مصطفی کمال اور انیس قائم خانی کی آمد کیوں ؟پرانی ویڈیوز بھی دیکھئے

متحدہ قومی موومنٹ کے سابق رہنما انیس قائم خانی اور مصطفیٰ کمال کی پرسرار انداز میں جمعرات کو واپسی سے کراچی کی سیاسی فضاء یکسر تبدیل ہوچکی۔خصوصاََ متحدہ قومی موومنٹ کی صفوں میں جہاں پہلے ہی سے غیر یقینی کی کیفیت ہے مزید تشویش پھیل گئی ہے ۔ان دونوں کی واپسی کو متحدہ نے اسٹبلشمنٹ کی مائنس ون فارمولے کی سازش قراردیا اور اس عزم کا اظہار کیا کہ اس طرح کی سازشیں کامیاب نہیں ہونگی ۔ جبکہ مصطفی کمال نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اپنے سابق قائد الطاف حسین اور ایم کیو ایم کے خلاف متعدد الزامات لگاتے ہوئے کہا کہ الطاف حسین را سے فنڈنگ لیتے ہیں انہوں نے تیس سالوں میں قوم کو کچھ نہیں دیا ۔الطاف حسین کو اپنی سیاست کے لیے لاشیں چاہیے ۔الزامات کی بارش کے بعد مصطفی کمال نے اپنی نئی پارٹی بنانے کا اعلان کیا ۔اپنے خطاب کے دوران مصطفی کمال روتے بھی رہے اور آنسوؤں کے درمیان کہا کہ اس شخص کی وجہ سے محب وطن لوگ را کے ایجنٹ قرار پائے ۔

مصطفی کمال اورانیس قائم خانی کی واپسی جس انداز سے ہوئی اس میں اسٹبلشمنٹ یا مقتدر حلقوں کے کردار کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا بلکہ اب تو عام افراد بھی برملہ کہنے لگے ہیں کہ ’’ ارے یار سب ایجنسیوں کا ڈراما ہے ‘‘۔ لیکن حقیقت یہ بھی ہے کہ سب کچھ اﷲ کے نظام مکافات کے تحت ہورہا ہے ۔متحدہ قومی موومنٹ جس انوکھے طرز سیاست کے تحت لوگوں میں خوف پیدا کرکے آگے بڑھتی رہی اور مقبولیت کا پرچار کرتی رہی اب اسی طرح نفرت کا زہر لیکر واپسی کے سفر کی طرف تیزی سے گامزن ہے۔متحدہ کے ساتھ موجود رہنماؤں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ چاہنے کے باوجود اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے میں ہچکچاہٹ سے کام لے رہے ہیں ۔جس دو وجوہات ہیں ایک تو یہ کہ تیس سال سے خوف کی کیفیت میں مبتلا رہ کر زندگی گزارنے کا مشاہدہ کرچکے ہیں اور دوسرا انہیں متحدہ کو چھوڑنے کے بعد اپنی زندگی اور سیاسی مستقبل کی فکر ہے۔

پہلی پریس کانفرنس میں مصطفی کمال نے جو باتیں کہی ان میں شائد کوئی بھی نئی نہیں تھی تاہم پروڈکشن یا اندز پیشکش نیا ہے ۔ یہ باتیں اس سے قبل ایم کیو ایم سے علیحدگی اختیار کرنے والے اور مہاجر قومی موومنٹ کے چیئرمین آفاق احمد اور عامر خان بھی کرچکے ہیں(عامر خان تو دوبارہ الطاف حسین کے سائے میں ہیں) ۔
الطاف حسین سے اور ان کی سیاسی پارٹی سے سب سے پہلے ڈاکٹر ڈاکٹر سلیم حیدر باغی ہوئے جنہوں نے الطاف حسین کی سیاست کی شروعات میں ہی مخالفت کردی تھی ۔

