی ان میں پنجاب سے مولانا ظفر علی خان، ڈاکٹر محمد عالم، سرحد سے سردار اورنگ زیب خان، سندھ سے حاجی سر عبداﷲ ہارون، بلوچستان سے قاضی عیسیٰ، یوپی سے بیگم مولانا محمد علی جوہر، سید ذاکر علی، مولانا عبدالحامد، بہار سے نواب محمد اسماعیل، سی پی سے سید عبدالرؤف شاہ اور مدراس سے عبدل حامد خان شامل تھے۔

یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ اس قرارداد کی حمایت کرتے ہوئے بیگم مولانا محمد علی جوہر نے سب سے پہلے قرارداد پاکستان کا لفظ استعمال کیا۔ ہندوستان کی تقسیم سے قبل ہی آل انڈیا مسلم لیگ نے 1941ء سے 23 مارچ کے دن ہندوستان بھر میں یوم پاکستان منانا شروع کر دیا تھا۔ قرارداد لاہور بعد ازاں قرارداد پاکستان کے نام سے مشہور ہوئی۔ اس قرارداد میں پاکستان کا لفظ شامل نہیں ہوا تھا۔ لفظ پاکستان کے خالق چوہدری رحمت علی تھے۔ 1943ء میں قائداعظم نے اپنی ایک تقریر میں قرارداد لاہور کے لیے پاکستان کا لفظ قبول کرتے ہوئے اسے قرارداد پاکستان قرار دیا۔

بانیٔ پاکستان اور ان کے رفقاء کا پاکستان کے حوالے سے تصور بالکل واضح تھا اور انہوں نے بے شمار مواقع پر کھل کر کہا تھا کہ پاکستان اسلام کے نام پر بنا ہے، اس کے نام پر قائم رہے گا اور پھر اسلام کا ہی نظام یہاں کا طرز حکومت ہو گا۔ ہماری یہ خوش قسمتی تھی کہ مارچ 1949ء میں قرارداد مقاصد بھی منظور ہو گئی جس کے نتیجے میں پاکستان کو اسلام کی راہ پر چلانے کیلئے ایک قاعدے کا تعین ہوا۔ تاریخ گواہ ہے کہ جس روز اس نظریہ اسلام کو کمزور کرنے کے لئے سازشیں اور کام شروع ہوا اسی دن سے پاکستان کی بنیاد کھوکھلی ہونا شروع ہوئی اور پھر ہم نے دیکھا کہ وہ اہل بنگال جو پاکستان بنانے میں پیش پیش تھے اور جن کے ساتھ زمین، رنگ، نسل، زبان، تمدن کا مغربی پاکستان سے کوئی تعلق نہیں تھا، صرف اسلام کو یہاں قائم نہ کرنے کی وجہ سے ہم سے الگ ہوئے کیونکہ ہمیں بلکہ سارے وطن کو باہم جوڑنے والا رشتہ اور تعلق اسلام ہی تھا جو باقی تمام تعلقات اور رشتوں پر آفاقی طور پر بالا تھا۔ یہ رشتہ باقی تمام رشتے ختم کر کے انہیں ملا کر اپنے ماننے والوں کو سب سے مضبوط تعلق میں جوڑ دیتا ہے۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ اس وقت بھی وطن عزیز کو طرح طرح کے لسانی، گروہی اور فرقہ وارانہ تعصبات اور رنگ و علاقہ کی بنیاد پر تقسیم کرنے کی کوشش ہو رہی ہے۔ ان حالات میں ہماری یہ ذمہ داری ہے کہ ہم سب اس ملک کی اصل بنیاد یعنی لاالہ الا اﷲ کی جانب لوٹ جائیں۔ 23 مارچ 1940ء کے روز اور اس کے بعد کے سبھی جلسوں میں سب سے مقبول نظم اور سب سے مقبول نعرہ یہی تھا اور یہی پاکستان کو بنانے میں کلیدی کردار ادا کر چکا تھا۔ ہماری بقا کل بھی اسی میں تھی اور آج بھی اسی میں ہے کہ یہی ہمارا اصل ہے اور ہم نے اس کو آگے بڑھانا ہے۔ پاکستان کا مطلب کیا لاالہ الااﷲ محمد رسول اﷲ کے خلاف جو بھی زبان کھولے یا فلسفہ پیش کرے،سمجھ لیجئے کہ وہ اس ارض پاک کا حقیقی دشمن ہے اور ہم سب نے اسے ناکام بنانا ہے۔
Ali Imran Shaheen
About the Author: Ali Imran Shaheen Read More Articles by Ali Imran Shaheen: 189 Articles with 137093 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.