صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں۔
(Muhammad Arshad Qureshi (Arshi), Karachi)
جب یہ وطن 16 دسمبر 1971 کو دو لخت ہوا تو تمام پاکستان سوگ میں ڈوبا ہوا تھا اپنوں کی اناپرستی اور غیروں کی شازشوں سے ملک ٹوٹنے کا شدید رنج تھا اسی میں بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی کا وہ ایک جملہ ہمارے زخموں پر نمک پاشی کررہا تھا جس میں انھوں نے بہت خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ " آج ہم نے نظریہ پاکستان کو خلیج بنگال میں ڈبو دیا " |
|
|
جب یہ وطن 16 دسمبر 1971 کو دو لخت ہوا تو
تمام پاکستان سوگ میں ڈوبا ہوا تھا اپنوں کی اناپرستی اور غیروں کی شازشوں
سے ملک ٹوٹنے کا شدید رنج تھا اسی میں بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی کا وہ
ایک جملہ ہمارے زخموں پر نمک پاشی کررہا تھا جس میں انھوں نے بہت خوشی کا
اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ " آج ہم نے نظریہ پاکستان کو خلیج بنگال میں
ڈبو دیا " وہی سوچ ہر آنے والی بھارتی حکومتوں کی رہی ہے جس میں موجودہ
بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی بھی شامل ہیں جنہوں نے ڈیڑھ سال قبل دورہ
بنگلہ دیش کے موقع پر اسی قسم کی زہر فشانی کی کہ ہم نے پاکستان کو دو لخت
کرنے میں اہم کردار ادا کیا تھا اور اس پر ہمیں فخر ہے تو ان سے اب کیا خیر
کی توقع رکھی جائے ، میں تو اب تک محو حیرت ہوں کے بھارتی وزیر اعظم کے اس
بیان کے بعد انہیں کچھ عرصہ قبل جاتی عمرا میں جو سرخ قالین استقبال کے
ساتھ خوش آمدید کہا گیا س پر تو مجھے بھارتی جاسوس کشمیر سنگھ کی پاکستان
سے باوقار رخصتی یاد آگئی۔
بلوچستان سے بھارتی خفیہ ایجنسی " را" کے جاسوس کل بھوشن یادیو کی گرفتاری
کے بعد بھارتی قلابازیاں واضح دیکھائی دے رہی ہیں پہلا موقف جو بھارت کی
طرف سے سامنے آیا وہ یہ کہ یادیو کا تعلق بھارتی حکومت سے نہیں جب کہ
اعتراف کیا گیا کہ وہ بھارتی باشندہ ہے لیکن بھارتی نیوی سے قبل از وقت
ریٹائیرمنٹ لے چکا ہے ، اسی طرح بھارتی حکومت کے ایک ایم ایل اے نے اپنے
ایک بیان میں فرمایا کہ کل بھوشن یادیو کے بھلا پھسلاکر بلوچستان لے جایا
گیا ہے وہ تو ایک کاروباری آدمی ہے اور اپنے کاروبار کے سلسلے میں دنیا کے
کئی ممالک میں آتا جاتا رہتا ہے ظاہر ہے بھارت یہ تو نہیں بول سکتا ہے کہ
ہاں جی یہ ہمارا جاسوس ہے اور پاکستان توڑنے کی سازشوں پر عمل پیرا تھا ،ایسا
ہی ایک جاسوس کشمیر سنگھ پہلے گرفتار ہوا تھا جو 35 سال پاکستان میں قید
تھا اس کے لیئے بھی بھارت کا کہنا تھا کہ وہ ایک کسان ہے اور غلطی سے
پاکستانی سرحد میں چلا گیا تھا جسے گرفتار کرلیا گیا ، لیکن جب بھارتی
لفاظی جو کہ سراسر جھوٹ پر مبنی تھی اس کی چالوں میں آکر حکومت پاکستان نے
جذبہ خیر سگالی کے تحت اس وقت کے وزیربرائے انسانی حقوق انصار برنی کی
خصوصی دلچسپی کی وجہ سے کشمیر سنگھ کو رہا کرنے کا فیصلہ کیا اور اسے واہگہ
بارڈر کے ذریعے گلے میں پھولوں کا ہار ڈال کر واپس بھارتی سرزمین پر بھیجا
گیا تو چند گھنٹوں بعد ہی کشمیر سنگھ نے چندی گڑھ میں ایک پریس کانفرنس میں
برملا اعتراف کیا وہ پاکستان میں جاسوسی کے مشن پر تھا اور اپنا کام احسن
طریقے سے انجام دے کر کامیاب اور زندہ سلامت واپس آیا ہے ایک بھارتی جاسوس
کو اس وقت جس پروٹوکول کے ساتھ رخصت کیا گیا اس کی رخصتی کی براہ راست
نشریات دیکھائی گئیں وہ وطن عزیز کے ماتھے پر ایک کلنک کا ٹیکہ تھا ۔
آج جب کل بھوشن یادیو گرفتار ہوا ہے تو کئی ثبوتوں کے ساتھ گرفتار ہوا ہے
افسوس اس امر کا بھی ہے کہ وہ ایرانی ویزہ حاصل کرنے کے بعد ایران کے راستے
وطن عزیز میں داخل ہوا اور جیسا کہ اعترافات سامنے آرہے ہیں کہ وہ پاکستان