ایم کیو ایم کے دھڑے بندیوں اور مستقبل سے زیادہ اہم سوال یہ ہے کہ الطاف حسین پر اب سے نہیں بلکہ گزشتہ 1978سے بھارتی ایجنٹ اور ملک دشمن کے الزامات لگتے رہے ۔لیکن کبھی بھی سیاسی اور مقتدر قوتوں نے ان الزامات پر تحقیقات نہیں کرائی اور اس کی تہہ تک پہنچنے کی کوشش کی ۔ یہی وجہ ہے کہ ایم کیوایم کی پشت پناہی بلکہ اس کے قائم کرنے کا الزام ایجنسیوں پر ہی لگتا رہا۔ماضی میں ان الزامات پر کان نہیں دھرا گیا کوئی بات نہیں مگر آج جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق ، تحریک انصاف کے عمران خان سمیت متعدد سیاسی اور دیگر شخصیات مصطفی کمال کی جانب سے لگائے گئے الزامات کی عدالتی کمیشن کے ذریعے تحقیقات کا مطالبہ کرچکے ہیں ۔ایسی صورت میں وفاق کی جانب سے خاموشی حیرت کا باعث ہے۔وزیر داخلہ چوہدری نثار کا کہنا ہے کہ مصطفی کمال کی باتیں ایسی نہیں ہیں کہ اس پر تحقیقات کرائی جائے انہوں نے اپنے الزامات کی تحریر نہیں دی اسلیے تحقیقات نہیں کرائی جاسکتی ۔ چوہدری نثار کی معذرت سے اسٹبلشمنٹ کی سیاسی چال کی بو اارہی ہے ۔ایسی صورت میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر یہ چھوٹ اور نظر انداز کا سلسلہ کیوں؟

مصطفی کمال کی اب تک سامنے آنے والی تمام باتوں کا جائزہ لیا جائے تو ایسا تاثر مل رہاہے کہ وہ ترجیحی بنیادوں پر اپنے ساتھیوں اور اپنے ساتھ شامل ہونے والے متوقع لوگوں کے ماضی کو ’’ کلیئر ‘‘ کرانا چاہتے ہیں ۔ انہوں نے پہلے روز ہی انیس قائم خانی اور حماد صدیقی کے بارے میں یہ کہہ دیا کہ ’’ اگر یہ دونوں سانحہ بلدیہ میں ملوث ہوتو سب سے پہلے میں مجھے پھانسی پر لٹکادیا جائے ‘‘۔

لوگوں کو حیرت اس بات پر بھی ہے کہ انیس قائم خانی کو مختلف مقدمات میں ملوث ہونے کے باوجود گرفتار نہیں کیا گیا ۔ ہفتے کو انسداد دہشت گردی کی عدالت نے بھی ڈاکٹر عاصم حسین کے مقدمے کی سماعت کے دوران تفتیشی افسر سے سوال کیا کہ ’’ انیس قائمخانی کہاں ہے انہیں گرفتار کیا جائے ‘‘؟۔

مصطفی کمال کی باتوں سے ایسا لگتا ہے کہ ان کی یاداشت ضائع ہوچکی ہے یا ممکن ہے کہ وہ خود ان باتوں کو دہرانا نہیں چاہتے ۔ان کو یاد ہی نہ ہو کہ کراچی تنظیمی کمیٹی کا ’’ اصل کام ‘‘ کیا تھا؟۔ممکن ہو کہ وہ یہ بھی بھول چکے ہوں کہ یونٹ اور سیکٹر انچارجز کیا کرتے تھے اور کس کو رپورٹ پیش کرتے تھے ؟

مصطفی کمال کو یہ بات تو یاد ہے کہ 19مئی کو الطاف حسین نے خطاب کرتے ہوئے تحریک انصاف کی رہنما زہرا شاہد کے قتل پر احتجاجا َ ہونے والے دھرنوں پر ایم کیو ایم کی جانب سے کوئی جوابی ردعمل نہ کرنے پر صرف کراچی تنظیمی کمیٹی کو کیوں معطل کیا تھا ؟ کیا مزاحمت کرنا صرف کراچی تنظیمی کمیٹی اور حماد صدیقی کی ذمہ داری تھی ؟ حماد صدیقی اسی کمیٹی کے کرتا دھرتا تھے غالباََ ۔ ممکن ہے یہ کمیٹی کارکنوں کو دین کیا ہے اور انسان کو کس طرح جینا چاہیے یہ سیکھا تی ہو ؟

لیکن کیا مصطفی کمال کراچی تنظیمی کمیٹی کو معطل کیے جانے سے ایک دن پہلے رات کو نائن ذیرو پر ہونے والے واقعہ کو بھی بھلا بیٹھے ۔ یہ وہ ہی کمیٹی تھی ناں جس کی شکایات پر الطاف حسین نے رابطہ کمیٹی کے بعض رہنما ؤں کی پٹائی کرنے کو کہا تھا؟ پھر جو کچھ حماد صدیقی اور ان کے ساتھیوں نے کیا وہ تو آج بھی کم ازکم رابطہ کمیٹی کے ان تمام معزز اور متاثرہ رہنماؤں کو بخوبی یاد ہوگا؟

