غالباَ بہت کم لوگوں کو اس بات کا علم ہوگا
کہ قرارداد لاہور جیسے ہم قرار داد پاکستان کے نام سے جانتے ہیں اس کا اصل
مسودہ اس زمانہ کے پنجاب کے یونینسٹ وزیر اعلی سر سکندر حیات نے تیار کیا
تھا ، یونینسٹ پارٹی اس زمانہ میں مسلم لیگ میں ضم ہوگئی تھی اور سر سکند
حیات خان پنجاب مسلم لیگ کے صدر تھے۔سر سکندر حیات خان نے قرارداد کے اصل
مسودہ میں برصغیر میں ایک مرکزی حکومت کی بنیاد پر عملی طور پر کنفیڈریشن
کی تجویز پیش کی تھی لیکن جب اس مسودہ پر مسلم لیگ کی سبجیکٹ کمیٹی میں غور
کیا گیا تو قائد اعظم محمد علی جناح نے خود اس مسودہ میں مرکزی حکومت کا
ذکر یکسر کاٹ دیا۔سر سکندر حیات اس بات پر سخت ناراض ہوئے اور انہوں نے
11مارچ سن 1941کی پنجاب اسمبلی میں صاف صاف کہا تھا کہ ان کا پاکستان کا
نظریہ جناح صاحب کے نظریہ سے بنیادی طور پر مختلف ہے ۔ ان کا کہنا تھا کہ
وہ ہندوستان میں ایک طرف ہندو راج اور دوسری طرف مسلم راج کی بنیاد پر
تقسیم کے سخت خلاف ہیں اور وہ ایسے بقول ان کے تباہ کن تقسیم کا ڈٹ کر
مقابلہ کریں گے مگر ایسا نہ ہوا سر سکندر حیات دوسرے سال سن 1942میں 50کی
عمر میں انتقال کرگئے یوں پنجاب میں محمد علی جناح کو شدید مخالفت کے اٹھتے
حصار سے نجات مل گئی۔ قائد اعظم محمد علی جناح نے منٹو پارک میں مسلم لیگ
کے افتتاحی اجلاس سے خطاب میں پہلی بار کہا کہ" ہندوستان میں مسئلہ فرقہ
ورانہ نوعیت کا نہیں ہے بلکہ بین الاقوامی ہے یعنی دو قوموں کا مسئلہ۔انہوں
نے کہا ہندوؤں اور مسلمانوں میں فرق اتنا بڑا اور واضح ہے کہ ایک مرکزی
حکومت کے تحت ان کا اتحاد خطرات سے بھرپور ہوگا، اس صورت میں ایک ہی راہ ہے
کہ ان کی علیحدہ مملکتیں ہوں۔"دوسرے دن ان ہی خطوط پر 23مارچ کو اس زمانہ
کے بنگال کے وزیر اعلی مولوی فضل الحق نے قرارداد لاہور پیش کی جس میں کہا
گیا تھا کہ اس وقت تک کوئی آئینی پلان نہ تو قابل عمل ہوگا اور نہ مسلمانوں
کوقبول ہوگا جب تک ایک دوسرے سے ملے ہوئے جغرافیائی یونیوٹوں کی جداگانہ
یونٹوں کی جداگانہ علاقوں میں حد بندی نہ ہو۔ قرار داد میں کہا گیا تھا کہ
ان علاقوں میں جہاں مسلمانوں کی عددی اکثریت ہے جیسے ہندوستان کے شمال
مغربی اور شمال مشرقی علاقے انہیں یکجا کرکے ان میں آزاد مملکتیں قائم کیں
جائیں جن میں شامل یونٹوں کو خود مختیاری اور حاکمیت اعلی حاصل ہو۔"مولوی
فضل الحق کی طرف سے پیش کردہ اس قرار داد کی تائیدیوپی کے مسلم لیگی رہنما
چوہدری خلیق الزماں، پنجاب سے مولانا ظفر علی خان، سرحد سے سردار اورنگ زیب
، سندھ سے سر عبد اﷲ ہارون اور بلوچستان سے قاضی عیسی نے کی ۔قرارداد23مارچ
1940کو اختتامی اجلاس میں منظور کرلی گئی۔اپریل سن1941میں مدراس میں مسلم
لیگ کے اجلاس میں قراداد لاہور کو جماعت کے آئین میں شامل کرلیا گیا اور
اسی کی بنیاد پر پاکستان کی تحریک شروع ہوئی ، لیکن اس وقت بھی ان علاقوں
کی واضح نشاندہی نہیں کی گئی تھی جن پر مشتمل علیحدہ مسلم ممکتوں کا مطالبہ
