بیف پر پابندی عائد کرنے کا مقصد
(Rameez Ahmad Taquee, Delhi)
’’کثرت میں وحدت‘‘ ہندوستان کی شان ہے اور
عالمِ جمہوریت میں یہی اس کی بڑی پہچان ہے،مگر کچھ سالوں سے یہ الفاظ صرف
جلسے جلوس اور انتخابی ریلیوں کا حصہ بن کر رہ گئے ہیں ، ہندوستان میں جتنی
بھی سیاسی پارٹیاں ہیں سب کا سب اسی کا پہاڑاپڑھتی ہیں اور اپنے آپ کو سب
سے زیادہ سیکولر ثابت کرنے میں کسی بھی قسم کی کوئی کسر باقی نہیں چھوڑتیں
،مگر سیکولرزم کیا کیا ہے کوئی بھی اس کے سین سے بھی واقف نہیں ہے، چنانچہ
اب تک کی ہندوستانی سیاست میں جن دو بڑی پارٹیوں نے ملک پر حکومت کی ہے،ان
میں توایک کانگریس ہے، جو آزادی کے بعد سے لے کر اب تک مسلمانوں اور
اقلیتوں کے حق میں مارِ آستین ثابت ہوئی اور موقعہ بموقعہ ان کو ڈستی بھی
رہی ،ابھی کوئی قریب ڈیڑھ سال قبل ہندوستان کے افقِ سیاست پر اس کے گردش کا
آفتاب غروب ہوا، دوسری پارٹی بی جے پی ہے جو درحقیقت دو ملک مخالف تنظیم’’
آر ایس ایس‘‘ اور’’ بجرنگ دل‘‘ کی آلۂ کار ہے، ان دونوں پارٹیوں کے کرتوت
اور کارنامے تقریباً یکساں ہیں، کانگریس نے خفیہ طور پر مسلمانوں کو اپنا
ہدف بنایا، تو بی جے پی نے ببانگِ دہل مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے خون کو
جائز سمجھ کر یہاں کی مٹی کو ان کے لہو سے لالہ زار کیا،چنانچہ ہندوستان
میں بین المذاہب کشت وخون کی ساری تاریخیں انہی کے ناپاک قلم کی رقم کی
ہوئی ہیں ۔ آزادی کے بعد سے یہ دوسرا موقعہ ہے ، جب اس منحوس پارٹی نے
جمہوریت کا نعرہ لگاکر حکومت کی کرسی حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی ،گذشتہ تین
دہائیوں تک ہندوستان کی عوام نے اس کے اپنے پہلے پانچ سالہ دورِ حکومت کی
ناکامیوں کے سبب ہمیشہ کی طرح ان کوحکومت کرنے سے باز رکھاتھا، مگر کانگریس
کی شومیِ قسمت اور اس کی ناعاقبت اندیشیوں نے ہندوستان کی سیاست میں پھرسے
اس کو پنپنے کا موقعہ دیا جس کا مدتوں سے اس کو تلاش تھی اورپھر جونہی موقع
ہاتھ لگا، اس نے اپنی تمام تدابیر اور چتورائیوں کو بروئے کار لاکر اپنی
اسی مسلم مخالف صورت کے ساتھ اپنے لیے ہندوستان کی سیاست میں میدان
ہموارکیا اور اس کے لیے اکھاڑے میں اس نے اس شخص کواتارا جس کا ساراوجود
پہلے ہی سے ہزاروں بے گناہ گجراتی مسلمانوں کے خون میں ڈوبا ہوا تھا، تاکہ
اس سے ہندوؤں کے ووٹ کو متحد کرنے میں کامیاب ہوسکے، پھراس نے ترقی ، سب کا
ساتھ سب کا وکاس کا جھوٹا ڈرامہ پیش کیا اورہندوستان کی عوام سے کالے دھن
کی واپسی کاڈ ھونگ رچا، پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں تشہیر ی مہم چھیڑ کر
لوگوں کو خوب سبز باغ دکھایا، لوگ بھی اس کے وعدے کے بھول بھلیامیں کھو
گئے، اس کی زبانی نشتر نے تو اپنا کام کردیا ، مگر حکومت ملنے کے بعد مسلسل