پلاٹوں کی چائنا کٹنگ کا ذکر تو فضول ہے شائد ، بلدیہ ٹاؤن کے سینکڑوں کمرشل اور رفاہی کی منظوری تو ان کے ناظم کراچی رہنے کے دوران ہی نائب ناظمہ نسرین نے دی تھی ؟ہوسکتا ہے کہ ناظم کی حیثیت سے مصطفی کمال کو پلاٹوں کے اسٹیٹس کی تبدیلی اور اس کی منظوری کا اختیار ہی نہ ہو ؟ چنو ماموں کی سرگرمیوں کا تو شائد انہیں بالکل ہی علم نہ ہو ؟

انیس قائم خانی اور مصطفی کمال کا قصور شائد کوئی بھی نہ ہو مگر ان کو ’’ پر تشدد سیاست ‘‘ کا مشاہدہ تو ہوگا ناں ؟اسی کے ڈر سے وہ ملک چھوڑ کر براستہ عبداﷲ شاہ غازی مزار مگر اس کے پچھلے گیٹ سے دبئی چلے گئے تھے ۔ جبکہ ان کے محافظ مزار کے سامنے مین گیٹ کے قریب ان کا ناجانے کب تک انتظار کرتے رہے تھے؟

مصطفی کمال کو یہ یاد رکھنا چاہیے کہ جب وہ یہ کہتے ہیں کہ ’’ الطاف نے قوم کو را کا ایجنٹ بنادیا تو اس میں وہ خودبھی شامل ہیں ۔اس سے بچنے کا واحد راستہ صرف یہی ہے کہ تمام انکشافات تحریری طور پر پاکستان کی عسکری اور سیاسی قوت کو کردیں کیونکہ چوہدری نثار جیسے وفاقی وزراء کو آپ کے الزامات کی تحریر چاہیے ۔(جن اداروں کو تحریر نہیں چاہیے وہ تو شائد جلد ہی اس کا طریقہ واضح کردیں)۔

میں نے مصطفی کمال کو چند سوالات پوچھنے کے لیے فون کیا تھا تاہم انہوں نے جوابی فون تاحال نہیں کیا ۔ اوقات سے بڑے لوگ ویسے بھی اب اخبارات کو لفٹ کم کراتے ہیں کیونکہ انہیں ٹی وی پر آکر کم وقت میں زیادہ فوائد حاصل ہوتے ہیں ؟

مصطفی کمال سے اس لیے بھی ڈر لگتا ہے کہ وہ تو عورتوں کو سرعام ڈاننے اور انہیں غیر تہزیبی رویہ اختیار کرنے کا بھی تجربہ رکھتے ہیں جب وہ کسی عورت کا لحاظ نہیں کرتے تو ہم تو ان ہی جسے مرد ہیں جو اپنی جان بچاکر کسی بھی طرح ملک ہی چھوڑ دینے کو ترجیح دیتے ہیں۔

مصطفی کمال جب سٹی ناظم تھے تو ان کی اخلاقات اور رویہ کا کیا عالم تھا اس کا جائزہ لینے کے لیے درج ذیل ویڈیوز دیکھنا بہت ضروری ہے چلیے چند ویڈیو دیکھتے ہیں یہ ویڈیو سوشل میڈیا پر عام ہے ۔جنہیں آج بھی دیکھا جاسکتا ہے اگر چہ ان کی آواز دبانے کی کوشش کی گئی ہے لیکن دبائی نہیں جاسکی ۔ ویڈیو لنک کو دیکھ کر اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ کیا اس طرح کے ’’ بااخلاق ‘‘ لوگ عوام کی خدمت کرسکتے ہیں اور سیاسی لیڈر انہیں بنایا جاسکتا ہے ؟
https://www.dailymotion.com/video/xxkpym_mustafa-kamal-women-drama-at-abbasi-shaheed_lifestyle

https://www.youtube.com/watch?v=fPGcKGU6j_g
ان ویڈیوز کے بعد قارئیں اور خود مصطفی کمال کو مزید اپنی طاقت کا مظاہرہ اپنی آنکھوں سے دیکھنا ہو اور اپنے جملے سننا ہو تو مذکورہ درج دیل لنک پر کلک کریں
https://www.youtube.com/watch?v=NpUE8guC6Fg
محترم مصطفی کمال میرا گمان ہے کہ اﷲ نے آپ کو ہدایت دیدی ہے تب ہی آپ واپس یہاں آئے ہیں ۔ ۔ ۔ #