کیا جارہا تھا۔یہ ایک بڑی تلخ تاریخی حقیقت ہے کہ قرارداد لاہور ، قرارداد
پاکستان نہیں تھی بلکہ مسلم اکثریتی علاقوں پر مشتمل خود مختیارر مملکتیں
تھیں۔ہم ابھی تک 23مارچ کی قرارداد لاہور کو قراداد پاکستان کہتے ہیں جو کہ
ایک تاریخی غلطی ہے، واضح طور پر اس قراداد میں لکھا ہوا ہے اور منطوری بھی
اس بات کی دی گئی تھی کہ مسلم اکثریتی علاقوں پر مشتمل خود مختیار مملکتیں
بنائی جائیں گی۔بالاآخر پہلی بار پاکستان کے مطالبے کیلئے علاقوں کی
نشاندہی 7اپریل سن 1946دلی کی تین روزہ کنونشن میں کی گئی جس میں مرکزی اور
صوبائی اسمبلیو ں کے مسلم لیگی اراکین نے شرکت کی تھی ، اس کنونشن میں
برطانیہ سے آنے والے کیبنٹ مشن کے وفد کے سامنے مسلم لیگ کا مطالبہ پیش
کرنے کیلئے ایک قرار داد منظور کی گئی تھی جس کا مسودہ مسلم لیگ کی مجلس
عاملہ کے دو اراکین چوہدری خلیق الزمان اور حسن اصفہانی نے تیار کیا تھا۔اس
قرارداد میں پاکستان میں شامل کئے جانے والے علاقوں کی نشان دہی کی گئی تھی
، شمال مشرق میں بنگال اور آسام ، شمال مغرب میں پنجاب، سرحد ، سندھ اور
بلوچستان ، تعجب کی بات ہے کہ اس قرارداد میں کشمیر کا ذکر نہیں تھا
حالانکہ شمال مغرب شمال مغرب میں مسلم اکثریت والا علاقہ تھا اور پنجاب سے
جڑا ہوا تھا۔ یہ بات بھی اہم ہے کہ دلی کنونشن کی اس قراداد میں دو مملکتوں
کا ذکر یکسر حذف کردیا گیا تھا جو قرارداد لاہور میں بہت واضح طور پر تھا
اس کی جگہ پاکستان کی واحد مملکت کا مطالبہ پیش کیا گیا تھا۔ اس لحاظ سے 23
مارچ 1940کے دن کو قرار داد پاکستان کہنا تاریخی غلطی ہے ، بلکہ قرار داد
پاکستان کی اصل تاریخ 7اپریل سن1946ہے۔
سن 1946کے دلی کنونشن میں پاکستان کے مطالبہ کی قراداد حسین شہید سہروردی
نے پیش کی اور یوپی کے مسلم لیگی رہنما چوہدری خلیق الزمان نے اس کی تائید
کی تھی قرارداد لاہور پیش کرنے والے مولوی فصل الحق اس کنونیشن میں شریک
نہیں ہوئے کیونکہ انہیں سن1941میں مسلم لیگ سے فارغ کردیاگیا تھا۔دلی
کنونیشن میں بنگال کے رہنما ابو الہاشم نے اس قراداد کی پر زور مخالفت کی
اور یہ دلیل دی کہ یہ قرار دار ، قرارداد لاہور سے بالکل مختلف ہے، جو مسلم
لیگ آئین کا حصہ ہے۔ان کا کہنا تھا کہ قرارداد لاہور میں واضح طور پر دو
مملکتوں کے قیام کا مطالبہ کیا گیا تھا لہذا دلی کنونشن کو مسلم لیگ کی اس
بنیادی قراداد میں ترمیم کا قطعی اختیار نہیں تھا ۔ ابوالہاشم نے جب قائد
اعظم سے ملاقات کی تو قائد اعظم نے اس کی وضاحت کی اس وقت چونکہ برصغیر میں
دو الگ الگ دستور ساز اسمبلیوں کے قیام کی بات ہورہی ہے لہذا دلی کنونشن کی
قراد میں ایک مملکت کا ذکر کیا گیا ہے۔ البتہ اس وقت جب پاکستان کی دستور
ساز اسمبلی آئین مرتب کرے گی تو وہ اس مسئلہ کی حتمی ثالث ہوگی اور اسے دو
علیحدہ مملکتوں کے قیام کے فیصلہ کا پورا اختیار ہوگا۔لیکن پاکستان کی
دستور ساز اسمبلی نے نہ تو قائد اعظم کی زندگی میں اور نہ اس وقت جب سن
