سانحہ گلشن پارک اور سیاست کی دکان
(M.Irfan Chaudhary, Lahore)
27مارچ پاکستان کی تاریخ کا ایک سیاہ دن
تھا جس دن پاکستان کے دل لاہور میں ایک کرب ناک سانحہ خود کش حملے کی صورت
میں رونما ہوا جس میں لگ بھگ ستر کے قریب لوگ اپنے پیاروں سے بچھڑ گئے اور
غیر مصدقہ ذرائع کے مطابق تین سو سے زائد لوگ زخمی ہوئے جن کو قریبی
ہسپتالوں میں داخل کر وا دیا گیا اس دوران زخمیوں کی مرہم پٹی کے لئے خون
کی اشد ضرورت محسوس ہوئی ایسے میں وزیر اعلیٰ پنجاب نے روائتی ذمہ داری کا
مظاہرہ کرتے ہوئے فوراہسپتال کا رخ کیا اور خون دینے کے لئے بستر پر لیٹ
گئے پھر کیا تھا؟ اخبارات ، سوشل میڈیا پر سیاست کی دکانیں کھول لی گئیں ہر
کوئی جانتا ہے کہ شہباز شریف صاحب ماضی میں کینسر کے مرض میں مبتلا رہے ہیں
بس یہی موضوع سارا دن گردش کرتا رہا کہ آیا کینسر کا مریض خون دے سکتا ہے؟
بلا شبہ میڈیکل سائنس کی رُو سے مثبت سوال تھا جو کہ خود میرے بھی ذہن میں
آیا مگر اس سلسلے میں وزیر اعلیٰ صاحب کو سوشل میڈیا پر ہی اظہار کرنا پڑا
کہ بلا شبہ وہ کینسر جیسے مرض میں مبتلا رہے اور میڈیکل سائنس کے مطابق
کوئی بھی کینسر کا مریض خون عطیہ نہیں کر سکتا مگر اب وہ صحت مند ہیں اور
ہر سال وہ لندن صرف معمول کے چیک اپ کے لئے جاتے ہیں جس کے اخراجات وہ اپنی
جیب سے ادا کرتے ہیں اور سرکاری خزانے پر بوجھ نہیں بنتے مگر جنہوں نے دکان
کھولی ہو وہ سودا بیچے بنا کیسے گھر جا سکتے ہیں؟ وزیر اعلیٰ پنجاب کی جانب
سے عوام کے سوال کا جواب دینے پر ناقدین نے اگلا سوال داغ دیا کہ کیا کوئی
شخص 65 سال کی عمر میں خون کا عطیہ دے سکتا ہے؟ یہ بات بھی کھٹکی سو ریسرچ
شروع کی کہ کیا واقع 65 سال کی عمر والا شخص خون دے سکتا ہے کہ نہیں تو اس
نتیجے پر پہنچا کہ میڈیکل سائنس میں ہر صحت مند شخص جو کم از کم 16 سال کا
ہو وہ خون دے سکتا ہے اس میں بالائی حد شامل نہیں ہے یہ ادراک مجھ پر بعد
میں کھُلا کہ میڈیکل سائنس میں تو65 سال کی عمر میں خون کا عطیہ دیا جا
سکتا ہے مگر پولیٹیکل سائنس میں نہیں کیونکہ اگر پولیٹیکل سائنس میں بھی
خون دینے کی اجازت مل گئی تو اُن کی جھوٹی سیاست کی دکان کیسے چلے گی؟ بعض
لوگ سمجھ رہے ہوں گے کہ میں بھی یہاں دکانداری ہی کر رہا ہوں تو بتاتا چلوں
کہ مجھے دکانداری کرنی نہیں آتی سادہ سی بات ہے کہ اگر میاں شہباز شریف
صاحب ہسپتال میں چلے گئے تو لوگوں کے پیٹ میں مڑوڑ کیوں اُٹھنے لگے کیا یہ
اچھی بات نہیں کہ عوام کے دکھ میں عوام کا رہنما عوام کے ساتھ ہو، کیا عوام
کا حوصلہ بلند نہیں ہوتا کہ اُن کا لیڈر اُن کے دکھ میں شامل ہونے کے لئے
آیا ہے؟ خدارا اس وقت ہمیں سانحہ گلشن اقبال پارک کے زخمیوں کی عیادت کرنی
ہے اُن کو خون کے عطیات دینے ہیں یہ معنیٰ نہیں رکھتا کہ خون کون دے رہا ہے
کس وجہ سے دے رہا ہے اُس کے پیچھے کیا بات کار فرما ہے؟ یہ وقت ایسی باتوں
کا نہیں کہ ہم خون دینے پہ بحث کریں آئیں عملی طور پر آگے بڑھیں اور مریض
کے ساتھ لیٹ جائیں خون عطیہ کرنے کے لئے نہ کہ سوشل میڈیا پر سیاست کی دکان
چمکانے کے لئے ، جلدی کریں کہ اہلیان لاہور کو ہماری ضرورت ہے، میڈیکل
سائنس والوں کو ہماری ضرورت ہے نہ کہ پولیٹیکل سائنس والوں کو*** |
|