اب بھی وقت ہے زاہد ترمیم زہد کر لے

ملک میں روزآنہ ایک نئی نظریاتی کش مکش شروع ہوجاتی ہے جو اچانک نہیں ہوتی بلکہ ایک سوچی سمجھی حکمت عملی کے تحت ایک مخصوص وقت میں ایک مخصوص طریقہ کار کے تحت چند مخصوص نتائج حاصل کرنے کی غرض سے ہوتی ہے۔اب نیا تنازعہ ”بھارت ماتا کی جے“ کے عنوان سے شروع ہوا ہے۔شمالی ہندوستان کی دو اور جنوبی ہندوستان کی تین ریاستی اسمبلیوں کے انتخابات اگلے مہینے ہی ہونے جارہے ہیں۔ان ریاستوں میں سے کسی میں بھی بی جے پی اپنا حلقہ اثر کبھی نہیں بڑھا سکی۔حکومت سازی کرنا تو بہت دور کی بات ہے۔لیکن اب مرکز میں ایک مستحکم سرکار بنالینے کے بعد بی جے پی ملک کی تمام ریاستوں میں خود کو مضبوط کرنا چاہتی ہے۔کانگریس مکت بھارت کا نعرہ شاید اسی لئے دیا گیا ہے اور پارٹی کی حکمت عملی بھی اسی سمت میں رواں دکھائی دیتی ہے۔اروناچل پردیش میں کانگریسی ممبران اسمبلی کی خریدوفروخت کے ذریعے زبردستی وہاں کی کانگریسی حکومت کو برخاست کرنا اور پھر وہی ڈرامہ اترانچل میں دوہرانا اسی جانب اشارہ کرتا ہے ۔یہ حیران کن عمل ہے کہ بہت پرانے پرانے اور خاندانی قسم کے لیڈر بھی آج کل اسمبلی کی رکنیت تک سے استعفیٰ دے کر کھلے عام بی جے پی میں شریک ہورہے ہےں یا اعلانیہ بی جے پی کی حمایت کررہے ہیں۔اس کی تازہ ترین مثال اتراکھنڈ کے سابق وزیر اعلیٰ اور ہیموتی نندن بہوگنا جیسے معروف کانگریسی رہنما کے بیٹے وجے بہوگنا ہیں جنہوں نے حال ہی میں کانگریس سے بغاوت کی ہے۔اسی طرح آسام میں بھی حال ہی میں نو کانگریسی ایم ایل اے پارٹی چھوڑ کر بی جے پی میں شریک ہوگئے اور وہاں بنگلہ دیشی شہریت کے نام پر اٹھے ہوئے طوفان کا فائدہ اٹھا کر بی جے پی تیزی سے اپنا حلقہ اثر بڑھا رہی ہے۔ گذشتہ لوک سبھا انتخاب میں بی جے پی پہلی بار سات حلقوں میں کامیاب ہوئی تھی اب اے جی پی اور بوڈو پارٹی کے ساتھ ریاست میں حکومت سازی کی جانب گامزن ہے۔ اسی طرح مغربی بنگال میں بھی کبھی مالدہ فساد کے ذریعے ،کبھی دہشت گردی کے نام پر اس کا حلقہ اثر بڑھتا ہی جارہا ہے۔خود ممتا بنرجی کی سیاسی پالیساں بھی اس کے لئے کم ذمہ دار نہیں ہےں۔ اسی طرح تمل ناڈ میں جے للتا کے سہارے بی جے پی خود کو طاقت ور بنانے میں مصروف ہے کیرل میں بھی سی پی ایم اور آر ایس ایس کے ورکروں کے پے در پے قتل کے ذریعے ماحول میں فرقہ واریت کا رنگ گھول کر بی جے پی پیر جمانے کی کوشش کررہی ہے۔ واضح رہے کہ پچھلے اسمبلی انتخاب میں پارٹی اسمبلی میں اپنا کھاتہ کھول چکی ہے۔ اس سارے ریاستی منظر نامے میں مرکزی سرکار مرکزی سطح پر فرقہ وارانہ تنازعات کو چھیڑ کرریاستوں کو یہی منافرت انگیز پیغام پہنچا کر اپنے اقتدار کا راستہ صاف کرنا چاہتی ہے۔اس پس منظر کو ذہن میں رکھتے ہوئے بھارت ماتا کی جے کے تنازعے پر غور کیا جانا چاہیے۔ اور اس کے تاریخی پس منظر کو بھی ملحوظ رکھنا چاہیے۔

آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت نے ایک سوچی سمجھی حکمت کے تحت ایک بیان جاری کرکے کہا کہ ملک کے تمام اسکولوں میں دیش بھگتی کو فروغ دینے کے خاطر اس قسم کے نعروں کی تعلیم دینی چاہیے۔عین ممکن تھا کہ ملک کا میڈیا اس بیان کا کوئی خاص نوٹس نہ لیتا اور اس بیان پر کوئی بحث و تبصرہ نہ کیا جاتا جس طرح موہن بھاگوت کے زیرویشن وغیرہ سے متعلق بیانات پر ملک میں کوئی زیادہ بحث نہیں ہوئی۔ اسی طرح ممکن تھا کہ یہ بیان بھی خاموشی سے گزر جاتامگر بھلا ہو اسددالدین اویسی صاحب کا کہ انہوں نے بیان کے در عمل میں اپنا بیان دینا بے حد ضروری سمجھتے ہوئے یہ متنازعہ بیان دے ڈالا کہ اگر کوئی ان کی گردن پر بندوق رکھ کر یہ نعرہ لگانے کو کہے تو وہ نہیں لگائیںگے۔ اویسی کے اسی بیان نے آر ایس ایس سربراہ کے بیان کو اہم بنادیااور اگلے ہی دن مہاراشٹر اسمبلی میں ہنگامہ بپا ہوگیا اور بی جے پی کے ایک ایم ایل اے نے مجلس کے ایم ایل اے کو یہ نعرہ لگانے پر مجبور کرنے کی کوشش کی ۔ ان کے انکار پر کانگریس اور این سی پی جیسی سیکولر پارٹیوں کے ممبران بھی بی جے پی اور شیو سینا کے ساتھ آکھڑے ہوئے اور غیر قانونی طورپر مجلس کے ایم اے کی رکنیت کو معطل کردیا گیا اور پورے ملک میں ایک ہیجان انگیز بحث چھیڑ دی گئی جس میں مسلمانوں کو الگ تھلگ کرنے کی کوشش بھی کی گئی۔خود مسلمانوں کے بیشتر طبقات اس معاملے میں کنفیوژن کا شکار دکھا ئی دئیے خاص کر نئی نسل کے لوگ جو ان بحثوں کی واقفیت نہیں رکھتے اس معاملے میں کوئی صحیح فیصلہ نہیں کرسکے۔ اور مسلمانوں کی ایک کانفرنس میںبھی یہ نعرہ لگایا گیا۔بڑے بڑے سیکولر اور غیر جانب دار لوگ بھی حیرت انگیز طورپر بھارت ماتا کی جے کے حق میں ہی دکھائی دئیے۔بس اس شرط کے ساتھ کہ یہ نعرہ لگوانے میں زبردستی نہ کی جائے۔

وندے ماترم اور بھارت ماتا کی جے جیسے تنازعات ملک کے لئے نئے نہیں ہےں۔بلکہ ہندواحیاءپرستی کی تحریک کے آغاز کے ساتھ ساتھ ان تنازعات نے بھی جنم لے لیا تھا۔1830میں برہمو سماج کی تشکیل کے ساتھ ہندو نشاة ثانیہ کے دور کا آغاز ہوتا ہے۔برہمو سماج کے لیڈروں نے ہمیشہ مسلم حکومت سے نجات کے خاطر انگیزوں کو ہتھیار بنانے کی پالیسی پر عمل کیا۔اور یہ چاہا کہ سات سو سال سے ملک کی جڑوں میںپیوست مسلم دور حکومت سے نجات کے خاطر سات سمندر پار کے عیسائیوں کو قبول کرلیا جائے تاکہ عیسائی ان مسلمان کو ختم کرسکیںاور پھر ایک ہندو قوم پرست تحریک کے ذریعے انگریزوں سے نجات حاصل کرکے ملک کو ہندوراشٹر بنادیا جائے۔چنانچہ 1857کے غدر میں قابل ذکر ہندو قیادت کی کوئی شمولیت نہیں ہوئی۔اس غدر کی ناکامی کے فوراً بعد ہندو قوم پرست لیڈران انگیزوں کے قریب تر آتے چلے گئے۔1882میں بکنگھم چند چٹرجی کی کتاب آنند مٹھ اسی تناظر میں لکھی گئی جس میں وندے ماترم کی نظم بھی شامل تھی۔ٹھیک اسی وقت 1880میں کانگریس کا قیام بھی عمل میں آیا جس کی قیادت برہمو سماج کے پروردہ اذہان کے ہاتھوں میں تھی۔جنہوں نے اعلیٰ طبقات ہندوﺅں اور انگریزوں کی قربت کے ذریعے برٹش حکومت کو ملک میں مضبوطی کے ساتھ نافذ کرنے کی کوشش کی۔