بھارت کی کارستانیاں
(Dr M Abdullah Tabasum, )
بھارت کی خفیہ ایجنسی’’را‘‘ کا حاضر
سروس جاسوس پکڑا گیا بلوچستان میں بیرونی مداخلت کا یہ پہلا واقعہ نہیں ہے
پاکستان عرصہ دراز سے بھارتی مداخلت کا بھارت اور عالمی برادری کو کہہ رہا
ہے کہ بھارتی سازشیں پاکستان کو کمزور کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں پاکستان
میں سے اس سے قبل بھی کئی بھارتی جاسوس رنگے ہاتھوں پکڑے گئے ہیں اب مجبورا
بھارتی دفتر خارجہ نے نیوی آفیسر کل بھوشن یادیو کی ’’بھارتی شہری‘‘ اور
سابقہ نیوی آفیسر تسلیم کر لیا ہے اور پاکستان سے قونصلر رسائی مانگ لی ہے
’’را‘‘ یجنٹ کے پاسپورٹ پر ایرانی ویزہ لگا ہوا تھا اور نام حسین مبارک
پٹیل کے نام سے رہا رہا تھا،پاکستان کو اس معاملے پر عالمی برادری کو
اعتماد میں لیکر بھارت سے دوٹوک بات کرنا ہو گی اور بلوچستان کے معاملے پر
بھارت سے وضاحت طلب کرنا کافی نہیں ہو گا بلکہ اب اس کا چہرہ کھل کر سامنے
آگیا ہے بھارت پاکستان میں دہشت گردی کی کاروائیوں میں ملوث ہے ،وطن کو امن
کا گہوارہ بنانے کے لئے ،کسی مشکوک افراد ،مشکوک سرگرمیوں ،فرقہ واریت پر
مبنی تقاریر اور وال چاکنگ ،نفرت پھیلاتے ہوئے دیکھو تو بولو کا ملک کی
تمام قومی اخبارات میں شائع ہونے والے اشتہارات پر نظر پڑی کہ ’’دیکھو تو
بولو ‘‘ اگر انٹرنیٹ پر نفرت ،انتشار یا شدت پسندی پر مبنی مواد دیکھیں تو
بھی ’’دہشت گردی‘‘ کی اطلاع دیں اور زمہ دار شہری ہونے کا ثبوت دیں ،آرمی
چیف جنرل راحیل شریف نے کور کمانڈر ز کے تازہ ترین اجلاس میں پہلی مرتبہ اس
امر کی نشاندہی کی ہے کہ قبائلی علاقوں میں دہشت گردوں کے خلاف جون2014ء سے
’’ضرب عضب‘‘ کے نام سے جو آپریشن شروع کیا گیا تھا وہ خوش اسلوبی کے ساتھ
کامیابی کے تمام مراحل طے کرتے ہوئے اگست2015ء دہشت گردوں کی آخری آماجگاہ
’’وادی شوال ‘‘ میں داخل ہو گیا ہے اس میں پاک فوج کی کاروائیاں زیادہ تر
انٹیلی جنس کی بنیاد پر کی جارہی ہیں اور انہی اطلاعات کی بناء پر آپریشن
ضرب عضب کادائرہ پورے ملک میں پھیلا کر دہشت گردی کی ہر شکل کا خاتمہ کرنے
کی پوری احتیاط کے ساتھ پیش رفت جاری ہے ،آرمی چیف نے دہشت گردوں کے قبضے
سے چھڑائے جانے والے علاقوں میں حکومتی رٹ کو مضبوط کرنے اور بے گھر ہونے
والے قبا ئلیوں کو واپس ان کے گھر وں میں جلد از جلد بسانے کے لئے ہر ممکن
کوشش کرنے کے جن دو نکات پر زور دیا ہے ان کی اہمیت اور افادیت سے کوئی
انکار نہیں کر سکتا کیونکہ شمالی وزیر ستان کو دہشت گردوں سے خالی کرانے کی
جو زمہ داری فوج کو دی گئی تھی وہ اس نے بحسن و خوبی ادا کر دی ہے ،اور اب
یہ حکومت اور سول انتظامیہ کاکام ہے کہ وہ وہاں اپنا کنٹرول مضبوط کرنے کے
لئے اقدامات کرے اور فوج کو تو بہر حال واپس آنا ہی ہے ،کیونکہ وہ وہاں
مستقل طور پر نہیں رہا سکتی ہے ،دوسرا بڑا کام جو جنرل راحیل شریف نے کہا
کہ اپنے ہی وطن میں عارضی طور پر ’’بے گھر ‘‘ ہونے والے قبائلیوں کو دوبارہ
اپنے گھر وں میں بسانے اور انہیں زندگی گزارنے کے لئے تمام سہولیات مہیا