بڑھتی مہنگائی اور کرپشن کو قابو پانا اس کے لیے مشکل ہوگیا، جس کا اس نے
یہاں کی عوام سے وعدہ کیا تھا، تو’’ کھسیانی بلی کھمبا نوچے‘‘ ، لوگوں کی
توجہات کو اس طرف سے پھیرنے کے لیے اپنی اسی پرانی چال ’’مذہب مخالف‘‘ کو
آلہ بنایااور ظاہر ہے اس میں کسی نہ کسی کوتو بلی کا بکرا بننا ہی تھا ، تو
ہمیشہ کی طرح اس بار بھی اس نے مسلمانوں کو ہی بلی کا بکرہ بنایا، چنانچہ
کہیں فسادات کرواکر، تو کہیں سابق مسلم مغل حکمراں کا نام تبدیل کرواکر، تو
کہیں گؤکشی پر پابندی عائد کرکے اوربقرعید کے موقعہ پر پورے ملک میں اس کی
چھٹیاں ملتوی کرکے لوگوں کی توجہات مبذول کرانے کے لیے اس نے اس طرح کی
گندی اور ناپاک سیاست کو ہوا دیا، ان کی اور ان کی پارٹی کی حب الوطنی بھی
بڑی عجیب ہے کہ ابھی وقت تھاکہ ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی اور بدعنوانی
پرلگام لگایا جائے ،کئی صدیوں سے جس ملک کا چہرہ بین المذاہب اختلافات کی
آگ میں جھلس کرمسخ ہوگیا تھا، اس پر اخوت بھائی چارگی اور یگانگت کا مرہم
لگا کر اس کا حسن دوبالا کیا جائے، مگرافسوس کہ انہوں نے اس کے بجائے ملک
کے مختلف صوبوں میں بڑے کے ذبیحہ وقربانی پر پابندی عائد کرکے عام لوگ اور
میڈیا کی توجہ کو اس طرف مبذول کرادیا، تاکہ لوگ اس شور غوغا میں ان کے
وعدے کو بھول جائیں ، حالانکہ گائے کی قربانی یا اس کا ذبیحہ کوئی اتنا بڑا
معاملہ نہیں ہے کہ اس سے مسلمانوں کے عقائد پرضرب پڑے ،یا اسلام میں صرف
گائے ہی کی قربانی فرض ہے!بلکہ صاحبِ استطاعت مسلمان ہر مشروع جانور کی
قربانی کرسکتا ہے اور کرتا بھی ہے، اگر یہ ضروری ہوتا تو دنیا میں ابھی تک
کوئی طاقت ایسی پیدا نہیں ہوئی ہے جو مسلمانوں کو اس کے عقیدے سے پھیر
دے،کیونکہ مسلمان سر تو کٹا سکتا ہے، مگر اپنے مذہب اور عقیدے پرکسی کی دست
گیری برداشت کر سکتااورجہاں تک گوشت خوری کی بات ہے، تو یہ اور ان کے پیشوا
اس معاملے میں کہیں بھی مسلمانوں سے کمتر نظر نہیں آتے،نیز مسلمانوں پر
گوشت خوری کوئی فرض بھی نہیں ہے ، بلکہ جس کو اس کی قدرت ہوتی ہے وہ
کھاتاہے، ورنہ ساگ سبزیوں پر گذارا کرتا ہے، حالانکہ ہندؤوں پر تو بسا
اوقات گوشت کھانا فرض ہوجاتا ہے، ہندو مذہب کی جو بھی معتبر کتابیں ہیں، ان
تمام میں یکساں طور پر یہ بات ملتی ہے کہ اگر کسی نے شرادھ میں گوشت نہیں
کھایا تو وہ نرک میں جلے گا، بلکہ حکم عدولی کی صورت میں سزا کے طریقے اور
مدت بھی مختلف ہیں، اس کی پوری تفصیل میرے ایک دوسرے مضمون’’ذبیحۂ گاؤ پر
پابندی ایک معمہ ہے سمجھنے کا نہ سمجھانے کا‘‘میں مذکور ہے،القصہ گؤ کشی پر
پابندی یا بقرعید کی چھٹی کو ختم کرنا تو یہ ایک بہانہ ہے ، ورنہ حقیقت تو