اس پوری تحریک کے نتیجے میں ہندو سخت گیر تحریکوں کا قیام بھی عمل میں آتا چلا گیا۔1905میں ہندو مہاسبھا کے قیام کے ساتھ ہی وندے ماترم گانے اور بھارت ماتا کی جے کے نعرے لگانے پر اصرار بڑھتا چلا گیا۔بنگال کی دیوی درگا کی صورت میں بھارت ماتا کی تصویر کشی کی گئی اور ملک کو دیوی کی علامت کے طورپر پیش کیا گیااور دیوی کی وندنا میں ہی وندے ماترم گانے کو دیش بھگتی قرار دیا گیا۔مسلمانوں نے اس کی شدید مخالفت کی اور کسی بھی قیمت پر ان دونوں علامتوں کو قبول کرنے سے انکار کردیا۔ واضح رہے کہ مولانا آزاد ، رفیع احمد قدوائی ، حکیم اجمل خان جیسے کانگریس صدور نے بھی کبھی نہ ان علامات کی تائید کی اور نہ ہی خود کبھی انہیںاختیار کیا۔ تو کیا اب آزاد ہندوستان کی کانگریس ان قائدین کو غدار وطن قرار دینے کی جر ات کر سکتی ہے ؟ کانگریس نے مسلمانوں کے اس ارادے کو بھانپ کر ان دونوں علامتوں کا انکار تو نہیں کیا لیکن سمجھوتہ ضرور کرلیا اور آزادی کے بعد وندے ماترم کو قومی ترانہ تو نہیں بنایا مگر قومی گیت ضرور قرار دیا۔ اسی طرح بھارت ماتا کی جے کو بھی اختیار ی ہی رکھا گیا اور اس پر کوئی بحث نہیں کی گئی۔لیکن سچ یہ ہے اور ہندوستانی جنگ آزادی کی تاریخ اس پر شاہد ہے کہ یہ دونوں علامتیں ایک سیکولر جمہوری بھارت کی علامتیں کبھی نہیں رہیں۔ اس کے برعکس انہیں ہندو قوم پرستی کی علامت کے طورپر دیکھا جاتا رہا۔

سخت گیر ہندو عناصر کی کامیابی یہ ہے کہ آج 2016کے زمانے میں ہندو قوم پرستی کی ان علامتوں پر جب بحث ہوتی ہے تو پورا ملک ایک طرف کھڑا ہوجاتا ہے اور خود مسلمان بھی تاریخی پس منظر سے نابلد ان علامات کو قبول کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے۔مثال کے طورپر اناہزارے کی تحریک اور اروند کجریوال کی ریلیوں میں بڑی تعداد میں موجود مسلمانوں کو بھی بھارت ماتا کی جے اور وندے ماترم گاتے دیکھا جاتا رہا ہے۔ پارلیامنٹ میں اجلاس کی کارروائی ختم ہوجانے کے بعد مسلمانوں سمیت تمام اراکین پارلیامنٹ وندے ماترم گانے کے لئے کھڑے ہوتے ہےں۔2014لوک سبھا انتخابات سے ٹھیک پہلے ایک مرتبہ شفیق الرحمان برق نے سیاسی منفعت کی خاطراس پر اعتراض کرتے ہوئے لوک سبھا سے واک آﺅٹ کیا تھا۔لیکن اس سے قبل یہی برق صاحب خود بھی وندے ماترم کے گانے پر کھڑے ہوئے دیکھے جاتے رہے ہےں۔ان حالات کے پیش نظر عام سیاسی تجزیہ نگار اس نتیجے پر پہنچ جاتے ہےں کہ مسلمانوں کو دراصل ان علامتوں پر کوئی اصولی اعتراض نہیں ہے بلکہ آر ایس ایس کے تحکمانہ انداز اور ان سے دشمنی کی وجہ سے مسلمان اسے قبول نہیں کرتے ۔ انا ہزارے جیسے دوسرے لیڈران کے ساتھ انہیں اس گانے اور نعرے پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔دراصل یہ تجزیہ غلط ہے ۔ لیکن یہ بھی سچ ہے کہ یہ تجزیہ مسلمانوں کی ہی لاعلمی ،بے عملی اور سیاسی مفادات کے لالچ کا شاخسانہ ہے۔ جس نے بلآخر ہندو قوم پرستی کی تمام علامتوں کو مسلمانوں سمیت ملک کے ہر طبقے میں رائج کردیا ہے اور اب ان بحثوں کو فضول سمجھا جانے لگا ہے حالانکہ ایک سیکولر جمہوریت میں ان مذہبی نعروں کا دستور ی اور اعتقادی طورپر کوئی جواز نہیں ہے لیکن جاوید اختر جیسے نام نہاد مسلمان ایوان میں زور زور سے یہ نعرے لگا کر مسلمانوں کی اصولی آوازوں کو کمزور کرتے رہے ہےں۔صاف ظاہر ہے کہ ہندو راشٹر ایک نظریے کے طورپر کامیابی کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے اور اب یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ اگر مہاراشٹر اسمبلی جیسے دستوری ادارے میں انتہائی غیر دستوری طورپر تمام پارٹیاں مل کر اس علامت کا انکار کرنے والے رکن اسمبلی کو زبردستی معطل کرسکتی ہےں تو کل ہندو قوم پرستی کو اصل دیش بھگتی سمجھنے والا کوئی بھی شخص گلی ،کوچوں ،بازاروں میں ،ریلوں اور بسوں میں روک کر کسی بھی شخص کو بھارت ماتا کی جے اور وندے ماترم گانے پر زبردستی مجبور کرسکتا ہے اور انکار کی صورت میں اس کے خلاف کسی بھی حد تک جاسکتا ہے۔ابھی گزشتہ ہفتے جھارکھنڈ میں ”گﺅرکھشا سمتی“ کے ارکان کے ذریعے ایک بار پھر گائے کے تحفظ کے نام پر دو مسلمانوں کا قتل اسی جانب اشارہ کررہا ہے۔ اور اس پر میڈیا کی بحثوں میں حصہ لینے والے ہندوتوا وادی نمائندوں نے بھی یہ واضح کیا ہے کہ وہ دستور و قانون کی پرواہ کئے بغیر ان علامتوں پر اصرار کرنے کئے کسی بھی حد تک جانے سے گریز نہیں کریں گے۔ مسلمانوں کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ آر ایس ایس اور بی جے پی کے کانگریس مکت نعرے اور خود کانگریس پارٹی کے ارکان کا استعفیٰ دے دے کے بی جے پی میں شریک ہونا اور اسمبلیوں میں بی جے پی کی حمایت کھلے عام کرنا اور ہندو قوم پرستی کی علامتوں کو دیش بھگتی قرار دینا ملک کی سیاست کو کس سمت میں لے جارہا ہے۔ ملک کی سیاست کے بدلے ہوے خطوط اب واضح ہونے لگے ہیں ۔ کثیر جماعتی جمہوریت اب امریکہ کی طرح دو جماعتی جمہوریت کی جانب مراجعت کر چکی ہے۔ اور سیاسی نظرئیے کو طور پر اب ایک ہی نظریہ باقی رہ گیا ہے۔ کمیونسٹ نظریہ بہرحال اپنی شکست تسلیم کر چکا ہے ۔ ملکی سطح پر کانگریس اور بی جے پی کے سوا کوئی پارٹی نہیں آ رہی ۔ کانگریس مکت بھارت کی تحریک بالآخر مرکزی سطح پر ایک اور ریاستی سطح پر چند پارٹیوں کے وجود کو ہی باقی رکھے گی مگر نظریاتی طور پر ان میں بھی کوئی فرق نہ ہوگا۔ ان حالات میں ملک کے سیکولر دستور کا کیا حشر ہونے والا ہے اسے سمجھا جا سکتا ہے۔یہ طے کرنے کا وقت اب آچکا ہے کہ مسلمان ملک کو ہندو راشٹر کے طورپر قبول کرنے کے لئے ذہنی طورپر آمادہ ہوچکے ہیں یا اسے بحیثیت مجبوری قبول کرلیںگے۔ یا پھر ملک کسی انقلاب سے بر سر پیکار ہونے کے لئے پر تول رہا ہے۔
Dr Tasleem Ahmed Rehmani
About the Author: Dr Tasleem Ahmed Rehmani Read More Articles by Dr Tasleem Ahmed Rehmani: 41 Articles with 24431 views I m Chief Editor of Mission Urdu Weekly New Delhi, President Muslim Political Council of India lives in Delhi a political strategist and profound writ.. View More