کرنے کا ہے ،اور یہ کام کسی بھی طرح اس علاقے کو دہشت گردوں کے قبضے سے
چھڑانے سے کم نہیں ان لوگوں نے اس علاقے میں قیام امن کے لئے بے حد تکالیف
برداشت کی ہیں اس لئے اب ہر قیمت پر ان کی آباد کاری ہونی چاہے دوسری صورت
میں ملک وقوم کے لئے بڑے مسائل پیدا ہو سکتے ہیں ،آرمی چیف نے تیرہ دہشت
گردوں کی موت کی سزا کی توثیق کر دی ہے ،ا س وقت قوم کے سامنے مسائل ہیں۔۔۔؟ریاستی
اداروں میں اصلاحات کون لیکر آئے گا۔۔۔۔؟مدرسوں کی اصلاحات کی نگرانی کون
کرے گا۔۔۔؟سرکاری اسکولوں اور اسپتالوں کو فنڈز کی کمی،۔۔۔زرعی شعبے کی
حالت زار۔۔۔انتظامی معاملات کون دیکھے گا۔۔۔۔۔۔؟اس میں بھی حیرانی کی کوئی
بات نہیں کی جب انہیں دہشتگردی جیسے مسائل کا سامنا تھا تو ان کے پاس جواب
ندارد۔۔۔۔ان کے تذبذب کو دیکھتے ہوئے فوج کو آگے آنا پڑا اور اس وقت سے لے
کر آج تک فوج ہی سارے سوالوں کا جواب دے رہی ہے اور نتیجہ سب کے سامنے ہے۔۔۔۔۔دفاعی
ادارے ہی تمام چارج سنبھال کے فیصلہ سازی اور قوم کی راہنمائی کرتے دکھائی
دیتے ہیں جبکہ منتخب شدہ حکومت جیسے آگے بڑھکر یہ سارے کام کرنے تھے ۔۔۔۔اگر
اس میں حوصلہ ہوتا ،بے عملی کی تصویر بنی دیوار سے لگی ہوئی ہے اس وقت کوئی
آمر،حکومت کا تختہ الٹنے کی نہ پلاننگ کر رہا ہے اور نہ سازش،یہ سب حکومت
کی نااہلی اور تذبذب کا ثمر ہے۔۔۔۔۔۔؟پاکستان کی تمام پیش رفت کا اصل مقصد
خطے میں امن پیدا کرنا ہے اور اپنی سرزمین سے دہشت گردی اور کسی بھی جارعیت
سے محفوظ رکھنا ہے پاکستان اپنے دفاع کی مکمل صلاحیت رکھتا ہے اور ملک کے
اندراور بیرونی ہر قسم کی دہشت گردی کے خاتمے میں مکمل سنجیدہ کوششوں میں
مصروف ہے ۔۔ملک اس وقت دہشت گردی کے جس بد ترین دور سے گزر رہا ہے اس کا
تقاضا ہے کہ انصاف میں غیر ضروری تاخیر نہ ہو اس لحاظ سے ملک اور معاشرے کے
خلاف سنگین جرائم کی سماعت فوجی عدالتوں میں ہو اور ملزموں کو اپنی صفائی
پیش کرنے کا پورا موقع دیا جائے اور قانونی مدد فراہم کی جائے اسی لئے فوجی
عدالتوں کے فیصلے کے خلاف اپیل کا حق بھی دیا گیا ہے اس لئے توقع کی جاسکتی
ہے کہ ان کے فیصلے فوری اور شفاف ہوں گئے جس سے دہشت گردی اور انتہا پسندی
کی حوصلہ شکنی ہو گی اور دہشت گردی کے خاتمے میں مدد ملے گی فوجی عدالتیں ٖصرف
دو سال کے عرصہ کے لئے ہیں اور اس لحاظ سے بھی تاریخی اہمیت کی حامل ہیں کہ
سپریم کورٹ آف پاکستان نے اکثریت ججز نے اس کو جائز قرار دیا ہے اور
درخواستیں خارج کردی ہیں۔۔فوجی عدالتوں کی جانب سے دی جانے والی سزاؤں پر
وزیراعظم نے سفاک قاتلوں کے کیفر کردار کو پہنچے پر اطمینان کا اظہار کیا
ہے اور اس کو فوجی عدالتوں کے قیام کو مخصوص حالات میں درست فیصلہ قرار دیا
ہے اور اس میں معاون اور تعاون پر پارلمینٹ،عدلیہ اور سیاسی قائدین کو خراج
تحسین پیش کیا ہے بے شک ان کامیابیوں نے قوم کو ایک نیا عزم اور ولولہ بخشا
ہے ،لیکن ابھی تک وہ مقاصد حاصل نہیں ہو سکے اور فوجی عدالتیں اپنے قیام کی
مدت آدھی پوری کر چکی ہیں ،بھارت کو اب اس معاملے پر چھوٹ دینا بے وقوفی ہو
گی ، ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔ |
|