کو توڑنے کے مشن پر کام کررہا تھا اور کراچی میں اور بلوچستان میں کئی
شرپسندوں اور کلعدم تنظیموں سے رابطے میں تھا اور انہیں فنڈنگ کرتا تھا یہ
اعترافات کافی ہیں پاکستانی حکومت کو اب کسی صورت اس معاملے میں خیرسگالی
کے عنصر کو نہیں لانا چاہیے ذاتی اور کاروباری تعلقات کو بالاطاق رکھ کر
ملکی سلامتی اور وقار کو مد نظر رکھتے ہوئے اقوام متحدہ ، عالمی برادری اور
بل خصوص بھارت اور ایران سے دو ٹوک بات کرنی چاہیے یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی
نہیں کہ بھارت 1965 کی جنگ میں شرمناک شکست کے بعد سے مسلسل پاکستان کے
خلاف سازشیں کررہا ہے آج بھی لاہور میں چائے پینے کی خواہش اس کے سازشی دل
و دماغ میں رچی بسی ہے کیا کہا تھا کہ لاہور جیمخانہ میں شام کی چائے پینی
تھی لیکن ہوا کیا سارا دن بھارتی ہیلی کاپٹر لاشیں اٹھاتے رہے پاکستان
ائیرفورس کے ہیرو ایم ایم عالم بھارتی جہازوں کے ملبے کا ڈھیر لگارہے تھے ،
لیکن لگتا ہے بھارت نے کوئی سبق نہیں سیکھا اور پھر اسی سازشوں میں مصروف
ہے اب چند ضمیر اور وطن فروشوں کو اپنے ساتھ ملا کر پاکستان توڑنے کے خواب
دیکھ رہا ہے ۔
یہاں ایک بات اور قابل افسوس ہے کہ حکومتی سطح ہر بھارتی جاسوس کی گرفتاری
کو بہت زیادہ خاموشی سے لیا جارہا ہے جب کہ بھارتی حکومت نے ایسے واقعات
میں چاہے وہ گجرات کے فسادات ہوں یا ممبئی حملہ سمجھوتہ ایکسپریس حملہ ہو
یا پھر پٹھان کوٹ حملہ بھارت کی انگلی پاکستان کی طرف ہی اٹھتی ہے اور چور
مچائے شور کے مترادف گلے میں ڈھول ڈالے پوری عالمی براردری کے سامنے پیٹتا
رہتا ہے کہ اس میں پاکستان ملوث ہے اور کئی دفعہ تو کئی خوش فہم بھارتیوں
نے یہ تجویز بھی دی کہ پاکستان پر امریکی طرز کے حملے کیئے جائیں ۔پاکستان
کو ہر بھارتی واقع میں ملوث بتانے والے بھارت اور اس کی خفیہ ایجنسی کا
چہرہ کل بھوشن یادیو کی صورت میںبے نقاب ہوگیا ہے اور یہ بات واضح ہوگئی ہے
کہ پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی میں بھارت ملوث ہے اب وقت آگیا کا کہ
پاکستان کو کمزور کرنے والے بیرونی ہاتھوں کو اندرونی ہاتھوں کی طاقت سے
روکنا ہوگا اور وطن کی بقاء اور سلامتی کے لیئے کڑے فیصلے کرنے ہونگے ان
تمام لوگوں کے ساتھ بے رحمی سے نمٹنا ہوگا جو اس پاک وطن کے خلاف سازشوں
میں شامل ہیں ۔
کوئی بعید نہیں کہ لاہور کے گلشن اقبال پارک کے دھماکوں میں بھی بھارت کا
ہی ہاتھ ہو کیونکہ اس سے پہلے بھی فیصل آباد اور لاہور کے بم دھماکوں میں
14 پاکستانیوں کو ہلاک کرنے والا منجیت سنگھ بھی بھارتی جاسوس ہی تھا جسے
بھارتی وزیر اعظم نے دھرتی ماتا کا عظیم بہادر سپوت کا لقب دیتے ہوئے اسے
بھارتی ہیرو قرار دیا تھا بلکہ بھارتی پنجاب اسمبلی میں اس کی پھانسی کے
خلاف قرارداد بھی منظور کی گئی اور پورے ملک میں بھارتی ترنگہ سرنگوں رکھا
گیا سرکاری اعزاز کے ساتھ اس کی آخری رسومات ادا کی گئیں اور ایک جاسوس کے
کارناموں کا اعتراف کرتے ہوئے اس کے دو بیٹوں کو سرکاری ملازمت اور بیوہ کو
تاحیات وظیفے کا اعلان کیا گیا ، سر بجیت سنگھ جیسے جاسوس کو بھارتی ہیرو
قرار دینے والی بھارتی حکومت اب کل بھوشن یادیو سے حکومتی لاتعلق کا اعلان
کررہی ہے ۔
پاکستان کے پاس اب بہت اچھا موقع ہے کہ کل بھوشن یادیو سے ملنے والے تمام
ثبوتوں کو عالمی برادری کے سامنے بھرپور اندا میں پیش کرے اور اپنا مضبوط
موقف اپناتے ہوئے بھارت پر دباؤ بڑھائے کہ ریاستی عناصر کے زریعے وطن مخالف
سرگرمیوں سے باز رہے اور بھارت سے کسی بھی سطح پر بات چیت کے ایجنڈے میں "
را" کے پاکستان میں کردار کو بات چیت کا حصہ رکھے اور ان وطن فروشوں کو بھی
بے نقاب کیا جائے جو کل بھوشن یادیو جیسے وطن دشمنوں کے ہاتھوں کا آلہ کار
بن کر مادر وطن کا چند رپوں کے عوض سودا کرکے اپنے ہم وطنوں کی جانوں سے
کھیلتے ہیں ۔ |
|