’دیس ‘لہو لہو ہے
(Muhammad Shahid Yousuf Khan, )
اس ملک کے چمن کی آبیاری کے لئے مزید کتنا
خون بہایا جائے گا، کتنے بچے یتیم کئے جائیں گے،کتنے ماں باپ بے آسرا کئے
جائیں گے، کتنی بہینیں بیٹیاں اپنے بھائیوں کے لئے روئیں گی، کتنے غریبوں
کے چیتھڑے اڑائے جائیں گے؟ کیا کبھی یہاں سکون میسر نہیں ہوگا،کیا یہاں امن
وآشتی صرف خواب کی مانند رہے گی؟ کیا اس ملک کے حاکم صرف مذمتیں ہی کرتے
رہیں گے یا کچھ عملی اقدام بھی ہوگا، کیا یہاں کی فوج صرف نام کی نمبرون
رہنا چاہتی ہے یا قوم کا دفاع بھی کرنا جانتی ہے، کیا اس ملک کا دفاعی نظام
صرف حکمرانوں کی سلامی کے لئے میسر ہوگا ٰ یا پھر ملک وقوم کا دفاع بھی کرے
گا،نمائشیں تو ایشیاؤعرب تک ہوچکی ہیں لیکن اس کا فائدہ کسی نے نہیں لیا
اور کتنے ایجنٹ پکڑو گے اور ان کو آزاد کردو گے ان کی کارگزاریوں کی خبر
بھی ہے یا صرف میڈیا تک سنسنی پھیلانے کی حد تک ہے؟؟؟ یہ وہ سوال ہیں جو اس
ملک کا ہر عام شہری کرتا ہے ہر بوڑھا ونوجوان سوچتا ہے۔خدارا جس طرح اپنے
بچوں کی فکر کرتے ہو اس قوم کے بچوں کی بھی فکر کرو۔ قوم کو سیاست کی بھینٹ
چڑھا کر سیاسی ومذہبی طبقاتی تقسیم میں ڈال دیاگیا۔حکومت تو پانچ سال کے
لئے آپکی تحویل میں چلی گئی لیکن جو قوم سے وعدے دعوے کئے تھے انہیں بھی
دریا برد کردیا گیا اور جو جھوٹ بولے تھے قوم اس کا خمیازہ بھگتتی رہتی ہے۔
آپ کے جھوٹوں نے اس قوم کے ستر سال ایسے گزار دئے گئے۔ جس نظام کے لئے
آباواجداد نے قربانیاں دی تھیں اگر وہ اب دوبارہ آکے دیکھتے تو یقینا افسوس
کرتے کیونکہ ان کی قربانیاں رائیگاں چلی گئی ہیں اور یہاں وہی انگریزی غلام
اسی انگریزی نظام کے تحت عوام کا خون چوسنے میں مصروف ہیں۔
لاہور ایک بار پھر خون کا عطیہ دے گیا لیکن ہوش اور جوش چند لمحوں کے بعد
ٹوٹ جائے گا۔اپنی تحقیقاتی ٹیمیں تشکیل دے کر بھارت روانہ کردی گئیں اور وہ
بھارت رضاکارانہ طور پر ہرروز ایران وافغانستان کے ذریعے اپنے سور ایجنٹ اس
ملک میں بھیجتا ہے۔بھارت کے ہاں ہر پٹاخہ پھوٹنے کے بعد الزام پاکستان کے
سر تھوپ دیا جاتا ہے اور ہمارے ہاں ابھی تحقیقات جاری ہے کا ورد کئی دن
جاری رہنے کا بعد موضوع بدل دیا جاتا ہے۔پھر بیتتی ان پر ہے جن کے لوگ
قربان ہوجاتے ہیں وہ جانیں اور ان کا کام۔۔۔بس ہمارے بچے ایچیسن میں پڑھیں
یا بیرون ملک بھیج دئے جائیں ،سانوں کی؟
ملک کے ایک کونے سے ایجنٹ پکڑا جاتا ہے اور کئی سالوں سے وہ اپنا کام بڑی
ایمانداری سے کررہا ہے اور اس نے کئی نیٹ ورک بھی بنا رکھے ہونگے جن کا
نتیجہ لاہور دھماکے کی صورت میں بھگتنا پڑا۔RAW کی مداخلت ایک لمبے عرصے سے
جاری ہے حالانکہ زرداری حکومت کے دوران بھی اس وقت کے وزیرداخلہ رحمن ملک