۔ تاہم ہمارے حساس اداروں اور مقتدر حلقوں نے ہمیشہ ہی اپنے پرسرار ایجنڈے کی تکمیل کے لیے الطاف حسین اور متحدہ کے خلاف لگائے جانے والے الزامات پر سخت نوٹس کے بجائے خاموشی اختیار کی نتیجے میں صورتحال روز بروز خراب ہوتی رہی ۔متحدہ اپنے بے نتائج مطالبات کے لیے تیس سال کے عرصے میں جتنے احتجاج کیے وہ تمام بلا شبہ ’’ خونی ‘‘ تھے لیکن متحدہ نے ان احتجاج کو ہمیشہ ہی ’’ پرامن ‘‘ قراردیا ۔ کراچی آپریشن کے آغاز کے بعد جب متحدہ اپنے روایتی انداز کی احتجاج کی کال نہیں دے سکی تو اس سلسلے کو ختم کرنے پر مجبور ہوئی ۔ متحدہ کو گزشتہ تیس سال سے قریب سے دیکھنے والے مصطفی کمال اور انیس قائم خانی کی بغاوت نے اور ان کے بیانات نے ایک بار پھر ان الزامات کو دوبارہ زندہ کردیا جو متحدہ پر لگائے جاتے رہیں۔لیکن کیا ہماری سیکیورٹی ایجنسیاں ان تمام الزامات خصوصاََ بھارتی خفیہ ایجنسی را سے فنڈز لیکر کراچی میں حالات خراب کرنے کے الزام کی تحقیقات کرائیں گی ؟ کیا ان الزامات کے تناظر میں الطاف حسین اور ان کے ساتھیوں کے خلاف ملک کے خلاف بغاوت کرنے کے مقدمات درج کرکے کارروائی کی جائے گی ؟یا پھر ایک نئے باب کے تحت ایم کیو ایم کا کوئی نیا چیپٹر کھول دیا جائے گا۔

متحدہ ہو یا کوئی سیاسی جماعت ، الطاف حسین ہو یا کوئی بھی لیڈر ملک کے خلاف باتیں کرنے والوں کی زبانیں ابتدا ء ہی میں کاٹ دی جائیں تو اس قدر معاملات خراب نہیں ہوسکتے ۔

مصطفی کمال اور انیس قائمخانی ہی نہیں بلکہ الطاف کو قریب سے دیکھنے اور جاننے والے یہ بات بخوبی جانتے ہیں کہ ایم کیو ایم کا اصل روپ کیا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ آج ایسے لوگ دنیا میں نہیں ہیں ۔ بہت سے لوگ الطاف سے مخلص ہونے کا منافقانہ کرداتر ادا کنے پر بھی مجبور ہیں ۔

۔تمام متعلقین ہی جانتے ہیں کہ ’’پرامن احتجاج ‘‘ کا مطلب کیا ہوتا تھا۔حیرت تو اس بات پر ہوا کرتی تھی کہ ایک طویل عرصے تک یوم آزادی 14اگست ، یوم دفاع پاکستان ، رمضان المبارک اور عیدالاضحی کے موقع پر اچانک ہی امن و امان کی صورتحال خراب ہوجانے اور درجنوں افراد کی کلنگ کے باوجود کبھی بھی ان واقعات کی باریک بینی سے تحقیقات نہیں کرائی گئی ۔حیرت تو اس بات پر بھی رہی کہ نومبر 2008میں بھارت کے شہر بمبئی میں دہشت گردوں کے حملے کے دوسرے روز ہی کراچی میں قتل و غارت ہنگامہ آرائی شروع ہوجاتی ہے ۔ یہ ہنگامے بنارس چوک سے شروع ہوتے ہیں اور پورے شہر میں پھیل جاتے ہیں ۔ان واقعات میں درجنوں افراد قتل اور کم ازکم 80زخمی ہوجاتے ہیں ۔ان واقعات سے قبل بھارت میں ہونے والے خونی واقعہ پر الطاف حسین اوراس وقت کے صدر آصف زرداری ، الطاف حسین اور رحمان ملک کی ٹیلی فونک گفتگو ہوتی ہے ۔ یہ محض اتفاق تھا یا کچھ اور بمبئی کے واقعہ کے بعد آصف زرداری اور الطاف کے ردعمل کے بعد کراچی میں بنارس سے شروع ہونے والے واقعات رونماء ہوتے ہیں لیکن کیا ان یا ان جیسے واقعات کی اس وقت کی حکومت اور وزیر داخلہ رحمان ملک نے تحقیقات کرائی ہوگی ۔ یہ وہی رحمان ملک کی بات ہورہی ہے جن کے بارے میں مصطفی کمال نے پریس کانفرنس میں بتایا تھا کہ ’’ رحمان ملک نو نو گھنٹے الطاف حسین کے ساتھ رہتے تھے اورپریس ریلیز لکھواتے تھے ‘‘۔