1956میں ملک کا پہلا آئین منظور ہو ریا تھا برصغیر میں مسلمانوں کی دو آزاد
اور خود مختیار مملکتوں کے قیام پر غور کیا ۔ 25سال کی سیاسی اتھ پتھل اور
کشمکش اور سن1971میں بنگلہ دیش کی جنگ کی تباہی کے بعد البتہ مسلمانوں کی
دو الگ الگ مملکتیں ابھریں جن کا مطالبہ قراداد لاہور کی صورت میں آج بھی
محفوظ ہے۔قیام پاکستان کے وقت کے رہنماؤں نے مسلم لیگ کی اس اسکیم کا یہ
استدلال دیا کہ ان صوبوں کا جہاں مسلمان اکثریت میں ہیں ایک الگ مرکز ہوگا
اور ان صوبوں کا جہاں اکثریت میں جداگانہ مرکز ہوگا ہنو اکثریت کے مرکز میں
، مسلمان اقلیت میں ہونگے ،ایسے ہی اقلیت میں جیسے آج ہیں۔( یا تمام
ہندوستان میں ایک مرکز کی صورت میں اقلیت میں ہونگے ٰ لیکن اس کے برعکس
مسلمان اکثریت کے صوبوں کے مرکز میں ان کی اکثریت ہوگی اور وہاں کے فیصلے
مسلمان اکثریت کی رائے کے تابع ہونگے۔ لہذا اس صورت میں حالات یوں ہوئے کہ
، ہندو نظام حکومت کی رو سے (۱) اقلیت کے صوبوں میں مسلمان اقلیت میں رہیں
گے (ب) مرکز میں بھی مسلمان اقلیت میں رہیں گے ۔ مسلم لیگ کی اسکیم کی رو
سے ( الف) اقلیت والے صوبوں میں اقلیت میں رہیں گے (ب) اپنے مرکز میں یہ
اکثریت میں ہونگے۔ہندوستان میں مسلمان اقلیت میں ہیں اور اکثریت کی طرف سے
ان پر جو زیاتیاں ہو رہی ہیں ان کی معدافت کا کوئی سامان ان کے پاس نہیں ہے
اگر ملک میں دو الگ الگ مراکز ہوں تو جہاں ہندو اکثریت کے مرکز میں مسلم
اقلیتیں آباد ہونگے وہاں مسلمان اکثریت کے مرکز میں ہندو اقلیتیں ہونگے۔ اس
لئے ہندو اپنی مسلم اقلیت پر دراز دستی کرتے وقت سو مرتبہ سوچے گا ، آج جو
کچھ بھارتی ہندو کر رہا ہے اس ذرا غور سے دیکھیئے تو صاف نظر آجاتا ہے کہ
اس کا بنیا پن کس قدر کرشمہ زا ہے۔اُتم حاتی کا ہندو CASTE HINDUبڑی تھوڑی
تعداد میں ہے اس نے نیچ ذات کے اقوام (اچھوت) کو ہندو بنا کر اپنی تعداد
کروڑوں تک پہنچائی ہے اس تعداد کی حیثیت کے قیام سے قبل اور بعد میں تمام
حقوق و مراعات حاصل کر رکھے ہیں اور ان کو حقوق انسانیت بھی نہیں دیتے۔اگر
آج بھی اچھوت قوم خود کو ہندو قوم سے الگ شمار کرلے تو ہندو مٹھی بھر اقلیت
میں رہ جائیں گے ۔ اگر قیام پاکستان کے وقت جس طرح مسلمانوں نے اپنی
جداگانہ قومیت کا دعوے منوا کر اپنی اکثریت کے علاقہ میں اپنی حکوومت قائم
کرلی اسی طرح یہ اچھوت بھی اپنی جداگانہ حکومت قائم کرسکتے تھے۔بھارتی ہندو
اپنی پوری قوت اس باب پر صرف کرتا رہا کہ کسی طرح اقلیت کے سوبوں کے
مسلمانوں کو مشتعل کرکے اس تجویز کی مخالفت کرادے تاکہ اپنی خانہ ساز
اکثریت کا طلسم نہ توٹنے پائے ، اقلیت والے صوبوں کے مسلمانوں کو یہ کہہ کر
بھڑکایا جاتا کہ تم سے تمھارا وطن چھڑایا جائے گا تمھیں ہجرت کرکے مسلم
اکثریت کے صوبوں میں جانا پڑے گا اور اس میں بڑی مصیبت ہونگی ۔ سر دست اس
وقت مسلم لیگ اسکیم میں تبادلہ آبادی کا سوال ہی نہیں تھا لیکن ہم تو یہ
کہتے ہیں کہ جس ترکِ وطن سے مسلمان کو ڈرایا جاتا ہے سوچئے تو سہی وہ ترک
وطن ہے کیا چیز ! ۔۔۔ |