صاحب اس بات کا اظہار کرچکے تھے اور میڈیا پر بھی بریفنگ دی ساتھ میں
سلامتی کونسل کو بھی ان حالات سے آگاہ کیا تھا۔علیحدگی پسند تحریکیں بھی
RAWکی مدد سے پروان چڑھتی رہیں۔مشرف حکومت سے لے کر تاحال ایسا لگ رہا تھا
کہ بلوچستان جان بوجھ کر ہی علیحدگی پسندوں کے حوالے کردیا گیا ہے۔آخر عدم
توجہی میں ہی تو یہ سب ہوتا ہے۔ آپ اپنی اولاد پر توجہ دینا بھی چھوڑ دیں
تب ہی آپ کی اولاد غلط راستوں کا تعین کرے گی۔بلوچوں کے ساتھ بھی یہی رویہ
روا رکھا گیا۔جعلی ڈگریوں والے عامل وزیراعلیٰ بنا دئے گئے اور حکومت کے
انت کے ساتھ ہی وہ ملک سے ہی رفو چکر ہوگئے ۔مشرف دور میں بھی ان علاقوں
میں نفرت کا لاوا مزید ابھارا گیا۔RAW کی مداخلت صرف بلوچستان تک ہی محدود
نہ رہی بلکہ کراچی کی بہت بڑی جماعت کے ساتھ بھی تعلق عروج پررہے جس سے
روشنیوں کے شہر کو جرائم کا گڑھ بنادیا گیا۔جو شہر ایک وقت میں غریب کی ماں
کہلاتا تھا وہ غریب کا قبرستان بن گیا۔متحدہ کے باغی رہنماوں کے ثبوتوں کے
بعد بھی اس دہشت گرد قبیلے کے ساتھ کچھ نہ کیا۔بلکہ حکومتی حرص وحوص کے لئے
امن کے راستے کو ترجیح دی گئی جو امن انسانیت کے لئے اور انسانی جانوں کے
لئے انتشار ہے۔
بھارت کے فوجی علاقے پٹھانکوٹ میں ایک دہشت گرد کروائی ہوئی جس نے فوراً ہی
پاکستان کو بلاوا دے بھیجا اور میاں صاحب بھی کیا کرتے ایک ٹیم تشکیل دے کر
بھارت روانہ کردی گئی پہلے بھی اس طرح ممبئی حملوں کے بعد کیا گیا تھا جس
سے پاکستان کا صحت جرم کو قبول کرنا ہے۔بھارت کے ساتھ اس طرح کے تعاون کبھی
بھی امن نہیں لاسکتے ۔بھارتی انتہا پسندی اتنی عروج پر ہے کہ انہوں نے
پاکستان کرکٹ ٹیم کے میچ کھیلنے پر ہی سیخ پا تھے بلکہ دھرم شالہ ریاست کے
وزیراعلیٰ نے پاکستان ٹیم کو میچ کھیلانے سے ہی انکار کردیا گذشتہ رات
پاکستان کے سابق کھلاڑی وسیم اکرم جو بھارتی نجی ٹی وی پر تبصرہ کرتے ہیں
وہاں پر دوران نشریات بھارتی انتہاپسندوں نے میک چھین کر بے عزتی کا
ہارپہنادیا۔اب تو ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں کہ کس طرح بھارت کی
آنکھوں میں آنکھیں ملا کر آپ لوگ بات کرتے ہیں ورنہ مستقبل کی تاریخ تو یہ
نہیں بتائے گی کہ ہمارے لیڈرزہمارے دفاع کرنے والے بھارت کے سامنے ’بھیگی
بلی‘ بنا کرتے تھے۔اب بھی وقت ہے کہ بھارت کامعاملہ سلامتی کونسل میں لے کر
جانا چاہیئے جن اسلامی ممالک کے ساتھ اتحاد ہے انکو اپنے حق کے لئے شامل
آواز کرنا چاہئے۔اقوام متحدہ،سارک،اسلامی کانفرنس جیسے اداروں کو بھارت کی
دراندازی پر ہوش میں لانا چاہیئے۔اگرامن ممکن ہے تو امن کے ساتھ رہو اگر
بھارت امن سرے سے چاہتا ہی نہیں تو طبل بجانا چاہیئے۔۔۔ |
|