مصطفی کمال کے انکشافات کے بعد اس ضرورت اس بات کی ہے کہ حقائق تک پہنچنے کے لیے ایم کیو ایم میں کے قیام کے بعد سے اس کے تمام رہنماؤں کے قتل ، شہر میں ہونے والے قتل و غارت کے واقعات ، ایم کیو ایم کے تمام مشکوک ر ہنماؤں یونٹ اور سیکٹر انچارجز کے بارے میں وسیع پیمانے پر تحقیقات کی جانی چاہیے ۔اس تحقیقات کے دوران ایم کیو ایم ذیلی شعبوں سے منسلک کارکنوں سے بھی پوچھ گچھ کی جائے ۔اطلاعات ہیں کہ کے ایم سی فائر برگیڈ کے فائر ٹینڈرز اور ایمبولینس کو بھی پہلی بار اگر کسی تنظیم نے غیر قانونی مقاصدکے لیے استعمال کرتی رہی و وہ بھی سابق سٹی ناظم کی سابق تنظیم تھی۔

انتخابات میں دھاندلی تو ان تمام سنگین واقعات اور الزامات کے سامنے بہت معمولی ہیں جو ایم کیو ایم سے جڑے ہوئے ہیں لیکن چونکہ ان ہی انتخابات کے ذریعے ایم کیوایم کو انرجی ملتی رہی اور وقت آنے پر کبھی صولت مرزا تو کبھی مصطفی کمال نے زبانیں کھولی ۔

مصطفی کمال کے ساتھ دبئی سے واپس آنے والے ایم کیو ایم کے سابق ڈپٹی کنوینر انیس قائمخانی کا نام سانحہ بلدیہ ٹاؤن جس میں 259افراد زندہ جل کر ہلاک ہوگئے تھے کی حتمی جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم کی رپورٹ میں سامنے آیا ہے ، کے حوالے سے بھی سوالات گردش کررہے ہیں کہ آخر انہیں ائیرپورٹ پر گرفتار کیوں نہیں کیا گیا ؟بلدیہ ٹاؤن کاواقعہ دنیا کابڑا سانحہ ہے جس میں ایک گارمنٹ فیکٹری کے اندر لگنے والی یا لگائی جانے والی آگ سے ایک ساتھ سینکڑوں افراد جاں بحق ہوگئے تھے۔ستمبر 2012میں رونما ہونے والے اس واقعہ کے ملزمان کو اب تک سزا ہوجانی چاہیے تھی لیکن افسوس کے مصلحتوں میں لپٹی جمہوری حکومت اس اندوہناک سانحہ کے ساتھ مذاق کرتی رہی لیکن چونکہ اب کراچی آپریشن کی بدولت اس واقعہ کی جے آئی ٹی کی رپورٹ منظر عام پر آچکی ہے ۔اس لیے اس میں ملوث تمام ہی افراد کو سزائیں ملنی چاہیے ۔اطلاعات ہیں کہ حکومت سانحہ بلدیہ ٹاؤن اور الطاف حسین کے خلاف مزید کارروائی کے لیے ایک مضبوط گواہ کے طور پر انیس قائمخانی اور مصطفی کمال کو سامنے لیکر آئی ہے ۔اگر یہ بھی سب قانون کے دائرے میں ہورہا ہے تو پھر مثبت اقدام ہے لیکن اس کے مقاصد کچھ اور ہیں تو یہ کراچی اور ملک کے لیے نقصان دہ ہوگا.۔ ضرورت اس بات کی بھی ہے کہ جب تک ایم کیو ایم سے جڑے بڑے سانحات اور واقعات کی مکمل انکوائری نہ ہوجائے اس وقت تک ایم کیو ایم کے کسی باغی کو نئی سیاسی جماعت بنانے یاسیاسی سرگرمیاں شروع کرنے کی بھی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ورنہ لوگ کسی ادارے پر اعتماد نہ کرنے میں حق بجانب ہونگے ۔۔
Muhammad Anwer
About the Author: Muhammad Anwer Read More Articles by Muhammad Anwer: 179 Articles with 166002 views I'm Journalist. .. View More