ڈاکٹر حسن روحانی

 ڈاکٹر حسن روحانی ایران کے ساتویں منتخب صدر ہیں جو اس تحریر کی اشاعت تک شاید پاکستان کا دورہ کر رہے ہوں ان کے ماضی پر اگر نگاہ دوڑائی جائے تو قوموں کے عروج کی خاص بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ انہوں نے کس قدر اور کیسے ترقی کی ہما کو چھوا۔ ایسی قومیں کبھی ایسے لوگوں کو تحفظ نہیں دیتیں جو ہر وقت خیرات اور مدد کیلئے ہاتھ پھیلائے کھڑی رہیں بلکہ اگر کچھ دیتی ہیں تو اس کے پیش نظر ان کا اپنا مفاد ہوتا ہے ایران کے صوبہ Semnan کے شہر Sorkheh میں 12نومبر 1948 کو پیدا ہونے والے موجودہ صدر ڈاکٹر حسن روحانی کا تعلیمی ، سیاسی، دفاعی سفر انتہائی شاندار ہے انہوں نے برطانیہ سے constitutional law میں پی ایچ ڈی کی۔ایم فل لاء بھی گلاسو یونیورسٹی آف برطانیہ سے ہی کیاجبکہ اپنے ملک ایران کی یونیورسٹی آف تہران سے Judicial Law میں گریجو ایشن کی۔ ملک کے صدر منتخب ہونے سے پہلے دفاع سینٹر کے صدر رہے ہیں، سیاسی و سماجی کمیٹی آف اسمبلی آف ایکسپرٹ کے ہیڈ کا عہدہ بھی آپ کے پاس رہا ہے ۔دی سپریم نیشنل سیکیورٹی کونسل کے بحیثیت سپریم لیڈر نمائندگی بھی کی یہی نہیں آپ 17 کتب کی مصنف بھی ہیں جن میں 13 فارسی زبان ،2 انگریزی، 2 عربی زبان میں ہیں تما م کتب قانون ، سیاست، معاشرت، جغرافیہ، دفاع، کرنسی کے امور کا مکمل احاطہ کئے ہوئے ہیں جن کے نام لکھنا بھی قرین انصاف ہو گا۔
Islamic Revolution, Roots and challenges.june 1997
Fundaments of Political Thoughts of Imam khomeini July 1999
Memoris of Dr. Hassan Rouhani vol.1 the Islamic Revolution
Introduction of Islamic countries november 2008
Islamic political thoughts vol 2 foriegn policy December 2009
Islamic Polictical thoughts vol 3 cultural and social issues December 2009
National security and economic system of Iran august 2010
National Security and nuclear diplomacy of iran 2011
An introductiion to the history of shia Imams March 2012
National security and foriegn policy 2013
National security and enviornment 2013
Islamic lagislative power may 1994
The flexibility of shariah,Islamic law april 1996
Comments of fiqh,(Islamic jurisprudence)
درج بالا کتب کا رائٹر ہمارے ملک کے دو روزہ دورہ پر آ رہا ہے جس نے اپنے ملک کے بقاء کیلئے طویل جدوجہد کی ہے ہمارے اخبارات ملک کے وزراء کے ایسے بیانات سے بھرے پڑے ہیں جن کا کوئی سر پیر نہیں ۔ایران نے امریکہ جیسی حکومت کے ناک میں دم کئے رکھا، سالہا سال کی معاشی پابندیاں برداشت کیں لیکن اپنی قوم کا سر جھکنے نہیں دیا ڈاکٹر حسن روحانی کے بارے میں اتنی لمبی چوڑی تفصیل میں جانے کا مطلب صرف اور صرف پاکستانی عوام تک یہ پیغام پہنچانا مقصود ہے کہ پاکستان سے ہٹ کر دیگر ممالک اپنے سربراہ کیسے کیسے لوگوں کو منتخب کرتے ہیں اور پھر وہ سربراہ کیسے اپنے ملک کی بقاء کی جنگ لڑتے ہیں اور کس طرح اپنے ملک کو بحرانوں سے نکالتے ہیں لیکن افسوس کہ ہم نے ابھی تک دیگر قوموں کو دیکھ کر بھی اپنا قبلہ درست نہیں کیا بار بار انہی لوگوں کو آگے لایا گیا جنہوں نے ملک کے ٹکڑے کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی،جنہوں نے صرف اپنے ہی خاندانوں کو مضبوط کیا، جنہوں نے صرف اپنے کاروبار کو توسیع دینے کیلئے سیاست کا رخ کیا،جنہوں نے صرف عوام کو بے وقوف بنانے کیلئے اپنی اپنی ٹرم خود منتخب رکھی اور دوسرے نے اس کار خیر میں اس کا بھرپور ساتھ دیا۔کیسے کیسے ہمارے وزیر، مشیر، صدر ،وزیراعظٖم منتخب ہو چکے ہیں کہ بیرونی دنیا بھی حیران ہو جاتی ہے۔ اندھوں کانوں میں وزارتیں ایسی بانٹیں جاتی ہیں جیسے ریوڑیاں ، اور ان کا ان وزارتوں سے دور دور تک کا تعلق نہیں ہوتا۔ میں سوچ رہا تھا کہ آخر ہماری کابینہ میں ایسا کونسا وزیر ہے جو ان کے پائے اور سٹیٹس کا ہو ،صدر ،وزیر اعظم، وزرائے اعلی ٰ، گورنرز۔لیکن دور دور تک ان کا ہم پلہ کوئی نہیں ۔ایسے میں ہم ان سے کیا ڈیمانڈ کر سکتے ہیں بلکہ ہمیں ان کی سوچ اور ڈیمانڈ پر چلنا پڑے گا کیونکہ ہم نے میرٹ کو تو گھر کی لونڈی بنا رکھا ہے اور جب میرٹ انصاف گھر کی لونڈی ہو تو ایسی حکومتیں بیرونی ممالک کے سربراہان کے آگے سینہ تان کر نہیں بلکہ سر جھکا کر بات کرتی ہیں اور تحفہ کی خیرات پر نظر رکھتی ہیں۔ہمارے لئے کھلا پیغام ہے کہ اب بھی وقت ہے اپنی صفوں کو درست کر لیں آج ایسے ملک کا سربراہ ہمارے ہاں مہمان بننے آ رہا ہے جس کو جھکانے کیلئے امریکہ سمیت یورپی یونین نے ایڑی چوٹی کا زور لگایا لیکن آخر کار خود ہی امریکہ بہادر کو ہار ماننا پڑی اور ایران کامیاب سفارتکاری کے پیش نظر بیرونی دنیا کو واضح کرنے میں کامیاب رہا ہے کہ غلط ایران نہیں بلکہ امریکہ ہے اور ایسا گناہ خواہ مخواہ ہمارے سر تھوپا جا رہا ہے جو ہم نے کیا ہی نہیں ، کتنے افسوس کی بات ہے اپنے پر پابندیاں ہونے کے با وجود پاک ایران گیس پائپ لائن کا اپنے حصہ کا انہوں نے کام مکمل کیا اور ہماری حد کے اندر کا کام مکمل کرنے کیلئے ہمیں قرض کی بھی پیشکش کی لیکن ہماری قیادت میں ہمت نہیں تھی کہ وہ امریکہ کی مخالفت مول لے سکے۔ اب کس منہ سے اس کا سامنا کریگی ہماری کابینہ۔
 
Dr Khalid Hussain
About the Author: Dr Khalid Hussain Read More Articles by Dr Khalid Hussain: 20 Articles with 13400 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.