خطرے میں راوت حکومت
(Falah Uddin Falahi, India)
اترا کھنڈ میں ہریش راوت کی قیادت والی
کانگریس حکومت خطرے میں پڑ گئی ہے۔اس کے 36میں سے 9ممبران اسمبلی نے وزیر
اعلی کے خلاف بغاوت کا بگل بجا دیا ہے۔اس سے حوصلہ پا کر بی جے پی باغی
کانگریس ممبران اسمبلی کی حمایت سے حکومت سازی کا دعوت پیش کیا ہے ۔بی جے
پی لیڈروان نے اس سلسلے میں گورنر سے ملاقات بھی کی ہے ۔روات حکومت کو
برخاست کرنے والوں مں سابق وزیر اعلی اور سنیئر کانگریس رہنما وجے بہو گنا
پیش پیش ہیں۔انہوں نے کھلے عام یہ کہا ہے کہ راوت سرکار بدعنوانی میں ملوث
ہے،اس لئے اسے جلد از جلد بر خاست کیا جائے ،کیونکہ اب تو اس نے اکثریت بھی
کھو دیا ہے۔70رکنی اسمبلی میں سابق وزیر اعلی اور سنیئر کانگریس رہنما وجئے
بہو گنااور وزیر زراعت ہرک سنگھ روات ،دیگر 7ارکان اسمبلی کے ساتھ اپوزیشن
بی جے پی کے سر میں سر ملاتے ہوئے بجٹ پاس کرانے کیلئے ووٹنگ کی مانگ کر دی
اور دھرنے پر بیٹھ گئے ۔حالانکہ اسپیکر گوند سنگھ کنجوال نے ممبران کی ووٹ
تقسیم کی مانگ کو نا منظور کر دیا اور صوتی ووٹ سے بجٹ پاس ہونے کا اعلان
کرتے ہوئے کارروائی 28مارچ تک کیلئے ملتوی کر دی ۔اس سے برہم اپوزیشن رہنما
اور ریاستی بی جے پی صدر اجے بھٹ اور ہرک سنگھ راوت نے کہا کہ وہ گورنر سے
ملاقات کریں گے اور راوت سرکارکی اقلیت میں آنے کی جانکاری دیں گے ۔ایوان
میں شوروغل کے حالات کافی دیر تک رہے اور تقسیم ووٹ کا مطالبہ کر رہے لوگ
راوت سرکار کے خلاف نعرے بازی کرتے ہوئے اسپیکر کے سامنے دھرنے پر بیٹھ
گئے۔بی جے پی ممبران اور راوت مخالف کانگریسی ارکان نے ہاتھ لہراتے ہوئے
فتح کا نشان بناتے ہوئے کہا کہ ان کے ساتھ 35ممبران ہیں اور ہریش راوت
سرکار اقلیت میں آگئی ہے۔انہوں نے کہا کہ ہم گورنر ڈاکٹر کے کے پال سے ملک
کر راوت حکومت کو فوراً بر خاست کرنے کا مطالبہ کریں گے۔آج اسمبلی میں بی
جے پی کے دو ممبران کو چھوڑ کر تمام 26ارکان موجود تھے ،جبکہ کانگریس کے
کریم انصاری بھی موجود نہیں تھے،حالانکہ راوت سرکار کو حمایت دے رہے پرگتی
شیل لوک تانترک مورچہ کے سبھی 6ارکان حاضر تھے ۔کل 67موجود ممبران میں سے
35راوت سرکار کے خلاف تھے ۔وجئے بہو گنا اور ہرک سنگھ راوت کا کہنا ہے کہ
اکثریت کیلئے تو 34ممبران کی ہی ضرورت تھی،جبکہ حکومت کے خلاف 35لوگ ہیں ۔اس
واقعہ کے بعد اسمبلی کے باہر بھی ہنگامہ کے حالا ت پیدا ہو گئے اور کمپلکس
میں موجود ہریش راوت اور ہرک سنگھ راوت کے حامیوں کے درمیان نعرے بازی ہونے
لگی ۔دوسری طرف اسپیکر کنجوال نے کہا کہ انہوں نے بجٹ پر تقسیم ووٹ کا
مطالبہ نا منظور کر دیا ،کیونکہ اس سے پہلے محکمہ جاتی بجٹ صوتی ووٹ سے ہی
پاس ہوئے ۔انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ ایوان میں مطالبہ منظور یا نا
منظور کرنا ان کے خصوصی دائرہ اختیار میں ہے۔ان سب حالات سے تو یہی واضح ہے
کہ ریاستی حکومت میں کس طرح کی بے چینی کا ماحول ہے اور پہلی بار ایسا
دیکھا جا رہا ہے کہ اپوزیشن اس قدر اقتدار کے لئے بے چین ہے کہ وہ حکومت کو
اقلیت میں لانے کے ہر حربے کا استعمال کر رہی ہے اور ابن الوقت ممبران با
آسانی اپنے ضمیر اور اصولوں کا سودا کرنے کیلئے تیار بیٹھے ہیں ۔اس بے
وفائی سے تو یہی ثابت ہوتا ہے کہ اقتدار حاصل کرنے کیلئے جس قدر بھی کوشش
کی جائے وہ جائز ہے ۔اسی طرف ملک کے ابن الوقت لیڈران کی پہچان بھی ہو رہی
ہے کہ ان کی قیمت کیا ہے اور وہ فروخت ہونے کے لئے تیار بیٹھے ہیں ۔ان سب
حالات سے عوام کا اعتماد لیڈران پر سے ختم ہونے کے اثار ہیں چونکہ عوام
جانتی ہے کہ نا جانے کون کس پالے کڑوٹ لے اور کہاں جا کر بیٹھے ۔ |
|