یہ ہے کہ ان کو اور جس تنظیم کے یہ آلۂ کار ہیں، اس کو کبھی بھی ملک کی
ہریالی راس نہیں آئی، پوری جنگِ آزادی کی تاریخ میں کوئی نہیں بتاسکتا کہ
اس تنظیم کے کسی ایک انسان نے بھی اس میں حصہ لیا ہو، ان کا مقصد کل بھی
ملک کو غلام بنانا تھا اور آج بھی وہ اپنی اسی مشن پر کاربند ہیں ، اگر یہ
حقیقت میں محبِ وطن ہوتے اور ان کے دلوں میں ملک کا جذبہ ہوتا اور یہ چاہتے
کہ ہمارا ملک ترقی پذیر ہو، تو ان چیزوں پر پابندی عائد کرنے کی تو دور کی
بات ، اس کے بارے میں سوچتے بھی نہیں ، یہ ہردم جو امریکہ اور یورپ کے گن
گاتے ہیں نا، صرف امریکہ ہی نہیں بلکہ دنیا کی جتنے بھی ترقی یافتہ ممالک
ہیں خواہ وہاں مسلمان حکمراں ہوں، یا عیسائی یا کسی بھی مذہب کے ماننے والے
ہوں، ان ممالک میں سے آپ کسی بھی ملک کا جائزہ لیں تو آپ وہاں بین المذاہب
تکرار اور ٹکراؤ کم ہی پائیں گے، اگرچہ عالمی سطح پر وہ بھی مسلمانوں کے
کوئی خیرخواہ نہیں ہیں تاہم داخلی حد تک وہ یہ کوشش کرتے ہیں کہ ملک کے
اندر کوئی ایسا اقدام نہ کیاجائے جس سے ملک کا نقصان ہو، حتی کہ اگر کسی
کمپنی کے ملازمین اپنے انتظامیہ کے خلاف احتجاج درج کراتے ہیں تو ان کا
نداز بھی جداگانہ ہوتا ہے، ہمارے ملک کی طرح توڑپھورنہیں کرتے بلکہ اگر
جوتے کی کمپنی ہے تو جوتے بنانے والے صرف ایک پاؤں کے جوتے بناتے چلے جاتے
ہیں اور دوسرے پاؤں کے جوتے اس وقت تک نہیں بناتے جب تک ان کی مانگیں پوری
نہ کردی جائیں، نہ کوئی ہڑتال اور نہیں کوئی شور ہنگامہ ہے اور ہمارے یہاں
معاملہ بالکل برعکس ہے کہ جو چیز بنتی رہتی ہے، اسی کی توڑ پھوڑ شروع
ہوجاتی ہے،خواہ سیاسی احتجاج ہو یا عوامی سب میں ملک ہی کا نقصان ہوتا ہے،
درحقیقت دہلی حکومت اور دوسری تمام ذیلی صوبائی حکومتیں اس طرح کے احکام یا
پابندیاں عائد کرکے اپنی ناکامیوں پر پردہ ڈالنا چاہتی ہیں اور ظاہر ہے کہ
اس سے ہمارا ملک ترقی کیسے کرسکتا ہے، بلکہ سچ تویہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے
جن خوبیوں سے ہمارے ملک کو بہرور کیا ہے ، اگر اس کا حاکم کوئی یوسف صدیق
وامین ہو تو سارے عالم کو ان کی ضرورت کی ساری چیزیں مہیا کردے اور پورے
عالم میں ہر ہندوستانی فخر سے یہ کہ سکے کہ ہم ہندوستانی ہیں، مگر جب ہمارے
سیاسی رہنما ہی خائن، غدار اور ضمیرفروش اور ملک فروش ہوچکے، جو ملک کی
ترقی پر اپنے جھوٹے اور بے بنیاد عقیدے کو ترجیح دیتے ہیں اور اس کی سالمیت
وبقا کی جڑیں کھودنے میں پیش پیش ہوں، تو آج ہندوستان میں بہار آسام اور
بنگال کو جن نظروں سے دیکھا جاتا ہے، انہی نظروں سے عالم میں ہندوستانیوں
کو دیکھا جارہاہے ،بلکہ دن بہ دن حالات بد سے بدتر ہوتے جارہے ہیں، سورج
گہن کو لوگ حادثہ سے تعبیر کرتے ہیں آج ہمارے ملک کو مودی گہن لگ گیا ہے!!!
|
|